وہ لوگ باورچی خانے میں بیٹھے کسی ربوٹ کی طرح کھانا کھارہے تھے، انہوں نے جج وارگریو کو اوپر ان کے بستر پر لٹادیا تھا۔ چاروں کے درمیان خاموشی چھائی ہوئی تھی۔
’’آخر جج کو اتنی جلدی اور اچانک کیسے ماردیا گیا۔‘‘ ڈاکٹر آرم اسٹورنگ ہلکے سے بڑبڑایا۔
’’جیسے باقی سب کو ایک دم اور اچانک مارا گیا ہے۔ بس اس دفعہ مسٹر یو این اوین نے ہم سب کا دھیان بٹا کریہ کام کیا۔ مس ویرا کے کمرے میں اس نے سمندری پودے کی بیل لگادی تاکہ وہ ڈر جائیں اور ہم سب اس کی مدد کو بھاگیں اور اسی افراتفری میں وہ بوڑھے جج کا کام تمام کردے‘‘۔ لمبورڈ کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کسی طرح قاتل کو کچا چبا جائے۔
’’تو پھر کسی نے گولی چلنے کی آواز کیوں نہیں سنی؟‘‘ بلور اپنا سر پکڑے بیٹھا تھا۔
’’مس ویرا پوری شدت سے چیخ رہی تھیں۔ باہر بارش تیز ہواؤں کے ساتھ زور و شور سے برس رہی تھی۔ ہمارا پورا دھیان مس ویرا کی طرف تھا۔ اس لیے اگر کسی نے گولی چلنے کی آواز بھی سنی ہوگی تو دھیان نہیں دیا گیا۔‘‘ ایک بار پھر وہ سب خاموش ہوگئے۔
’’اف! میں جارہی ہوں سونے۔‘‘ اس بار بھی ویرا سب سے پہلے اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’چلو سب ایک ساتھ ہی چلتے ہیں۔‘‘ آرم اسٹورنگ اور لمبورڈ بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔
’’میں سوچ رہا ہوں کہ قاتل نے وہ پسٹل اب کہاں رکھی ہوگی۔‘‘ بلور سب سے آخر میں پرسوچ انداز میں کہتا ہوا اوپر کی طرف بڑھ گیا۔
کیپٹن لمبورڈ نے اپنے کمرے کا دروازہ لاک کرکے سکون کا سانس لیا۔ موم بتی کی روشنی میں اس نے آئینہ میں اپنے چہرہ کا جائزہ لیا اور گھڑی اتارنے لگا۔ گھڑی اتار کر اس نے ہاتھ میں پکڑی اور بیڈ پر آکر بیٹھ گیا۔
وہ ہمیشہ اپنی گھڑی بستر کے برابر والی میز کی دراز میں رکھتا تھا۔ آج بھی اس نے دراز کھولی تو ایک ہلکی سی حیرت بھری چیخ اس کے منہ سے نکلی۔ اس کی پسٹل دراز میں واپس موجود تھی۔
سابق انسپکٹر بلور اپنے بستر پر الرٹ بیٹھا تھا۔ اس کا سونے کا کوئی ارادہ نہ تھا۔ اس کے ذہن میں مختلف سوچیں گردش کررہی تھیں۔ جب نیچے ہال میں لگے گھڑیال نے ایک بجایا تو بلور بستر پر نیم دراز ہوگیا اور آنکھیں بند کرلیں۔ طوفان کا زور ٹوٹ گیا تھا اور بنگلے میں ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ اچانک بلور چونک کر اٹھ بیٹھا۔ اسے اپنے کمرے کے دروازے کے باہر کسی کے آہستہ آہستہ چلنے کی آواز آئی۔ بلور بالکل آہستگی سے اپنے بستر سے اترا اور دروازے کے پاس آکر اس سے کان لگادیے۔ کافی دھیان سے سننے کے باوجود اس کو دوبارہ کوئی آواز نہیں آئی۔
’’کون تھا یہ؟‘‘ بلور کے ماتھے پر پسینہ آگیا۔ جو رات کے اس وقت چپکے چپکے راہ داری میں چل رہا تھا۔ یہ سوچ کر بلور کے رونگٹے کھڑے ہوگئے کہ باہر قاتل موجود ہوسکتا ہے لیکن پھر اس کی رگ تفتیش خوف پر غالب آگئی۔ اس کا دل باہر جا کر دیکھنے کے لیے مچل اٹھا لیکن کیا اس وقت اپنے کمرے کا حفاظتی حصار چھوڑ کر باہر نکلنا بے وقوفی نہیں ہوگی۔ ہوسکتا ہے قاتل یہی چاہ رہا ہو کہ بلور باہر نکلے اور اس پر حملہ کردے۔ بلور ابھی اسی غور و فکر میں مبتلا تھا کہ اسے قدموں کی آواز دوبارہ سنائی دی۔
بلور نے مزید انتظار نہیں کیا۔ وہ پنجوں کے بل چلتا چھوٹی میز کے پاس آیا اور موم بتی کے ساتھ ماچس اٹھا کر اپنی جیب میں ڈال لی، پھر میز پر رکھے لیمپ کا تار سوئچ سے نکالا اور اسے ہاتھ میں ہتھیار کے طور پر پکڑلیا۔ پھر انتہائی خاموشی سے دروازہ کھول کر باہر نکل آیا۔ چاند کی روشنی کھڑکی کی جالیوں سے چھن چھن کر سیڑھیوں پر پڑ رہی تھی۔ اسی روشنی میں اسے گھر کے مرکزی دروازے سے باہر نکلتے ہوئے کسی شخص کی جھلک نظر آئی۔ وہ فوراً اس کے پیچھے لپکا۔ اچانک وہ سیڑھیوں کے وسط میں پہنچ کر رک گیا۔ اُف وہ کتنی بڑی بے وقوفی کرنے جارہا تھا۔ اس طرح رات کے اندھیرے میں اندھا دھن کسی شخص کے پیچھے بنگلے سے نکلنا بے وقوفی نہ تھی تو کیا تھا۔ اس کے ذہن میں ابھی ابھی خیال آیا کہ وہ اب صرف 4 لوگ بچے ہیں۔ بلور خود، لمبورڈ، مس ویرا، ڈاکٹر آرم اسٹورنگ۔۔۔ جو کوئی بھی اس وقت باہر گیا ہے اس کا کمرہ خالی ہوگا۔ اگر بلور ابھی جا کر چیک کرلے تو اسے پتا چل جائے گا کہ چوری چھپے باہر نکلنے والا کون تھا۔
بلور یہ سوچ کر الٹے قدموں واپس مڑ کر اوپر آگیا۔ راہ داری میں سب سے پہلے بلور کا اپنا کمرہ تھا اس کے بعد ڈاکٹر آرم اسٹورنگ کا۔ بلور نے زور زور سے اس کا دروازہ بجایا لیکن ڈاکٹر کے کمرے سے کوئی جواب نہ ملا۔ اس نے تھوڑی دیر انتظار کیا پھر لمبورڈ کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
’’کون ہے؟‘‘ اس کے کھٹکھٹاتے ہی لمبورڈ نے جواب دے دیا۔
’’میں ہوں بلور! سنو لمبورڈ میں نے ابھی ابھی ڈاکٹر آرم اسٹورنگ کو گھر سے باہر جاتے دیکھا ہے، وہ کمرے میں موجود نہیں ہے ۔‘‘ اس لمحہ لمبورڈ موم بتی پکڑے کمرے سے باہر آگیا۔ اسے دیکھتے ہی لمبورڈ نے ساری تفصیل تیزی سے اسے سنادی۔ اس بار لمبورڈ نے آرم اسٹورنگ کا دروازہ بجایا لیکن آرم اسٹورنگ کا کوئی جواب نہ ملا۔ اس کا دروازہ باہر کی جانب سے بند تھا۔
’’چلو آؤ! اس کے پیچھے چلیں۔ اس بار ہم اسے ہاتھ سے نکلنے نہیں دیں گے۔‘‘ لمبورڈ جوش میں آگیا۔ جاتے جاتے وہ لوگ ویرا کے کمرے تک آگئے۔
’’مس ویرا! مس ویرا‘‘
’’کون؟ کیا ہوگیا؟‘‘ ویرا نے فوراً گھبرائی ہوئی آواز میں جواب دیا۔
’’سنو! میں اور بلور ڈاکٹر آرم اسٹورنگ کو ڈھونڈنے جارہے ہیں کیوں کہ وہ اپنے کمرے میں موجود نہیں ہے۔ چاہے کچھ بھی ہوجائے آپ اپنے کمرے سے نہیں نکلیے گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘ ویرا نے جواب دیا۔
’’اگر آرم اسٹورنگ آکر کہے کہ میں یا بلور مرگئے ہیں ہرگز یقین نہیں کریے گا۔ اپنا دروازہ ٹھیک سے بند کرلیں اور جبھی باہر آئیے گا جب میں یا بلور آپ کو بلائیں؟‘‘
’’ہاں ہاں سمجھ گئی۔‘‘ ویرا شاید جھنجھلا گئی تھی جب کہ لمبورڈ اور بلور سیڑھیوں کی جانب بڑھ گئے۔
’’ہمیں بہت محتاط رہنا ہوگا کیوں کہ آرم اسٹورنگ کے پاس پسٹل موجود ہے۔‘‘ بلور دو سیڑھیاں ایک ساتھ اتر رہا تھا۔ لمبورڈ جواباً ہنس پڑا۔ یہ تمہاری غلط فہمی ہے دوست۔‘‘ مرکزی دروازہ کھولتے ہوئے اس نے اپنے چہرے کا رخ بلور کی جانب کیا۔ ’’مسٹر اوین نے جج کا کام تمام کرنے کے بعد پسٹل میری دراز میں واپس پہنچادی تھی اور وہ اس وقت میری جیب میں ہے۔‘‘ بلور کے بڑھتے ہوئے قدم فوراً رک گئے۔ اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا جو لمبورڈ کی تیز آنکھوں سے چھپ نہ پایا۔
’’احمق مت بنو بلور۔ اس وقت میرا تمہیں گولی مارنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے لیکن پھر بھی اگر تمہیں مجھ پر شک ہے تو جاؤ واپس اپنے کمرے میں جا کر بند ہوجاؤ۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں کیوں کہ اس وقت تمہارے شکوک و شبہات دور کرنے کے بجائے آرم اسٹورنگ کو ڈھونڈنا زیادہ ضروری ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا باہر نکل گیا۔ بلور ایک منٹ تک اسے جاتا دیکھتا رہا پھر تھوڑا ہچکچا کر اس کے پیچھے نکل کھڑ اہوا کیوں کہ ایک سابق پولیس انسپکٹر ہونے کے ناطے وہ خطروں سے کھیلنے کا عادی تھا
اوپر کمرے میں بیٹھی ویرا دو تین بار اپنے دروازے کا جائزہ لے چکی تھی جو کہ مضبوط لکڑی سے بنا ہوا تھا۔ ویرا نے اس کی کنڈی چڑھا کر لاک لگادیا تھا اور ساتھ میں ایک بھاری کرسی بھی اس کے ساتھ ٹکادی تھی۔ اسے یقین تھا کہ آرم اسٹورنگ کیا لمبورڈ جیسا مضبوط جسم کا مالک بھی اس دروازے کو توڑ نہیں سکتا۔ ڈاکٹر آرم اسٹورنگ کو اگر ویرا کو کمرے سے نکالنا بھی ہوا تو وہ کوئی اور حربہ استعمال کرے گا۔ شاید وہ وہی کہے کہ بلور اور لمبورڈ مرگئے ہیں۔ یا وہ کہے کہ گھر میں آگ لگ گئی ہے یا پھر وہ واقعی آگ لگا دے اور مجبوراً ویرا کو باہر نکلنا پڑے۔۔۔ ویرا بہت دیر تک مختلف باتیں سوچتی رہی۔ اچانک اسے لگا کہ باہر کوئی چل رہا ہے۔ اس نے غور سے سنا لیکن اسے کوئی آواز نہیں آئی تو اپنا سر جھٹک کر وہ دوبارہ سوچنے میں مگن ہوگئی۔
تھوڑی دیر بعد اسے واضح طور پر نیچے والے گھر سے چلنے پھرنے اور بولنے کی آوازیں آنے لگیں۔ دروازے کھل بند ہورہے تھے۔ کوئی جیسے کچھ تلاش کررہا تھا۔ آخر کافی دیر بعد اس کے دروازے کے باہر لمبورڈ کی آواز ابھری۔
’’مس ویرا! آپ ٹھیک ہیں؟‘‘
’’ہاں! کیا ہوا؟ آرم اسٹورنگ ملا۔‘‘ اس نے بے چین ہو کر پوچھا۔
’’کیا آپ دروازہ کھولیں گی؟‘‘ اب کی بار بلور نے کہا۔ جواباً ویرا نے دروازہ کھول دیا۔ وہ دونوں باہر کھڑے بری طرح ہانپ رہے تھے اور ان کے جوتوں اور پائنچوں پر ریت اور کیچڑ لگا ہوا تھا۔
’’کیا ہوا؟‘‘ ویرا نے پریشانی سے دونوں کو اوپر سے نیچے دیکھا۔
’’آرم اسٹورنگ غائب ہوگیا ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’آرم اسٹورنگ جزیرے پر سے ایسے غائب ہوچکا ہے جیسے گدھے کے سر پر سے سینگ۔‘‘ لمبورڈ نے پھر بتایا۔
’’ہاں، یا پھر جیسے اسے جادو کے زور پر مکھی بنا کر یہاں سے اڑادیا گیا ہو۔‘‘ بلور نے بھی وضاحت کی۔
’’بالکل ہی عقل سے پیدل ہو تم لوگ۔ وہ یہیں کہیں چھپا ہوا ہوگا۔‘‘ ویرا ان کی تشبیہات سن کر چڑگئی۔
’’نہیں، بنگلے کے باہر جزیرے پر چھپنے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ آج تو ویسے بھی چاندنی رات ہے سب کچھ صاف نظر آرہا ہے۔ وہ نہ بنگلے کے باہر کہیں موجود ہے نہ بنگلے میں۔‘‘
’’مجھے یقین نہیں آرہا۔‘‘ ویرا چکرا گئی۔
’’بلور صحیح کہہ رہا ہے۔‘‘ لمبورڈ نے تصدیق کی اور پھر ایک لمحے توقف کے بعد بولا۔ ’’نیچے کھانے کی میز پر اب صرف 3 گڑیاں ہیں‘‘۔
باورچی خانے کی کھڑکی سے آنے والی دھوپ اس میز پر پڑ رہی تھی جس پر بیٹھے وہ لوگ ناشتہ کررہے تھے۔
’’آج ہم پہاڑی پر شیشے کے ذریعے مدد کے سگنل بھیجیں گے۔‘‘
’’ہاں تاکہ قصبے سے کوئی کشتی آکر نکال لے جائے‘‘۔ ویرا پرجوش ہوگئی۔
’’طوفان کا زور ٹوٹا ضرور ہے لیکن سمندر ابھی بھی چڑھا ہوا ہے۔ کچھ بعید نہیں کہ شام تک پھر بارش شروع ہوجائے۔ کل سے پہلے تو جزیرے تک کوئی کشتی نہیں پہنچ سکتی۔‘‘ لمبورڈ نے آہستگی سے اس کی امید توڑی۔
’’اُف! ایک اور رات اس جہنم میں۔‘‘ ویرا کپکپا گئی۔ وہ دونوں جواباً خاموش رہے۔ تھوڑی دیر بعد بلور گلا کھنکھار کر گویا ہوا۔
’’آرم اسٹورنگ آخر گیا تو کہاں گیا؟‘‘
’’کھانے کی میز پر موجود 3 گڑیاں تو اس بات کی طرف اشارہ کررہی ہیں کہ وہ اب اس دنیا میں نہیں رہا‘‘۔ لمبورڈ نے جواب دیا۔
’’پھر اس کی لاش کہاں ہے؟‘‘ ویرا نے پوچھا۔
’’مجھے نہیں معلوم۔‘‘ لمبورڈ نے کندھے اچکائے۔
’’ہوسکتا ہے کسی نے اس کی لاش کو سمندر میں پھینک دیا ہو‘‘۔ بلور نے ہچکچا کر کہا۔
لمبورڈ نے چونک کر اسے دیکھا اور تیز لہجے میں اس کی بات کاٹی: ’’لیکن آخر کس نے۔ کل رات تک جزیرے پر ہم 4 کے علاوہ تھا ہی کون؟ 6 مردہ لوگ!!! پھر لاش کون سمندر میں پھینکے گا؟ تم؟ میں؟ آرم اسٹورنگ کو دروازے سے باہر تم نے جاتے دیکھا تھا۔۔۔ یہ دیکھ کر تم میرے پاس دوڑے آئے۔ میں تمہارے سامنے اپنے کمرے میں سے نکلا تھا۔ ہم دونوں ایک ساتھ باہر گئے ایک ساتھ اسے ڈھونڈا۔ میں ایک لمحے کے لیے بھی تم سے جدا نہیں ہوا تھا پھر آخر کس طرح میں اسے مار کر سمندر میں پھینک سکتا ہوں۔‘‘
’’مجھے نہیں معلوم۔۔۔ مجھے نہیں معلوم! لیکن مجھے ایک بات پتا ہے۔ پسٹل اب تمہارے پاس ہے اور اس کا کیا ثبوت ہے کہ مسٹر اوین نے چرالی تھی اور پھر اسے تمہارے کمرے میں واپس رکھ دیا۔‘‘
’’خدا کے لیے بلور۔ تم لوگوں نے خود میری تلاشی لی تھی۔ اب میں اس کے علاوہ کیسے ثابت کروں کہ پسٹل میری دراز سے غائب ہوگئی تھی اور کل رات یہ پھر اپنی جگہ موجود تھی۔‘‘ لمبورڈ جھنجھلا گیا۔
’’ٹھیک ہے۔ اگر تم اتنے ہی سچے ہو تو ایک کام کرو۔ اس پسٹل کو اس صندوق میں بند کردو جس میں دوا وغیرہ ہیں کیوں کہ جب تک یہ تمہارے پاس موجود ہے میں اور مس ویرا تمہارے رحم و کرم پر ہیں۔‘‘
’’تم پاگل تو نہیں ہوگئے۔ میں کیوں جانتے بوجھتے ایک ایسی چیز کسی صندوق میں بند کروں گا جو خطرے کے وقت میرے کام آسکتی ہے۔‘‘ لمبورڈ اچھل پڑا۔
’’تو پھر اس کا ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے۔۔۔‘‘ بلور تپ گیا۔
’’کیا؟ یہی کہ میں ہی مسٹر یو۔ این۔ اوین ہوں؟ تمہاری مرضی جو سمجھنا چاہو سمجھو۔‘‘
’’اُف! تم دونوں کیوں احمقوں کی طرح لڑ رہے ہو۔‘‘ ویرا کو آخر بیچ میں بولنا پڑا۔ ’’کیا تم لوگوں کو وہ بچوں کی نظم یاد نہیں رہی جو اوپر آتش دان پر لٹکی ہے۔ اس کا آخری سے چوتھے نمبر والا شعر یہ تھا۔
چار چھوٹے نیگرو بچے سمندر پر گئے کھیلنے
ایک بچے کو اژدھا کھا گیا باقی رہ گئے تین
اب ذرا سوچو۔ اس جزیرے یا سمندر پر اژدھا کہاں سے آئے گا۔ یہاں پر اژدھے کو جھوٹ یا دھوکے سے تشبیہ دی گئی ہے۔ ہوسکتا ہے آرم اسٹورنگ مر انہ ہو۔ وہ اس جزیرے پر کہیں چھپا ہوا ہو۔ کھانے کی میز پر سے کانچ کی ایک گڑیا کم کرنا کیا مشکل ہے۔ اس طرح وہ ہم سب کو دھوکا دے رہا ہو۔‘‘ ویرا نے اس طرح ان کو سمجھایا جیسے وہ دو چھوٹے بچوں کو دو جمع دو، چار سکھا رہی ہو۔
’’اور وہ چھپنے کی جگہ کون سی ہے۔ ہم نے ہر جگہ تو تلاش کرلیا۔‘‘ بلور تلملا گیا۔
’’پسٹل کی تلاش تو یاد ہے نا مسٹر بلور۔ وہ بھی نہیں ملی تھی اور آج وہ لمبورڈ کے کوٹ کی جیب میں موجود ہے۔‘‘ ویرا نے طنز کیا۔
’’پسٹل اور انسان کے سائز میں کافی فرق ہوتا ہے؟‘‘
’’مانو یا نہ مانو۔‘‘ ویرا نے ناک پر سے مکھی اڑائی۔
’’آرم اسٹورنگ یہیں کہیں موجود ہے مجھے پکا یقین ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...