lمستحق دار کو حکم نظر بندی ملا
کیا کہوں کیسے رہائی ہوتے ہوتے رہ گئی
محمد علی جوہرؔ
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب ہم پھانسی گھروں میں قید تھے، انہی دنوں ایک مقبول بارگاہ الٰہی پر اللہ رب العزت نے یہ منکشف فرما دیا تھا کہ ہمیں پھانسی نہیں ہوگی، بلکہ کالے پانی کو جانا ہوگااور میں پھر وہاں سے باعزت زندہ سلامت آؤں گا؛ چنانچہ اس پیش گوئی کے دو ماہ بعد ہماری پھانسی کا حکم موقوف ہوا، لیکن ہمیں پیش گوئی سنتے ہی پورا یقین ہو گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے اسی وقت اپنے بھائی اور بعض دوستوں کو یہ خوشخبری لکھ دی تھی، اس وقت چونکہ تمام انگریزی سلطنت باتفاق ہمارے پھانسی دینے پر مستعد تھی، اس وجہ سے شاید دوسرے لوگوں کو اس پیش گوئی کا یقین نہ ہوا ہو، خصوصاً جبکہ صورت حال یہ تھی کہ اگر کوئی شخص ہمارے حق میں ذرا بھی کلمہ خیر کہتا تو قید ہو جاتا تھا، ہمارے شہر کے بیسیوں آدمی صرف اس قسم کے قصور میں قید ہو گئے کہ ان میں سے کسی کے پاس سے میرا مال و اسباب ملا، میرے مکانات کی ضبطی و نیلام کے بعد کسی نے اپنے گھر میں میرے بال بچوں کو جگہ دی۔ اس وقت اگر شاہ روم بھی انگریزوں سے میری سفارش کرتا تو کبھی منظور نہ کرتے، ان حالات میں پھانسی کی موقوفی غیر ممکن اور بالکل بعید از قیاس تھی۔
اب اس مقلب القلوب کی ظاہری کارروائی سنیے کہ جب بہت سے صاحب اور میم ہمیں پھانسی گھروں میں نہایت شاداں و فرحاں دیکھ گئے تو سب لوگوں میں یہ چرچا پھیل گیا، ہمارے جانی دشمن انگریزوں نے یہ خیال کیا کہ ایسے دشمنوں کو منہ مانگی موت تو نہیں دینی چاہیے کہ جس پر وہ اس قدر مسرت کا اظہار کر رہے ہیں ؛ بلکہ انھیں کالے پانی بھیج کر وہاں کے آلام و مصائب کا تختۂ مشق بنانا چاہیے۔
ہماری پیش گوئی کے مطابق ۱۶ ستمبر کو ڈپٹی کمشنر انبالہ پھانسی گھروں میں تشریف لائے اور چیف کورٹ کا حکم پڑھ کر سنایا کہ تم لوگ پھانسی کی سزا کو بہت محبوب سمجھتے ہو اور اسے شہادت تصوّرکرتے ہو، اس لیے حکومت تمھیں تمھاری پسندیدہ سزا دینےکے لیے تیار نہیں، لہذا تمھاری پھانسی کی یہ سزا حبس دوام بعبور دریاے شور سے بدلی جاتی ہے۔
اس حکم کےسنانے کے ساتھ ہی ہمیں پھانسی گھروں سے دوسرے قیدیوں کے ساتھ عام بارکوں میں ملا دیا، اور جیل خانہ کے دستور کے مطابق قینچی سے ہماری داڑھی، مونچھ اور سر کے بال وغیرہ تراش کر ایک منڈی بھیڑ کی طرح بنا دیا، میں نے اس وقت دیکھا کہ مولانا یحیی علی صاحب اپنی داڑھی کے کترے ہوئے بالوں کو اٹھا کر کہتے تھے :
“افسوس نہ کر، تو خدا کی راہ میں پکڑی گئی اور اسی کے واسطے کتری گئی”۔