کولھاپور کے مہالکشمی مندر کے احاطے میں میرا جیون بڑھتا پھولتا جا رہا تھا۔ مندر میں ایک بڑی سی گھنٹی لگی تھی۔ اس کے گھن گھن کٹوروں سے کولھاپور ہر روز جاگتا تھا۔ اس گھنٹے کی آواز کی تھوڑی ہی دیر بعد اُوشا آرتی ہوتی تھی۔ اس کے ساتھ ہی پرانے راج محل کے نقارخانے سے اٹھتی شہنائی کی مدھر آواز پُروائی کے جھونکوں پر سوار ہو کر دھیمے سُروں کے روپ میں یک جا ہو کر لہرانے لگتی تھی۔ طلوع صبح کا سارا ماحول اوشا آرتی اور راج محل کی شہنائی کی آوازوں سے بھر جاتا تھا، پاک ہو جاتا تھا۔
ایسے وقت کبھی کبھی میری نیند کھل جاتی تھی۔ تب گھر گھر میں چکیاں پیسنے کی آواز سنائی دیتی تھی۔ ہمارے گھر میں ماں چکی چلاتے چلاتے لوک گیت گایا کرتی تھیں۔ کسی پڑوس کے مکان سے صبح کی عبادت کا پاٹھ سنائی دیتا تو کہیں تعلیم کی آواز گونجتی، اکھاڑوں میں پہلوانوں کے ہنکاروںکی لیَ شروع ہو جاتی۔ ہر اکھاڑے میں کسَے ہوئے جسم کے سڈول جوان اپنی مستی میں مست ہو کر ورزش میں لگے دکھائی دے جا سکتے تھے۔ کوئی ڈنڑ پیلتا، کوئی بیٹھکیں لگاتا تو کوئی مُگدر گھمانے کی کسرت کرتا تھا۔ پسینے سے تر قوی و توانا جوان اکھاڑے کی نرم ملائم مٹی میں کشتیوں کے داؤپیچ لڑاتے تھے۔ ان کو کُشتی سکھانے والا استاد بھی انھیں ورزش کی خوبیاں سمجھاتا دکھائی دیتا۔ پہلوانی ان دنوں کولھاپور کے باسیوں کی ایک زبردست دُھن تھی، ایک شوق تھا۔
اسی ماحول میں کسی کھڑکی سے راگ داری کے ریاض کی آواز بھی سنائی پڑتی۔ اس وزن دار اتارچڑھاؤ کے ساتھ ہی کسی میراثن کی لہکتی لَے کاری ماحول میں رچ بس جاتی۔ شاید کوئی گائیکہ اپنے استاد کے چرنوں میں بیٹھ کر گانے کا ریاض کرنا سیکھتی ہو۔ آہستہ آہستہ یہ آوازیں ہنکار ایک دوسرے میں گھل مل جاتے اور میں گُدڑی میں سمٹ کر پھر گہری نیند سو جاتا۔
’’ارے شانتیا، اب اٹھو بھی!‘‘ ماں کی پکار گُدڑی میں بھی سنائی دیتی۔ میں فوراً اٹھتا۔ نیند بھاگ جاتی۔ جلدی سے گھر کے باہر کی طرف جاتا۔ دروازے آنگن میں ماں کی کھینچی ہوئی رنگولی کی ریکھاؤں کو دیکھ کر سحرزدہ ہو جاتا۔ باہر سڑکوں پر جھاڑ بوچھاڑ شروع ہوتی۔ جھاڑنے پونچھنے والوں کے لمس سے بچتے بچاتے، نالیوں کو پھلانگتے، اپنی ریشمی دھوتی سنوارتے مندر کی طرف جانے والے لال کنٹوپی والے براہمنوں کی اچھل کود کو دیکھ کر مجھے ہنسی آتی۔ تبھی کہیں دور سے گھوڑوں کی ٹاپوں کی گونج سنائی دیتی۔ ساتھ ہی ایک رتھ نما گاڑی (جسے کولھاپور میں ’کھڑکھڑا‘ کہا جاتا تھا) کے پہیوں میں لگی لوہے کی پٹی کی کھڑکھڑاہٹ بھی سنائی دیتی۔ اس کھڑکھڑے کو ہانکنے والا شخص بہت ہی رعب دار تھا۔ ساڑھے چھ فٹ لمبا قد، قلعے کے پَٹ سی شاندار سخت چھاتی، بھاری بھرکم جسم، خوبصورت پُرجلال مکھڑا، چمکدار آنکھیں اور سرپٹ دوڑنے والے گھوڑوں کی مضبوطی سے تھامی باگیں۔۔ ایسا ہوتا تھا اس شخص کا رعب داب والا بھیس۔ ایک دم سادہ، دیہاتی سر پر کسانی ڈھنگ سے باندھا کیسری رنگ کا صافہ، ململ کا کُرتا، گنگی کولھاپوری بناوٹ کی موٹی چپلیں۔ وہ شاندار مرد تھے چھترپتی شاہُو مہاراج بھوسلے، کولھاپور ریاست کے راجہ۔ راستے پر کھڑے سبھی لوگ انھیں احتراماً جھک جھک کر پرنام کرتے۔ کچھ لوگ کھڑکھڑے کی آواز سن کر اپنا کام چھوڑ، پھرتی سے باہر آ کر انھیں عقیدت بھرا سلام کرتے۔ شاہو مہاراج گاؤں کے باہر بنے ہوے راج محل میں قیام کرتے تھے، لیکن ہر روز صبح وہاں سے اپنے پُرانے راج محل میں گھرانے کی بھگوتی ماں بھوانی کے مندر میں اس کا درشن کرنے دستور کے مطابق آیا کرتے تھے۔ پُرانے راج محل کے خاص دروازے پر دونوں طرف ہاتھی کھڑے رہتے تھے۔
چڑھتے دن کے ساتھ سڑکوں پر آمدورفت بڑھنے لگتی۔ سبزی لے لو سبزی۔۔۔ بھاجی ! کہتی ہوئی سبزی والی محلے سے نکل جاتی۔ کبھی کبھار ہی ماں اس سے سبزی لیتی اور بدلے میں اسے چھاج سے اناج دیتی۔ کبھی کبھی مورپنکھ لگی اونچی ٹوپی پہنے ’واسودیو‘ جھجانجھ بجاتا، گاتا، اپنے ہی چاروں طرف گول گول جھومتا ناچتا آتا۔ ماں اس کی جھولی میں کچھ اناج ہی ڈالتیں۔ وہ آشیرواد دے کر آگے چلا جاتا۔
میری اس ننھی سی دنیا میں کتنی ہی باتیں ایسی تھیں جن کے تئیں مجھے کشش، خواہش، حیرت اور ڈر بھی ہوتا تھا۔ آج کہہ پانا بھی مشکل ہے۔ گیروے کپڑے پہن کر رام رکشا کہتے ہوے محلے سے جانے والا رام داسی سادھو، ہر جمعے کو چونڈکے کا تار بجا کر رینوکا دیوی کا بھجن گاتے وقت بیچ ہی میں’’اُدے گا آئی اُدے… اُدے…‘‘ کی آواز دیتی ہوئی جوگوا (خیرات) مانگنے والی جوگنیں، سولہ ہاتھ کی ساڑھی پہنے ہیجڑے، گوبو گوبو گوبوِ کی لے میں ڈھولک بجاتے آنے والے نندی بیل، سنکرانت کے دن مٹی کے چھوٹے چھوٹے خیراتی پیالے اور گنپتی تہوار کے دنوں کالی گیلی مٹی کی گنیش مورتیاں بیچنے کے لیے لانے والے کمہار اور ناگ پنچمی کے دن سپیرا مداری، سبھی بہت ہی مزے دار ہوا کرتے تھے۔ سپیرا ہمارے دروازے پر آتا۔ سر پر رکھی پٹاری اُتارتا۔ پھر اپنی بین سے بہت ہی مدھر سُر نکالتا۔ اس کی دھن سن کر کچھ ہی لمحوں میں پھن کو دس کا ہندسہ بنا پیلا پیلا ناگ پھن اٹھا کر پھنکارتا ہوا باہر آتا۔ سپیرا اور بھی چاؤ سے بین بجاتا، ناگ کے سامنے ناچتے جھومتے لگتا اور وہ ناگ دیوتا بھی اس کی دھن پر مست ہو کر اس کی لے پر جھومنے لگتا۔ اور وہ کڑک لکشمی! باپ رے باپ! اُس شخص کے کپڑے، بکھرے بکھرے بال اور اپنی ہی پیٹھ پر تڑاک تڑاک کوڑے لگانے کی اس کی ادا! میں تو بہت ہی ڈر جاتا تھا۔ اس شخص کو کڑک لکشمی کہتے تھے۔ اس کے ساتھ ایک عورت سر پر ایک بند صندوق لیے آیا کرتی تھی۔ وہ عورت اس صندوق کو پھر اس شخص کے سامنے لا کر دھر دیتی۔ اپنے پر ہی کوڑے برسانے کا وہ سلسلہ کافی دیر تک چلتا رہتا۔ اس کے بعد وہ شخص اس صندوق کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ جاتا اور آواز دیتا، ’’بیا، بیا، دروازہ کھولو، بیا، کواڑ کھولو!‘‘ پھر صندوق اپنے آپ کھل جاتا۔ لوگ اس کے اندر رکھی دیوی کے مکھوٹے کا درشن کرتے اور اس کڑک لکشمی کو اناج دیتے۔
دن اور چڑھ آتا۔ اب سڑک کے ایک سرے پر شور مچنے لگتا۔ شاہو مہاراج کے شکاری چیتے شہر میں گھومنے پھرنے کے لیے لائے جاتے۔ اُن چیتوں سے مہاراج ہرنوں کا شکار کراتے۔ شکار کی پریکٹس برابر بنائے رکھنے کے لیے ایک آدمی لکڑی کی ایک بڑی سی کرچھی میں گوشت کا ایک بڑا ٹکڑا لیے ان چیتوں کے سامنے سے ہو کر بھاگتا بھاگتا جاتا۔ اُس کے پیچھے پیچھے مضبوط رسیوں سے بندھے دو دو آدمیوں کے سنبھالے چیتے لپک کر اس گوشت کو چھین جھپٹ لیتے اور دیکھتے ہی دیکھتے صاف کر جاتے۔ کبھی کبھی پرانے راج محل کے وہ ہاتھی بھی اپنے گلے میں بندھی گھنٹیوں کی آواز کرتے ہوے شہر میں گھومنے کے لیے لائے جاتے۔
ہر شام مندر میں کتھا کیرتن ہوتا۔ کیرتنوں میں قدیم قصے سنائے جاتے۔ مجھے وہ بہت ہی پسند تھے۔ ان قصوں کو دلچسپ بنانے کے لیے بیچ بیچ میں لائق کیرتن کارگیت گاتے جاتے۔
جھانجھ، منجیرے اور مِردَنگ کی لَے تال میں گائے جانے والے وہ چھوٹے چھوٹے گیت من پر بڑا اثر ڈالتے تھے۔ مہاراشٹری روایت میں کیرتن کے درمیانی وقفے میں کالے رنگ کا ٹیکا لگایا جاتا ہے۔ اسے ’بوکا‘ کہتے ہیں۔ کیرتن کار کالا بوکا لگا کر کتھا کے قصے اس ہم آہنگی سے سناتے کہ رام بن باس کی کتھا سناتے وقت ان کی آنکھیں جھرنے لگتیں۔ رام راون جنگ کا بیان کرتے وقت وہ ویررس کی مورت بن جاتے۔ ثنا کیرتن (بھجن) لے تال سوزو آواز میں جب ایک روپ ہو جاتا تو کیرتن کار جذباتی ہو کر ناچنے لگ جاتے تھے۔ ایسے وقت میں بھی اپنے آپ کو بُھلا کر کتھا کے ساتھ ایک روپ ہو جایا کرتا تھا۔
آرتی کے وقت مندر کا کوئی سیوک جھنگٹ بجاتا تھا۔ جھنگٹ یعنی پتیل کی ایک موٹی تھالی، جسے لکڑی کے موٹے ڈنڈے سے آرتی کے تھال میں بجایا جاتا۔ وہ پوجا کا ایک حصہ ہی بن گیا تھا۔ مجھے جھنگٹ بجانے کا بڑا شوق تھا۔ مندر میں ہر روز جھنگٹ بجا کر اکتایا وہ سیوک جھنگٹ کو مجھ جیسے شوقیہ لڑکے کے حوالے خوشی سے کر دیتا۔ وہ بھی خوش، ہم بھی خوش۔ آرتی کے وقت میں اس جھنگٹ کو کافی چاؤ اور جوش کے ساتھ بجایا کرتا تھا۔ پھر اس آرتی کو مندر کے احاطے میں واقع سبھی مندروں میں گھمایا جاتا۔ مہالکشمی کی آرتی کے سامنے وہ وزن دار جھنگٹ بجاتا ہوا مَیں ناچتا پھرتا تھا۔ میرے پیچھے پیچھے پجاری آرتی کا تھال لیے چلا آتا تھا۔ ایک بار وہ وزنی جھنگٹ زور سے میرے پاؤں پر گِرا، پاؤں پھول گیا۔ ماں نے پوچھا بھی، پاؤں کیسے پھول گیا؟ میں نے جھوٹ کہہ دیا کہ موچ کھا گیا تھا۔ ماں کے غصے سے بچنے کے لیے میں ایک دم سفید جھوٹ بول گیا تھا۔
مندر کا وہ جھنگٹ بجانے کی خواہش کی طرح شمالی دیوار پر لگی وِشال گھنٹی بجانے کا موقع پانے کی تمنا بھی من میں تھی۔ میں باربار سوچتا، کاش کم سے کم ایک بار وہ بڑی گھنٹی بجانے کو مل جائے! گھنٹی تک پہنچنے کے لیے شمالی دیوار کی کافی سیڑھیاں چڑھ کر جانا پڑتا تھا۔ وہاں کی گھنٹی بجانے کا کام جس بھٹ جی کے ذمے تھا اسے ’بھٹ جی ماما‘ کہہ کر، کافی مکھن بازی کر، وہ گھنٹی بجانے کی خواہش بھی میں نے ایک بار پوری کر لی تھی۔
مہالکشمی کے تہواروں پر درباری گائیک استاد اللہ دیا خاں صاحب روایت کے مطابق حاضری لگاتے تھے۔ ایسے پروگراموں کے لیے لوگوں کی بھاری بھیڑ جمع ہوا کرتی تھی۔ اللہ دیا خاں صاحب کولھاپور کی بڑی معزز ہستی تھے۔ ان کے فن کی خوبیوں کی خود شاہو مہاراج بہت ہی محبت بھری عزت کیا کرتے تھے۔
کچھ خاص موقعوں پر ہاتھی کی ساٹھ ماری کا کھیل بھی منعقد کیا جاتا تھا۔ اسے دیکھنے کے لیے کئی بار تو ہم لڑکے سکول سے بھی چھٹی مارتے تھے۔ ساٹھ ماری کے کھیل میں ایک میدان میں ہاتھی کو مدہوش کر کے چھوڑ دیا جاتا۔ اس ہاتھی کے سامنے چند لوگ رنگین رومال ہلا ہلا کر اسے کافی غصہ دلاتے۔ غصّیل ہو کر جب وہ بدمست ہاتھی ان میں سے کسی آدمی پر دھاوا بول دیتا تو مخصوص لوگ شورشرابا کر کے اس کا دھیان بٹانے کی کوشش کرتے۔ اس کھیل میں کبھی کبھی تو متوالا بدمست ہاتھی کسی ایک شخص کے پیچھے پڑ جاتا۔ تب وہ شخص میدان میں بنائے گئے پتھر کے بُرجوں میں چھپ جاتا۔ جان بچانے والے میدان میں کچھ بُرج بنے ہوتے۔ کھیل کھیل میں بدمست ہاتھی آپے سے باہر ہو کر میدان میں من چاہا دوڑنے چنگھاڑنے لگتا۔ کبھی کبھی تو اس طرح بدمست ہاتھی سامنے نظر آنے والے آدمی کو اپنی سونڈ میں لپیٹ کر اونچا اٹھا لیتا۔ تب ہاتھی کے پیروں میں زبردست چٹکیاں کاٹ کر اسے آزاد کریا جاتا۔ ہم نے سنا تھا کہ دو ایک بار تو ایسا بھی دیکھا گیا کہ غصے میں پاگل ہاتھی نے آدمی کو سونڈ میں لپیٹ کر اوپر اٹھایا اور نیچے پٹک کر پیروں تلے روند ڈالا۔
ایسے میدان میں کبھی کبھی مدہوش ہاتھیوں کی آپس میں ٹکر بھی کرائی جاتی۔ مستی پر اتر آئے مدہوش ہاتھی کبھی تو مقابل ہاتھی کو اپنی سونڈ میں اتنا کس کر لپیٹتے اور اتنے زوروں سے دھکا دیتے کہ دیکھنے والوں کو لگتا کہ اب کسی نہ کسی ہاتھی کو جان سے مار کر ہی اس ٹکر کا کھیل رُکے گا۔ ایسی حالت میں پٹاخوں کی آواز، بارود کے انار اور آتش بازی کر کے ہاتھیوں کو ڈرایا جاتا، جس سے ڈر کر وہ دور ہو جاتے۔
کولھاپور کے اس طرح کے متنوع رنگارنگ ماحول میں میرا تن من شکل لے رہا تھا، اس ماحول کے ڈھانچے میں ڈھالا جا رہا تھا۔ میں دس سال کا ہو چکا تھا۔ شاہو مہاراج نے انھی دنوں کولھاپور میں ’ایرینا‘ سٹائل کی کشتیوں کے دنگل کا ایک شاندار میدان بنوا کر پورا کر دیا تھا۔ نئے دنگل میدان میں چالیس پچاس ہزار ناظرین آسانی سے بیٹھ سکتے تھے۔ انھوں نے کافی ماہر ہوشیار اور تیار پہلوانوں کو سہارا دیا تھا۔ میدان کے افتتاح کے موقع پر ہندوستان کے بڑے بڑے اور مشہور پہلوانوں کی کشیتوں کا انتظام کیا گیا تھا۔
آج بھی مجھے اچھی طرح یاد ہے، میں بھی ان دنوں اکھاڑے میں جا کر یوں ہی ڈنڑ (ڈنڈ) پیلنے لگا تھا، بیٹھکیں مارنے لگا تھا۔ تھوڑی بہت کشتی بھی کھیل لیتا تھا۔ ویسے میرا بدن تھا تو چھریرا ہی، جیسے سدا ماسی جی کا بھائی ہوں! پھر بھی اکھاڑے کی لال مٹی شوقیہ اپنی قمیض پر لگا لیتا اور مٹھیاں بغل میں دبا کر بانہوں کو پھلاتا ہوا بالشت بھر کا سینہ تان کر پہلوان کی اکڑ سے میں بھی سڑکوں پر یوں ہی سیرسپاٹا کر آتا تھا۔
میدان کے افتتاح کا دن آیا۔ سارے کولھاپور میں مسرت ٹھاٹھیں مارنے لگی تھی۔ جگہ جگہ، گاؤں گاؤں اور پاس پڑوس کے بڑے شہروں سے آئے پہلوانوں سے میدان کھِل اٹھا تھا۔ میدان کے باہر بھی کافی بڑا میلہ لگ گیا تھا۔ اس میں طرح طرح کے کھیل اور کھانے پینے کی دکانیں تھیں، چکر جھولے تھے۔ اس میلے میں کھانے پینے اور موج کرنے کے لیے باپو نے مجھے دو آنے دیے تھے۔ دو آنے! یعنی پورے آٹھ پیسے! ایسا لگتا تھا جیسے ساری دنیا کی دولت اس دن میری مٹھی میں آ گئی تھی۔
میلے کا مزہ لوٹتے لوٹتے، ٹہلتے بھٹکتے میں آرام سے چل رہا تھا۔ ایک جگہ پر کافی بھیڑ دیکھی۔ لوگوں نے ایک گھیرا سا بنا لیا تھا۔ اندر ایک آدمی چلّا چلّا کر لوگوں کا دھیان کھینچ رہا تھا۔ ’’ایک پیسے کے پانچ پیسے، ایک پیسے کے پانچ پیسے!‘‘ بھیڑ میں سے راستہ نکال کر میں سب سے آگے پہنچ گیا۔ اس آدمی نے زمین پر ایک چادر بچھائی تھی۔ اس پر چھ تصویریں تھیں: ہل، گھوڑا، مرغا، بیل، ہرن اور شیر! میں سارا ماجرا بڑی بےتابی سے دیکھتا رہا۔
اس آدمی کے ہاتھ میں ایک ٹین کا چھوٹا سا ڈبا تھا۔ اس کے اندر کوئی چیز رکھی تھی۔ ڈبا ہلتے ہی کھڑکھڑ کھڑکھڑ آواز سنائی دیتی تھی۔ گھیر کر کھڑے لوگوں میں سے کچھ لوگ چادر پر بنی تصویروں میں سے کہیں پر پیسے رکھے جا رہے تھے۔ کسی تصویر پر ایک، کسی تصویر پر دو، کسی پر تین تین بھی پیسے ڈالے گئے تھے۔ اس طرح سبھی تصویروں پر پیسے رکھے جانے کے بعد اس نے وہ ڈبا پھر ایک بار زور سے ہلا کر چادر پر الٹا رکھا۔ اب سب لوگ سانس روک کر اس ڈبے کو دیکھنے لگے۔ اس نے ڈبا اٹھا لیا۔ ڈبے کے اندر انھی چھ تصویروں والا ایک پانسا تھا۔ اس پر ہل کی تصویر اوپر آئی تھی۔ جس شخص نے ہل کی تصویر پر پیسہ لگایا تھا اسے پانچ پیسے مل گئے۔ وہ بہت خوش ہو گیا۔ مجھے بھی لطف آیا۔ ایک پیسہ لگانے کو میرا بھی جی کرنے لگا۔ ایک پیسہ لگا کر اگر پانچ پیسے مل گئے تو میلے میں کتنا ہی اور مزہ لیا جا سکتا ہے، میں نے سوچا۔ دماغ میں وہ پانسا الٹنے پلٹنے لگ گیا تھا۔
میرا ارادہ پکّا ہو گیا۔ میں نے بھی ایک پیسہ ہل پر ہی پھنیکا۔ ڈرتے ڈرتے، کھیل کب شروع ہوتا ہے، آنکھیں پھاڑ کر دیکھنے لگا۔
سبھی تصویروں پر پیسے پھینکے گئے تھے۔ وہ آدمی ڈبا کھڑکھڑانے لگ گیا تھا۔ میرا جوش انتہائی حد پر پہنچ گیا تھا۔ اس نے ڈبا پھر الٹا رکھ دیا اور آرام سے اٹھا دیا۔ مجھے اپنی آنکھوں پر بھروسا نہیں ہو رہا تھا! ہل والی تصویر پھر پانسے پر اوپر آ گئی تھی۔ مجھے پانچ پیسے مل گئے تھے۔ اب میرے پاس بارہ پیسے ہو گئے تھے۔ میلہ، مٹھائی، چکرجھولا وغیرہ، ساری باتوں کو بھلا بیٹھا تھا۔ سامنے بس وہ تصویریں، ان پر لگائے جانے پیسے اور زیادہ پیسے دلانے والے اس آدمی کے ڈبے کے اندر کا وہ پانسا ہی دکھائی دے رہا تھا!اب کی بار میں نے ہرن پر پیسہ لگایا۔ پھر وہی سب شور ہوا اور ڈبا اٹھانے سے پہلے کی وہی عجیب خاموشی چھا گئی۔
اس نے ڈبا اٹھا دیا۔ ہرن کی تصویر اوپر تھی۔ اے شاباش! میں پھر جیت گیا تھا۔ میری قسمت زوروں پر تھی۔ میں لگاتار جیتتا ہی چلا گیا۔ اب میرا حوصلہ بڑھ گیا تھا۔ میں تصویر پر ایک کے بجاے کبھی دو تو کبھی چار پیسے بھی لگاتا گیا۔ اس طرح میرے پاس پورے دو روپے کی ریزگاری جمع ہو گئی۔ اتنے پیسے میں نے کبھی اپنے پاس رکھے نہیں تھے۔
اب تو اس کھیل کا نشہ ہی مجھ پر سوار ہو گیا۔ میں اب تصویروں پر زیادہ پیسے لگانے لگا۔ لیکن بیچ بیچ میں میں ہارنے بھی لگا۔ ہارے ہوے پیسوں کو پھر سے جیتنے کی ضد بھی سر پر سوار ہوتی گئی۔ اور ساتھ ہی ہارنے کا سلسلہ بھی زوروں سے جاری رہا۔ میرے پاس جمع دو روپے کی ریزگاری میں سے صرف دو آنے ہی میرے ہاتھ رہے! باقی سارے پیسے میں ہار گیا تھا۔ بچے تھے صرف دو آنے! باپو کی طرف سے میلے میں کھانے پینے اور مزہ کرنے کے لیے دیے گئے دو آنے! لیکن میں انھیں بھی بھلا بیٹھا تھا۔ بس ایک ہی دھن سوار تھی۔ کچھ ہی لمحے پہلے، کچھ ہی لمحے پہلے میرے ہاتھ آئی وہ دو روپے کی ریزگاری مجھے پھر سے جیتنی ہے۔ میں کھیلتا گیا۔ پیسے لگاتا گیا۔ اب میرے پاس صرف ایک ہی پیسہ بچا تھا، آخری پیسہ! ہارے ہوے سارے پیسے پھر سے جیت سکنے کی خواہش دلانے والا وہی اکلوتا پیسہ تھا!
ان سبھی دیوی دیوتاؤں کو جن کے نام مجھے یاد تھے، یاد کر کے میں نے وہ آخری پیسہ پھر سے ’ہل‘ پر لگا دیا۔ پہلے پانچ پیسے اس تصویر نے جو جِتا دیے تھے۔ وہ آدمی ڈبا کھڑکھڑانے لگا۔ مجھے لگا، وہ بیکار ہی زیادہ آواز کیے جا رہا ہے۔ کیرتن کار کے وسیلہ سے سنایا گیا کوروؤں پانڈوؤں کے درمیان ہوئی جنگ کا، یعنی جوئے کا اکھیان (بیان) یاد آنے لگا۔ پھر سے سارے راج کو جیت لینے کی خواہش سے دھرم راج نے دروپدی کو بھی داؤ پر لگانے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں دکھائی تھی۔ میں تو صرف آخری پیسہ ہی لگا چکا تھا۔۔۔ بھئی یہ آدمی اس ڈبے کو کب تک کھڑکھڑاتا ہی رہے گا؟
آخر میں اس نے ڈبا الٹا رکھا۔ میں سانس روک کر دیکھنے لگا۔ روح آنکھوں میں آ گئی تھی۔ اس نے ہولے سے ڈبا اٹھا دیا۔ پانسے کے اوپر والے حصہ پر ہل کی تصویر نہیں تھی۔
ایک کونے میں بیٹھ کر میں جی بھر کر رویا۔ میں آخری پیسہ بھی ہار چکا تھا۔ میرے پاس پورے آٹھ پیسے تھے۔ لیکن میں مورکھ۔۔۔ بری باتوں کے لالچ میں باپو کے دئیے گئے سارے پیسے گنوا بیٹھا تھا۔ مٹھائی والے کی دکان میں لگی مٹھائی مجھ پر ہنس رہی تھی، مجھے چڑا رہی تھی۔ سامنے چکروں میں گھومنے والے جھولے بھی ’کرکر‘ آواز کرتے ہوے مجھے منھ بنا کر جیسے چِڑا ہی رہے تھے۔ لیکن اب کیا ہونا تھا؟ میں سارے پیسے ہار گیا تھا۔ میرے کومل من پر اس بات کا اتنا زبردست صدمہ ہوا کہ اس کے بعد جیون میں آج تک، مذاق کے لیے بھی، میں نے کبھی جوا نہیں کھیلا۔
میرے باپو کی کرانے کی دکان کوئی خاص نہیں چل پا رہی تھی۔ لوگ باگ نقد دینے کے بجاے ادھار لے جانا ہی زیادہ پسند کرتے تھے۔ اس لیے دکان سے ہونے والی آمدنی خاندان کے گزارے کے لیے کم پڑنے لگی۔ حالات بد سے بدتر ہوتے گئے۔ کئی بار ہم لوگوں کو اپنے مکان بھی بدلنے پڑے۔ ہر بار کرائے پر لیا گیا مکان پہلے مکان سے چھوٹا ہونے لگا۔ سوال کم کرائے کا جو تھا۔ آخر میں تو ہم منگلوار بازار میں ایک ایسے مکان میں پہنچ گئے جس میں ڈیڑھ کمرہ تھا۔
لہٰذا کریانے کی دکان کے ذیلی کاروبار کے طور پر باپو نے کہیں سے قرضہ لے کر بارہ(12) گیس بتیاں پونا جا کر خرید لیں۔ یہ گیس بتیاں شادی بیاہوں میں اور ناٹکوں کے استعمال کے لیے کرائے پر دی جاتی تھیں۔ شاہو مہاراج کی فیاضانہ شاہی سرپرستی کی وجہ سے مشہور ناٹک کمپنیاں اپنے ناٹکوں کا مظاہرہ کرنے کے لیے کولھاپور آتی تھیں۔
خاص باغ کے دنگل میدان کے ساتھ ہی مہاراج نے ’پیلس‘ نامی ایک نیا تھیٹر بھی بنوایا تھا۔ ’لکشمی پرساد‘ اور ’شِواجی‘ نامی دو پرانے تھیٹر بھی چلتے تھے۔ باپو کا ناٹک منڈلیوں کے قیام کی جگہوں پر آنا جانا تھا اور اچھی جان پہچان تھی۔ پیٹرومیکس جب کرائے پر جاتے تو میں بھی باپو کے ساتھ ان کی مدد کرنے کے لیے جایا کرتا تھا۔ گیس کی بتیاں جلانا، ان میں ہوا بھرنا، ہوا کو کم زیادہ کرنا، ایک ادھ ہی اچانک ہی جل اٹھتی تو اسے بجھا کر پھر جلانا وغیرہ کام مَیں کیا کرتا تھا۔
ان پیٹرومیکسوں کی وجہ سے اُن دنوں میں نے کافی ناٹک دیکھے۔ ناٹک مشہور اور اچھا ہوتا تو ماں بھی دیکھنے آیا کرتیں۔ اس زمانے میں عورتوں کے بیٹھنے کا الگ انتظام ہوتا تھا۔ عورتوں کے لیے اکثر تھیٹر کی اوپری منزل پر ایک طرف کا کمرہ مخصوص رہتا تھا۔ باقی ہم سب لوگ نیچے کی منزل پر کرسیوں پر بیٹھا کرتے تھے۔ وہ زمانہ سنگیت ناٹکوں کا تھا۔ سنگیت ناٹکوں کا کافی دھوم تھی۔ ان ناٹکوں کو مقبولیت بھی حاصل تھی۔ لیکن سنگیت ناٹکوں کا نام سنتے ہی اپنے تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے تھے۔ بات یہ تھی کہ ان ناٹکوں میں جو گیت ہوتے تھے وہ اتنی دیر تک گائے جاتے کہ لگتا یہ ختم ہوں گے یا نہیں۔ پدگیان شروع ہوتے ہی مجھے جمائی جھپکی آنے لگتی۔ بیچ میں تالیوں کی گڑگڑاہٹ ہوتی تو میں چونک کر جاگ پڑتا اور تالیاں بجانے لگتا تھا۔ گیت ختم ہونے کی خوشی میری تالیوں میں زیادہ ہوا کرتی تھی۔ لیکن یہ اطمینان قلیل مدتی ہوتا، کیونکہ وہ تالیاں گیت ختم ہونے کے لیے نہیں بلکہ ’ونس مور‘ کے لیے ہوتی تھیں۔ پھر سے وہی گیت اور بھی زیادہ الاپ اور تسلسل کے ساتھ گایا جاتا۔ اس درمیان ناٹک کی کہانی وہیں رکی رہتی۔ اس پر میں اپنے چاروں طرف دیکھتا، یہ جاننے کے لیے کہ کہیں یہ سب لوگ پاگل واگل تو نہیں ہو گئے ہیں؟ لیکن سبھی ناظرین کو پھر سے وہی گیت گائے جانے پر بےحد خوشی ہوتی دکھائی دیتی، اور اپنے رام پھر سو جاتے!
کبھی کبھار ایسے ناٹک بھی آیا کرتے تھے جن میں گیت نہ ہوتے۔ لیکن عام ناظرین کا رجحان سنگیت ناٹکوں کی طرف ہی زیادہ تھا۔ جو بھی ہو، ناٹک کا پلاٹ وغیرہ باتیں سنگیت ناٹکوں سے زیادہ پسند تھیں۔ ’شاہو نگرواسی‘ نامی ایک ناٹک منڈلی صرف نثری ناٹکوں کے لیے کافی مشہور ہو چکی تھی۔ مشہور اداکار گنپت راؤ جوشی اس منڈلی کے مالک تھے۔ وہ خود ناٹکوں میں بہت ہی بہترین اداکاری کیا کرتے تھے۔ آواز زبردست تھی اور کافی دور تک آسانی سے سنی جا سکتی تھی۔ اداکاری تو ایک دم جاندار ہوتی تھی۔ جو بھی کردار گنپت راؤ کرتے، بس اس کے ساتھ ہی ایک روپ (یک جان) ہو جاتے تھے۔ ’رانا بھیم دیو‘ ناٹک میں بھیم دیو، ’پنّا دائی‘ میں پنّا کے شوہر اور ’ ہیملٹ‘ ناٹک میں ہیملٹ کا جو کردار گنپت راؤ کیا کرتے تھے، آج بھی مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہیملٹ کا اُن کا کردار سب سے زیادہ مقبول تھا۔ جس دن جس کردار کی اداکاری کرنی ہوتی، گنپت راؤ اس دن وہی کردار بن جاتے تھے۔ اتنی جان وہ اپنی اداکاری میں لایا کرتے تھے۔ ہیملٹ ناٹک کا ایک سین تو میں آج تک بھلا نہیں پایا ہوں۔
ہیملٹ کے باپ کا قتل اس کا چچا کرتا ہے۔ اس کی ماں بعد میں اسی چچا کے ساتھ شادی کر لیتی ہے۔ ہیملٹ ان دونوں کے سامنے اپنے باپ کے قتل کا ناٹک کراتا ہے۔ اُس ناٹک کو دیکھنے کے بعد اُس کے چچا اور ماں دونوں بےچین ہو کرتذبذب میں مبتلا ہو کر وہاں سے چلے جاتے ہیں۔ اُس ناٹک کا مطلوبہ نیتجہ برآمد ہوا دیکھ کر ہیملٹ کا کردار ادا کرنے والے گنپت راؤ جوشی ایک دم ایک بچّے کی حرکت سے اچھل کر اپنا مکالمہ ’’تالی دو پریالا، تالی!‘‘ ادا کرتے۔ اِس طرح بولنے کی اُن کی اس ادا پر تالیوں کی گونج سے ناظرین سارا تھیٹر گونجا دیتے تھے۔ میری بھی پُرجوش تالیاں اُن میں شامل رہا کرتی تھیں۔
اُس زمانے میں عورتوں کے کرداروں کی ادا کاری مرد ہی کیا کرتے تھے۔ بھلے چنگے مردوں کو عورتوں جیسی ساڑھیاں پہن کر تھیٹر میں کام کرتے دیکھ کر مجھے بہت ہی عجیب لگتا تھا۔ بدسلیقہ، بے سرو پیر، اٹ پٹا لگتا تھا۔ ایک دن میں نے باپو سے پوچھ ہی لیا کہ ناٹکوں میں عورتوں کا پارٹ مرد کیوں ادا کرتے ہیں؟ باپو نے صاف لفظوں میں دھتکار دیا تھا۔ ’’چل ہٹ، تم تو نرے بے وقوف ہو!‘‘ ناٹکوں میں عورتوں کا پارٹ مردوں کی طرف سے کیا جانا اور میری بےوقوفی، دونوں کا کیا تعلق ہے، میری سمجھ میں تو خاک نہیں آیا۔
ایک بار کولھاپور میں صرف عورتوں کی ایک ناٹک منڈلی آئی تھی۔ ان کا دستور ایک دم الٹا تھا۔ ان کے ناٹکوں میں ہیروئن یا اس کی سہیلیوں کا کردار نوجوان عورتیں ادا کرتی تھیں۔ اس میں وہ خوب پھبتی بھی تھیں۔ لیکن ناٹک کے ہیرو یا دیگر مرد کرداروں کی ادا کاری انھی دوشیزاؤں کی مائیں یا خالائیں چچیاں کرتی تھیں تو وہ بہت ہی بھونڈی لگتی تھیں۔ ان کا انگ بھدا ہی رہتا تھا۔ مردوں کا بھیس اختیار کر کے جب وہ اپنے گھیرے دار کولھے مٹکاتی سٹیج پر اِدھر سے اُدھر چلتیں تو میں ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو جاتا تھا۔
ان سب باتوں کے ساتھ ہی میری تعلیم بھی دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہی تھی۔ ہر سال پاس ہوتے ہوتے میں پرائیویٹ انگریزی ہائی سکول کی تیسری جماعت میں جا پہنچا تھا۔ زبان اور پینٹنگ کے مضامین میں ترقی کافی اچھی تھی۔ ریاضی کے ساتھ میری ذرا کم ہی بنتی تھی۔
سال کے آخر میں سکول میں ایک میلہ ہوا کرتا تھا۔ اُس کی تیاری کافی دن پہلے ہی شروع ہو جاتی تھی۔ اس وقت سکول میں سارا ماحول کافی جوش و خروش اور میل ملاپ کا ہوا کرتا تھا۔ ہر میلے میں ایک اچھا مقبول ہو چکا ناٹک سٹیج کیا جاتا۔ اس کا انتظام طلبا ہی کرتے۔ اس ناٹک کو پیش کرنے، اس کی ہدایتکاری، ریہرسل کرانے میں ساٹھے گروجی ہمیشہ پہل کرتے۔ سال بھر ایک دم مشکل، سخت اور غصّیل رہنے والے ساٹھے گروجی ناٹک کے دنوں طلبا سے بڑی ہی ملنساری کا مظاہرہ کرتے تھے۔ ہنسی مذاق سے ماحول بھر دیا کرتے تھے۔
اس سال نرسنگھ چنتامنی کیلکر کا لکھا ’توتیا چے بنڈ‘ نامی تاریخی ناٹک سٹیج کرنے کے لیے چنا گیا تھا۔ سبھی اہم پارٹ بڑی کلاس والے طلبا کو دیے جا چکے تھے۔ میرا خالہ زاد بھائی بابو (بابوراؤ پنڈھارکر) بھی ایک کردار پانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ پتا نہیں کیوں اور کیسے، مجھے، دادا ( کاشی ناتھ) کو اور میرے ایک اور خالہ زاد بھائی بھالو (بھالجی پنڈھارکر) کو بھی اس ناٹک میں پارٹ مل گئے تھے۔ ہمیں قلعے کے باہر پہرہ دینے والے محافظوں کے کردار ملے۔ میں تو بہت ہی خوش تھا۔
ناٹک کی تعلیم شروع ہو گئی۔ میرا کردار ویسے بہت ہی چھوٹا سا تھا، اس لیے میرے پاس فالتو وقت کافی ہوا کرتا تھا۔ اس کا استعمال میں تعلیم کے وقت باقی سب کے کرداروں کا، ان کے مکالموں کے ڈھنگ کا، اور خاص اداکاری کا باریکی سے جائزہ لینے میں کیا کرتا تھا۔ کسی منچلے لڑکے نے یہ بات ساٹھے گروجی کے پاس چغل خوری کر کے پہنچا دی۔
شام کو ناٹک کی ریہرسل ہوئی۔ اس کا ناظرین کے سامنے مظاہرہ کل پرسوں ہونے والا تھا۔ ساٹھے گروجی نے اپنی کڑکتی آواز میں مجھے پکارا: ’’شانتارام، ادھر آؤ۔ کیوں بچے جی، سنا ہے تم ہر کسی کی نقل کرتے پھرتے ہو؟ ہیں؟ ماجرا کیا ہے؟‘‘
’’نا۔۔۔ نا۔۔۔ نا۔۔۔ نا۔۔۔ ہیں۔‘‘
’’نہیں؟ جھوٹ بولتے ہو؟ گدھے کہیں کے!‘‘ گروجی گرجے۔ مجھے لگا اب تو ناٹک کا پارٹ ختم ہی سمجھو۔
’’ن۔۔۔ نہیں سر،۔۔۔ سر،۔۔ جی۔۔ ہاں۔۔۔ گروجی۔۔‘‘
’’یہ نہیں اور جی کیا لگا رکھا ہے؟ پاگل ہو گئے ہو کیا؟ میں بھی تو دیکھوں، کیسی نقل کرتے ہو!‘‘ گروجی کی مونچھوں میں مسکان کھِلی۔ کمال ہو گیا۔
اس سے مجھے ڈھارس بندھ گئی۔ میں نے سب سے پہلے اپنے باپو کی نقل کر کے دکھائی۔ لگا کہ گروجی کو پسند آئی۔ میری بھی ہچکچاہٹ جاتی رہی۔ پھر تو میں نے باری باری سے ناٹک کے سبھی کرداروں کی نقلیں ان کی ٹھیک ادا کے ساتھ پیش کر دیں۔ سبھی لڑکے کھلکھلا کر ہنس رہے تھے۔ ساٹھے گروجی کی مونچھیں بھی ہنسنے کی وجہ سے بِلّے کی مونچھ جیسی پھیل گئی تھیں۔
اب تو میرا سارا ڈر ختم ہو گیا تھا۔ میں نے ساٹھے گروجی سے پوچھا، ’’سر، اس فلم میں کام کرنے والے لوگوں کے چلنے کی اٹھنے بیٹھنے کی، گرنے کی نقل میں کر کے دکھا سکتا ہوں۔ دیکھنا پسند کریں گے آپ؟’’
گرو جی نے ’’ہاں‘‘ کہا۔ میں نے ’فولز ہیڈ‘ فلم باپو کے ساتھ دیکھی تھی۔ وہ خاموش فلم تھی اور بےحد مزاحیہ تھی۔ بہت مزہ آتا تھا۔ ان دنوں فلمیں خاموش ہی ہوا کرتی تھیں۔ سنیما سکرین کی ساری مشینری ابھی بنیادی ابتدائی حالت میں ہونے کی وجہ سے شوٹنگ میں اور کئی بار تو فلم دیکھتے وقت بھی کرداروں کی سر گرمیاں کافی دلچسپ ہو جاتی تھیں۔ ایسا دکھائی دیتا تھا کہ کرداروں پر کپکپی طاری ہے، انھیں جھٹکے لگتے معلوم ہو رہے ہیں۔ میں نے اس فلم کے سبھی کرداروں کی نقل اس کپکپی اور ان جھٹکوں کے ساتھ کر کے دکھا دی۔ ہنستے ہنستے لڑکوں کے پیٹ میں بل پڑتے دکھائی دیے اور گروجی تو بہت زیادہ ہنسنے کی وجہ سے آنکھوں میں آیا پانی اپنے اپرنے سے پونچھتے نظر آئے۔
فن فیئر کا دن آ گیا۔ صبح سے ہی سکول میں کافی چہل پہل ہونے لگی۔ شروع میں طرح طرح کے کھیل ہوے۔ مختلف قسم کے مقابلے بھی ہوے۔ اس میں ہی صبح کا سارا وقت بیت گیا۔ ساتھ مل کر کھانے کا پروگرام ہوا۔ اس کے بعد ساری دوپہری گپیں لڑانے، بند کمروں میں کھیلے جانے والے کھیل کھیلنے میں کب بیت گئی، پتا ہی نہ چلا۔ شام ہوتے ہی ہم ناٹک میں کام کرنے والے لڑکے اس کی تیاری میں جٹ گئے۔ ہر کوئی جلدی میں تھا۔ اس سال ہمارا ناٹک ’’پیلس‘‘ تھیٹر میں ہونے والا تھا۔
ناٹک شروع ہو گیا۔ تین چھوٹے چھوٹے محافظوں کی آمد شروع ہوئی۔ یہ تین محافظ تھے میں، بھالو اور دادا۔ بھالو گانا گایا کرتا تھا، دادا اِکتارا بجاتا اور میں جھانجھ۔ ہم تینوں اپنے کرداروں میں کھو گئے تھے۔ گانے کی لِے بدلتے ہی میری جھانجھ بجنے کا ڈھنگ بھی اپنے آپ بدل جاتا تھا۔ لوگوں نے تالیوں کی گڑگڑ اہٹ کی۔ مجھے لگا شاید بھالو کے گانے کو داد دی گئی ہے۔ ہم تینوں خوش ہو کر وِنگ میں واپس چلے گئے۔ گروجی ونگ میں ہی کھڑے تھے۔ شاباشی دینے کے انداز میں میری پیٹھ تھپتھپاتے ہوے بولے، ’’واہ بھئی! بہت بہت شاباش! کیا ہی بڑھیا لَے تال میں جھانجھ بجائی ہے تم نے۔ لوگوں کی تالیاں جو سمیٹیں! بہت اچھے!‘‘ سن کر میرا بھی جی بھر گیا۔
ناٹک ختم ہوا۔ سارے ناظرین چلے گئے۔ اب تو تھیٹر میں بچے تھے سکول کے طلبا اور ناٹک میں کام کر چکے طلبا۔ گروجی نے اچانک پھر مجھے آواز دی۔ بولے، ’’ہاں تو شانتارام، ہو جائے اب تمھاری نقلوں کا پروگرام!‘‘
آہستہ آہستہ میری نقلیں کر دکھانے کا فن کی شہرت کافی پھیل گئی۔ ہمارے باپو نئے قائم ہوے دیول کلب میں ہمیشہ جایا کرتے تھے۔ کولھاپور میں بابا دیول نامی ایک سنگیت پریمی سجن نے اس کلب کو حال ہی میں قائم کیا تھا۔ کولھاپور کے لکشمی پرساد تھیٹر کے پچھواڑے میں لوکتوکے نامی سجن رہا کرتے تھے۔ ان کے گھر کی اوپری منزل پر دیوان خانے میں یہ دیول کلب تھا۔ اس کلب کی زیر نگرانی باہر گاؤں سے آئے بڑے بڑے گایکوں (گویّوں) کی محفلیں برپا کی جاتی تھیں۔ دوسری صورت میں وہ لوگوں کی گفتگو کا ایک اڈا ہوتا تھا۔ ایسے موقعوں پر کئی بار نقلیں کرنا، چٹکلے سنانا جیسے پروگرام بھی ہوتے تھے۔ کئی بار ہمارے باپو بھی نقلیں کیا کرتے تھے۔ ایک شرابی کی نقل اور ایک توتلے نائی اور اس کے توتلے گاہک کی باپو کی طرف سے پیش کی جانے والی نقلیں کافی مقبول ہو چکی تھیں۔ ان توتلوں کی نقل پیش کرتے کرتے باپو بھی تھوڑا سا تُتلانے لگے تھے۔
کولھاپور کے مشہور ہارمونیم فنکار گووِندراؤ ٹینبے نے تھیٹر کے مشہور گائیک، اداکار بال گندھرو اور گنپت راؤ بوڈس کے تعاون سے ’گندھرو‘ نامی منڈلی قائم کی تھی۔ دورہ کر کے جب کولھاپور آتے تو اس دیول کلب میں بھی آتے تھے۔ ایک دن بابا دیول جی نے گوبند راؤ جی ٹینبے کے سامنے مجھے اپنے سکول میں پیش کی گئی ساری نقلیں کر کے دکھانے کو کہا۔ گوبند راؤ جی کو وہ بہت بھائیں۔ بعد میں میں تو گھر چلا آیا۔ تھوڑی دیر بعد باپو بھی گھر آئے۔ کھانا کھاتے وقت انھوں نے ماں سے کہا، ’’آج گوبند راؤ جی نے شانتا رام کی نقلیں دیکھیں۔ انھوں نے اسے خوب سراہا۔ کہہ رہے تھے، تمھارا یہ شانتارام کافی چست دماغ والا لڑکا معلوم ہوتا ہے۔ تمھارے پانچ لڑکے ہیں۔ کیوں نہیں ایک کو ہماری ناٹک کمپنی میں بھرتی کراتے؟‘‘
ماں نے باپو سے پوچھا، ’’آپ نے کیا کہا؟‘‘
’’میں نے منع کر دیا۔‘‘
ماں کے چہرے پر اطمینان جھلکتا دکھائی دیا۔ میں نے یہ ساری باتیں سن لی تھیں۔ کھانا کھانے کے بعد باپو اکیلے ہی آرام سے بیٹھے تھے۔ میں ان کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا اور کہا، ’’باپو، میں ناٹک کمپنی میں جاؤں گا۔‘‘
باپو منھ بنائے دیکھتے ہی رہ گئے۔ بات بدلنے کے مقصد سے بولے:
’’ارے بھئی، وہ تو گنپت راؤ نے یوں ہی کہہ دیا تھا۔‘‘
’’انھوں نے بھلے ہی یوں ہی کہا ہو، لیکن میں ناٹک کمپنی میں جانا چاہتا ہوں۔‘‘
کوئی بات من میں بیٹھ جانے کے بعد فوراً فیصلہ کرنے کا رجحان شاید ان دنوں بھی مجھ میں رہا ہو گا۔ باپو نے مجھے اپنے پاس بیٹھا کر کافی سمجھایا۔ ناٹک کمپنی میں ماحول کیسا ہوتا ہے۔ بری عادتوں اور لتوں میں پڑے لوگوں کے ساتھ بیٹھے رہنا پڑتا ہے۔ ہمیشہ گھر سے دور ہی کیسے کیسے دورے نکلتے ہیں۔ پھر پڑھائی لکھائی گول ہو جاتی ہے۔ سوانگ وغیرہ، ساری باتیں وہ مجھے کافی دیر تک سمجھاتے رہے، ہدایتیں دیتے رہے، انتباہ بھی کرتے رہے۔ لیکن مجھ پر ناٹک کمپنی میں بھرتی ہونے کا نشہ سا سوار ہو چکا تھا۔
آخر باپو نے ہار مان لی۔ مجھے ساتھ لے کر وہ پونا میں گندھرو ناٹک کمپنی میں گئے، مجھے گوبند راؤ کے سپرد کیا اور بولے:
’’آپ کی خواہش کے مطابق اِس شانتارام کو یہاں لے آیا ہوں۔ اب آپ ہی اس کا پالن کیجیے۔‘‘ کہتے کہتے باپو کا گلا رُندھ گیا۔ سسکی کو وہ روک نہ سکے۔ فوراً ہی آنکھیں پونچھتے پونچھتے وہ وہاں سے چلے گئے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...