(Last Updated On: )
کہ ہر ستم میں بھلاوں تو یہ ہے نا ممکن
اُسے جو اپنا بناوں تو یہ ہے نا ممکن
تِری جفاوں نے اے یار ، ہے مجھے مارا
تجھے میں دل میں بساوں تو یہ ہے نا ممکن
مِری غزل میں مِری حسرتیں بھی شامل ہیں
اُسے میں دل سے سناوں تو یہ ہے نا ممکن
میں اپنے جسم کے ، دل کے اداس شیشے میں !
جو تیرا عکس سجاوں تو یہ ہے نا ممکن
مجھے پتہ ہے مِرے عکس کو جلایا ہے
میں تیرے خط کو جلاوں تو یہ ہے نا ممکن
میں چوُر چُور ہوں خود دوستوں کی محفل میں
کسی پہ تِیر چلاوں تو یہ ہے نا ممکن
مجھے یقین ہے ممکن ، یقین کر عاقل
کہ میں بھلائی بھلاوں تو یہ ہے نا ممکن