ابرار۔۔۔!! میرے بیٹے۔۔۔۔!!دردانہ بھاگتی ہوٸیں دروازے کی جانب بھاگیں۔
اور آنے والے کے ہاتھوں اور منہ کو چوما۔
میرے بچے۔۔۔۔!! وہ روٸے جا رہی تھیں۔
کہ اس شخص نے دردانہ بیگم کا ہاتھ بہت زور سے جھٹکا۔
اسکی آنکھوں میں نفرت اور حقارت تھی۔
درد تھا۔
اور سفاکی تھی۔
ایک شکوہ کناں نظر باپ پے ڈالی۔
کبیر شاہ نے سختی سے آنکھیں بند کر کے کھولیں۔
انہوں نے کب چاہاتھا کہ یوں انکا راز فاش ہو۔۔۔؟؟
یہ۔۔۔ ابرار کو کیا ہوا۔۔۔؟؟ اس کے بازو پے۔۔ ہاتھ پے۔۔ چوٹ کیسی۔۔۔۔؟؟
فراز صاحب کو اسے اس حال میں دیکھ دکھ ہوا تھا۔
ہمممم۔۔۔ جسے آپ ۔۔۔ ابرار سمجھ رہے ہیں۔۔ وہ ابرار نہیں۔۔۔ ارباز ہے۔۔۔ ابرار کا جڑواں بھاٸی۔۔۔ ارباز۔۔۔۔!!
فارس نے اونچی آواز میں کہتے سب پے بم پھوڑا
سواٸے دلاور شاہ کے وہاں موجود سبھی کو سانپ سونگھ گیا۔
وہ پہلے سے ہی جانتےتھے۔ ان کے چہرے پے صاف واضح لکھا تھا۔
عین نے بھی نفرت سے نگاہ پھیری۔
وہ بھی تو آج ہی اس حقیقت سے روشناس ہوٸی تھی۔
بہت کھیل کھیلے گٸے ہیں۔۔ اس جڑواں کے چکر میں۔۔۔!!
فارس نے طنز کرتے ارباز کیجانب ایک ایک قدم ٹہر ٹہر کے بڑھایا۔
جوایک بازو اور ہاتھ پٹی میں جکڑا جبکہ دوسرے ہاتھ سے اس نے اس پٹی والے بازو کو تھام رکھا تھا۔ لب بھینچے اس نے فارس کو قہر کی نظر سے دیکھا۔
بہت برا لگ رہا ہو گا۔۔ ناں۔۔۔؟؟
آج۔۔۔ اتنے عرصے بعد ۔۔ راز کا یوں فاش ہونا۔۔۔۔!!فارس غرایا تھا۔ زیان کا بھی فارس جیسا ہی حال تھا دونوں بھاٸی ہی بے انتہا غصے میں تھے۔
ارباز۔۔۔۔؟؟ دردانہ شاہ کے لب سے دھیرے سے ادا ہوا۔
فارس شاہ کو روتے ہوٸے حیرت سے دیکھا۔
جی آپ کا ۔۔۔ اپنا بیٹا۔۔۔! ارباز کبیر شاہ۔۔۔!!
ابرار کے ساتھ ہی اس دنیا میں آیا۔۔۔
لیکن ہمارے عزیز چچا جان نے ان ہستی کو چھپا کے رکھا۔
اشارہ سامنے کھڑے کبیر شاہ کی طرف کیا۔
دردانہ شاہ کی آنکھوں میں حیرت اور بے یقینی تھی۔
ایک نظر شوہر کو دیکھا اور دوسری نظر ارباز ک جو ہو بہو ابرار کی طرح تھا۔
لیکن اس وقت چہرے کے زاویے انتہاٸی سخت تھے۔
آپ۔۔۔ نے ۔۔۔ مجھ سے میرا۔۔۔ بیٹا۔۔۔ چھپایا۔۔۔؟؟
دردانہ بیگم نے روتے ہوٸے کبیر شاہ کی طرف جاتے کہا۔
ان کے پاس تو کہنے کو کچھ بچا ہی نہ تھا۔
کیوں کیا آپ نے ایسا۔۔۔۔؟؟
کبیر شاہ کو وہ بہت ٹوٹی ہوٸیں لگیں۔
کہہ دیں یہ۔۔۔ یہ جھوٹ ہے۔۔۔!
یہ ۔۔۔سچ ہے۔۔۔۔!!
کبیر شاہ دھیرے سے نم لہجے میں بولے۔
فارس سینے پے ہاتھ باندھے اب ان کو سننے لگا۔
کیوں۔۔۔؟؟؟ دردانہ بیگم تڑپ ہی تو گٸیں۔
اپنے بچوں کے لیے۔۔۔
ان کے بہترین مستقبل کے لیے۔۔۔
ہر اس چیز کےلیے جس کے لیے ان کا باپ ترسا۔۔ ہماری اولاد نہ ترسے۔
ہر اس حق کے لیے جو ۔۔۔ان کےباپ کونہ ملا۔۔
ہماری اولاد کوملے۔۔
ہاں۔۔ اس جاٸیداد میں حصہ چاہیے تھا۔۔
جو ہماری اولاد کا بھی حق تھا۔۔
ہاں اس سب کے لیے۔۔
مجھے چھپانا پڑا ۔۔۔ ارباز کو۔۔۔
تم سے۔۔ سب۔۔۔سے۔۔۔ ہر ایک سے۔۔۔
اور سب کچھ۔۔ صحیح ہی تو چل رہا تھا۔۔۔۔
کہ۔۔۔ یہ۔۔ لڑکی بیچ میں آگٸ۔۔۔۔!!
عین کی طرف لب بھینچے اشارہ کیا۔
الماس بیگم اور ماریہ شاہ انکا نفرت سے کہنا بہت سخت برا لگا۔
کتنا خوش تھا میں۔۔ ابرار اور ارباز کو لے کے۔۔۔
اور بہت بڑا پلان بھی ترتیب دیا۔
لیکن۔۔۔۔ ابرار کا دل آگیا اس پے۔۔۔۔ سارا پلان چوپٹ کر دیا۔۔۔۔
اسے عین چاہیے تھی۔۔۔ بس۔۔عین عین عین۔۔۔۔!!
کبیر شاہ بھڑکے۔ عین نے ماریہ شاہ کے بازو کو زور سے پکڑ لیا۔
اور۔۔۔ مجھے میرے بیٹے سے بڑھ کے کچھ نہیں تھا۔۔
عفان سے اسکارشتہ طے کر دیا۔ اور پھر شادی کی تاریخ رکھی۔
بہت رویا اس دن میرا بیٹا۔
بہت۔۔۔۔۔!! کبیر شاہ کا لہجہ دکھی تھا۔
اور ارباز۔۔۔ ابرار کا دیوانہ۔۔۔ اس سے اسکا دکھ نہ دکھا گیا۔۔۔
تو عفان کو راستے سے ہٹانےکا پلان بنایا۔۔ہم نے۔۔۔۔!!
ایک ایسا پلان۔۔ کہ۔۔۔ ایک تیر سے دو شکار ہوجاتے۔۔!!
پر اسرار اندازمیں کہتے وہوہاں موجد سب کو دلوں کی دھڑکن کا ساکت کر گٸے۔
ہاں۔۔۔بنایا پلان۔۔۔ کامیاب پلان۔۔۔!!
مہندی کی رات۔۔۔۔
اس رات بنایا پلان۔۔۔ اور بلایا۔۔ عفان کو ڈیرے پے۔۔۔!!
ابرار۔۔۔۔ کہاں۔۔۔ہو۔۔کیا ہوا۔۔۔تمہیں۔۔۔؟؟
عفان ڈیرے پے آ چکا تھا۔ابرار اور ارباز چھپ کے اسے دیکھ رہے تھے۔
اور عفان کے آنے پے ابرار سامنے آیا۔
اوہ تھینک گاڈ ۔۔!! تم ٹھیک ہو۔۔۔!!
عفان نے ابرار کو گلے سے لگایا۔
مجھے ۔۔۔۔کسی نے اطلاع دی۔۔۔ کہ۔۔ تمہیں۔۔۔ کچھ۔۔۔؟؟
عفان کو سمجھ نہ آیا۔
لیکن۔۔۔!! تم تو ٹھیک ہو۔۔۔۔!!
عفان حیرت سے بولا۔
ہاں۔۔۔ تب تک جب تک ۔۔ تم چاہو۔۔۔۔!!
پراسرار انداز۔۔
کیا۔۔۔کیا۔۔ مطلب۔۔۔؟؟
عفان چونکا۔
عفان۔۔!! عین۔۔۔ میری ہے۔۔۔ اور۔۔ میں اس سے۔۔۔۔!!
ابرار۔۔۔۔! عفان نے ابرار کو کالر سے پکڑا۔ اور غصے سے اسکی آنکھوں میں دیکھا۔
خبردار ۔۔جو عین کا نام بھی لیا تو۔۔۔۔جان سے مار دوں گا۔۔۔۔!!
عفان جو ہمیشہ۔۔۔ ہی تحمل مزاج جانا جاتا تھا۔
اس لمحے غصہ یمیں آگ بھڑکی تھی اسکے اندر۔
ابرار نے زور سے اسکے ہاتھ سے اپنا کالر چھڑایا۔
ابھی بات تو سن پوری۔۔۔۔۔!!پھر اپنا۔۔ غصہ دکھاٸیں
ابرار نے اپنا کالر چھڑایا۔
عفان لب بھینچے غصہ کنٹرول کرنے لگا۔
دیکھ۔۔۔تُو۔۔ ناں۔۔اس شادی سے انکار کردے۔۔۔ کہہ دے۔۔۔ کہ تجھے۔۔ کوٸی اور پسند ہے۔۔۔ تو۔۔۔ موقع کا فاٸدہ۔۔میں اٹھا لوں گا۔۔۔ اور میں شادی کر لوں گا۔۔۔سمپل۔۔۔۔! ابرار نے اپنا پلان بتایا۔
عفان کو اسکی دماغی حالت پے شک ہوا۔
اچھا۔۔۔۔اور میں یہ کیوں۔۔ کروں گا۔۔۔؟؟
سینے پے ہاتھ باندھے دانت پستے ہوٸے پوچھا۔
ابرار نے سخت نظروں سے عفان کو دیکھا۔
اور اس کے قریب ہوا۔
اپنی جان بچانے کے لیے۔۔۔!!
اتنے پراسرار انداز میں ابرار نے کہا کہ ایک لحے کو عفان چپ سا ہوگیا۔
بکواس بند کرو اپنی۔۔۔ اور آٸیندہ اگر عین کا نام بھی تمہارے منہ سے نکلا تو زبان کھینچ لوں گا تمہاری۔۔۔!!
عفان غصے سے کہتا ردوازے کی جانب بڑھا۔
تو تُو نہیں مانے گا۔۔۔؟؟
ابرار کے کہنے پے اسکے قدم رکے۔
پلٹ کے اسکو خونخوار نظروں سے دیکھا۔
ابرار۔۔۔!! یہ تم ہو۔۔جو میں نے تمہارا اتنا لحاظ کر لیا۔۔۔ ورنہ تمہاری جگہ کوٸی اور ہوتا تو ان تک ۔۔۔اسکی جان لے چکا ہوتا۔
عفان بھی اپنا غصہ ضبط کتے سخت لہجے میں بولا۔
ابرار نے اپنی گن نکالی۔ جسے دیکھ عفان کا اچھا خاصا جھٹکا لگا تھا۔
اسے ابرار سے اسطرح کی بے وقوفی کی امید نہ تھی۔
آخری بار پوچھ رہا ہوں۔۔۔
عین یا۔۔۔ موت۔۔۔؟؟ گن کا رخ عفان کی جانب موڑا۔
عفان چلتا ہوا اس کے قریب آیا۔
تم۔۔۔مجھے۔۔۔ مارو۔۔۔ گے۔۔؟؟ بھاٸی ہیں ہم۔۔۔!! تم۔۔۔مجھ پےگوی چلاٶ گے۔۔۔؟؟
عفان کو شدید حیرت کا جھٹکا لگا۔
سگھےبھاٸی نہیں ہیں ہم۔۔۔۔ اور۔۔ وہ سنا نہیں تم نے۔۔۔
Everyting is fair in love and war…
مسکراتے ہوٸے گن عفان کے سر پے رکھی۔
عفان نے ایک لمحے کو پلکیں نہ جھپکیں۔
مجھے ڈرا رہے ہو۔۔۔؟؟ مجھے۔۔۔؟؟ عفان ہنسا۔
کسی بھولمیں نہ رہنا عفان دلاور شاہ۔۔۔ !! عین کے لیے۔۔ میں کی بھی جان لے سکتا ہوں۔
غصے سے کہتے وہ عفان کے قریب آیا۔
تو ٹھیک ہے۔۔۔ چلاٶ گولی۔۔۔۔!!
عفان نے اسے جارحانہ انداز میں کہا۔ تو ابرار سٹپٹا گیا۔
میں نے کہا۔۔ چلاٶ۔۔۔ آج۔۔ تاریخ رقم کردو۔۔۔ کہ ایک بھاٸی نے دوسرے بھاٸی کی جان لے لی۔۔۔ ایک لڑکی کی خاطر۔۔۔!!
عفان غصے میں تھا لیکن لہجہ نم ہوا۔
رک کیوں گٸے۔۔۔؟؟ چلاٶ۔۔ ناں۔۔۔!!
کیا یار۔۔۔ دماغ کی پیٹی کر دی تُو نے۔۔۔۔!!
ارباز اچانک سامنے آیا۔ تو عفان نے اسے پلٹ کے دیکھا۔
آنکھثس حیرت سے کھلی رہ گٸیں۔
عفان سے کہنے کے بعد ارباز ابرار کی مڑا۔
اور تم۔۔ اتنی دیر سے بک بک لگاٸی ہوٸی ہے۔۔ مار گولی۔۔ ختم کر کام کو۔۔۔!!
ایک بندہ نہیں مار سکتا تُو۔۔۔؟؟
ارباز نے منہ بگاڑ کےکہا۔
عفان کو کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا۔
یہ۔۔ جال تھا۔ جو اسکے لیے بچھایا گیا۔
ماربھی دے اب۔۔۔۔!! ارباز نے ابرار کو جوش دلایا۔
چل ہٹ۔۔ مجھے تیرے نشانے پے یقین نہثس لا ادھر دے گن۔۔۔۔!!
ارباز نے گن بارار کے ہاتھ سے لی۔ اور عفان کے دلکا نشانہ لیا۔
عفان کو اس ایک لمحے میں یقین نہ آیا کہ وہ اس پے گولی چلا سکتا ہے۔۔
لیکن اگلےہی لمحے گولی چلی۔
جو عفان کے دل کے پار ہوٸی۔
وقت تھم گیا۔
ابرار کی آنکھیں حیرت سے پھیل گٸیں۔
عفان کو سب گھومتا نظر آیا۔
گردن جھکا کے اپنے دل والی طرف کو دیکھا۔جہاں سے خون نکلنے لگا تھا۔
اور سامنے ان دونوں کو۔
ابرار کا رنگ فق ہوا تھا جبکہ ارباز مطمیٸن کھڑا تھا۔
بھاٸی۔ یہ۔۔کیا۔۔۔کیا آپ نے۔۔۔ سچ میں گولی۔۔ چلادی۔۔۔؟؟
ابرار کو شدید دکھ نے گھیرا۔
یہ ان کا پلان نہیں تھا۔
عفان نیچے گرا۔
ابرار بھاگتا ہوا عفان کے پاس پہنچا۔
اسکا سر اپنی گود میں رکھا۔
عفان کا سانس تھمنے لگا تھا۔
ارباز کو ابرار کا عفان کے لیے ہوں دکھی ہونا سخت ناگوار گزرا تھا۔
بھا۔۔۔۔ٸی۔۔۔!! نننہیں۔۔۔۔۔۔۔!! پلیز۔۔۔ نہیں۔۔۔ !!
ابرار کو کچھ سمجھ نہ آیا۔۔ کہ کیا کرے۔۔۔!!
بھاٸی۔۔۔ ایمبولینس کو کال کرو۔۔۔ یا۔۔ گاڑی نکالو۔۔۔
ہاسسسپٹ لے جاتے ہیں۔۔۔ نہیں تو۔۔ یہ۔۔۔مر۔۔۔!!
سن ہوتے دماغ سے عفان نے ابرار کے کہے خری الفاظ سنے تھے۔
میں بڑا ہوکے۔۔۔ فوجی بنوں گا۔۔۔!!
آنکھوں کے آگے زیان کا بچپن کا چہرہ لہرایا۔
اور۔۔میں تو سیکریٹ ایجنٹ۔۔۔۔!!
فارس نے بگی اپنی مرضی بتاٸی تھی۔
اور عفان۔۔۔تم۔۔؟؟ تم کیا بنو گے۔۔؟؟ فارس نے عفان سے پوچھا۔
یہ۔۔ یہ تو دلہا بنیں گے۔۔۔!!
زیان نے ہنستےہوٸے کہا تو سبھیکے چہرے کھلکھلا اٹھے۔
عفان کے لب بھی مسکراہٹ میں ڈھلے تھے۔
فان۔۔۔! وعدہ کرو۔۔۔ تم ۔۔ہمیں ہمیشہ۔۔۔ یونہی ہنساٶ گے۔۔؟؟
ایک چھوٹی سی گڑیا چھوٹا سا وعدہ۔۔۔۔
عفان۔۔۔!! بیٹے باپ کی طاقت ہوا کرتے ہیں۔۔۔!!
دلاور شاہ کی آواز کانوں میں گونجی۔
عفان۔۔۔ !! اپنی اماں کو کبھی چھوڑ کے جان کی بات مت کرنا۔۔۔
اماں۔۔۔ تیری گود کا سکون۔۔۔
قبر میں کہاں ملے گا۔۔۔؟؟
سب کے چہرے ۔۔۔
سب کی باتیں۔۔۔
آپسو میں گڈمڈ ہونے لگیں۔
ایک آنسو تھا۔ جو تھما ہوا تھا۔
آخری ہچکی کے ساتھ وہ بھی نکلتا۔۔ بالوں میں جذب ہوا تھا۔
کبیر شاہ دروازے سے اندر آٸے۔
آپ کا کام ہوگیا۔۔ ہے۔مسٹر کبیر۔۔۔۔!! اب آگے کا پلان آپ کا۔۔۔۔!!
ارباز نے گیند ان کے کوٹ میں پھینکی۔
جبکہ ابرار ابھی بھی حیرت کی مورت بنا عفان کا سر اپنی گود میں رکھے ہوٸے تھا۔
جمیل ان کا خاص آدمی جو ڈیرے کی دیکھ بھال کے لیے بھی مامور تھا۔
کبیر شاہ نے اسے بھی اپنے ساتھ ملایا ہوا تھا۔
ہمم۔۔۔۔۔۔
اب دیکھتا ہوں۔۔ کیسے۔۔۔ دلاور شاہ۔۔ اولاد کی خوچیاں مناتا ہے۔۔۔؟؟
کبیر شاہ کے اندر نفرت کا الاٶ دہک رہا تھا۔
بابا۔۔۔!! عفان۔۔ببھاٸی کو ہاسپٹل لے چلیں۔۔۔ !! ورنہ۔۔۔ یہ۔۔مر جاٸیں گے۔۔۔۔!!ابرار نے باپ کو دیکھتےہی چلا کےکہا۔
کبیر شاہ نے ارباز کو اشارہ کیا کہ اسے یہاں سے لے جاٸے۔
ارباز نے آگے بڑھ کے ابرار کو اٹھایا۔
لیکن وہ نجانے کیوں۔۔ بس روۓ جا رہا تھا۔
چھوڑو۔۔ چھوڑو۔۔ اسے۔۔۔
مر گیا ہے وہ۔۔۔!!
ادھر دیکھو میری طرف۔۔۔ ارباز نے ابرار کا چہرہ اپنی طرف کیا۔
تمہیں۔۔ عین چاہیے ناں۔۔۔ چاہیے ناں۔۔۔؟؟
چلا کے بولا۔
ابرار نے سر اثبات میں ہلایا۔
لیکن۔۔یہ۔۔۔ عفا۔۔۔!!
بھول جاٶ۔۔۔ اسکا جانا ہی ہم۔۔سب کے لیے بہتر تھا۔۔
اب تمہیں تمہاری عین سے کوٸی جدا نہیں کر سکتا۔۔۔
سمجھے تم۔۔۔!! چلو یہاں سے۔۔۔!!
ابرار کولیے ارباز باہر گاڑی تک آیا۔
ابرار کی حالت عجیب ہورہی تھی۔اسے رہ رہ کے عفان یاد آرہا تھا۔ اسکے ساتھ بتاٸے وہ پل آنکھوں میں گھوم رہے تھے۔
وہ اتنا بے حس کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔؟؟اسکے ضمیر نے اسے ملامت کیا۔
ارباز دوبارہ اندر جا چکا تھا۔ اور ابرار سیٹ کی پشت سے ٹیک لگاٸے خود کو نارمل کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
بس ۔۔۔ا ب تم دونوں نکلو۔۔۔!
جمیل کو میں نے سمجھا دیا ہے۔ کیاکرنا ہے۔۔۔!!
پسٹل ۔۔۔کہاں۔ہے۔۔؟؟
ارباز نے پوچھا۔
عفان کے اتھ میں پکڑا دی ہے۔
اور وہ خط۔۔۔؟؟
ارباز نے یاد دلایا۔
ابھی نہیں رکھ سکتا۔۔۔
دلاور شاہ آجاٸے۔۔ اس کے بعد ہی خط والا کام ہوگا۔
میں نہیں چاہتا کہ خط کسی اور کےہاتھ لگے۔
اب چلو۔۔۔ جلدی کرو۔۔۔ کوٸی ڈیرے پے آنہ جاۓ۔۔
وہ تینوں جمیل کووہیں چھوڑ وہاں سے نکلے۔
ہال میں ایک گہری خاموشی چھا گٸی تھی۔
ایک کرب کا عالم تھا۔ جس سے سب گزر رہے تھے۔
الماس بیگم کو آج اپنا بچہ بہت یاد آیا۔
جس کیے سب نے یہی کہا اس نے حرام موت کو گلے لگایا۔
جبکہ۔۔۔ وہ تو۔۔قتل ہوا تھا۔۔۔
سب کی إکھیں اشک بار تھیں۔
فارس نے پلٹ کے ایک زور دار طمانچہ ارباز کے منہ پے جڑ دیا۔
وہ منہ پے ہاتھ رکھے زین بوس ہوا۔
دردانہ بیگم تڑپ ہی گٸیں۔
فارس نے اسے زمین سے اٹھایا۔
اور ایک اور مکا جڑا اسکے منہ پے۔۔ اسکے منہ سے خون بہنےلگا۔
اللہ کا واسطہ ہے ۔۔ فارس۔۔۔ میرے بچے کو۔۔۔۔!!
دردانہ شہ آگے بڑھیں۔لیکن فارس نے انہیں پیچھے کرت ایک اور مکا ارباز کے پیٹ میں مارا۔
دردانہ شاہ زمین پے گریں تھیں۔
فاریہ نےآگے بڑھ کے ماں کو اٹھایا۔
کسی نے بھی فارس کو نہ روکا۔
ارباز بھی خاموشی سے مار کھاتا رہا۔ اور باپ کو دیکھتا رہا۔
جب فارس اسے ادھ موا کر چکا تو پیچھے ہٹا۔
آپ کو کیا لگا۔۔۔۔ آپ پلان کریں گے۔۔۔ اور کسی کو کچھ پتہ نہیں چلے گا۔۔۔؟؟ فارس سخت تیور لیے کبیر شاہ کی جانب بڑھا۔
وہ جسے آپ نے اپنی لالچ کے بھینٹ چڑھا دیا۔
وہ بھاٸی تھا۔۔۔ میرا۔۔۔۔!!فارس کی آواز انتہاٸی اونچی ہوگٸ۔
الاس بیگم کے آنسو تھم نہ رہے تھے۔
زیان نے آگے بڑھ کے الماس بیگم کو گلے لگایا۔ اس کے اپنے آنسو بھی تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔
کون۔۔۔۔ سا۔۔۔خط۔۔۔ تھا۔۔۔ وہ۔۔؟؟ جو ۔۔تم چاہتے تھے۔۔کہ مجھے ملے۔۔۔؟؟
دلاور شاہ نے کبیر شاہ سے سختی سے پوچھا۔
کیا۔۔۔۔کیا۔۔۔مطلب۔۔۔؟؟ وہ خط۔۔۔ آپ کو نہیں ملا۔۔۔؟؟
کبیر شاہ کو بھی حیرت ہوٸی۔
وہ اب تک یہی سمجھ رہا تھا۔ کہ خط دلاور شاہ کے پاس ہے۔جبکہ۔۔ خط۔۔ کے بارے میں انکو کچھ علم نہ تھا۔
خط کے زکر پے عین کا فشار خون بڑھتا چلا گیا۔
اسکی دل کی رفتار بھی بڑی۔ اس نے فارس شاہ کو دیکھا۔
لیکن اسکا دھیان اسکی طرف نہ تھا۔
کبیر شاہ نے ارباز کو دیکھا۔ کہ آیا خط اس نے رکھا بھی تھا یا نہیں۔۔؟؟
خط عفان کی مٹھی میںرکھنے کے لیے ارباز کو کہا تھا۔ کبیر شاہ نے۔۔ وہ بھی ہاسپٹل میں۔۔۔ سب سے نظر بچا کے۔
میں ۔۔۔نے۔۔۔ نے رکھا تھا۔۔۔۔!!
ارباز نے منہ سے خون صاف کرتے زمین پے بیٹھے ہی کبیر شاہ کی آنکھو ظا سوال سمجھتے فوراً جواب دیا۔
پھر۔۔۔! خط۔۔ کہاں۔۔۔گیا۔۔؟؟ زیرِلب بڑبڑاٸے۔
وہ۔۔ خط۔۔میرے پاس ہے۔۔۔ !!
فارس کے ہاتھ کبیر شاہ کے گریبان تک پہنچ چکے تھے۔
تمہیں ۔۔ یہ کیوں لگا۔ ۔۔کہ عفان کو مار کے تم بچ جاٶ گے۔۔وہ بھی۔۔۔۔ تب۔۔ جبکہ۔۔ فارس شاہ زندہ ہے۔۔۔!!شیر کی طرح دھاڑتے وہ سب کا خون خشک کرگیا تھا۔
فارس اس وقت آہے میں نہیں تھا۔
سب لحظ بلاٸے تاک رکھے۔ فار نے ایک مکا کبیر شاہ کے منہ پے دے مارا۔
وہ پیچھے جا کے گرے۔
فارس۔۔۔!! دلاور شہ نے اونچی آواز میں پکارا۔
سبھی فارس کے اس عمل سے حیران ہوٸے تھے۔
فارس کی غصیلی نظرثس کبیر شاہ پے ہی تھیں۔
اس نے اپنی نظریں اس پے سے نہ ہٹاٸیں۔
نہیں۔۔۔ بیٹا۔۔۔!! ہاتھ نہیں اٹھانا۔۔۔!!
دلاور شاہ نے فارس کے غصے کو قابو کرنا چاہا۔
لیکن وہ بنا پلک جھپکاٸے شیر کی طح کبیر شاہ پے غراتا رہا۔