(Last Updated On: )
عبداللہ جاوید
کبھی پیارا کوئی منظر لگے گا
بدلنے میں اسے دم بھر لگے گا
نہیں ہو تم تو گھر جنگل لگے ہے
جو تم ہو ساتھ جنگل گھر لگے گا
ابھی ہے رات باقی وحشتوں کی
ابھی جاؤگے گھر تو ڈرلگے گا
کبھی پتھر پڑیں گے سر کے اوپر
کبھی پتھرکے اوپر سر لگے گا
درودیوار کے بدلیں گے چہرے
خود اپنا گھر ‘پرایالگے گا
چلیں گے پاؤں اس کوچے کی جانب
مگر الزام سب دل پر لگے گا
ہم اپنے دل کی بابت کیا بتائیں
کبھی مسجد کبھی مندر لگے گا
اگر تم مارنے والوں میں ہو گے
تمہارا پھول بھی پتھر لگے گا
کہاں لے کر چلوگے سچ کا پرچم
مقابل جھوٹ کا لشکر لگے گا
زمیں کو اور اونچا مت اٹھاؤ
زمیں کا آسماں سے سر لگے گا
جو اچھے کام ہوں گے اُن سے ہوں گے
بُرا ہرکام اپنے سر لگے گا
سجاتے ہو بدن بے کار جاویدؔ
تماشہ روح کے اندر لگے گا