ڈاکٹر محمد آصف قادری(گوجرانوالہ)
’’ہیو منزم کبیر کے کلام کی روح ہے، ان کے نغموں کا جوہر ہے۔ جبر کے خلاف ان کی مزاحمت کی طبعی داستان لہو کو گرمی دیتی رہتی ہے۔ ان کے جذباتی اور حسّی اضطراب اور ان کی حقیقت پسند اور مشاہدہ اور تخیل سے مضحمل، نڈھال اور تھکے ہوئے ذہن کو آسودگی حاصل ہوتی ہے۔ کبیر کے کلام میں لطف و بصیرت کے اتنے پہلو ہیں کہ ہر طبقے کے افراد انسانی اقدار ، سماجی گھٹن اورزندگی کی پیچیدگی کے پیش نظر فیض یاب ہوتے رہے ہیں۔‘‘ ۸
پروفیسر موصوف کے افکار کی حقانیت سے انکار نہیں ہو سکتا مگر اس امر کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ کبیر کے کلام کی بہ نسبت اس کی شخصیت مزاحمتی جذبات و احساسات کی حامل زیادہ تھی۔ اس کے خیال میں صداقت اور محبت کے مقابلہ میں پوجا پاٹ کی نمائش اور یوگ اور تپ کی ورزش بالکل، ہیچ ہیں۔ دل کی صفائی کے بغیر خدا نہیں مل سکتا۔ کبیر نے اپنے کلام میں ریاکاری، دھوکہ بازی، طمع و حرص، غرور و فکر اور دیگر منفی اقدار کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ مثال کے طور پر جب وہ کہتا ہے:
مایا تجی تو کیا بھیا مان تجانہہ جائے
مان بڑے منی در گلے مان سبن کو کھائے
مایا تیاگے کیا بھیا مان تجانہہ جائے
جہہ مانے منی ور ٹھگے مان سبن کو کھائے
یعنی دولت چھوڑے سے کیا ہوتا ہے جب اعزاز یا عزت کی چاہ نہیں چھوٹتی، جاہ و منصب پانے کے چکر میں بڑے بڑے رشیمنی ختم ہو گئے۔آج کے عہد میں مایا (دولت) سیاسی مفادات کے حصول کا ہوس پرستانہ عملہے۔ سردار جعفری نے ٹھیک ہی کہا ہے :
’’آج کے عہد کی سب سے بڑی مایا سیاست ہے ۔یہ اسی مایا کا رکرشمہ ہے کہ ہماری پچاس فیصدی سے زیادہ آبادی مفلسی کا شکار ہے اور انسانوں کی اکثریت ان پڑھ اور جاہل ہے ۔ روزانہ فرقہ وارانہ فسادات ہوتے ہیں اور پاتال کے جہنم سے ہماری جنت ارضی پرآگ برسائی جاتی ہے۔ یہ اسی مایا کا کرشمہ ہے کہ ہم اپنی عزت نفس اور احساس انسانیت کو بڑی حد تک کھو چکے ہیں لیکن اسی مایا کا یہ بھی کرشمہ ہے کہ ایشیا اور افریقہ کے درجنوں ممالک اور قومیں مغربی سامراج کی گرفت سے باہر نکل رہی ہیں اور اپنے رقص و نغمہ کو دوبارہ زندہ کر رہی ہیں۔ بات یہ ہے کہ بے ایمان اور سفاک ہاتھوں میں سیاست گندی، بے ایمان اور سفاک ہو جاتی ہے اور مخلص اور ایمان دار ہاتھوں میں وہ کبیرؔکے الفاظ میں ’’رام کی چیری بن جاتی ہے ‘‘
سردار جعفری کے ان خیالات میں خاصا وزن ہے۔ کبیرؔ کے ہاں مایا کے جال میں پھنسے ہوئے جن لوگوں کا ذکر ملتا ہے، ان کے خلاف وہ بار بار اپنا جذباتی رد عمل ظاہر کرتا ہے جسے مزاحمتی رد عمل کہا جا سکتا ہے۔ اسی طرح جب وہ حرص و ہوس اور دھوکے بازی کے بارے میں کہتا ہے۔
بہت جتن کر کیجئے سب پھل جائے نسائے کبرا سنچے سوم دھن انت چورنے جائے
جل جیوں پیارا ماچھری لوبھی پیارا دام
کامیکرودھی لالچی ان تیں بھگتی نہ ہوئے بھگتی کر لے اس کوئی سورماجات برن کل کھوئے
کبیرؔ کے خیال میں کنجوس دولت مند کتنی ہی دولت جمع کر لے اس کا انجام اچھا نہیں ہوتا جس طرح مچھلی کو پانی پیارا ہے لالچی آدمی کو دولت سے محبت ہوتی ہے۔ شہوت پسند ، غصہ وریا لالچی لوگوں سے بھگتی نہیں ہو سکتی، بھگتی کرنا تو ایسے بہادر کا کام ہے جو اپنی ذات، ورن(برہمن، چھتری وغیرہ ) اور خاندان کو چھوڑ دے تو ہم اسے مزاحمتی اشعار نہیں کہہ سکتے کیونکہ ان میں محض برات کا اظہا رہوا ہے۔ اسی طرح جب کبیرؔ کہتا ہے ۔
ماتھا تلک لگائے کے بھگتی نہ آئی ہاتھ
داڑھی مونچھ مُڑائے کے چلے دُنی کے ساتھ
داڑھی مونچھ مُڑائے کیہوا گھوئم گھوٹ
من کو کیون نہیں موڑیے جا میں بھریا کھوٹ
سادھو بھیا تو کیا بھیا جو نہیں بول بچار
ہے پرائی آتما جیبھ لیے تروار
تو بددطینت لوگ اس کا نشانہ ملامت بنتے ہیں ان لوگوں کے ظاہر اور باطن میں تجاد اسے ایک آنکھ نہیں بھاتا جو لوگ بظاہر مذہبی پیشوا ہیں اگر ان کے باطن برائیوں سے بھرے پرے ہیں یا پھر ان کی زبان تلوار کی طرح چلتی ہے اور لوگوں کے جذبات مجروح کرتی ہے۔ایسے لوگوں کو نشانہ ملامت بنانے والا شاعر یقینا مزاحمت پسند فن کار ہوتا ہے ، اس کی انسان دوستی اس سے ایسے خیالات منظوم کراتی ہے ۔کبیرؔ لوگوں کو خبردار کرتا ہے کہ دھوکے بازوں سے بچو، دھوکے باز کی دوستی انار کی مانند ہے کہ جس کا ظاہر سرخ ہوتا ہے اور باطن سفید۔
کبیرا تہاں نہ جائیے جہاں کپٹ کا ہیت
جانوں کلی انار کی تن راتا من سویت
کبیرؔ اپنے ضمیر کی آواز سننے پر اصرار کرتا ہے کیونکہ اس کے نزدیک وہی شخص ذی فہم اور دانش مند ہوتا ہے جو اپنے ضمیر کی آواز پر کان دھرتا ہے:
سمجھا سوئی جانیے جا کے روے بی بیک
کبیرؔ کے کلام میں انسان دوستی ایک انتہائی مثبت رجحان کے حامل انسان کا پتادیتی ہے کبیرؔ سب کو مساوات کا درس دیتا ہے۔ اس کے نزدیک تمام مخلوقات قابل احترام ہیں۔ دوسروں کا دکھ درد سمجھنے والا ہی بڑا بزرگ ہے انسان دوست ہے۔ وہ شخص جو دوسروں کا دکھ درد محسوس نہیں کرتا وہ بڑا بے رحیم کافر ہے۔
کبرا سوی پیر ہے جو جانے پر پیر
جو پر پیر نہ جانئی سو کافر بے پیر
انسان کے دل و دماغ کے بارے میں کبیر کا یہ کہنا بھی بے مقصد نہیں ہے ۔
من کنجر مہمنت تھا پھرتا گہرِ گنبھیر
دوہری تہیر چوہری پڑ گئی پریم زنجیر
باجگیر کا باندراجیو امن کے ساتھ
نانا ناچ نچائے کری راکھے اپنا ہاتھ
·ایسا دل جو طاقت ورہاتھی کی مانند تھا اور ہر وقت توڑ پھوڑ پر آمادہ رہتا تھا اس پر جب پریم کی دوہری تہری چوہری زنجیر پر گئی تو قابو میں آگیا۔دوسرے شعر میں کبیر لوگوں کو یہ مشورہ دیتا ہے کہ اپنے دماغ کو بازی گر کا بندر مت بننے دو، ورنہ اسی کی انگلیوں پر ناچو گے۔تمہیں اپنے ذہن سے کام لے کر زندگی کو سنوارنا ہے اور خالق حقیقی تک رسائی حاصل کرنی ہے۔
پروفیسر شکیل الرحمن کی رائے میں :
’’کبیرؔ نے انسانی اقدار کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے۔ انسانی اقدار پرا ن کا زبردست اعتماد دنیا کے بڑے انسان دوست دانش وروں اور فن کاروں کی صف میں نمایاں مقام دیتا ہے۔ کبیرؔ کی ہیومنزم تاریکی کو روشنی میں تبدیل کرتی ہے ۔اداسی کو خوشی میں اور مایوسی کو امید اور اعتماد میں بدل دیتی ہے۔‘‘
کبیرؔ کی انسان دوستی مذہب کے نام نہاد رہنماؤں اور پیشواؤں کو پسند نہیں کرتی جو لوگوں کو اپنے استحصالی شکنجوں میں جکڑ لیتے ہیں۔ کبیر کو ایسے لوگ بھی ناپسند ہیں جو دسروں کی خرابیوں پر ہنستے ہیں اور اپنی خامیوں کو نظر انداز کرتے ہیں۔
دوش پرایا دیکھ کے چلے ہنست ہنست
اپنے یاد نہ آؤیں جا کو آدمی نہ انت
یسے کبیر کے خیال میں ہر شخص کے اندر کئی طرح کا نشہ ہوتا ہے جسے جسم کا نشہ (غرور)، دل کا نشہ، ذات کا نشہ اور دولت کا نشہ۔
مدتو بہتک بھانت کاتاہ نہ جانے کوئے
تن مد من جات مد سب لوئے
اگر ناؤ میں پانی بڑھ جائے یا گھر میں دولت تو کبیرؔ کے الفاظ میں
جو جل باڑھے ناؤ میں گھر میں باڑھے دام
دونوں ہاتھ الیچے یہہ سن کو کام
انہیں دونوں ہاتھوں میں بھر بھر پھینکنا چاہیے، یہی اچھے آدمیوں کا کام ہے۔ایسی شاعری اخلاقی شاعری ہے اور اصلاحی شاعری بھی ۔ہم اس قسم کی شاعری کو مزاحمتی شاعری قرار نہیں دے سکتے البتہ ایسی شاعری کو برات اور انسان دوستی کے رجحانات کی حامل شاعری ضرور مانا جا سکتا ہے۔البتہ درج ذیل اشعار میں مزاحمتی روح ہمیں اپنی جھلک دکھلائی ہے۔
سورا سو ای سراہیے رنگ نہ پہرے لوہ
جو مجھے سب بند کھول کے چھانڑے تن کا موہ
کھیت نہ چھانڑے سور ما جو مجھے دو دل مانہہ
آسا جیون مرن کی من میں لاوے نانہہ
گویا بہادر کی تعریف میں کبیرؔ نے اس کے مخالف فوجوں کے خلاف مزاحمتی کردار کو سراہا ہے جسے موت کا خوف نہیں بس اس کے ذہن پر دشمن پر فتح حاصل کرنے کی دھن سوار ہوتی ہے۔
ان اشعار کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ انسان کو راہ سلوک میں جتنی رکاوٹوں اور دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے ان کو خاطر میں نہ لانا چاہیے تاکہ اس کو معرفت مردانہ وار عبادت و ریاضت کرتے رہنا چاہیے تاکہ اس کو معرفت الٰہی نصیب ہو جائے۔
کسی شاعر یا ادیب کا جذبہ چاہیے کتنا ہی شدید ہو، اس کا تقاضائے اظہار شاہیے کتنا ہی زبردست ہواسے الفاظ سے کشتی لڑنی پڑتی ہے۔ ۱۱ لیکن کبیرؔ کے اکثر اشعار کے مطالعے سے یقین نہیں آتا کہ اس کو الفاظ سے کشتی لڑنی پڑتی ہے چنانچہ اس کے قاری کو یوں لگتا ہے کہ ایسے شعر ڈھلے ڈھلائے اور بنے بنائے نوک قلم پر اترتے ہیں۔اس کا بیشتر کلام آمد کا نتیجہ ہے۔
منقولا بالا اشعار اس کے فن کے شاہکار ہیں جو اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ ان کے مافیہ یا مواد پر ہر پہلو سے بار بار غور و فکر کر لیا گیا تھا۔ لہذا یہ بات بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ فن کا کوئی بھی کامیاب شاہکار غیر محتاط اور ادنیٰ تخیل سے پیدا نہیں ہو سکتا۔ ۱۲ چنانچہ کبیرؔکو اردو کا پہلا بڑا شاعر ہی نہیں ، پہلا مزاحمتی شعر کہنے وال شاعر تسلیم کرنے میں بھی کوئی تامل نہ ہونا چاہیے۔ بقول ڈاکٹر انور سدید کبیر محض بھگتی تحریک کا رہنما ہی نہیں بلکہ صحت مند ادبی تحریک کا نقطہ آغاز بھی ہے اور س نے جہاں نچلے طبقے کو بلندی کی طرف مائل کیا وہاں ایک غریب زبان کو بھی تونگری عطا کرنے کی کوشش کی۔ ۱۳
کبیرؔ آاد فکر اور آزاد منش موحد تھا۔ اس کی انسانی دوستی، عوام دوستی اور سماج دوستی قابل تعریف ہے۔ اس نے بدی کے بجائے نیکی کی تلقین کی جسے برات سے تعبیرکیا جا سکتا ہے لیکن جہاں کہیں اس نے بدیکی قوتوں کے خلاف اپنا جذباتی ردِ عمل ظاہر کیا فی الواقع مزاحمتی رد عمل کے علاوہ کچھ نہیں۔
ہر شاعر مزاحمت کا سا بھاری پتھر اٹھا نہیں سکتا اور نہ ہی ہر کوئی مزاحمتی چنگاریاں روشن کر سکتاہے اور پھر کبیر کے عہد تک تو ایسا کچھ کبیر کے سوا کسی سے ممکن نہ ہوا تھا۔قصر تصوف کی بنیادیں عشق و محبت پر قائم ہیں، یہی حال بھگتی تحریک کے پیرؤوں کا تھا کہ عشق و محبت سے اپنے صوفیانہ مراحل طے کرنا چاہتے تھے۔ اسی دوران میں کبیر جیسے بھگت باطل خیالات اور باطل قوتوں کے خلاف اپنا ردعمل مختلف اشاروں، کنایوں اور استعاروں میں بیان کرتے رہے، جو برات سے مزاحمت تک کے سفر پر محیط ہیں۔ شارٹر انسائیکلو پیڈیا آف اسلام کا بیان ہے:
“A study of his poems makes it clean that he had no desire to attach himself to any organised religion. Nor did he attempt to formulate any religious or philosophical system of his own. ” ۱۴
راقم الحروف کے خیال میں کبیرؔ کا مذہب انسان دوستی تھا ہندو یا مسلمان دوستی نہیں !وہ کسی مذہب یا فلسفہ کے دائرے میں مقید نہیں رہ سکتا تھا۔ اس لیے کبیر نے ہندو مسلم مذاہب کی خوب صورتی کوسمو کر اسے عوام کے نام کر دیا۔ کبیر کی شاعری اپنے کلام میں ایک بھگت ، ایک صوفی، ایک عظیم انسان بار بار ظاہر ہوتا ہے۔
تارا چند کے الفاظ ہیں:
“Kabir asked the Hindus to give up ceremonials, sacrifices, lip worship, Brahmin supremacy, caste differences, and untouchability.” ۱۵
جو شخص ہندؤوں کو بے جا رسومات، زبانی کلامی عبادات اور ذات پات کی تقسیم کو ترک کرنے کا درس دیتا ہے اس کے کلام میں کسی بھی مذہب کے پیرؤوں کے غیر انسانی رویوں پر کیونکر ردعمل ظاہر نہ ہوتا؟غیر طبقاتی معاشرے کا قیام ہر ترقی پسند فن کا ر کا خواب رہا ہے جس کی تعبیر پانے کے لیے ہر دور میں کبیر جیسی صفات کی حامل شخصیات مصروف عمل رہی ہیں۔ کبیر ایسے ترقی پسند شاعر نے ایک شعر میں اپنے قارئین و سامعین کو یہ دعوت دی تھی۔
کبیرا کھڑا بیزار میں لیے لکاٹھی ہاتھ
Eجو گھر پھونکے آپنا چلے ہمارے ساتھ
þاور پھر ایک وقت آیا کہ ترقی پسندی جو کبھی ایک صفتِ ادب تھی ایک تحریک بن کر ابھری اور جو شخص اکیلا ہی جانبِ منزل چلا تھا اس کو ہم سفر ملتے گئے اور کارواں بن گیا۔اردو ادب کی ترقی پسندتحریک کا قیام بیسویں صدی کی تیسری دہائی (1935 ء)میں عمل میں لایا گیا جب کہ اردو ادب میں پہلا ترقی پسند شاعر کبیر اس سے تقریباً پانچ سو برس پہلے (پ 1435 ء) اپنے ترقی پسند افکار کا ابلاغ و اظہار کر چکا تھا۔
حوالہ جات
1۔محمود اختر شیروانی۔ حافظ، پنجاب میں اردو ، ص 204 ، مکتبہ معین الادب لاہور طبع دوم : س ن
2۔جمیل جالبی ڈاکٹر،تاریخ ادب اردو جلد اول، ص 43 ، مجلس ترقی پسند ادب لاہور طبع سوم دسمبر 87ء
3۔علی سردار جعفری نے غالبؔ، میرؔ اور اکبیرؔ پر اپنی کتاب کا نام ہی ’پیغمبران سخن‘ رکھا ہے۔
4-The New Encyclopaedia Britannica, 15th … , P 78 6Printed in U.S.A, 1974.
5- ibil,p 788
6۔حالیؔ مولانا الطاف حسین، مقدمہء شعر و شاعری مرتبہ ڈاکٹر وحید قریشی ،ص142 ، مکتبہ جدید لاہور، پہلی بار 1953ء
7۔جمیل جالبی ڈاکٹر ، تاریخ ادب اردو جلد اول ، ص45-46
8 ۔شکیل الرحمن پروفیسر، کبیر ، ص 7 ، عرفی پبلی کیشنز گوڑ گاؤں پہلی بار ، 1997ء
9۔علی سردار جعفری، ترقی پسند تحریک کی نصف صدی، ص 84-85 ، مکتبہ ء خلیل لاہور نومبر 1985ء
10۔شکیل الرحمن ، کبیر ، ص 100
11۔ہادی حسین، مغربی شعریات، ص371، مجلس ترقی ادارہ لاہور طبع اول، مارچ 1868ء
12۔احمد صدیق مجنوں، تاریخ جمالیات جلد دوم، ص122، انجمن ترقی اردو ہند علی گڑھ ، بار دوم، جنوری 1959ء
13۔انور سدید، ڈاکٹر، اردو ادب کی تحریکیں، ص157 ، انجمن ترقی اردو پاکستان کراچی، اشاعت دوم، 1991ء
14- Shorter Encyclopaedia of Islam , H. A. R. Gibb J. H. Kramers ed; P 199, Leiden, E. J. Brill, Netherlands, 1953
15- Tara Chand, Influence of Islam on Indian Culture , P/63, Book Traders, Lahore 1st, Pakistni ed. 1979.