جھونپڑے کے دروازے پر باپ اور بیٹا دونوں ایک بجھے ہوئے الاؤ کے سامنے خاموش بیٹھے ہوئے تھے اور اندر بیٹے کی نوجوان بیوی بدھیا دردِ زہ سے پچھاڑیں کھا رہی تھی اور رہ رہ کر اس کے منہ سے ایسی دلخراش صدا نکلتی تھی کہ دونوں کلیجہ تھام لیتے تھے۔ جاڑوں کی رات تھی، فضا سناٹے میں غرق۔ سارا گاؤں تاریکی میں جذب ہو گیا تھا۔
گھیسو نے کہا ’’معلوم ہوتا ہے بچے گی نہیں۔ سارا دن تڑپتے ہو گیا، جا دیکھ تو آ۔‘‘
مادھو دردناک لہجے میں بولا ’’مرنا ہی ہے تو جلدی مر کیوں نہیں جاتی۔ دیکھ کر کیا آؤں۔‘‘
’’تو بڑا بیدرد ہے بے! سال بھر جس کے ساتھ جندگانی کا سکھ بھوگا اسی کے ساتھ اتنی بے وپھائی۔‘‘
’’تو مجھ سے تو اس کا تڑپنا اور ہاتھ پاؤں پٹکنا نہیں دیکھا جاتا۔‘‘
چماروں کا کنبہ تھا اور سارے گاؤں میں بدنام۔ گھیسو ایک دن کام کرتا تو تین دن آرام، مادھو اتنا کام چور تھا کہ گھنٹے بھر کام کرتا تو گھنٹے بھر چلم پیتا۔ اس لئے اسے کوئی رکھتا ہی نہ تھا۔ گھر میں مٹھی بھر اناج بھی موجود ہو تو ان کے لئے کام کرنے کی قسم تھی۔ جب دو ایک فاقے ہو جاتے تو گھیسو درختوں پر چڑھ کر لکڑی توڑ لاتا اور مادھو بازار سے بیچ لاتا۔ اور جب تک دو پیسے رہتے، دونوں ادھر ادھر ما رے مارے پھرتے۔ جب فاقے کی نوبت آ جاتی تو پھر لکڑیاں توڑتے یا کوئی مزدوری تلاش کرتے۔ گاؤں میں کام کی کمی نہ تھی۔ کاشتکاروں کا گاؤں تھا۔ محنتی آدمی کے لئے پچاس کام تھے مگر ان دونوں کو لوگ اسی وقت بلاتے جب دو آدمیوں سے ایک کا کام پا کر بھی قناعت کر لینے کے سوا اور کوئی چارہ نہ ہوتا۔ کاش دونوں سادھو ہوتے تو انہیں قناعت اور توکل کے لئے ضبطِ نفس کی مطلق ضرورت نہ ہوتی۔ یہ ان کی خلقی صفت تھی۔ عجیب زندگی تھی ان کی۔ گھر میں مٹی کے دو چار برتنوں کے سوا کوئی اثاثہ نہیں۔ پھٹے چیتھڑوں سے اپنی عریانی کو ڈھانکے ہوئے دنیا کی فکروں سے آزاد۔ قرض سے لدے ہوئے۔ گالیاں بھی کھاتے، مار بھی کھاتے مگر کوئی غم نہیں۔ مسکین اتنے کہ وصولی کی مطلق امید نہ ہونے پر لوگ انہیں کچھ نہ کچھ قرض دے دیتے تھے۔ مٹر یا آلو کی فصل میں کھیتوں سے مٹر یا آلو اکھاڑ لاتے اور بھون بھون کر کھاتے یا دن پانچ ایکھ توڑ لاتے اور رات کو چوستے۔ گھیسو نے اسی زاہدانہ انداز میں ساٹھ سال کی عمر کاٹ دی اور مادھو بھی سعادت مند بیٹے کی طرح باپ کے نقش قدم پر چل رہا تھا بلکہ اس کا نام اور بھی روشن کر رہا تھا۔ اس وقت بھی دونوں الاؤ کے سامنے بیٹھے ہوئے آلو بھون رہے تھے جو کسی کے کھیت سے کھود لائے تھے۔ گھیسو کی بیوی کا تو مدت ہوئی انتقال ہو گیا تھا۔ مادھو کی شادی پچھلے سال ہوئی تھی۔ جب سے یہ عورت آئی تھی اس نے اس خاندان میں تمدن کی بنیاد ڈالی تھی۔ پسائی کر کے گھاس چھیل کر وہ سیر بھر آٹے کا انتظام کر لیتی تھی اور ان دونوں بے غیرتوں کا دوزخ بھرتی رہتی تھی۔ جب سے وہ آئی یہ دونوں اور بھی آرام طلب اور آلسی ہو گئے تھے بلکہ کچھ اکڑنے بھی لگے تھے۔ کوئی کام کرنے کو بلاتا تو بے نیازی کی شان میں دوگنی مزدوری مانگتے۔ وہی عورت آج صبح سے دردِ زہ میں مر رہی تھی اور یہ دونوں شاید اسی انتظار میں تھے کہ وہ مر جائے تو آرام سے سوئیں۔
گھیسو نے آلو نکال کر چھیلتے ہوئے کہا ’’جا دیکھ تو کیا حالت ہے اس کی‘‘ چڑیل کا پھنساد ہو گا اور کیا۔ یہاں تو اوجھا بھی ایک روپیہ مانگتا ہے۔ کس کے گھر سے آئے۔‘‘
مادھو کو اندیشہ تھا کہ وہ کوٹھری میں گیا تو گھسو آلوؤں کا بڑا حصہ صاف کر دے گا۔ بولا:
’’مجھے وہاں ڈر لگتا ہے۔‘‘
’’ڈر کس بات کا ہے؟
میں تو یہاں ہوں ہی‘‘
’’تو تمہیں جا کر دیکھو نا۔‘‘
’’میری عورت جب مری تھی تو میں تین دن تک اس کے پاس سے ہلا بھی نہیں اور پھر مجھ سے لجائے گی کہ نہیں۔ کبھی اس کا منہ نہیں دیکھا۔ آج اس کا اگھڑا ہوا بدن دیکھوں۔ اسے تن کی سدھ بھی تو نہ ہو گی۔ مجھے دیکھ لے گی تو کھل کر ہاتھ پاؤں بھی نہ پٹک سکے گی۔‘‘
’’میں سوچتا ہوں کہ کوئی بال بچہ ہو گیا تو کیا ہو گا۔ سونٹھ، گڑ، تیل، کچھ بھی تو نہیں ہے گھر میں۔‘‘
’’سب کچھ آ جائے گا۔ بھگوان بچہ دیں تو، جو لوگ ابھی ایک پیسہ نہیں دے رہے ہیں، وہی تب بلا کر دیں گے۔ میرے نو لڑکے ہوئے، گھر میں کچھ بھی نہ تھا، مگر اس طرح ہر بار کام چل گیا۔‘‘
جس سماج میں رات دن محنت کرنے والوں کی حالت ان کی حالت سے کچھ بہت اچھی نہ تھی اور کسانوں کے مقابلے میں وہ لوگ جو کسانوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانا جانتے تھے کہیں زیادہ فارغ البال تھے، وہاں اس قسم کی ذہنیت کا پیدا ہو جانا کوئی تعجب کی بات نہیں تھی۔ ہم تو کہیں گے گھیسو کسانوں کے مقابلے میں زیادہ باریک بین تھا اور کسانوں کی تہی دماغ جمعیت میں شامل ہونے کے بدلے شاطروں کی فتنہ پرداز جماعت میں شامل ہو گیا تھا۔ ہاں اس میں یہ صلاحیت نہ تھی کہ شاطروں کے آئین و آداب کی پابندی بھی کرتا۔ اس لئے یہ جہاں اس کی جماعت کے اور لوگ گاؤں کے سرغنہ اور مکھیا بنے ہوئے تھے، اس پر سارا گاؤں انگشت نمائی کر رہا تھا پھر بھی اسے یہ تسکین تو تھی ہی کہ اگر وہ خستہ حال ہے تو کم سے کم اسے کسانوں کی سی جگر توڑ محنت تو نہیں کرنی پڑتی اور اس کی سادگی اور بے زبانی سے دوسرے بے جا فائدہ تو نہیں اٹھاتے۔
دونوں آلو نکال نکال کر جلتے جلتے کھانے لگے۔ کل سے کچھ بھی نہیں کھایا تھا۔ اتنا صبر نہ تھا کہ انہیں ٹھنڈا ہو جانے دیں۔ کئی بار دونوں کی زبانیں جل گئیں۔ چھل جانے پر آلو کا بیرونی حصہ تو زیادہ گرم نہ معلوم ہوتا تھا لیکن دانتوں کے تلے پڑتے ہی اندر کا حصہ زبان اور حلق اور تالو کو جلا دیتا تھا اور اس انگارے کو منہ میں رکھنے سے زیادہ خیریت اسی میں تھی کہ وہ اندر پہنچ جائے۔ وہاں اسے ٹھنڈا کرنے کے لئے کافی سامان تھے۔ اس لئے دونوں جلد جلد نگل جاتے تھے حالانکہ اس کوشش میں ان کی آنکھوں سے آنسو نکل آتے۔
گھیسو کو اس وقت ٹھا کر کی برات یاد آئی جس میں بیس سال پہلے وہ گیا تھا۔ اس دعوت میں اسے جو سیری نصیب ہوئی تھی۔ وہ اس کی زندگی میں ایک یادگار واقعہ تھی اور آج بھی اس کی یاد تازہ تھی۔ وہ بولا ’’وہ بھوج نہیں بھولتا۔ تب سے پھر اس طرح کا کھانا اور بھرپیٹ نہیں ملا۔ لڑکی والوں نے سب کو پوڑیاں کھلائی تھیں سب کو۔ چھوٹے بڑے سب نے پوڑیاں کھائیں اور اصلی گھی کی چٹنی، رائتہ، تین طرح کے سوکھے ساگ، ایک رسے دار ترکاری، دہی، چٹنی، مٹھائی اب کیا بتاؤں کہ اس بھوج میں کتنا سواد ملا۔ کوئی روک نہیں تھی جو چیز چاہو مانگو اور جتنا چاہو کھاؤ۔ لوگوں نے ایسا کھایا، ایسا کھایا کہ کسی سے پانی نہ پیا گیا، مگر پروسنے والے ہیں کہ سامنے گرم گول گول مہکتی ہوئی کچوریاں ڈال دیتے ہیں۔ منع کرتے ہیں۔ نہیں چاہئے مگر وہ ہیں کہ دئے جاتے ہیں اور جب سب نے منہ دھو لیا تو ایک ایک بڑا پان بھی ملا مگر مجھے پان لینے کی کہاں سدھ تھی۔ کھڑا نہ ہوا جاتا تھا۔ جھٹ پٹ جا کر اپنے کمبل پر لیٹ گیا۔ ایسا دریا دل تھا وہ ٹھا کر۔
مادھو نے ان تکلفات کا مزا لیتے ہوئے کہا ’’اب ہمیں کوئی ایسا بھوج کھلاتا۔‘‘
’’اب کوئی کیا کھلائے گا؟‘‘ وہ جمانا دوسرا تھا۔ اب تو سب کو کپھایت سوجھتی ہے۔ سادی بیاہ میں مت کھرچ کرو، کریا کرم میں مت کھرچ کرو۔ پوچھو گریبوں کا مال بٹور بٹور کر کہاں رکھو گے۔ مگر بٹورنے میں تو کمی نہیں ہے۔ ہاں کھرچ میں کپھایت سوجھتی ہے۔‘‘
’’تم نے ایک بیس پوڑیاں کھائی ہوں گی۔‘‘
بیس سے جیادہ کھائی تھیں۔‘‘
’’میں پچاس کھا جاتا۔‘‘
’’پچاس سے کم میں نے بھی نہ کھائی ہوں گی۔ اچھا پٹھا تھا۔ تو اس کا آدھا بھی نہیں ہے۔‘‘ آلو کھا کر دونوں نے پانی پیا اور وہیں الاؤ کے سامنے اپنی دھوتیاں اوڑھ کر پاؤں پیٹ میں ڈال کر سو رہے جیسے دو بڑے بڑے اژدھا کنڈلیاں مارے پڑے ہوں اور بدھیا ابھی تک کراہ رہی تھی۔
صبح کو مادھو نے کوٹھری میں جا کر دیکھا تو اس کی بیوی ٹھنڈی ہو گئی تھی۔ اس کے منہ پر مکھیاں بھنک رہی تھیں۔ پتھرائی ہوئی آنکھیں اوپر ٹنگی ہوئی تھیں۔ سارا جسم خاک میں لت پت ہو رہا تھا۔ اس کے پیٹ میں بچہ مر گیا تھا۔
مادھو بھاگا ہوا گھیسو کے پاس آیا اور پھر دونوں زور زور سے ہائے ہائے کرنے اور چھاتی پیٹنے لگے۔ پڑوس والوں نے یہ آہ و زاری سنی تو دوڑتے ہوئے آئے اور رسمِ قدیم کے مطابق غمزدوں کی تشفی کرنے لگے۔
مگر زیادہ رونے دھونے کا موقع نہ تھا کفن کی اور لکڑی کی فکر کرنی تھی۔ گھر میں تو پیسہ اس طرح غائب تھا جیسے چیل کے گھونسلے میں بانس۔
باپ بیٹے روتے ہوئے گاؤں کے زمینداروں کے پاس گئے۔ وہ ان دونوں کی صورت سے نفرت کرتے تھے۔ کئی بار انہیں اپنے ہاتھوں پیٹ چکے تھے۔ چوری کی علت میں، وعدے پر کام نہ کرنے کی علت میں۔ پوچھا ’’کیا ہے بے گھسوا۔ روتا کیوں ہے۔ اب تو تیری صورت ہی نظر نہیں آتی۔ اب معلوم ہوتا ہے تم اس گاؤں میں نہیں رہنا چاہتے۔‘‘
گھیسو نے زمین پر سر رکھ کر آنکھوں میں آنسو بھرتے ہوئے کہا۔ ’’سرکار بڑی بپت میں ہوں۔ مادھو کی گھر والی رات گجر گئی۔ دن بھر تڑپتی رہی سرکار۔ آدھی رات تک ہم دونوں اس کے سرہانے بیٹھے رہے۔ دوا دارو جو کچھ ہو سکا سب کیا مگر وہ ہمیں دگا دے گئی۔ اب کوئی ایک روٹی دینے والا نہیں رہا مالک۔ تباہ ہو گئے۔ گھر اجڑ گیا۔ آپ کا گلام ہوں۔ اب آپ کے سوا اس کی مٹی کون پار لگائے گا۔ ہمارے ہاتھ میں جو کچھ تھا، وہ سب دوا دارو میں اٹھ گیا۔ سرکار ہی کی دیا ہو گی تو اس کی مٹی اٹھے گی۔ آپ کے سوا اور کس کے دوار پر جاؤں۔‘‘
زمیندار صاحب رحمدل آدمی تھے مگر گھیسو پر رحم کرنا کالے کمبل پر رنگ چڑھانا تھا۔ جی میں تو آیا کہہ دیں ’’چل دور ہو یہاں سے لاش گھر میں رکھ کر سڑا۔ یوں تو بلانے سے بھی نہیں آتا۔ آج جب غرض پڑی تو آ کر خوشامد کر رہا ہے حرام خور کہیں کا۔ بدمعاش۔‘‘ مگر یہ غصہ یا انتقام کا موقع نہیں تھا۔ طوعاً و کرہاً دو روپے نکال کر پھینک دئے مگر تشفی کا ایک کلمہ بھی منہ سے نہ نکالا۔ اس کی طرف تاکا تک نہیں۔ گویا سر کا بوجھ اتارا ہو۔
جب زمیندار صاحب نے دو روپے دئے تو گاؤں کے بنئے مہاجنوں کو انکار کی جرأت کیونکر ہوتی۔ گھیسو زمیندار کے نام کا ڈھنڈورا پیٹنا جانتا تھا۔ کسی نے دو آنے دئے کسی نے چار آنے۔ ایک گھنٹے میں گھیسو کے پاس پانچ روپیہ کی معقول رقم جمع ہو گئی۔ کسی نے غلہ دے دیا، کسی نے لکڑی۔ اور دوپہر کو گھیسو اور مادھو بازار سے کفن لانے چلے اور لوگ بانس وانس کاٹنے لگے۔
گاؤں کی رقیق القلب عورتیں آ آ کر لاش کو دیکھتی تھیں اور اس کی بے بسی پر دو بوند آنسو گرا کر چلی جاتی تھیں۔
بازار میں پہنچ کر گھیسو بولا۔ ’’لکڑی تو اسے جلانے بھر کی مل گئی ہے کیوں مادھو۔‘‘
مادھو بولا ’’ہاں لکڑی تو بہت ہے اب کفن چاہئے۔‘‘
’’تو کوئی ہلکا سا کفن لے لیں۔‘‘
’’ہاں اور کیا! لاش اٹھتے اٹھتے رات ہو جائے گی رات کو کپھن کون دیکھتا ہے۔‘‘
’’کیسا برا رواج ہے کہ جسے جیتے جی تن ڈھانکنے کو چیتھڑا نہ ملے، اسے مرنے پر نیا کپھن چاہئے۔‘‘
’’کپھن لاش کے جل ہی تو جاتا ہے۔‘‘
اور کیا رکھا رہتا ہے۔ یہی پانچ روپے پہلے ملتے تو کچھ دوا دارو کرتے۔‘‘
دونوں ایک دوسرے کے دل کا ماجرا معنوی طور پر سمجھ رہے تھے۔ بازار میں ادھر ادھر گھومتے رہے۔ یہاں تک کہ شام ہو گئی۔ دونوں اتفاق سے یا عمداً ایک شراب خانے کے سامنے آ پہنچے اور گویا کسی طے شدہ فیصلے کے مطابق اندر گئے۔ وہاں ذرا دیر تک دونوں تذبذب کی حالت میں کھڑے رہے۔ پھر گھیسو نے ایک بوتل شراب لی۔ کچھ گزک لی اور دونوں برآمدے میں بیٹھ کر پینے لگے۔
کئی کجیاں پیم پینے کے بعد دونوں سرور میں آ گئے۔
گھیسو بولا ’’کفن لگانے سے کیا ملتا۔ آکھر جل ہی تو جاتا۔ کچھ بہو کے ساتھ تو نہ جاتا۔‘‘
مادھو آسمان کی طرف دیکھ کر بولا گویا فرشتوں کو اپنی معصومیت کا یقین دلا رہا ہو۔ ’’دنیا کا دستور ہے۔ یہی لوگ برہمنوں کو ہجاروں روپے کیوں دیتے ہیں۔ کون دیکھتا ہے۔ پرلوک میں ملتا ہے یا نہیں۔‘‘
’’بڑے آدمیوں کے پاس دھن ہے پھونکیں، ہمارے پاس پھونکنے کو کیا ہے۔‘‘
’’لیکن لوگوں کو کیا جواب دو گے؟ لوگ پوچھیں گے کہ کپھن کہاں ہے؟‘‘
گھیسو ہنسا۔ ’ؔ’کہہ دیں گے کہ روپے کمر سے کھسک گئے بہت ڈھونڈا۔ ملے نہیں۔‘‘
مادھو بھی ہنسا۔ اس غیر متوقع خوش نصیبی پر قدرت کو اس طرح شکست دینے پر بولا۔ ’’بڑی اچھی تھی بیچاری مری بھی تو خوب کھلا پلا کر۔‘‘
آدھی بوتل سے زیادہ ختم ہو گئی۔ گھیسو نے دو سیر پوریاں منگوائیں، گوشت اور سالن اور چٹ پٹی کلیجیاں اور تلی ہوئی مچھلیاں۔
شراب خانے کے سامنے دکان تھی۔ مادھو لپک کر دو پتلوں میں ساری چیزیں لے آیا۔ پورے ڈیڑھ روپے خرچ ہو گئے۔ صرف تھوڑے سے پیسے بچ رہے۔‘‘
دونوں اس وقت اس شان سے بیٹھے ہوئے پوریاں کھا رہے تھے جیسے جنگل میں کوئی شیر اپنا شکار اڑا رہا ہو۔ نہ جواب دہی کا خوف تھا نہ بدنامی کی فکر۔ ضعف کے ان مراحل کو انہوں نے بہت پہلے طے کر لیا تھا۔ گھیسو فلسفیانہ انداز سے بولا۔ ’’ہماری آتما پرسن ہو رہی ہے تو کیا اسے پن نہ ہو گا۔‘‘
مادھو نے سر عقیدت جھکا کر تصدیق کی۔ ’’جرور سے جرور ہو گا۔ بھگوان تم انتر جامی (علیم) ہو۔ اسے بیکنٹھ لے جانا۔ ہم دونوں ہردے سے اسے دعا دے رہے ہیں۔ آج جو بھوجن ملا وہ کبھی عمر بھر نہ ملا تھا۔‘‘
ایک لمحہ کے بعد مادھو کے دل میں ایک تشویش پیدا ہوئی۔ بولا ’’کیوں دادا ہم لوگ بھی تو وہاں ایک نہ ایک دن جائیں گے ہی‘‘ گھیسو نے اس طفلانہ سوال کا کوئی جواب نہ دیا۔ مادھو کی طرف پر ملامت انداز سے دیکھا۔
’’جو وہاں ہم لوگوں سے پوچھے گی کہ تم نے ہمیں کفن کیوں نہ دیا، تو کیا کہیں گے؟‘‘
’’کہیں گے تمہارا سر۔‘‘
’’پوچھے گی تو جرور۔‘‘
’’تو کیسے جانتا ہے اسے کفن نہ ملے گا؟ مجھے گدھا سمجھتا ہے۔ میں ساٹھ سال دنیا میں کیا گھاس کھودتا رہا ہوں۔ اس کو کفن ملے گا اور اس سے بہت اچھا ملے گا، جو ہم دیتے۔‘‘
مادھو کو یقین نہ آیا۔ ’’بولا کون دے گا؟ روپے تو تم نے چٹ کر دئے۔‘‘
گھیسو تیز ہو گیا۔ ’’میں کہتا ہوں اسے کفن ملے گا تو مانتا کیوں نہیں؟‘‘
’’کون دے گا، بتاتے کیوں نہیں؟‘‘۔
’’وہی لوگ دیں گے جنہوں نے اب کے دیا۔ ہاں وہ روپے ہمارے ہاتھ نہ آئیں گے اور اگر کسی طرح آ جائیں تو پھر ہم اس طرح بیٹھے پئیں گے اور کپھن تیسری بار ملے گا۔‘‘
جوں جوں اندھیرا بڑھتا تھا اور ستاروں کی چمک تیز ہوتی تھی، میخانے کی رونق بھی بڑھتی جاتی تھی۔ کوئی گاتا تھا، کوئی بہکتا تھا، کوئی اپنے رفیق کے گلے لپٹا جاتا تھا، کوئی اپنے دوست کے منہ سے ساغر لگائے دیتا تھا۔ وہاں کی فضا میں سرور تھا، ہوا میں نشہ۔ کتنے تو چلو میں ہی الو ہو جاتے ہیں۔ یہاں آتے تھے تو صرف خود فراموشی کا مزہ لینے کے لئے۔ شراب سے زیادہ یہاں کی ہوا سے مسرور ہوتے تھے۔ زیست کی بلا یہاں کھینچ لاتی تھی اور کچھ دیر کے لئے وہ بھول جاتے تھے کہ وہ زندہ ہیں یا مردہ ہیں یا زندہ در گور ہیں۔
اور یہ دونوں باپ بیٹے اب بھی مزے لے لے کے چسکیاں لے رہے تھے۔ سب کی نگاہیں ان کی طرف جمی ہوئی تھیں۔ کتنے خوش نصیب ہیں دونوں، پوری بوتل بیچ میں ہے۔
کھانے سے فارغ ہو کر مادھو نے بچی ہوئی پوریوں کا پتل اٹھا کر ایک بھکاری کو دے دیا، جو کھڑا ان کی طرف گرسنہ نگاہوں سے دیکھ رہا تھا اور ‘‘دینے‘‘ کے غرور اور مسرت اور ولولہ کا، اپنی زندگی میں پہلی بار احساس کیا۔
گھیسو نے کہا ’’لے جا کھوب کھا اور اسیر باد دے۔ جس کی کمائی تھی وہ تو مر گئی مگر تیرا اسیر باد اسے جرور پہنچ جائے گا۔ روئیں روئیں سے اسیر باد دے۔ بڑی گاڑھی کمائی کے پیسے ہیں۔‘‘
مادھو نے پھر آسمان کی طرف دیکھ کر کہا ’’وہ بیکنٹھ میں جائے گی۔ دادا بیکنٹھ کی رانی بنے گی۔‘‘
گھسو کھڑا ہو گیا اور جیسے مسرت کی لہروں میں تیرتا ہوا بولا۔ ’’ہاں بیٹا بیکنٹھ میں نہ جائے گی تو کیا یہ موٹے موٹے لوگ جائیں گے، جو گریبوں کو دونوں ہاتھ سے لوٹتے ہیں اور اپنے پاپ کے دھونے کے لئے گنگا میں جاتے ہیں اور مندروں میں جل چڑھاتے ہیں۔‘‘
یہ خوش اعتقادی کا رنگ بھی بدلا۔ نشہ کی خاصیت سے یاس اور غم کا دورہ ہوا۔ مادھو بولا ’’مگر دادا بیچاری نے جندگی میں بڑا دکھ بھوگا۔ مری بھی کتنی دکھ جھیل کر۔‘‘ وہ اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر رونے لگا۔
گھیسو نے سمجھایا ’’کیوں روتا ہے بیٹا! کھس ہو کہ وہ مایا جال سے مکت ہو گئی۔ جنجال سے چھوٹ گئی۔ بڑی بھاگوان تھی جو اتنی جلد مایا کے موہ کے بندھن توڑ دئے۔‘‘
اور دونوں وہیں کھڑے ہو کر گانے لگے
ٹھگنی کیوں نیناں جھمکا دے۔ ٹھگنی۔
سارا میخانہ محوِ تماشا تھا اور یہ دونوں مے کش مخمور محویت کے عالم میں گائے جاتے تھے۔ پھر دونوں ناچنے لگے۔ اچھلے بھی، کودے بھی، گرے بھی، مٹکے بھی۔ بھاؤ بھی بتائے اور آخر نشے سے بد مست ہو کر وہیں گر پڑے۔
٭٭٭