کالی رات نے ہر طرف اپنا راج جمایا ہوا تھا-آج معمول سے ذیادہ ہی ماحول پُراسرار لگ رہا تھا-ہر طرف گہرا سناٹا چھایا ہوا تھا-نیناں نے کروٹ بدلی تو دھک سے رہ گئی-مالا غائب تھی-وہ ایک جھٹکے سے اُٹھی-تکیے تلے رکھا اپنا فون اُٹھایا اور ٹارچ جلا کر اِدھر اُدھر روشنی کر کے دیکھا مگر وہ کہیں نہیں تھی-اُس نے بستر سے اُٹھ کر ہر جگہ دیکھا مگر مالا کا کوئی نام و نشان نہیں تھا-اُس نے واپس آکر سوئی مایا کو اٹھایا-
“مالا نہیں ہے۔۔۔”- وہ جھولے لیتی مایا کو کاندھوں سے تھام کر بولی-مایا کی نیند بھک کر کے اُڑ گئی-
“واٹ۔۔۔۔”- وہ صدمے سے چور لہجے میں بولی-
“ہاں میں نے سب جگہ دیکھ لیا ہے وہ کہیں نہیں ہے”- اُس کا دل زوروں سے دھڑک رہا تھا-مالا کے غائب ہونے کا خیال ہی اُس کی جان نکال رہا تھا-
“او مائی گاڈ۔۔۔۔اتنی رات میں وہ کدھر چلی گئی”- مایا فوراً بستر سے اُٹھی-
اُس نے مارک اور سیال کو بھی جگایا-مالا کے اچانک غائب ہونے پر سب پریشان ہو گیے-مارک اور سیال نے اردگرد کا سارا علاقہ چھان مارا لیکن مالا کا کچھ پتہ نہ چلا-
“واٹ دا ہیل یار۔۔۔۔تم دونوں ہو کیا چیز۔۔۔صبح تم بنا بتائے چلی گئی تھیں اور اب تمہاری وہ دوست اتنی رات میں غائب ہے مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں اُس کے ساتھ کچھ ہو نہ گیا ہو”- مایا نے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تو نیناں کے سر پر لگی تلوں پر بچھی-
“بندے کی شکل اچھی نہ ہو تو بندہ بات ہی اچھی کر لیتا ہے”- وہ اردو میں بولی تھی اس لیے مایا کے پلے کچھ نہیں پڑا تھا لیکن وہ اُس کے تاثرات سے جان گئی تھی کہ اُس نے کوئی سخت بات کی ہے مگر وہ چونکہ بات سمجھ نہیں پائی تھی اس لیے چپ رہنا ہی بہتر سمجھا-
دو گھنٹے گزر گیے مگر مالا کا کچھ پتہ نہ چلا-نیناں کی تو جان نکلنے والی ہو گئی تھی-وہ رات اُس کی زندگی کی سب سے بیانک رات تھی-
اُس کے علاوہ وہ تینوں بھی سخت پریشان تھے-تبھی وہ چلی آئی-بکھرے بال سوجھا ہوا چہرہ۔۔۔
وہ چلتے ہوئے لڑکھڑا رہی تھی-نیناں نے بھاگ کر اُسے تھام لیا کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کرتی تو وہ زمین بوس ہو جاتی-وہ اُس کے بازؤوں میں بے جان ہو کر جھول گئی-
“مالا۔۔۔۔”- نیناں نے ششدر آنکھوں سے مالا کو دیکھا-وہ اتنی کمزور لگ رہی تھی کہ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اُس کے جسم سے کسی نے سارا لہو نچوڑ لیا ہو-
مارک فوراً پانی لے آیا-نیناں نے دو تین گھونٹ اُس کو پلائے-پھر وہ مایا کی مدد سے اُسے اندر لے گئی-مارک نے خیمے میں آگ جلا دی کیونکہ وہ کانپ رہی تھی-سب کے ہاتھ پاؤں پھول گیے تھے-
نیناں اُس کا سر دبانے لگی-وہ بے سدھ پڑی تھی-پوری طرح بیہوش تو نہیں تھی مگر کمزوری کی وجہ سے آنکھیں کھولنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی-
“شی نیڈ سم انرجی ڈرنک۔۔۔۔”- سیال نے کہا تو سب اُس کی طرف دیکھنے لگے-
“ہاں مجھے بھی لگتا ہے کیونکہ اس کو بہت زیادہ ویک نیس ہو گئی ہے”- مایا نے بھی سیال کی بات کی تائد کی-
اُس وقت وہاں اور تو کوئی انرجی ڈرنک موجود نہیں تھی تو سیال پانی میں شوگر ملا کر لے آیا-وہ سب اتنے ہواس باختہ ہو چکے تھے کہ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا-نیناں نے چمچ کی مدد سے اُسے پلانا شروع کیا-
“مارک اگر دودھ پڑا ہے تو پلیز وہ گرم کر لاؤ”- نیناں نے وہ پانی تھوڑا سا پلانے کے بعد سائیڈ پر رکھتے ہوئے کہا-
دودھ کے ڈبے موجود تھے اس لیے کوئی دقت پیش نہ آئی-
مارک دودھ گرم کر لایا-مایا اور نیناں نے بمشکل اُس کو دو تین گھونٹ دودھ پلایا-وہ ابھی تک آنکھیں بند کیے لیٹی تھی-نیناں نے اُس کا چہرہ دیکھا جو بلکل زرد پڑ چکا تھ-ایسے لگ رہا تھا جیسے خون کی ایک بوند بھی نہ ہو-کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا-وہ اس حال میں کیسے تھی اور اُس کے ساتھ کیا ہوا تھا ایسے بہت سارے سوال تھے جن کا جواب صرف مالا کے پاس تھا-
{________________}
وہ پریشان سا اپنے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا-بار بار اُس لڑکی کا چہرہ آنکھوں کے سامنے آ رہا تھا-اُس کی وہ حالت جس کا وہ ذمہ دار تھا اب اُسے بہت بے چین کر رہی تھی- کتنا تڑپی اور چلائی تھی وہ مگر اُس پر تو جنون سوار تھا-اُس کا بس چلتا تو اُس کے جسم سے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ لیتا مگر پھر ایسا کرنے کی ہمت نہ ہوئی کیونکہ وہ اُسے جان سے نہیں مار سکا تھا-ایسا کیوں ہوا تھا وہ نہیں جانتا لیکن وہ اب بہت پچھتا رہا تھا-
وہ ایک ویمپائر تھا-پچھلے دو سو سال سے وہ اُس جنگل میں رہتا تھا-شروع شروع میں وہ بہت طاقتور تھا کیونکہ جنگل میں بہت لوگ آتے تھے اور وہ اُن کو مار کر اُن کا خون پی لیتا جس سے اُس میں انرجی آجاتی-مگر پھر جب پے در پے لوگوں کی موت واقعی ہونے لگی تو لوگوں نے مارے دہشت کے آنا چھوڑ دیا-پھر یہاں تک نوبت آ گئی کہ اُس کو جان کے لالے پڑ گیے-وہ جنگل میں اکیلا نہیں تھا بلکہ اُس کی طرح کے اور بھی بہت لوگ تھے جو انسانی خون پی کر اب تک زندہ تھے-
اُس دن اتنے مہینوں بعد جنگل میں اُسے انسانی خون کی خوشبو آئی جس نے اُس میں زندگی کی لہر دوڑا دی-وہ پاگلوں کی طرح دوڑتا ہوا گیا-وہ پانچ لوگ تھے-جن میں تین لڑکیاں اور دو لڑکے تھے-تبھی اُس لڑکی پر اُس کی نظر ٹھر گئی-وہ بہت پیاری اور نازک سی تھی-پہلی بار وہ اُس رات اُس کے پاس گیا-وہ چاہتا تھا کہ وہ خود اُس کے پاس آئے مگر وہ اُسے دیکھ کر اتنا ڈر چکی تھی کہ فوراً واپس چلی گئی-پھر آج دن میں اُس نے اُسے سانپ سے بچایا-تب بھی وہ اُسے آتے آتے اشارہ دے آیا مگر یہ کافی نہیں تھا کیونکہ وہ اب بھی اُسے اپنا خون پلانے کو تیار نہیں تھی بلکہ وہ تو اس کے سب اداروں سے ہی انجان تھی-وہ سمجھ گیا کہ وہ خود سے کبھی نہیں اُس کے پاس آئے گی-تبھی اُس نے اُسے خیمے سے اُٹھا لیا-وہ جاگ چکی تھی اور چلانے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہی تھی مگر اُس کی طاقت کے سامنے اُس کی ایک نہ چلی-وہ زبردستی اُسے اپنے ساتھ لے آیا-اُس نے بنا کچھ کہے اُس کی شہہ رگ میں اپنے نوکیلے دانٹ گاڑھ دیے جو اچانک لمبے ہو گیے تھے-وہ بہت تڑپ رہی تھی-اُسے بہت درد ہو رہا تھا مگر وہ تو جیسے پاگل ہو چکا تھا-وہ جیسے جیسے خون پی رہا تھا وہ مزاحمت کم کرتی جا رہی تھی کیونکہ اُس کو کمزوری محسوس ہو رہی تھی اور سر بھی چکر رہا تھا-اُس نے موت کو سامنے دیکھا اور خود کو حالات کے حوالے کر دیا اور تبھی وہ رک گیا-اُس کا چہرہ رو رو کر اب سوجھ چکا تھا-وہ نیم جان ہو گئی تھی-آنکھیں بھی بند تھیں اور یہی وہ لمحہ تھا جب وہ رک گیا تھا اور پھر اُسے پتہ نہیں کیا ہوا تھا کہ وہ اُسے پانی پلانے لگا-اُس کی حالت پر اُس کو عجیب سی بے چینی ہونے لگی-وہ اب اُسے ہوش میں لانے کی کوشش کرنے لگا جو کامیاب بھی ہو گئی-اُس پر نظر پڑتے ہی وہ اتنی زخمی سی نگاہوں سے اُسے دیکھنے لگی کہ وہ اندر تک دہل گیا-اُس کی تکلیف پر اُسے خود بھی تکلیف ہونے لگی-اُس نے سہارا دے کر اُسے اٹھایا-وہ بنا کچھ بولے اُس کے ساتھ چلنے لگی-ٹانگوں میں جان ختم ہو چکی تھی-کئی مرتبہ تو وہ گرتے گرتے بچی-وہ اُسے خیمے کے سامنے چھوڑ آیا جہاں اُس کے ساتھ کھڑے بے چینی سے اُس کے غائب ہونے پر بحث کر رہے تھے-وہ بمشکل چند قدم ہی چل پائی تھی-اُس کے گرنے سے پہلے ہی اُن لوگوں نے اُس کو سنبھال لیا-وہ تھکے قدموں سے واپس آگیا-آج اُس کی ساری طاقت واپس آ گئی تھی اور یہ بہت خوشی کا لمحہ تھا مگر وہ خوش نہیں تھا بلکل بھی خوش نہیں تھا-
اگلے دن صبح وہ کچھ بہتر تھی-کمزوری جوں کی توں تھی مگر وہ ہوش میں تھی-چہرہ سرسوں کے پھول کی طرح زرد تھا-آنکھوں میں گہرا درد تھا-
نیناں کا دل اُس کی حالت پر کٹنے لگا-وہ چائے کا ایک کپ لے کر اُس کے پاس آن بیٹھی-وہ خالی خالی نظروں سے خیمے کی چھت کو گھور رہی تھی-
“مالا۔۔۔۔۔”- نیناں نے اُسے آواز دی-
وہ اُس کے بلانے پر چپ رہی مگر اُٹھ کر بیٹھ گئی-نیناں نے چائے کا کپ اُسے تھمایا جو اُس نے لرزتے ہاتھوں سے تھامنے کی کوشش کی مگر ایسا نہ کر پائی کیونکہ ہاتھوں میں اتنی جان ہی نہیں تھی کہ وہ کپ تو کیا کوئی تنکا بھی پکڑ سکتی-نیناں نے پھٹی پھٹی نظروں سے اُس کے ہاتھوں کی طرف دیکھا-
مالا نے نظریں اُٹھا کر اُس کی طرف دیکھا-وہ سن سی بیٹھی اُس کو دیکھ رہی تھی-
“یہ سب کیا ہوا مالا۔۔۔؟”- تبھی وہ ہمت کر کہ بولی-
مالا کا چہرہ خوف سے سفید پڑ گیا-کل رات کا واقعہ آنکھوں کے سامنے چلنے لگا-اُس کے جسم میں کئی برقی لہریں ایک ساتھ دوڑنے لگیں-
اُس نے نیناں کا ہاتھ زور سے تھام لیا-وہ ہلکے ہلکے کانپنے لگی-نیناں نے چائے کا کپ ایک طرف رکھ کر اُسے ساتھ لگا لیا اور وہ اتنی سی ہمدردی پر ہی ٹوٹ کر بکھرتی گئی- انسوؤں کے درمیان جو بات اُس نے نیناں کو بتائی وہ نیناں کی سانسیں روکنے کے لیے کافی تھی-وہ بت بنی اُس پر بیتنے والے ظلم کی داستان سنتی رہی-ایسی باتوں پر کیا کوئی یقین کر سکتا تھا-کہانیوں میں پڑھے جانے والے کردار جن کو لوگ صرف دلچسپی سے پڑھتے ہیں وہ حقیقت میں بھی پائے جاتے ہیں-کل جب مایا اُسے ویمپائر کی کہانیاں سنا رہی تھی تو وہ کیسے مزے سے سن رہی تھی اور اب تو رونگھٹے کھڑے ہو چکے تھے-وہ مالا کی باتوں کو جھوٹ بھی نہیں کہہ سکتی تھی کیونکہ اُس کی حالت چیخ چیخ کر اُس کی بات کی سچائی کا پتہ دے رہی تھی-
مالا اب اُس کے گلے لگی پُرسکون انداز میں آنکھیں بند کیے بیٹھی ہوئی تھی-شاید وہ اپنا دکھ اُس کے سامنے کہہ کر ہلکی ہو چکی تھی-
نیناں اُسے وہیں لٹا کر باہر آ گئی جہاں وہ تینوں سرگوشیوں میں ناجانے کیا باتیں کر رہے تھے-اُسے دیکھ کر وہ تینوں چپ ہو گئے-نیناں نے جاتے ہی سارا قصہ اُن کے گوش گزار دیا-وہ تینوں بے یقینی سے نیناں کو دیکھنے لگے جیسے اُس کی دماغی حالت پر شبہ ہو-
“ہم آج کے آج ہی واپس جائیں گے آپ لوگ سارا سامان سمیٹ لو جلدی سے”- وہ اُن کو آرڈر دے کر خود واپس اندر چلی گئی-پیچھے وہ حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے-سب سے ذیادہ شاک مایا کو لگا تھا-
دوپہر تک اُن لوگوں نے سارے سامان کی پیکنگ کر لی اور واپسی کے لیے چل پڑے-مارک کچھ دیر پہلے نکل گیا تاکہ وہ جیپ کو کچھ نزدیک لے آئے اور مالا کو ذیادہ چلنا نہ پڑے-وہ چاروں خاموشی سے چل رہے تھے-مارک جیپ لے کر اُن کے پاس پہنچ گیا-اُس نے نیچے اُتر کر سیال کی مدد سے سارا سامان گاڑی میں رکھا-
سیال نے مایا کو اشارہ کیا کہ مالا کو گاڑی میں بٹھاؤ-اس سے پہلے کہ وہ اپنے قدم مایا کی طرف بڑھاتی وہ اچانک کہیں سے نکل کر وہاں آگیا-
اُس کے سامنے کے دو دانت لمبے اور نوکیلے تھے-ہاتھوں کے ناخن بھی لمبے تھے-وہ اُس کو سامنے پاکر ششدر رہ گیے-مالا نے نیناں کا ہاتھ زور سے تھام کر آنکھیں میچ لیں-کاش وہ اس منظر سے غائب ہو جاتی-نیناں نے ایک دفعہ اُس کی طرف اور ایک دفعہ مالا کو دیکھا-
“یہ یہاں سے نہیں جا سکتی۔۔۔”- وہ کانپتی لرزتی مالا کو نگاہوں سے اپنے دل میں اُتارتے ہوئے بولا-
اُس نے چونکہ انگلش میں کہا تھا اس لیے سب کو سمجھ آگیا تھا-
اُس کی بات پر مالا نے ایک دم سے آنکھیں کھولیں اور پتھرائی نظروں سے اُس کا یہ حکم سنا-
“مجھے اس کے ساتھ نہیں جانا نیناں۔۔۔مجھے میاں جی کے پاس جانا ہے پلیز مجھے اُن کے پاس لے چلو”- وہ کسی سہمی ہوئی کبوتری کی طرح نیناں سے لپٹ رہی تھی-
وہ خاموشی سے اُس کو دیکھتا رہا-
“مارک چلو یہاں سے ۔۔۔”- نیناں نے اُس کو نظر انداز کرتے ہوئے مارک سے کہا اور مالا کو جیپ پر بٹھانے لگی-تبھی وہ راستے میں آگیا-مالا نے مزید زور سے نیناں کا ہاتھ تھام لیا-
“میں نے کہا نہ یہ نہیں جا سکتی-تم لوگ جاؤ یہ میرے ساتھ جائے گی”- اُس نے آگے بڑھ کر مالا کا ہاتھ تھام لیا اور اُسے جیسے کرنٹ سا لگا-وہ اپنا ہاتھ چھڑانے لگی مگر پکڑ اتنی مضبوط تھی کہ اُس کی ہر کوشش ناکام ہو گئی-وہ تڑپنے لگی-
“پلیز اُسے چھوڑ دو۔۔۔”- نیناں نے اُس کی منت کی-
مالا کی یہ حالت اُس کی جان نکال رہی تھی-مایا اور وہ دونوں حیرت سے سارا تماشہ دیکھ رہے تھے-
“یہ یہاں سے نہیں جا سکتی۔۔۔۔”- وہ سفاکیت سے بولا-
مالا کی روح تک لرز گئی-ابھی تو وہ کل والے حادثے کے صدمے سے ہی نہیں نکل پائی تھی کہ اب یہ اُس سے بھی بھیانک ہونے جا رہا تھا-
“نہیں پلیز اسے مت کرو۔۔۔اُس کا ہاتھ چھوڑو”- اُس نے مالا کا ہاتھ چھڑانے کے لیے باتھ بڑھایا مگر وہ پہلے ہی اُس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولا-
“تم لوگوں کو میں مارنا نہیں چاہتا اس لیے میرے راستے میں مت آؤ لیکن اگر تم لوگوں نے کوئی بھی رکاوٹ کھڑی کی تو میں مجبوراً تم سب کو مار دوں گا”-
اپنی بات کہہ کر اُس نے اتنے غصے سے نیناں کا ہاتھ جھٹکا کہ وہ گرتے گرتے بچی-اُس میں اتنی طاقت دیکھ کر وہ لوگ ڈر گیے-مالا اب اُس کے شکنجے میں تھی-
وہ اُسے کسی نازک گڑیا کی طرح اُٹھا کر لے گیا-مالا نے بہت مزاحمت کی مگر وہ کچھ نہ کر پائی-پیچھے وہ سارے مالا کو بچانے کے لیے اُس کے پیچھے بھاگے مگر وہ ایک دم کہیں غائب ہو گیا-اُن لوگوں نے سارا جنگل چھان مارا مگر کوئی سراغ نہ ملا-پتہ نہیں اُسے زمین نگل گئی تھی یا آسمان نگل گیا تھا-نیناں رو رو کر پاگل ہو چکی تھی-وہ میاں جی کو کیا کہے گی اُنہوں نے اُسے بس نیناں کا خیال رکھنے کو ہی تو کہا تھا اور وہ تو مالا کو ہی کھو چکی تھی-وہ کیسے سامنا کرے گی میاں جی کا۔۔۔۔ایسی کئی سوچیں اُس کے دماغ کو جھکڑنے لگیں-
{_____________}