(Last Updated On: )
کہ بانٹنے کو درد، کوئی چارہ گر نہ رہا
جو ہمنوا کبھی تھا میرا ، ہم سفر نہیں رہا
وہ وقت اب کہاں ہے وہ جوانی ہے کہاں
نظر ضعیف ہے قوی مرا جگر نہ رہا
یہ میرا حال ہے مجھے جو قتل گاہ لے گیا
یہ اور بات کہ میں جی رہا ہوں مر نہ رہا
میں جانتا ہوں مجھے مار ڈالے گا یہ عشق
مگر عجب یہ بات ہے کہ مجھے ڈر نہ رہا
یہی لگا ہے اب ، کہ اپنی راہ بھی ہے جدا
کہ تم پر میری بات کا کوئی اثر نہ رہا
کسی نے مجھ کو توڑ کر کیا شاخ شاخ یوں
کہ اب شجر تو ہوں مگر میں باثمر نہ رہا