میں روز کی طرح بس اسٹاپ پر کھڑا اپنے روٹ کی خالی بس کا انتظار کر رہا تھا، بھری ہوئی بس میں چڑھنا اور پھر مرغا بن کر کھڑا ہونا کم از کم میرے بس میں نہیں ۔۔۔ ویسے بھی میری جاب ایسی ہے کہ ٹائم کی زیادہ پرواہ نہیں ہوتی ، میں محکمہ صحت میں ہوں ۔ ۔۔
سولہ نمبر کی بس جھومتی ہوئی نظر آئی ، اس وقت کیونکہ سارے شہر کا ٹریفک سڑک پر ہوتا ہے تو فضا میں دھوئیں اور پٹرول کی بو رچی بسی ہوتی ہے، اور دھوئیں کی وجہہ سے گاڑیاں ایسے نمودار ہوتیں ہیں جیسے دھند میں سے ۔۔ ۔ ۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ دھند سفید نہیں کالی ہوتی ہے
میں بس میں سوار ہو چکا تھا، اور اتفاق سے کھڑکی کے پاس والی سیٹ مل گئی، میں ابھی بیٹھا ہی تھا کہ پاس سے ایک دوسر ی بس پورے شور کے ساتھ گذری اور دھوئیں کا ایک مرغولہ جیسے بس کے اندر گھس آیا، میں نے کچھ پل کیلئے سانس روک لیا، ایسے موقعے کیلئے میں نے کافی پریکٹس کی تھی مگر میرے ساتھ والے صاحب جنہوں نے کلف لگے سفید کپڑے پہن رکھے تھے [جو اب سفید نہیں رہے تھے] کھانس رہے تھے ، شاید دھواں انکے سانس کے ساتھ اندر چلا گیا تھا، پھر وہ سیٹ کے ساتھ سر لگا کر ٹک گئے ، انکا سانس اکھڑ رہا تھا، ہماری بس نے سپیڈ پکڑ لی تھی ، شاید ڈرئیور کسی کے ساتھ ریس لگا رہا تھا ، میں نے ان صاحب کو پوچھا ، آپ ٹھیک تو ہیں ، وہ کچھ بول نہ پائے ، انکی سانس اکھڑ رہی تھی ، بڑی مشکل سے انہوں نے کہا کہ وہ ، دمہ کے مریض ہیں ، میں نے پوچھا آپکے پاس انھیلر ہے ، وہ جیب سے انہیلر نکالنے لگے ، ابھی انہوں نے اسکا ڈھکنا اتارا ہی تھا، کہ بس نے بریک لگائی اور کنڈیکٹر کی آواز آئی جلدی جلدی ۔ ۔۔ اور پھر ایک جم غفیر جیسے بس میں گھس آیا ہو ۔ ۔۔ اور بس ایک جھٹکے سے چل پڑی ، میرا دھیان تھوڑا بٹ گیا تھا، مگر جب میں نے ان صاحب کو دیکھا تو وہ بہت ہی تکلیف میں نظر آئے ، انہیلر انکے ہاتھ سے گر چکا تھا، وہ بس کے فرش کی طرف اشارہ کر رہے تھے ، میں نے جھک کر انہیلر اٹھانہ چاہا تو بس نے پھر ایک بریک ماری اور میرا سر اگلی سیٹ سے جا ٹکرایا ، مجھے اپنا سر گھومتا ہوا محسوس ہوا، اور میں نے دیکھا کہ انہیلر جھٹکے کی وجہہ سے ایک سیٹ پیچھے چلا گیا ہے ، میں نے پھر کوشش کی اور پچھلی سیٹ والے کو کہا کہ پلیز یہ انہیلر اٹھا دیں ، ابھی وہ صاحب اٹھانے کے لئیے جھکے ہی تھے کہ ایک بھاری پاؤں اس پر پڑا اور چٹک کی آواز آئی، دیکھ کر نہیں چلتے ، وہ صاحب جھنجھلا کر بولے، تم نیچے کیا جھک مار رہے ہو، بھاری پاؤں والے نے کہا، میرا دھیان پھر بٹ گیا ، مگر جب ساتھ والی سیٹ پر دیکھا تو وہ صاحب جھکے ہوئے تھے ، میں نے کہا ، جناب میں اٹھا دیتا ہوں آپ سیدھے ہو کر بیٹھیے ، مگر کوئی رسپانس نہیں دیا ، میں نے جھک کر دیکھا ، میرا سانس جیسے اٹک گیا ، میں نے انہیں سیدھا کیا ، مگر انکے چہرے پر اذیت ہی اذیت تھی ، میں نے حالات کی نزاکت بھانپ لی ، اور چیخ اٹھا بس روکو بس روکو ، باقی لوگوں کو بھی احساس ہو گیا تھا ، وہ بھی چیخ پڑے ، مگر شاید ، ان کا وقت ختم ہو چکا تھا، بس رکی ، اور ہم لوگوں نے ان صاحب کو اٹھا کر باہر نکالا ، اور فٹ پاتھ پر ایک درخت کے نیچے لٹا دیا ، ہمارے پاس سے گاڑیاں دھواں اڑاتی گذر رہیں تھیں ، پھر ایک صاحب کی آواز آئی جو نبض چیک کر رہے تھے ، یہ تو ۔ ۔۔ یہ تو ۔۔ ۔ پھر سب خاموش ہو گئے ، ہمارے اردگرد گاڑیوں کی آوازیں تھیں ، اور ہم کالی دھند میں گھرے کھڑے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو کے شاعروں اور ادیبوں کی چند اہم انفرادی ویب سائٹس
آج ہی وزٹ کیجئے
علامہ اقبال http://www.allamaiqbal.com/
فیض احمد فیض http://www.faiz.com/
جون ایلیا http://jaunelia.itgo.com/
منشا یاد http://www.geocities.com/manshayad/index.htm
احمد سہیل http://www.ahmedsohail.writernetwork.com/
زمان ملک http://www.zamanmalik.8m.com/
سعادت سعید http:// members.rogers.com/saadat_saeed
حیدر قریشی www.haiderqureshi.com