ڈاکٹر محمد کلیم ضیاؔ
ڈاکٹر محمد کلیم ضیاؔ۴؍مارچ ۱۹۵۶ء کو ملکا پور، ضلع بُلڈانہ میں پیدا ہوئے۔ ایم اے (اردو، فارسی، عربی) اور پی ایچ ڈی کی اسناد حاصل کیں۔ انھوں نے اسماعیل یوسف کالج، ممبئی میں صدر شعبۂ اردو کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔
ڈاکٹر محمد کلیم ضیا ناگپور میں بھی تدریسی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ شاعر، ادیب اور بچوں کے ادیب کی حیثیت سے معروف ہیں۔ ان کی کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ انھوں نے چند مزاحیہ مضامین بھی قلم بند کئے ہیں۔
موبائیل: 9892933626
جوتے کی واپسی
کلیم ضیا
جوں ہی میں وضو کر کے جائے وضو سے نماز کے لیے باہر آیا، کیا دیکھتا ہوں کہ میرا جوتا جو کہ پلاسٹک کوٹیڈ تھا، غائب ہے۔ حیران و پریشان دیکھ، لوگوں نے پوچھ لیا ’کیا بات ہے بھائی صاحب؟‘۔۔ ۔۔ ۔۔۔ ’ارے یار! دو منٹ پہلے کی بات ہے، یہیں جوتا رکھّا تھا‘ وضو کر کے لوٹا تو۔۔ ۔۔ ۔ اِسی درمیان ایک صاحب طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ بول پڑے۔ ’کیا‘؟ مجھے بھی با دلِ ناخواستہ کہنا پڑا۔۔ ۔ ہاں۔۔ ۔۔ وہ پھر بولے۔۔ ۔ جماعت کھڑی ہونے جا رہی ہے پہلے نماز پڑھ لو، بعد میں دیکھتے ہیں۔۔ ۔۔ ۔ اب بتائیے جس کا جوتا مسجد میں داخل ہوتے ہی گم ہو جائے، اُس کا دل نماز میں تو لگنے سے رہا اور پھر مجھ جیسا دنیا دار جس کے بارے میں علامہ اقبالؒ نے فرمایا کہ
ع۔ ترا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں
جیسے تیسے نماز ختم ہوئی ‘دعا کے لیے سب کے ہاتھ دراز تھے، میرے بھی، مگر گردن لٹّو کی طرح چاروں طرف گھوم رہی تھی اور آنکھیں انجانے چور کو یوں تلاش کر رہی تھیں گویا وہ مجھے دیکھتے ہی جوتا لا کر دے دے گا۔ مجھے تو اُس وقت معلوم ہوا کہ دعا ختم ہو چکی ہے جب لوگ میرے گرد جمع ہونے لگے۔ ورنہ میرے ہاتھ تو ابھی تک کٹورا بنے ہوئے تھے۔
کیسا جوتا تھا؟۔۔ ۔۔ ۔ اچھا جوتا تھا! میں تو سمجھا چپل تھی۔ جوتے میں موزے بھی ہوں گے نا؟۔۔ ۔ چمڑے کا ہی تھا نا؟ لال تھا کہ کالا؟۔۔ ۔۔ نیا ہی رہا ہو گا۔۔ ۔۔؟ غرض کہ جتنے منھ اتنی باتیں۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے سوالات نہ کیے جا رہے ہوں بلکہ موسل برسائے جا رہے ہوں۔ پھر کہیں سے آواز آئی۔۔ ۔ ارے بھیّا! کیا گھر تک ننگے پاؤں ہی جاؤ گے؟
اب تو واقعی احساس ہوا کہ گھر تک ننگے پاؤں ہی جانا ہے۔ اٹھنا بھی لازمی تھا اٹھا ہی تھا، کہ کسی منچلے نے آواز لگائی۔۔ ۔۔ ۔ چندہ جمع کرو یار۔ دو، دو روپے نکالو، نیا جوتا آ جائے گا۔۔ ۔۔ ۔ اتنی جھنجھٹ کا ہے کو منگتا یار۔ چل لا دو روپے نکال! لیجیے اب نوبت یہ آئی کہ ہم چندے کا جوتا پہنیں۔۔ ۔۔ ۔۔ مگر یہ بات تو قبول کرنی ہی پڑے گی کہ جمعہ کے دن مسلمان واقعی سخاوت میں حاتم طائی کا باپ ہو جاتا ہے۔ اب ہوا یہ کہ جنہیں معلوم تھا کہ چندہ کیوں جمع ہو رہا ہے، وہ آہستہ آہستہ کھسکنے لگے، جو انجان تھے اور نماز کی تکمیل کے بعد جانے لگے تھے، کوئی دو روپے دیتا، کوئی پانچ اور کوئی دس۔۔ آناً فاناً میں تین سو ستائیس (۳۲۷) روپے جمع ہو گئے۔ میں ان تمام باتوں سے لا تعلق کہ میں کون ہوں اور میری معاشی حیثیت کیا ہے؟ پیسوں کو یوں تکنے لگا گویا یہ میرا پیدایشی حق ہے۔
اس نے وہ رو مال جس میں پیسے جمع کیے گئے تھے، میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔۔ ۔۔ لے باپ تین سو ستّاویس (ستائیس) روپے جمع ہو گئے۔ اس میں تو سالا مست جوتا آ جائے گا۔۔ ۔۔ دوسرے نے فوراً کہا۔۔ ۔۔ ابے اے! اس میں دو جوتے آئیں گے۔ اِتّا (اتنا) مے گا(مہنگا) لے گا کیا؟۔۔ ۔۔ ۔ اے بھائی! دو لینا دو، کبھی اگلی بار چوری ہوا نا تو دوسرا کام آئے گا نا باپ!
اتنے میں پہلے والے حضرت جنہوں نے نماز پڑھنے کے بارے میں کہا تھا، سنتوں اور نفلوں سے فارغ ہوئے اور مجھ سے ایسے مصافحہ کیا جیسے ابھی ابھی حج بیت اللہ سے تشریف لا رہے ہوں۔ بڑی دیر تک لکچر پلایا۔ میاں جوتے بغل میں دابا کرو! چور اچکّوں کی کمی تھوڑی ہی ہے۔ اب ہمیں کو دیکھ لو۔ سجدے کی جگہ پر جوتے رکھتے ہیں۔ کیا مجال کوئی چھو بھی لے!۔۔ ۔۔ یہاں پارہ ذرا نیچے اُترا ہی تھا کہ اِن کی لاف و گزاف نے پھر اوپر کر دیا۔ میں نے بڑے ہی ضبط سے کام لیتے ہوئے کہا۔
حضرت! میں نماز نہیں پڑھ رہا تھا صرف جوتے اتار کر وضو کے لیے بیٹھا تھا۔ اچھا یہ بات ہے! پھر بھی میاں جوتے جوتے ہوتے ہیں۔ نل کے اوپر ہی رکھ لیتے۔ یہ نوبت تو نہ آتی؟۔۔ ۔۔ میں نے بھی جل کر کہہ دیا۔ جی غلطی ہو گئی، آئندہ نل کے اوپر ہی رکھوں گا اور اگر وہاں جگہ نہ رہی تو اپنے سر پر۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ جملہ اس لیے ادھورا رہ گیا تھا کہ اب وہ پیسوں کا رو مال میری طرف بڑھانے لگے تھے۔ آنکھیں بالکل کے۔ این۔ سنگھ (پرانی فلموں کا وِلن) کے انداز میں حرکت میں آ گئی تھیں۔ میں نے فوراً اپنے دونوں ہاتھ آگے بڑھا دیے اور اس نعمت غیر مترقبہ کو مضبوطی سے تھام کر آگے بڑھنے لگا۔ ساتھ میں کھڑے ہوئے لوگ بھی میرے ساتھ ایسے چلنے لگے جیسے کوئی شخص اپنے وطن عزیز سے پردیس سدھار رہا ہو اور یہ لوگ اسے گاڑی تک چھوڑنے جا رہے ہوں۔۔ ۔ آہستہ آہستہ بھیڑ چھٹنے لگی۔ ٹھوڑی دور چل کر جب میں نے اپنے آپ کو بالکل تنہا پایا تو چاروں طرف دیکھ، تیز تیز قدم اٹھانے لگا کہ اتنے میں ایک پتلی سی گلی میں سے ایک چودہ پندرہ برس کا لڑکا، کُرتا پاجامہ پہنے سر پر ٹوپی لگائے، آنکھوں میں سُرمے کی پوری شیشی اُنڈیلے، خوش بو میں لپٹا ہوا ایسے نمودار ہوا جیسے کسی تیز رفتار کار یا گاڑی کے سامنے عموماً مسلم محلوں سے بچے وارد ہوتے ہیں۔ میں نے بھی اپنے بریک لگائے۔۔ ۔۔ سلام الیکم! وعلیکم السلام! میں نے کہا۔۔ ۔۔ وہ پیسوں کی تھیلی کہاں ہے؟۔۔ ۔۔ اب بتائیے مجھے ایسے وقت تو چونکنا چاہیے تھا نا۔۔ ۔ یہاں تو کچھ اور ہی کیفیت تھی کہ:
ع۔ میں تھا کسی کے ساتھ مرا دل کسی کے ساتھ۔۔ ۔۔
یہ ہے۔ میں نے کہا۔
یہ لیجیے آپ کا جوتا اور لائیے وہ تھیلی۔۔ ۔۔ ۔ اب تو ہوش ٹھکانے آ گئے۔ میں نے کہا۔ ابے! یہ کیا ڈراما ہے؟۔۔ ۔ ڈراما وراما کچھ نہیں۔ یہ جوتا وہیں بازو میں ہی پڑا ہوا تھا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ وہ مولوی صاحب (غالباً جنہوں نے مجھے لکچر دیا تھا) نے کہا ہے کہ ان سے پیسے لے لو اور جوتے دے دو۔۔ میں نے کہا۔ اچھا! یہ بات ہے۔ میں نے بھی پھر تو خوشی خوشی پیسے دیے، جوتے پہنے اور چل دیا۔ راستے بھر خدا کا شکر ادا کرتا رہا اور دل ہی دل میں اپنی بے خیالی اور لاپرواہی کو کوستا رہا کہ جوتا شاید وہیں کہیں رہ گیا ہو گا، میں نے خواہ مخواہ ہی تماشا بنا دیا۔ لوگ کیا سوچیں گے؟ بہر حال کسی طرح گھر پہنچا اور کاروبار زندگی میں ایسا مصروف ہوا کہ اس واقعے کا کسی سے ذکر تک نہ کر سکا۔
ایک ہفتہ بیت گیا، پھر جمعہ آ گیا اور اتفاق ایسا کہ آج پھر اسی مسجد میں جمعہ ادا کرنا تھا۔ جوں ہی جمعہ کا خیال آیا اور پھر وہی مسجد۔۔ ۔۔ ۔۔ فلم کے پردے کی طرح گذشتہ ہفتے کا واقعہ ایک ایک سطر میں گزرنے لگا۔ دل ہی دل میں مسکراتا ہوا پھر جائے وضو پر پہنچا۔ جوتے سمیٹے اور انہیں گود میں رکھ کر وضو کر لیا۔ باہر نکلا تو پھر وہی بڑے میاں۔۔ ۔۔ سلام علیکم!۔۔ ۔۔ میں نے کہا وعلیکم السلام چچا! آپ کی بڑی عنایت کہ آپ نے پچھلے ہفتے میرا جوتا واپس دِلا دیا تھا۔ ورنہ پتا نہیں میں چندے کے پیسوں سے خریدے ہوئے جوتوں کے بارے میں ان کے پھٹنے تک کیا کیا سوچتا رہتا! بڑے میاں پہلے تو مسکرائے، پھر یک بیک چونک پڑے، پھر کہنے لگے، کیا مطلب؟ میں نے کہا۔۔ ۔۔ اجی آپ نے میرے جانے کے بعد ایک لڑکے سے جوتا نہیں بھجوایا تھا اور پیسے واپس نہیں منگوا لیے تھے! یہ دیکھیے، یہ وہی تو جوتے ہیں۔۔ ۔ میں نے انہیں اپنا پلاسٹک کوٹیڈ جوتا بتایا۔
اب اس کے بعد کا منظر واقعی دیکھنے جیسا تھا۔ انہوں نے اپنا سر پیٹ لیا۔ میرا خیال ہے وہ بھی با وضو تھے، ایک گندی سی گالی دی۔ ضرور یہ حرکت بھی اس مادر۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ کی ہے جوتا چوری کر لیا ہو گا اور جب دیکھا کہ اتنے پیسے جمع ہو گئے، فوراً جا کر جوتا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ میں نے انہیں درمیان میں ہی ٹوک دیا اور کہا۔ آئیے میں بھی ایک مرتبہ اور وضو کر لوں اور آپ بھی کر لیجیے۔