(Last Updated On: )
کبھی رخ دکھاؤ ذرا دھیرے دھیرے
یوں نظریں ملاؤ ذرا دھیرے دھیرے
یہ ہے پھول کلیوں کے کھلنے کا موسم
اگر مسکراؤ ذرا دھیرے دھیرے
سماویہ نے چٹخارے لے لے کر یہ مزدار قصہ سب کو سنایا تھا اب تو ندرت نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ اس لمبے چوڑے جاذب نظر لڑکے کی توجہ سو فیصد آمنہ کی طرف تھی۔ انہوں نے صرف آثیر کی توجہ ہی محسوس کی تھی آمنہ کی بے زاری انہیں نظر نہیں آئی تھی پہلے وہ شاید یقین نہ کرتی پر اب سماویہ کی دلائل ایسے تھے کہ انہیں یقین کرنا پڑا۔
انہوں نے اس کا ذکر جیٹھانی اور دونوں دیورانیوں سے بھی کر دیا۔ بظاہر اس چھوٹی سی بات کو خوب بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔
نور افشاں آمنہ کی ماں تھیں انہیں یہ بات ہضم نہیں ہو رہی تھی لیکن انہوں نے بیٹی سے کوئی سوال نہیں کیا انہیں اپنی تربیت پر بھروسا تھا اور پھر شادیوں میں ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں لڑکے لڑکیوں پر توجہ دیتے اور آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اکثر اوقات معاملہ یک طرفہ ہی رہتا ہے آمنہ سلجھی ہوئی با شعور لڑکی تھی آج تک اس کے بارے میں کوئی ایسی بات سننے میں نہیں آئی تھی۔ ندرت نے کھوجنے والے انداز میں یہ بات انہیں بتائی تھی کہ شادی میں دلہا کا ایک عزیز آمنہ میں دلچسپی لے رہا تھا نور افشاں ادھر ہی خاموش ہو گئی تھیں۔
حافظ اسرار کے گھر والوں کو وہ حتمی جواب دینے کے بارے میں سوچ رہی تھی عباس بھی راضی تھے بظاہر اس رشتے میں کوئی خرابی نہیں تھی۔ لڑکا بھی آمنہ کی طرح با کردار اور مہذب تھا۔
حافظ اسرار کے گھر والوں نے جواب لینے کے لیے آنا تھا اس نے ایک فرمانبردار بیٹی کی طرح معاملہ والدین کی مرضی پر چھوڑ دیا تھا۔ آمنہ عباس کی لاڈلی تھی اپنے تینوں بچوں میں انہیں یہ بیٹی سب سی زیادہ عزیز تھی. وہ اسے اپنے لیے خدا کا انعام قرار دیتے تھے اور اس پر فخر بھی کرتے آمنہ نے بھی ہمیشہ ان کے اس فخر کا مان رکھا تھا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ گھر داری میں مگن تھی. نور افشاں کی ٹانگ ٹوٹی تو اس نے خدمت گزاری میں دن رات ایک کر دیا اس کی کوشش ہوتی کہ امی کے تمام کام وہ خود کرے بھابی کو زحمت نہ دے اس وجہ سے ثمامہ بھی خوش تھی۔
حافظ اسرار کی والدہ نے ندرت کے گھر ایک تقریب میں آمنہ کو دیکھا تھا تب سے وہ ان کے دل کو بھا گئی تھی اپنے بیٹے اسرار کے لیے وہ انہیں ہر لحاظ سے مناسب لگی تھی انہیں پورا یقین تھا عباس مان جائیں گے ان کا یہ یقین بے جا نہیں تھا۔
سماویہ نے باتوں باتوں میں آثیر کے حوالے سے آمنہ پر طنز کیا تو اسے بے حد غصہ آیا۔ رمنا بھی میکے آئی ہوئی تھی آمنہ نے سارا غصہ اس پر اتار دیا۔ اس نے گھر آ کر فرحان سے آثیر کی شکایت کی۔ فرحان آثیر سے جا پہنچا اس بات کو چھ روز گزر گئے تھے پھر نہ آثیر اسے ملا نہ فون پر بات ہوئی. فرحان نے کال کی اس کا نمبر آف تھا۔
اویس اور حسان فرحان سے فون کرکے اس کے بارے میں پوچھ رہے تھے اس کا نمبر کبھی بند نہیں ملا تھا آثیر ٹریول ایجنسی چلا رہا تھا۔ اویس اور فرحان سیدھے اس کے آفس جا پہنچے وہ وہاں بھی نہیں تھا اس کے سیکریڑی سے پتا چلا کہ وہ پانچ دن سے آفس آہی نہیں رہا ہے۔ مزید اسے کچھ نہیں پتا فرحان اور اویس اب سچ مچ پریشان تھے۔
” چلو گھر چلتے ہیں آثیر کے پاس ۔” اویس نے تجویز دی تو فرحان نے ادھر سے ہی گاڑی موڑ لی۔ فرحان نے گاڑی آثیر کے گھر کے سامنے روکتے ہوئے ہارن دیا تو چوکیدار نے گیٹ کھولا۔
” سلام صاحب!” چوکیدار نے زوردار آواز میں سلام جھاڑا۔
” وعلیکم السلام! تمھارے صاحب کہاں ہیں؟” فرحان نے چوکیدار کے سلام کا جواب دیتے ہوئے آثیر کے بارے میں سوال کیا۔
” صاحب! چھوٹے صاحب تو بیمار ہیں۔” اس اطلاع پر فرحان اویس کا منہ تکنے لگا۔
یاسر بھائی تو گھر پر نہیں تھے البتہ ان کی بیگم عمارہ گھر پر تھیں انہوں نے دونوں کو آثیر کے بیڈ روم تک پہنچا دیا۔ آثیر فرحان کا خالہ زاد بھائی تھا فرحان اس کے بہت قریب تھا دونوں پل پل ایک دوسرے کی مصروفیات سے آگاہ رہتے تھے۔ آج پہلی بار فرحان کو اپنی بے پروائی پر غصہ آیا۔
شام ڈھل رہی تھی پر آثیر کے کمرے کی لائٹ بند تھی۔ کھڑکیوں کے پردے موسم کی خنکی کے باعث گرے ہوئے تھے اندر کمرے میں مکمل طور پر اندھیرا تھا۔ فرحان نے آگے بڑھ کر لائٹ جلائی لائٹ جلنے اور دروازہ کھلنے کی آواز پر الٹا لیٹا آثیر کسمسایا اور پھر اٹھ بیٹھا اس کی آنکھیں بے پناہ سرخ تھی پپوٹے بھی سرخ اور بھاری لگ رہے تھے۔ اویس اور فرحان پریشان ہو گئے۔ وہ ہمیشہ نک سک سے تیار خوشبو میں بسا اپنی دلنشین مسکراہٹ سمیت ملتا۔اس کی خوش لباسی مشہور تھی چھ دن کی بڑھی شیو میں وہ پہلے والا لگ ہی نہیں رہا تھا۔ سگریٹ کو اس نے کبھی ہاتھ تک نہیں لگایا تھا پاس پڑی ایش ٹرے بتا رہی تھی کہ اس نے بے دردی سے دل کھول کر سگریٹ نوشی کی ہے۔
” کیا حال بنا رکھا ہے۔” فرحان نے حیرانگی سے پوچھا۔
” ناراض ہو ہم سے کوئی بات بری لگ گئی ہے؟” اویس بھی قدرے حیران تھا۔
“ارے نہیں ناراضگی کیسی؟” پھیکی سی مسکراہٹ اس کے لبوں پر آ کے معدوم ہو گئی۔
” پھر یہ کیا حال بنا رکھا ہے تم نے؟”
” کیوں کیا ہوا میرے حال کو ل۔” اس نے الٹا اویس سے سوال کیا۔
” مجنوں لگ رہے ہو پورے۔” جواب میں آثیر خاموش ہی رہا۔ اتنے میں عمارہ بھابی چائے کے ساتھ دیگر لوازمات ٹرے میں سجائے ادھر ہی آ گئیں۔
” دو دن پہلے اس کی طبیعت بہت خراب تھی رات بھر تیز بخار رہا مگر ڈاکٹر کے پاس نہیں گیا۔ اوپر سے اسموکنگ شروع کر دی ہے تم لوگ پوچھو کیا پرابلم ہے اس کو ؟ میں اور یاسر تو پوچھ پوچھ کر تھک گئے آنٹی نے واپس آ کے دیکھا تو یہی کہیں گی ہم نے آثیر کا خیال نہیں رکھا۔”
” بھابی آپ پریشان نہ ہو میں پوچھتا ہوں۔” فرحان نے انہیں تسلی دی تو وہ چلی گئیں پھر اویس نے کمرے کا دروازہ بند کر دیا۔
” ہاں اب بتاؤ آثیر! کیا چکر ہے جس کی وجہ سے تم نے اپنا یہ حال بنایا ہوا ہے۔” فرحان کافی سنجیدہ تھا۔
” کہیں محبت کا چکر تو نہیں ہے؟” اس بات پر آثیر اور بھی سنجیدہ نظر آنے لگا۔
اس نے اتنے دنوں کی الجھن اور پریشانی کی وجہ بتا دی وجہ بڑی رنگین تھی اور وہ تھی آمنہ۔
” تمہیں بھی محبت ہو گئی ہے میں تو تھوڑی دیر پہلے تک یہی سمجھتا رہا کہ تم صرف دل لگی کر سکتے ہو محبت نہیں۔ تم نے تو حیرت انگیز خبر دی ہے ہر لڑکی کو فضول ہے کہہ کر ٹھکراتے رہے اور یہ سب کیا ہے؟” اویس نے اسی کا کہا لوٹایا۔
” وہ بہت خاص ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔” اویس اور فرحان ہنستے چلے گئے یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ جملہ آثیر کے منہ سے نکلاہے ۔ ایک سے ایک طر حدار خوب صورت اور شوخ لڑکی کے بارے میں اس کی رائے یہی ہوتی کہ عام سی ہے۔ لڑکیوں کو اپنی طرف متوجہ کرنا اس کے لیے کبھی بھی مسئلہ نہیں رہا تھا۔ اس کی باتوں اور شخصیت سے صنف نازک امپریس ہو جاتی تھی۔ آثیر ایک حد سے آگے نہیں جاتا تھا معاملات دل لگی تک ہی تھے اس نے اپنے دل کی گہرائیوں میں کسی کو جھانکنے نہیں دیا تھا۔
ایک دم سے جانے کیا ہوا تھا کہ وہ خود سے کسی کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہو گیا تھا رات سونے کے لیے لیٹتا تو دو خائف سی شکایتی آنکھیں ذہن کے دریچے پر دستک دینے لگتیں. فرحان اس کی شکایت لے کر آیا تب سے وہ ڈسٹرب تھا فی الحال کوئی راز دار نہیں تھا۔ بات ہی ایسی تھی ناقابل یقین. کہاں وہ کہاں آمنہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آثیر کے حلقہ احباب میں ایک سے ایک طر حدار اور شوخ لڑکی تھی آمنہ ان سے بالکل الٹ تھی اور اب آثیر اپنے منہ سے اقرار کر رہا تھا کہ کچھ خاص ہے اس میں۔
” کہیں یہ وقتی جذبہ تو نہیں ہے۔” فرحان مشکوک تھا جواب میں وہ بے بسی سے دیکھ کر رہ گیا۔
” رمنا نے اس کے بارے میں کافی کچھ بتایا ہے وہ بہت سنجیدہ اور سلجھے کردار کی لڑکی ہے۔ تمہاری فرینڈز سے بالکل محتلف۔”
” مجھے پتا ہے تب ہی تو کہا ہے کہ بہت خاص ہے وہ۔”
” رمنا کل ہی میکے سے واپس آئی ہے پرسوں آمنہ کے گھر ہماری دعوت ہے۔ رمنا نے بتایا تھا کہ بہت اچھا رشتہ آیا ہے آمنہ کے لیے۔ اس کی فیملی بھی تقریبا راضی ہے مگر ابھی تک باقاعدہ رضامندی نہیں دی گئی ہے۔ تم اگر واقعی سیریس ہو تو خالہ سے بات کرو تمہارا پرپوزل لے جائیں۔”
فرحان نے اسے چیک کرنے کے لیے دانستہ آمنہ کے لیے آئے رشتے کا بتایا جسے سن کر آثیر اور بھی پریشان نظر آنے لگا۔ تیر نشانے پر بیٹھا تھا آثیر کے لیے دل لگی واقعی دل کی لگی بن گئی تھی۔ یہ آج کی حیرت انگیز خبر تھی کہ آثیر جیسا نوجوان بھی کیوپڈ کے تیر کا شکار ہو سکتا ہے۔ جو صنف نازک کے ساتھ پائیدار جزبے کا قائل ہی نہیں تھا اپنی فرینڈز کو اس نے فرینڈشپ تک ہی محدود رکھا تھا۔ وہ ہی محبت دھیمی دھیمی آگ میں سلگ رہا تھا۔
یہ تو محبت کی پہلی سیڑھی پر پاؤں دھرنے والا الجھا الجھا سا آثیر تھا. ابھی وہ ملی بھی نہیں تھی کہ اس کو کھانے کا دھڑکا لگ گیا تھا فرحان نے اس کے لیے آئے رشتے کی بات کر کے اسے اور بھی پریشان کر دیا تھا. وہ ” عام سی لڑکی” اس کے لیے بہت خاص بلکہ خاص الخاص بن گئی تھی۔
اسے یاد کرتے ہی دل میں یہ تصور پختہ ہو جاتا تھا
تم کو معلوم تو ہو گی یہ کرامت اپنی
سنگ مرمر پر دھرو پاؤں تو مخمل کر دو
آمنہ بڑھے دھڑلے سے پوچھے بغیر اس کے دل کے سنگھاسن پر براجمان ہو گئی تھی وہ اپنی ہار ماننے سے خوفزدہ تھا۔
وہ دوستوں کی محفل میں ببانگ دہل کہتا تھا محبت کروں گا تو ٹھونک بجا کے کروں گا اب اسے ہنسی آتی اب جب دوستوں کو یہ بات پتا چلنے والی تھی سب نے اسے طرح طرح کے سوال کرنے تھے۔ ” کون ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کون ہے۔۔۔۔۔۔۔۔کیسی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دیکھنے میں کیسی لگتی ہے؟” وہ کیا جواب دے گا۔
پہلی بار اسے اپنے خیالات کے برعکس شکست ہوئی تھی اس کے آئیڈیلزم کا بت آمنہ کے ہاتھوں چکنا چور ہوا تھا۔
“ہمارے لہجے میں یہ توازن بڑی محنت کے بعد آیا
کئی مزاجوں کے دشت دیکھے کئی رویوں کی خاک چھانی”
عباس صاحب کے ہاں دعوت بڑی پر لطف رہی فواد بھی شریک محفل تھا۔ فرحان سب سے مل کر بہت خوش تھا واپسی پر فرحان نے خود ہی آمنہ کے لیے آئے رشتے کا ذکر چھیڑ دیا وہ اس بارے میں پیش رفت سے آگاہ ہونا چاہتا تھا۔
” چچا جان کو بتانے میں حرج نہیں تھا اس نے رک رک کر آثیر کی واردات قلبی سے اسے بھی آگاہ کر دیا. رمنا کو آمنہ کا غصہ اور شکوہ یاد آ گیا۔
” میرا نہیں خیال کہ آمنہ آثیر بھائی کے لیے دل میں نرم جذبہ رکھتی ہے اگر ایسا ہوتا تو وہ کبھی مجھ سے شکایت نہ کرتی۔ سماویہ نے تو اسے اچھا خاصا بدنام کر کے رکھ دیا ہے رائی کا پہاڑ بن گیا ہے اور آپ کے دوست آثیر ان پر حیرت ہوتی ہے ہماری شادی میں آمنہ کو دیکھ کر محبت کرنے لگے نہ کوئی بات ہوئی نہ ملاقات اور ایک نظر میں ہی محبت ہو گئی۔” رمنا کا انداز اچھا خاصہ طنزیہ تھا فرحان تڑپ ہی تو گیا۔
” یہ کوئی بزنس یا سودا تو نہیں ہے مجھے آثیر کا پتا ہے وہ محبت وغیرہ کو فضول تصور کرتا تھا اس جذبے پر اس کا زیادہ یقین نہیں تھا مگر کبھی کبھی انہونی بھی ہو جاتی ہے۔”
” میرا دل یہ بات نہیں مانتا ہے آپ نے ہی تو بتایا تھا کہ ان کی دوستی بہت سی لڑکیوں سے ہے اور ان میں سے کچھ آثیر بھائی کے معاملے میں سیریس بھی ہیں۔”
” میں سب کے بارے میں جانتا ہوں آثیر ان میں سے کسی کے ساتھ بھی سیریس نہیں ہے اس موضوع پر میری کتنی بار آثیر سے بات ہوئی ہے ایسا کچھ نہیں ہے صرف دوستی اور وقتی دل لگی ہے۔”
” بہت خوب آثیر بھائی آمنہ کو بھی دل لگی کا ذریعہ سمجھ بیٹھے ہیں۔” فرحان کی بات پر رمنا غصے میں آگئی۔
” اگر وہ سنجیدہ ہیں تو سیدھے طریقے سے پرپوزل دیں یوں کسی لڑکی کو بدنام تو نہ کریں۔”
” او کے یہ بھی ہو جائے گا میں جا کر آج ہی بات کرتا ہوں خالہ جان تو سعودیہ میں ہیں جانے انہیں آنے میں کتنا ٹائم لگے لیکن میں بات کرتا ہوں۔ آثیر کو میں خود سے بھی زیادہ جانتا ہوں اس بار شکست اسے برداشت نہیں ہو گی۔”
فرحان قدرے پریشان نظر آنے لگا رمنا بھی خاموش تھی۔
باقی کا سفر خاموشی سے طے ہوا گھر آ کر رمنا کے سامنے فرحان نے آثیر کو فون کیا۔
” تم خالہ جان کو فون کر کے بتا دو۔” وہ چھوٹتے ہی بولا تو آثیر الجھ سا گیا۔
” کس کا بتا دوں؟”
” آمنہ کے بارے میں بتا دو اس کے والدین نے اگر ایک بار حافظ اسرار کے گھر والوں کو ہاں کر دی تو تم ساری عمر دیکھنا پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” جانے کیوں فرحان اتنا تلخ ہو رہا تھا۔ وہ آثیر پر خوب گرجا برسا۔
” میں پہلے بھابی اور یاسر بھائی سے بات کروں گا پھر مما پاپا کو کال کرکے بتاتا ہوں۔” آثیر نے عجلت میں فون بند کر دیا۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
” نہ دیپ ہے نہ سخن اب نہ حرف ہے نہ بیاں
کوئی بھی حیلہ تسکین نہیں اور آس بہت ہے
امید یار نظر کا مزاج درد کا رنگ
تم آج کچھ بھی نہ پوچھوں کہ دل اداس بہت ہے “
آثیر اسٹریٹ فارورڈ تھا لگی لپٹی رکھے بغیر اپنی بات کہنے والا یہاں تو معاملہ پھر دل کا تھا اسے یاسر بھائی اور عمارہ بھابی سے بات کرنے میں کوئی مشکل پیشں نہیں آئی۔
” آپ جا کر بات کریں آمنہ کے والدین سے ایسا نہ ہو کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” وہ کچھ کہتے کہتے رک گیا تو عمارہ نے معنی خیز نگاہوں سے یاسر کی طرف دیکھا۔ وہ بھی شادی میں شریک ہوئی تھیں پر آمنہ کون سی لڑکی تھی یہ انہیں معلوم نہیں تھا۔
انہیں بھی اس لڑکی کو دیکھنے کا شوق تھا جس نے آثیر کو چاروں شانے چت کر دیا تھا اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ ابھی انہیں آمنہ کے گھر بھیج دیتا۔
مگر یہ کام بھی تو ایک ضابطے کے تحت ہونا تھا افروز آنٹی ملک سے باہر تھیں عمر علوی کی رائے لینا بھی ضروری تھا یاسر نے سب سے پہلے سعودیہ فون کرکے مما اور پاپا کو سب کچھ بتایا۔ مما نے کہا کہ مجھے لڑکی کی تصویر میل کر دو یاسر کے پاس ہوتی تو کرتا۔ پاپا نے کہا تھا کہ ٹھیک ہے تم عمارہ کو لے کر چلے جاؤ آخری فیصلہ ہمارے آنے کے بعد ہو گا۔