یہ اُس انتہائی غیر اہم المیے کی رُوداد ہے، جس نے میرے طرز زیست کو یک سر بدل دیا!
کچرا چُننے والے باپ بیٹے کے بہیمانہ قتل کو ایک معمول کا واقعہ خیال کرتے ہوئے اُس یخ بستہ شام تو مَیں اپنی غیر ضروری مصروفیات ہی میں جُٹا رہا، لیکن ٹھیک چار روز بعد، یک دم گلی کے نکڑ پر وقوع پذیر ہونے والے اِس مفلس سانحے کی اہمیت مجھ پر آشکار ہوئی، اور یوں کچرا چننے والوں کا سستا المیہ میری زندگی کا حصہ بن گیا۔
شورش زدہ پڑوسی ملک کے یہ باسی گذشتہ تین برس سے محلے میں کچرا چننے کا فریضہ انجام دے رہے تھے۔ میرا اُن سے کئی بار سامنا ہوا، تاہم کبھی اُن کے چہرے میرے ذہن کے پردے پر واضح عکس نہیں چھوڑ سکے۔
باپ بیٹا باقاعدگی سے، ایک دن چھوڑ کر ہمارا دروازہ کھٹکھٹاتے، گھر بھر کا کچرا گدھا گاڑی پر لادتے، اور چل دیتے۔
کبھی کبھار سرخ و سپید بچہ پانی مانگ لیتا۔ میری بیوی ایک اسٹیل کے گلاس میں، جو فقیروں اور کچرا چننے والوں کے لیے مخصوص تھا، فٹافٹ ٹھنڈا پانی انڈیل کر ملازمہ کر پکڑا دیتی۔ اور کبھی کبھار وہ انسانی ہم دردی کے تحت چند سکے بھی ملازمہ کے ہاتھوں اُن تک پہنچا دیتی۔ میرا قیاس ہے کہ اُن چند سکوں میں سے آدھے ضرور ملازمہ اپنی پوشاک میں چھپا لیتی ہو گی۔
ذرائع کے مطابق جب کبھی اسٹیل کا گلاس سکوں کی مسحور کُن آواز سے کھنک اٹھتا، سرخ وسپید بچے پر وجدانی کیفیت طاری ہو جاتی۔
آج سے تین برس قبل، دسمبر کی اک خوش گوار صبح میرا پہلی بار خستہ حال باپ بیٹے سے سامنا ہوا، جن کی خستہ حالی موت تک اُن کے ساتھ رہی۔ پہلی نظر میں وہ بہت ہی بے چارے لگے۔
ہاں، لمبے تڑنگے، کم گو، باریش باپ کی بابت محلے دار ضرور شکوک میں مبتلا تھے۔ البتہ بیٹا گندا سندا ہونے کے باوجود قابل قبول معلوم ہوتا۔
اُن کی مصروفیات دو حصوں میں منقسم تھیں۔ دن کے ابتدائی اوقات میں وہ گدھا گاڑی پر محلے سے کچرا اکٹھا کرتے، اور اختتامی اوقات میں کاندھے پر ایک پلاسٹک کی بوری ڈالے، جسے دیکھ کر کتے نامعلوم وجوہات کی بناءپر بھونکنا شروع کر دیتے، کچرا چننے نکل پڑتے۔
قصہ مختصر، گذشتہ دنوں پھوٹ پڑنے والے لسانی فسادات میں باپ بیٹے کو نامعلوم افراد نے، نامعلوم وجوہ کی بناءپر قتل کر دیا۔
دوسرے روز اخبار میں مختصر سی خبر شایع ہوئی، ٹی وی چینلز پر “ٹکر” بھی چلا، تاہم میں نے اِس واقعے کو اہمیت نہیں دی۔ دفتر میں بہت کام تھے، پارٹ ٹائم مصروفیات الگ۔
میرے باخبر پڑوسی، جو سیاسی طور پر انتہائی بیدار گردانے جاتے ہیں، کہہ چکے ہیں کہ یہ لسانی فسادات کا معاملہ نہیں، باپ بیٹا دراصل شادی کی تقریب میں ہونے والی فائرنگ کی زد میں آ گئے تھے، بس!
اور میں نے سمجھ دار پڑوسی کے خیال کو من و عن تسلیم کر لیا۔
واقعے کے تیسرے روز میں نے بیگم کو مطلع کیا کہ میں باس اور اُن کی بیگم کو ڈنر پر مدعو کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ میں نے کہا، بے اولاد جوڑا انتہائی منکسر المزاج ہے ، اگر ہم انسانی جذبات کو ابھار سکیں، تو میری ترقی کے امکانات روشن ہو سکتے ہیں۔
میری سمجھ دار بیوی نے سازش سمجھ لی۔
اتوار کی صبح ہم جلدی اٹھ گئے۔ میں نے فیصلہ کیا کہ میرا سات سالہ، بدتمیز ہونے کے باوجود معصوم معلوم ہونے والا بیٹا جنید اور گم صم رہنے والی ہما، خوش رنگ لباس میں ملبوس، ہاتھوں میں “خوش آمدید” کا چھوٹا سا بینر اٹھائے دروازے پر بے اولاد جوڑے کا استقبال کریں گے۔ بچے اُن سے بہت محبت سے پیش آئیں گے، تاکہ بے اولادی کی اذیت سے محبت پھوٹ پڑے، اور پھر ترقی
ہم انتظامات میں جُٹے رہے۔ میٹھا تیار کیا گیا، جس پر میری بیوی نے جیلی کی مدد سے، بڑی ہی مہارت سے “دنیا کے بہترین جوڑے کے لیے!” جیسے متاثر کُن الفاظ لکھے۔ بریانی کو دم دینے کے بعد جب وہ سوپ گرم کر رہی تھی، میں گھر کے دروازے پر جا کھڑا ہوا، اور تنقیدی نگاہوں سے گلی کا جائزہ لینے لگا۔ اور اچانک ناگوار بُو میرے نتھنوں سے ٹکرائی۔
“کتنی گندگی ہے۔ کچرا اٹھانے والے نہیں آئے، ہڈ حرام کہیں کے!” میں بڑبڑاتا ہوا اندر دوڑا، خود کو ایک نامعلوم جذبے کے تحت جمع داروں کے اوزاروں سے لیس کیا، اور گلی کی صفائی شروع کر دی۔ جھاڑو لگاتے ہوئے مجھے عجیب سی خوشی محسوس ہوئی۔ میں اپنی صلاحیتوں پر نازاں تھا، اور دفعتاً مجھے غلاظت کے پھیلاؤ کا سبب مل گیا۔
کچرا چننے والوں کو چار روز قبل قتل کر دیا گیا تھا۔
“بے چارے!” میرے منہ سے نکلا۔
بچے تیار تھے، “ایئرفریشنر” چھڑک دیا گیا۔ میز بھی سج گئی۔ ہم میاں بیوی مصنوعی ستائشی مسکراہٹ کی مشق کر رہے تھے کہ مجھے ہارن سنائی دیا۔ میں دروازے کی جانب دوڑا۔ اور تب اچانک میری نظر دروازے کے بالکل ساتھ رکھے کچرے دان پر پڑی، جو غلاظت سے لبالب بھرا ہوا تھا، اور مکھیاں کسی سیاہ، مکروہ چھت کے مانند اُس پر تنی تھیں۔ تعفن ماحول کو بوجھل بنا رہا تھا۔
“یہ کچرا کیوں نہیں اٹھایا؟” میں چیخا۔
“وہ” بیوی کے چہرے پر بوکھلاہٹ تھی۔ “وہ کچرے والے“
“خدایا۔” میں وحشت کے زیر اثر تھا، اور کوئی فیصلہ لینے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ کال بیل کی کرخت آواز نے مجھے جھنجھوڑ دیا۔
“بچے کہاں ہیں؟” میرے لہجے پر سراسیمگی طاری تھی۔ بیوی گھر کے اندرونی حصے کی جانب دوڑی۔
منکسرالمزاج باس اور اُن کی سادہ لوح بیوی گھر کے اندر داخل ہوئے۔ میں نے اُن کے اور کچرے دان کے درمیان اوٹ بننے کی کوشش کی، جو مکھیوں کی بے ترتیب، منحوس حرکت اور تعفن کے سبب ناکامی سے دوچار ہو گئی۔
میری بیوی کو بچے تلاش کرنے میں خاصا وقت لگا، اور مجھے مجبوراً کچرے دان کے سامنے سے ہٹ کر مہمانوں کو گھر کے اندرونی حصہ میں مدعو کرنے کے لیے، تہذیبی اطوار کے مطابق جھکتے ہوئے آگے بڑھنا پڑا۔
بس اسی منحوس پل وضع دار خاتون کی نظر کچرے دان پر پڑی۔ “صاحب” نے بھی تعفن سے پیدا ہونے والے بوجھل پن کو محسوس کر لیا۔
میں عجیب کرب کا شکار تھا۔ احمق بیوی اور بدتمیز بچوں کے دوڑتے قدموں کی آواز قریب آ رہی تھی۔ میں نے فوراً کہا” “معذرت چاہتا ہوں۔ وہ محلے سے کچرا چننے والے باپ بیٹے کو قتل کر دیا گیا ہے۔ اِسی وجہ سے یہ“
“قتل؟” بے اولاد جوڑے کے منہ سے بیک وقت یہ مختصر، پر مکمل سوال برآمد ہوا۔
“جی ہاں، چار روز قبل۔ بچہ تو غالباً سات سال کا تھا۔ بے چارہ!”
“اوہ، صرف سات سال۔” خاتون کے چہرے پر کرب تھا۔
شریف النفس جوڑے نے اِس معمول کے واقعے کو سنجیدگی سے لیا۔ اور اچانک مجھ پر اِس کی اہمیت آشکار ہوئی، اور کم زور انسانی جذبات گرفت میں لینے کا سنہری موقع ہاتھ آ گیا۔
بوکھلائے ہوئے بیوی بچے قریب پہنچ چکے تھے۔
“جی ہاں۔” میں نے روہانسی صورت بنا کر اپنے سات سالہ، بدتمیز اور معصوم بچے کے کاندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔ “بس اِسی کی عمر کا ہو گا۔“
بے اولاد جوڑا شدید تکلیف محسوس کر رہا تھا۔
ماحول پر چھایا تعفن ثانوی حیثیت اختیار کر گیا۔ ہم بوجھل قدموں سے ڈرائنگ روم تک پہنچے۔ گم صم رہنے والی ہما کو تہنیتی کارڈ پیش کرنے کے لیے آگے کر دیا گیا۔ بے اولاد، ادھیڑ عمر عورت نے کارڈ وصول کیا۔
وہ اب تک اُسی واقعے کے زیر اثر تھی، سو میں نے ایک اور کرارا وار کرنے کا فیصلہ کیا۔ “باپ سے تو میرا سامنا نہیں ہوا، تاہم بیٹا اکثر کچرا اٹھانے کے بعد پانی مانگا کرتا تھا۔ بہت خوب صورت بچا تھا۔ میری بیگم نے ہمیشہ اُسے ٹھنڈا، فلٹر کا پانی دیا۔ کیوں بیگم؟“
میں نے اپنی بیوی کی جانب دیکھا۔
“جی ہاں!” اُس کے چہرے پر پاکیزہ مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔
بے اولاد جوڑے کے دکھ نے مزید تحریک دی۔
“گولی بچے کے سینے پر لگی۔ بہت کرب ناک منظر تھا، میں نے” اور میں ذلالت کی انتہا پر پہنچ گیا۔ “میں نے خود اُس کی لاش کو ایمبولینس“
“ہچ” وضع دار خاتون نے اچانک ہچکی لی۔ آنکھوں میں آنسو امڈ آئے۔ صاحب ایک تہذیب یافتہ شخص کی طرح خموشی سے افسردہ ہو گئے۔ میری بیوی نے چہرے پر سوختگی سجا لی۔ اور میرے بچے اُن کے مزید قریب ہو گئے۔
اور یوں مجھے گلی کے نکڑ پر وقوع پذیر ہونے والے معمول کے سانحے کی اہمیت کا احساس ہوا، اور یوں کچرا چننے والوں کا المیہ میری زندگی کا حصہ بن گیا۔
“بہت افسوس ناک واقعہ ہے۔” خاتون نے کہا۔
“جی ہاں” میرے چہرے پر کرب جیسا کچھ تھا۔ “بہت ہی افسوس ناک، مجھے احساس ہے۔” میں نے چہرہ ہاتھوں سے ڈھانپ لیا کہ کہیں میری کیفیت میرے ہونٹوں کے پھیلاؤ سے عیاں نہ ہو جائے۔
میری عقل مند بیوی نے سرد آہ بھری۔ “جی ہاں، بہت ہی افسوس ناک واقعہ ہے، ہمیں اِس کا مکمل احساس ہے۔“
اُس دن کے بعد مجھے پارٹ ٹائم ملازمت کی ضرورت نہیں رہی۔