پورے دس سال بعد گاؤں کی طرف جاتی ہوئی چیچک کے داغوں جیسی سڑک پر ہلکورے کھاتے ہوئے تانگے میں بیٹھ کر وہ اپنے وطن واپس لوٹ رہا تھا یہ پہلا اتفاق تھا کہ اسٹیشن پر کھڑے آدمی اس کا سامان اٹھانے کے لیے دوڑے نہیں تھے اُسے یاد تھا ایک مرتبہ وہ کچھ دن باہر رہ کر گاؤں واپس آیا تھا تو بندوق بردار ایک گھوڑا اس کی سواری کے لیے اسٹیشن آئے تھے۔ گھوڑے کی سواری کا شوق اسے پچپن ہی سے تھا۔ ’’بھے ّا آ گئے‘‘ بھیآ آ گئے‘‘ کی آواز لگاتے ہوئے بہت سارے آدمی اس کا سامان اٹھانے کے لیے دوڑے تھے لیکن اس مرتبہ کسی تانگے والے نے بھی اسے نہیں پہچانا۔ جیسے وہ یہاں کے لیے اجنبی ہو۔ سجاد کے سامنے اس کی یہ پہلی توہین تھی۔ سجاد کو اس کا احساس بھی نہ تھا لیکن پلیٹ فارم سے تانگے تک سامان لے جانے میں اسے اپنا وقار گھٹتا ہوا معلوم ہوا تھا۔ تانگہ برابر اپنی ایک ہی رفتار سے آگے بڑھ رہا تھا۔
’’دیکھو سجاد وہ جو تالاب ہے یہاں صبح کے وقت بہت قازیں گرتی ہیں۔ کل ول یہاں آئیں گے۔ تم تو چلا لیتے ہو بندوق۔ اپنے یہاں پوائنٹ ٹوٹو اور ٹولیو بور دونوں ہیں چاہے جو چلانا۔‘‘
’’کیوں شمیم تم کب تک گاؤں ٹھہرو گے سروس کے لیے کہیں اپلائی کرنا ہے یا نہیں، اب لندن تو جانا نہیں ہے۔‘‘ سجاد نے تالاب سے نظریں ہٹاتے ہوئے کہا۔
’’لاحول ولا قوۃ یار ابھی سروس وروس کون کرے گا۔ ابھی تو اپنے گاؤں میں رہ کر زمینداری کریں گے۔ بڑے مزے کی زندگی ہوتی ہے۔ پورا گاؤں کہنے پر چلتا ہے جدھر چلے جاؤ سلام کرنے کے لیے لوگ اُٹھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں کسی دوسرے گاؤں جاؤ تو محافظین کا ایک دستہ معہ بندوقوں اور لاٹھیوں کے ساتھ میں ہوتا ہے جیسے کسی ملک کا پرائم منسٹر جا رہا ہو۔‘‘
’’میں نے سنا ہے کہ گاؤں کے زمیندار کسانوں پر بڑا ظلم کرتے ہیں۔‘‘ شہر کا رہنے والا سجاد سن ہی سکتا تھا۔
’’دیکھو بھئی جس کا جو کام ہے وہ اسے کرنا چاہیے اگر وہ ایسا نہ کرے اور اسے سزا دی جائے تو کیا یہ ظلم ہو گا۔ کسان تو کام کرنے کے لیے ہی پیدا ہوتے ہیں۔ دوچار دن ان میں سے ایسے بھی نکل آتے ہیں جو مکاری کرتے مفت کی کھانا چاہتے ہیں اور جب انہیں اس کی سزا دی جاتی ہے تو لوگ کہتے ہیں ظلم کیا جا رہا ہے۔ ہمارے دادا ابا جب حیات تھے تو ایک بڑا ہیکڑ قسم کا آدمی ملوا گھوسی تھا ایک بار وہ ایک گھوڑا لایا۔ گھوڑا دادا کو پسند آ گیا دادا نے ان کی قیمت دینا چاہی لیکن وہ تیار نہ ہوا اور بدمعاشی دکھانے لگا۔ دوسرے دن رات کو دادا کے آدمی ملوا کر ٹھکانے لگا آئے اور صبح کو لوگوں نے دیکھا گھوڑا ہماری حویلی میں بندھا ہوا تھا کسی کی ہمّت نہیں تھی کچھ کہہ سکتا۔‘‘
’’یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہوا۔‘‘
’’تو شہر میں رہنے والے کیا جانو زمینداری کیا ہوتی ہے برے وقت میں بھی تو یہی زمیندار مدد کرے ہیں ورنہ سب بھوکوں مر جائیں۔‘‘
سجاد بیچارہ زمینداری کے رموز کو کیا جانے اس نے تو افسانوں میں پڑھا ہے کہ زمیندار کسانوں پر ظلم کرتے ہیں۔
کھیتوں اور باغوں کو پیچھے چھوڑتا ہوا تانگہ لمحہ بہ لمحہ گاؤں کے قریب ہوتا جا رہا تھا۔ جامن کے اونچے اونچے درخت قلعہ میں جاتے ہوئے راستے پر پہریدار کھڑے ہوں۔ گاؤں کی اکلوتی مسجد کے مینارے ہاتھی کے سیاہ جسم پر ابھرے ہوئے سفید دانتوں کی طرح لگ رہے تھے۔ پھونس اور گوبر کے بنے اپلو کے پٹارے چھوٹے چھوٹے مندروں کی طرح گاؤں کے چاروں طرف پھیلے ہوئے تھے۔ نیم کے اونچے اونچے درختوں نے گاؤں کے اوپر ایک اور سبز آسمان کا سایہ ڈال رکھا تھا۔ گھوڑے کی ٹاپوں سے نکلتی ٹپ ٹپ کی آواز ایک تیرہ چودہ سال پہلے کی کہانی سنا رہی تھی ․․․․․․․
’’ڈیوڑھی کے باہر ادھے تیار کھڑے تھے۔ ان میں لگے ہوئے اونچے اونچے بیل اپنے گلے میں پڑے ہوئے گھنگھروؤں کو بجا بجا کر اپنی آمادگی سفر کا اعلان کر رہے تھے۔ ایک بیل گاڑی میں بستر بند اٹیچی اور کئی کنستر رکھے ہوئے تھے رحیم میاں بے چینی سے ادھر ادھر گھوم کر سب کو ہدایات دے رہے تھے۔
’’ارے امام بخش حلوے اور گھی کے کنستر آگے دیکھو کوئی چیز رہ نہ جائے۔ شہر کی ہر چیز میں ملاوٹ ہوتی ہے۔ تندرستی خراب کر دیتی ہے۔ ارے نتھو گھڑے تیار ہو گئے۔ جلدی کرو بھئی ایسا نہ ہو ریل کا وقت نکل جائے۔‘‘ جبکہ ریل کا وقت ہونے میں ابھی کافی دیر تھی۔ تیاریاں مکمل ہو جانے کے بعد شمیم کو اس طرح گاؤں سے رخصت کیا گیا جیسے کوئی شہزادہ کسی مہم کو سر کرنے کے لیے جا رہا ہو یا کوئی بارات جا رہی ہو۔ کافی دیر تک گاؤں کی عورتیں اس مختصر سے قافلے کو جاتے ہوئے دیکھتی رہیں۔
رحیم میاں دو ایک ملازموں کے ساتھ شمیم کو علی گڑھ تک چھوڑنے کے لیے آئے اور پھر اسے چھوڑ کر اس طرح چلے گئے جیسے اب اسی وقت بلائیں گے جب وہ علم کی دولت سے مالا مال ہو جائے گا اور کوئی بڑا افسر بن جائے گا اور ہوا بھی یہی شروع میں ایک دو بار شمیم گاؤں گیا پھر ہورے دس سال تک گاؤں نہیں گیا۔ ایم اے کرنے بعد وہیں سے وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن چلا گیا۔
ایک مقام پر پہنچ کر کوچبان نے گھوڑے نما خچر کی راسیں کھینچ کر تانگہ روک دیا اور اتر کر تانگے کے پیچھے بندھے بستر بند کے چاروں طرف بندھی ہوئی رسیوں کو کھولنے لگا ذرا دیر میں اس نے تانگے سے تمام سامان اتار کر ایک طرف کو رکھ دیا۔ یہ جگہ اڈہ کہلاتی تھی۔ تانگے اس سے آگے نہیں جایا کرتے تھے ایک تو آگے سڑک ٹھیک نہیں تھی اور دوسرے سڑک پر کھیلتے ہوئے بچوں کی وجہ سے بڑے سنبھال کر چلانا پڑتا تھا۔ شمیم نے تانگے والے کی طرف دیکھا جواب میں تانگے والے نے کہا ’’بس بابو جی تانگے آگے نہیں جاتے ہیں۔‘‘ شمیم سوچنے لگا یہ سب کیا ہو رہا ہے میرے دوست کے سامنے میری توہین کیوں کی جا رہی ہے۔ شمیم سب کی صورتوں کو ذہن میں نقش کر کے منصوبے بنا رہا تھا کہ گھر پہنچتے ہی ان سب کی کھال کھنچوانی ہے۔ سجاد نے شمیم کی کیفیت کو محسوس کرتے ہوئے اسے مخاطب کیا۔
’’ارے یار کتنی دور ہے ہم ہی لیے چلتے ہیں۔‘‘ اس نے اٹیچی ہاتھ میں اٹھائی۔
’’ارے رکھو! یہی سب سالے اپنے سروں پرکھ کر پہنچائیں گے۔‘‘ شمیم نے اٹیچی زمین پر رکھوا دی اور تانگے والے سے کہا۔
’’یہ سامان ہمارے یہاں تک پہنچاؤ۔‘‘
’’صاحب ہم یہ کام نہیں کرتے ہمارے پیسے دے دو ہمیں گھوڑے کے لیے گھاس لینی ہے۔‘‘ تانگے والے کو شمیم کی یہ بات نہ صرف عجیب سی لگی بلکہ ناگوار بھی گذری۔ شمیم کو لگا جیسے کسی نے اس کی ننگی پیٹھ پر کوڑا مارا ہو اس نے سوچا کہ شاید یہ مجھے پہچان نہیں رہا ہے کہ میں کون ہوں۔
’’گھاس واس بعد کو خریدنا پہلے یہ سامان پہنچاؤ‘‘ شمیم کا لہجہ کچھ سخت تھا۔
’’پیسے تو دیؤ صاحب آپ کو کس کے گھر جانا ہے۔‘‘ شمیم کا شک صحیح نکلا کہ یہ مجھے پہچانتا نہیں۔ اس نے کچھ اس انداز سے اپنے ابا کا نام لیا جسے تانگے والا یہ نام سن کر ڈر جائے گا۔
’’رحیم خاں کی حویلی پر‘‘
’’ارے ان چکی والے ملا جی کے یہاں‘‘ تانگے والے نے برجستہ جواب دیا لیکن شمیم آتش فشاں کی طرح ابل پڑا اور اس کا داہنا ہاتھ تانگے والے کے منہ پر جا پڑا ’’بد تمیز ہم جتنی شے دے رہے ہیں تو اتنا ہی بد کلام ہوتا جا رہا ہے۔‘‘
تانگے والا غریب تھا تو کیا ہوا عزت تو اس کے پاس بھی تھی شمیم کے اس چانک حملے کو ضبط نہ کر سکا۔
’’صاحب رئیس زادے ہو گے اپنے گھر کے ․․․․․․․․کسی کی دَبی میں نہیں رہتے کام کرتے ہیں تو پیسے مانگتے ہیں۔‘‘
شمیم کی آنکھوں سے چنگاریاں نکل رہی تھیں۔ زندگی میں یہ پہلا حادثہ تھا جب ایک تانگے والے نے اس کی عزت پر ضرب کاری لگا ئی تھی۔ ذرا دیر میں ’’کیا بات ہے‘‘ ’’کیا بات ہے‘‘ کرتے ہوئے آدمی اس جگہ اکٹھے ہو گئے تانگے والے نے اپنی مظلومیت کی دہائی دی۔
’’ان کو اسٹیشن سے لایا ہوں گھنٹہ بھر ہو گیا پیسے نہیں دے رہے اوپر سے کہتے ہیں کہ یہ سامان ہمارے گھر پہنچا دو جیسے ان کے باپ نے ہمیں نوکر رکھا ہے۔‘‘
اب شمیم کو اس بھیڑ میں اپنی غلطی کا احساس ہو رہا تھا وہ سب کی نظروں میں جھانک کر یہ دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ کیا یہ مجھے پہچان رہے ہیں کہ یہ ابراہیم خان کا پوتا ہے جن کے ایک اشارے پر گاؤں کے لوگ دریا کا بہاؤ بدلنے کے لیے تیار ہو جاتے تھے۔ لیکن اس بھیڑ میں سب کے چہروں پر نئی آنکھیں لگی ہوئی تھیں اور شمیم پُرانی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا اور پرانی آنکھوں کی تلاش میں تھا جو اسے دیکھ کر سلام کیے لیے جھک جائیں سامان کے پاس کھڑا سجاد خود کو کسی نئی مخلوق کے درمیان محسوس کر رہا تھا۔ اس ماحول میں اسے گھٹن ہو رہی تھی اس مصیبت سے نجات حاصل کرنے کے لیے اس نے پرس نکال کر کچھ پیسے تانگے والے کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا:
’’لو بھئی کتنے پیسے ہوئے تمہارے، سب رکھو۔‘‘ اتنا کہہ کر وہ سامان اٹھانے لگا شمیم اپنی شکست سے اپنے وجود کو بکھرتا محسوس کر رہا تھا۔ اُسی وقت ایک جوان آدمی آگے آیا اور شمیم کو دیکھنے لگا دوسرے ہی لمحے کچھ کہے بغیر سامان کی طرف بڑھا اور سجاد کے ہا تھ سے سامان لے لیا۔ ’’لائیے ہم لے چلیں۔‘‘ سجاد اسے روکتا رہ گیا لیکن اس نے سجاد کے احتجاج کو تسلیم نہ کیا اور سامان کو اٹھا کر اس طرح آگے بڑھ گیا جیسے کوئی تھیلا لٹکا کر بازار کو جاتا ہے۔ شمیم اس آدمی کو بس ایک جھلک ہی دیکھ سکا اس کی نظریں صرف اُس کے میلے کپڑوں پر پڑیں۔ وہ آدمی تیز تیز قدم رکھتا ہوا آگے جا رہا تھا۔ سجاد نے شمیم کو اشارہ کیا اور وہ دونوں ایک احساس ندامت لیے ہوئے اس آدمی کے پیچھے پیچھے چلنے لگے جس نے سامان لے جا کر ان کے احساس ندامت میں کچھ کمی کر دی تھی۔ بھیڑ میں کوئی پوچھ رہا تھا۔
’’کون لوگ ہیں جی؟‘‘
کوئی دوسرا جواب دے رہا تھا۔
’’لگتا ہے رحیم میاں کا چھوٹا للا ہے بہت دنا میں بدیس سے آیا ہے بے چارہ اب بھی․․․․․․‘‘
باقی الفاظ پیچھے رہ گئے اور وہ دونوں آگے بڑھ گئے۔ شمیم نگاہیں جھکائے ہوئے سجاد کے ساتھ چل رہا تھا اس نے سامان لے جانے والے آدمی کو دیکھا بھی نہیں۔ سجاد کے بولنے پر بھی اس نے بات نہیں کی۔ سجاد کی نگاہیں چاروں طرف گھوم رہی تھیں اچانک وہ آدمی مع سامان کے ایک گھر میں داخل ہو گیا دروازے کے آگے تھوڑا سائبان پڑا تھا ایک طرف چھپّر میں دو کمزور سے بیل جگالی کر رہے تھے۔ دوسری جانب آٹا پیسنے کی چکّی چل رہی تھی جس دوکان میں چکی لگی ہوئی تھی اس کے آگے چھوٹا سا برآمدہ تھا جس میں اناج تولنے کا کانٹا لگا ہوا تھا۔ کانٹے کے قریب گلّے پر بیٹھے ہوئے ایک بزرگ اناج تول رہے تھے۔ ان کے کپڑوں پر آٹے کی تہیں جمی ہوئی تھیں سفید داڑھی کو گیہوں کے آٹے نے اور بھی سفید کر دیا تھا۔ وہ دونوں پلڑوں کو برابر کر رہے تھے۔ سجاد سوچنے لگا کہ کیا یہی شمیم کا گھر ہے۔ شمیم تو کہتا تھا کہ اس کی بہت بڑی حویلی ہے لیکن یہاں تو کچھ بھی نہیں۔ سجاد نے شمیم کو نیند سے جگایا۔
’’ارے شمیم کیا گھر آ گیا وہ صاحب تو مع سامان کے اندر چلے گئے۔‘‘
یہ نیم کا درخت اور کنواں تو وہی ہیں اس کی نگاہیں چکّی تک پہنچی یہاں تو مردانہ تھا لیکن اس میں چکّی کب سے لگ گئی اچھے خاصے کمرے کا ستیا ناس کر دیا اچانک اس کی نگاہیں گلے پر بیٹھے ہوئے رحیم میاں پر پڑیں اُسے تانگے والے کے الفاظ یاد آئے۔ ارے ان چکی والے ملّا جی کے یہاں‘‘ وہ دیکھتا رہ گیا اس کے منہ سے ایک حرف بھی نہ نکلا اسے لگا جیسے ان کی قوت گویائی کسی نے چھین لی ہو اور جب رحیم میاں کی نگاہیں اس پر پڑیں تو وہ فوراً اٹھ کھڑا ہوئے، برابر ہوتے ہوئے پلڑے اُوپر نیچے لگے برسوں کی دبی ہوئی پدری محبت و شفقت اُبل پڑی۔
’’شمو بیٹے تم آ گئے ․․․․․․․․․․ ارے تم نے اطلاع کیوں نہیں دے دی میں کسی کو اسٹیشن بھیج دیتا۔ کوئی پریشانی تو نہیں ہوئی۔ ارے آؤ تم لوگ کھڑے کیوں ہو۔‘‘ سجاد شمیم کے والد کو پہچان گیا اس نے بڑھ کر سلام کر کے مصافحہ کیا لیکن شمیم بالکل خاموش کھڑا تھا۔ رحیم میاں بہت خوش نظر آ رہے تھے انہیں لگ رہا تھا ان کے پچھلے دن پھر لوٹ آئے۔ شمیم ہی کے لیے تو انہوں نے بے دریغ روپیہ خرچ کیا تھا اس امید پر کہ شمیم ایک بڑا آدمی بنے گا۔ رحیم میاں نے جلدی سے چکی والے برآمدے کے سامنے نیم کے درخت کے نیچے ایک چار پائی ڈالتے ہوئے کہا۔
’’آؤ بیٹے آؤ یہاں سائے میں بیٹھو تھک گئے ہو گے۔ تم لوگوں کا سامان کہاں ہے۔‘‘
سجاد بڑھ کر چار پائی پر بیٹھ گیا۔ رحیم میاں شمیم کو اپنے ساتھ لے کر گھر کے دروازے کی طرف بڑھے اور دروازے سے ہی پکارے۔
’’ارے شمو کی ماں! دیکھو تو سہی کون آیا ہے۔ تمہارا بیٹا آ گیا۔ ارے دیکھو کیسا بابو بن گیا ہے۔ ارے سلیم کہاں ہے دیکھ تیرا جوڑا ہو گیا۔ کوئی بچہ ذرا نعیمہ کے یہاں کہلوا دو تیرا بھیا آ گیا ہے۔‘‘
رحیم میاں خوشی سے پاگل ہوئے جا رہے تھے دروازے میں داخل ہوتے ہی بوڑھی ماں نے شمیم کو چھاتی سے لگا لیا کب سے اپنے جگر کے ٹکڑے کو دیکھنے کے لیے بے قرار تھی۔ اس کی آنکھوں سے بے اختیار خوشی کے آنسو بہنے لگے۔
ایک کمرے سے دھلے ہوئے کپڑے پہن کر سلیم نکلا۔ شمیم نے سلیم کی طرف دیکھ کر سلام کرنے کے لیے سر کو جنبش دی لیکن شمیم کو ایک اور دھچکا لگا یہ وہی آدمی ہے جو سامان اٹھا کر لایا تھا۔ یہ بھیا تھے میں نے پہچانا بھی نہیں سلیم برادرانہ جوش میں چھوٹے بھائی سے بغل گیر ہو گیا۔ آج اسے لگ رہا تھا جیسے اس کی طاقت اور عزت بڑھ گئی ہے۔ بھائی بھائی کا داہنا بازو ہوتا ہے۔ لیکن شمیم کے اندر کوئی جوش نہ تھا وہ تو اس درخت کی طرح بے جان سا کھڑا تھا جو آندھی میں گر گیا ہو اور جڑ سے صرف ذرا سا حصّہ جڑا ہوا ہو۔ وہ نئے گھر کو اجنبی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا گھر ٹوٹ کر نیا ضرور بن گیا تھا لیکن اس میں کہیں وہ پرانی عظمت اور جلال دکھائی نہیں دے رہا تھا جس کے آگے گاؤں والوں کی نگاہیں جھکنے کے لیے مجبور تھیں۔ ترازو کے پلڑوں کو برابر کرتے رحیم میاں نے اپنے آپ کو بھی سب کے برابر کر لیا تھا۔
شمیم کیا کیا سوچ رہا تھا لیکن یہاں آ کر تو اس کے تمام ارادے بارش کے پانی میں سڑک پر پڑے ہوئے تنکوں کی طرح بہہ گئے اس نے سجاد کے سامنے اپنی زمین داری کا کیسا نقشہ کھینچا تھا اسے کیا معلوم تھا بساط الٹ چکی ہے۔ نقشہ بدل چکا ہے۔ سجاد بھی کیا سوچ رہا ہو گا کہ یہی ان کا مہمان خانہ ہے کہ نیم کے نیچے ایک چارپائی ڈال کر مہان کو بٹھا دیا جائے کہاں ہے وہ ڈیوڑھی جس میں گھوڑے بندھتے تھے کہاں ہیں وہ خدمت گار جو ایک اشارے پر بھاگتے نظر آتے تھے۔ شمیم تو بڑی ڈینگیں مارتا تھا اور جب وہ بھیا کو دیکھے گا تو کیا سمجھے گا ارے یہی تو ہمارا سامان لے کر آئے تھے یہ تمہارے بھیا ہیں تم نے پہچانا بھی نہیں۔ شمیم کی دل چاہ رہا تھا کہ زمین پھٹ جائے اور وہ اپنے شاندار ماضی کی یادوں کو لیے حال سے بے نیاز ہو کر اس میں سما جائے یا اپنے سر کو دیواروں سے ٹکرائے۔
رحیم میاں چکی کا کام کسی اور آدمی کے سپرد کر کے پھر گھر میں آ گئے اور آتے ہی بولے۔
’’ارے اسے ابھی بٹھایا بھی نہیں، تھک گئے ہوں گے بیچارے۔ اتنی دور سے آ رہے ہیں باہر شمو کے دوست بیٹھے ہیں انہیں شمو کے کمرے میں بٹھا دو۔‘‘
رحیم میاں نے دوبارہ گھر بنواتے وقت اس بات کا خیال رکھا تھا کہ شمو بڑا آدمی بن کر آئے گا اس کے لیے ایک الگ بڑا سا کمرہ ہونا چاہیے اسی لیے انہوں نے ایک کمرہ جس کا ایک دروازہ باہر کی طرف اور دوسرا گھر میں کھلتا تھا۔ صرف شمیم ہی کے واسطے بنوایا تھا۔ سلیم نے جلدی سے جا کر کمرے میں پڑی ہوئی پرانی کرسیوں کی گرد صاف کی۔ کمرہ اچھا خاصا صاف ستھرا بنا ہوا تھا دیواروں پر نہ صرف پلاسٹر ہو رہا تھا بلکہ سفید قلعی سے پتائی بھی کی گئی تھی۔ اینٹوں کا فرش تھا جبکہ باقی گھر کا فرش پیلی پیلی مٹی سے لپا ہوا تھا۔ دیوار سے ملا ہوا آتش دان کے نیچے ایک بڑا تخت بچھا ہوا تھا جس کی لکڑی ابھی پوری طرح گھُنی نہیں تھی تخت کے اوپر ایک بوسیدہ قالین بچھ رہا تھا جو اپنی قدامت کو خود ہی ظاہر کر رہا تھا جگہ جگہ سے اس کے اوپر کارواں اڑ گیا تھا تخت پر ایک گاؤ تکیہ بھی تھا جس کے غلاف کا پیوند لگا ہوا حصہ پیچھے کی طرف کر دیا گیا تھا۔ تخت کے داہنی جانب ایک بڑا سا حقہ رکھا ہوا تھا آتش دان پر رکھا ہوا ہرن کا سر اور دیوار پر ٹنگی ہوئی کھال اس بات کی گواہی دے رہی تھی کہ اس گھر کے لوگ کبھی شکار بھی کھیلا کرتے تھے الماری میں چند برتن رکھے ہوئے تھے جن کے بکنے کی ابھی نوبت نہیں آئی تھی۔ شمیم اس کمرے میں پہنچا تو اسے لگا جیسے ابا نے اس کے آنسو پونچھے ہیں اور اپنے کھوئے ہوئے وقار کو اس کمرے میں سمیٹنے کی کوشش کی ہے جیسے ان کے ماضی کی عزت اور عظمت صرف اسی ایک کمرے تک محدود ہے۔ سلیم نے باہر بیٹھے ہوئے سجاد کو کمرے میں بلایا۔ رحیم میاں کو یہ بات پریشان کیے جا رہی تھی کہ شمو خاموش کیوں ہے اسی لیے جب سے وہ آیا تھا کئی بار اس کی طبیعت کے بارے میں پوچھ چکے تھے۔ سلیم نے گھر آ کر کچھ بھی نہیں بتایا تھا۔
رات کے کھانے کے لیے رحیم میاں نے اچھے کھانے تیار کرائے تھے۔ کھانے سے نکلتی ہوئی خوشبوئیں ان کی یادوں کی جمی ہوئی تہیں کھول رہی تھیں۔ کتنے ہی حالات خراب رہے چاہے کچھ بیچنا ہی کیوں نہ پڑا ہو۔ رحیم میاں نے اپنے وضع داری کو کبھی ٹھیس نہ پہنچنے دی۔ جب بھی ان کے گھر کوئی مہمان آتا اس کے لیے اسی طرح دستر خوان چنا جاتا جیسے اچھے دنوں میں تواضع کی جاتی تھی۔ اب بھی رحیم میاں جب کبھی دوسرے گاؤں جاتے تو بکس میں رکھی ہوئی اپنی اکلوتی شیروانی اور ناگرہ نکال کر پہنتے اور چھڑی ہاتھ میں لے کر اسی شان سے باہر نکلتے جو کبھی ان کے قدموں کے ساتھ ساتھ چلتی تھی۔ لیکن اب اندر کچھ بھی نہیں تھا صرف اپنی وضع دار کو ٹوٹی ہوئی بیساکھیوں کے سہارے چلانے کی کوشش کر رہے تھے۔ کھانے کے وقت تک شمو کی بعض کیفیات سے رحیم میاں نے محسوس کر لیا تھا کہ شمو خاموش کیوں ہے اسی لیے جب رات کو کھانے وغیرہ سے فارغ ہو گئے تو رحیم میاں نے شمو کو اپنے پاس بلایا اور قریب بٹھا کر وہ باتیں بتانے لگے جن کو آج تک اس سے پوشیدہ رکھا گیا تھا۔
’’بیٹے میں محسوس کر رہا ہوں کہ جب سے تم آئے ہو کچھ پریشان ہو میں نے تمہیں بولتے ہوئے نہیں دیکھا میں جانتا ہوں اس کا سبب کیا ہے۔ آج تک میں نے تمہیں کوئی بات نہیں لکھی لیکن بہتر ہے کہ آج تم بھی گھر کے حالات سے واقف ہو جاؤ۔ جس وقت تم یہاں سے گئے تھے تمہارے یہاں بہت کچھ تھا تمہارا باپ گاؤں کا سب سے بڑا رئیس تھا کچھ ہی برس بعد تمہارے تینوں چچا علاحدہ ہو گئے انہیں نے اس زمین کے حصے بانٹ لیے جس پر ایک گھر کاہل چلا کرتا تھا اور اس حویلی میں دیواریں کھڑی کر لیں جس میں ایک چولہا جلا کرتا تھا۔ تمہارے دادا کی ہر چیز چار حصّوں میں بٹ گئی اس بٹوارے کے ساتھ ہی ہماری وہ ساکھ بھی ختم ہو گئی جو گاؤں پر چھائی ہوئی تھی۔ زمین اب بہت کم رہ گئی تھی اور یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ اپنی پرانی شان باقی رکھنے کے لیے نعیمہ کی شادی پر میں نے دس بیگھے زمین بیچی تھی۔ تم پڑھائی کے لیے جا چکے تھے تمہیں میں نے کبھی یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ زمینداری ختم ہو گئی تم نے جب بھی لکھا یا نہ لکھا میں روپے بھیجتا رہا اور اس کے لیے مجھے تمہاری ماں کا زیور بھی بیچنا پڑا۔ میں نے گھر بلانے کے لیے تم سے بھی اس لیے اصرار نہیں کیا کہ یہاں آ کر تمہیں جب حالات معلوم ہو گے تو صدمہ ہو گا اور جب زمین کی پیداوار میں گذارا دکھائی دیا تومیں نے تھوڑی سی زمین اور نکال کر چکی لگوائی۔ گھر عجیب بے ڈھنگا سا ہو گیا تھا اس لیے دوبارہ بنوایا۔ ان سب کاموں کے ساتھ ساتھ میری ایک امید چل رہی تھی جس نے ہر مقام پر مجھے قوت بخشی اور وہ امید تھی تمہارا روشن مستقبل۔ تم پڑھ لکھ کر کچھ بن جاؤ گے اور حالات پھر ٹھک ہو جائیں گے۔ اور پھر اچانک تم وہاں سے مزید تعلیم کے لیے لندن چلے گئے۔‘‘
شمیم خاموشی سے سر جھکائے یہ سب باتیں سن رہا تھا غالباً باہر والے کمرے میں بیٹھے ہوئے سجاد نے بھی یہ سب باتیں سن لی تھیں۔ رحیم میاں خاموش ہو گئے۔ دوستوں کی محفل میں چہکنے والے شمیم پر گاؤں میں آ کر ایک عجیب سی سنجیدگی طاری ہو گئی تھی۔ اس کی طالب علمی اور لا ابالی پن کا دور ختم ہو چکا تھا۔ اب وہ مستقبل کے فریموں میں لگی ہوئی تصویروں کو بدل رہا تھا کہاں سے سجاد کے ساتھ اس کا پہاڑی علاقے پر جانے کا پروگرام تھا لیکن وہ اس پروگرام کو بدل کر کچھ اور ہی سوچ رہا تھا۔
دو ایک روز ٹھہرنے کے بعد سجاد نے شمیم سے واپس جانے کے لیے کہا تو وہ اسے روک بھی نہیں سکا بلکہ جب رحیم میاں کو معلوم ہوا تو انہوں نے سجاد سے رکنے کے لیے کہا۔
’’بیٹے دو ایک دن اور ٹھہر کر چلے جانا۔ یہاں تمہارا دل بھی تو نہیں لگتا ہو گا، نہ تمہاری کوئی خاطر ہی ہو سکی۔‘‘
’’نہیں چچا جان آپ کیسی بات کرتے ہیں آپ لوگوں کی محبت اور خاطر تومیں کبھی نہیں بھول سکتا ابھی مجھے کچھ ضروری کام ہے پھر کبھی وقت ملا تو ضرور آؤں گا۔‘‘
سجاد کے ساتھ ہی شمیم بھی واپس جانے کے لیے تیار ہو گیا۔ رحیم میاں نے سبب معلوم کیا اور جواب پا کر خاموش ہو گئے لیکن اس کی ماں کو معلوم ہوا تو وہ تڑپ گئیں۔
’’نہیں شموا بھی نہیں جائے گا کتنے برسوں کے بعد آیا ہے اور اتنی جلدی چلا جائے گا۔‘‘
’’امّاں میں جلدی لوٹ آؤں گا ابھی مجھے کئی جگہ نوکری کے لیے کوشش کرنی ہے۔‘‘
سجاد نے بھی شمیم کی آواز سن لی تھی۔ ماں نے رحیم میاں کی طرف دیکھا۔ وہ خاموش تھے شمیم کی ماں کے حلق میں یہ الفاظ پھنس کر رہ گئے کہ
’’شموّ زمینداروں کے بیٹے نوکری نہیں کیا کرتے بلکہ نوکر رکھا کرتے ہیں‘‘ لیکن اِس کے بجائے ان کے منہ سے یہ الفاظ نکلے۔
’’ہاں بیٹے جاؤ خدا تمہیں کامیاب کرے۔‘‘
اور شمیم اپنا سامان خود اپنے ہاتھ میں اٹھا کر باہر آ گیا۔
٭٭٭
ماخذ:
http://www.ibnekanwal.com
https://www.rekhta.org/ebooks/band-raste-ibne-kanwal-ebooks?lang=ur
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
چار سواریاں
بس چل رہی ہے شاید چھٹیوں کی وجہ سے رش تھا۔ابو کی کوشش سے اکٹھی تین والی سیٹ مل ہی...