(Last Updated On: )
کفن کو کھول کے صورت دکھائی جاتی ہے
کہ زندگی کی حقیقت بتائی جاتی ہے
نگاہ و دل میں وہ سب کے سمائی جاتی ہے
ادائے خاص کہ ساقی میں پائی جاتی ہے
خموش ہو کے میں سنتا ہوں اہلِ دنیا سے
مجھی کو میری کہانی سنائی جاتی ہے
مزاجِ دل یہ بدلنا تھا اور نہیں بدلا
اگرچہ خوں میں تمنا نہائی جاتی ہے
خوشا نصیب کہ منزل پہ دار کی پہنچا
سکوں ملا ہے تو اب نیند آئی جاتی ہے
نگاہِ غیر نہ پڑ جائے یوں تری تصویر
نگار خانۂ دل میں سجائی جاتی ہے
گرا ہے قعرِ مذلت میں اے نظرؔ افسوس
غلط روی میں تو ٹھوکر ہی کھائی جاتی ہے
٭٭٭