جاوید صاحب اور حدید صاحب دو بھائی تھے۔ حدید صاحب جاوید صاحب سے پانچ سال چھوٹے اور انکے بیحد لاڈلے تھے۔ حدید صاحب کی شادی جاوید صاحب اور فاطمہ بیگم نے اپنی پسند سے انا بیگم سے کی جو کے انکی خالہ کی بیٹی بھی تھیں۔ جاوید صاحب کے دو بیٹے اشر اور عنصر ہیں۔۔ دونوں خاندانوں میں مثالی محبت تھی ۔۔ فاطمہ بیگم اور جاوید صاحب کی خوشی کی انتہا نہیں تھی جب انھیں حدید صاحب کے یہاں جڑواں بچیوں کی پیدائش کی خبر ملی مگر یہ خوشی بہت مختصر تھی کیوں کے ہسپتال سے واپسی پے کار ایکسیڈنٹ میں آنا بیگم اور حدید صاحب موقع پر ہی دم توڑھ گئے تھیں۔
یوں عرش اور رابیل فاطمہ بیگم کے گود میں آ گئیں تھیں۔۔ وہ دونوں اشر سے دس جب کہ عنصر سے آٹھ سال چھوٹی تھیں۔۔ دونوں میں جان بستی تھی سب کی ۔۔
رات کا نجانے کون سا پہر تھا وہ کافی دیر سے اپنے برابر میں سکون سے سوئی فرشتے کو دیکھ رہی تھی۔ ان چھ دنوں میں وہ یہ تو جان گئی تھی کے فرشتے نیند کی بہت پکّی تھی وہ عام بچوں کی طرح راتوں میں روتی نہیں تھی۔۔ اسنے ہلکا سا جھک کے فرشتے کو پیار کیا وہ ہلکا سا کسمسائ پھر پُرسکون ہو کر سو گئی تھی اسے دیکھ کے رابیل اداسی سے مسکرائ تھی۔۔ “تمہاری بیٹی بلکل تمہاری طرح ہے عرش نیند کی بلکل پکّی” اسکی آواز سرگوشی سے زیادہ بلند نہیں تھی آنسوں ناچاہتے ہوئے بھی اسکے چہرے کو بھگو رہےتھے ۔۔فجر کے اذان کی آواز آنے پر ایک پرانا منظر اسکی آنکھوں کے آگے لہرایا تھا۔۔
۔
“عرش عرش اٹھو نیستی نماز پڑھو وقت نکلے جا رہا ہے”۔۔ وہ آج پھر عرش کو نماز کے لئے اٹھا رہی تھی جو کے اٹھنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی.”عرش اٹھو جلدی ہمیشہ فجر کی نماز میں تم یہی کرتی ہو” اسنے زبردستی عرش کے اوپر سے کمفرٹر ہٹایا تھا۔۔” رابی کی بچی کیا مصیبت پڑی ہے کیوں آدھی رات میں اٹھا دیتی ہو تم مجھے میں ماما کو شکایت کرونگی تمہاری” وہ گہری نیند سے اٹھائے جانے پر روندھے ہوے لہجے میں کہ رہی تھی۔۔”ٹھیک ہے کر دینا شکایت بھی ابھی تو اٹھو نماز کا وقت نکل رہا ہے” ۔وہ رسان سے کہتی اسے اٹھانے میں کامیاب ہو چکی تھی ۔۔ “اللہ کرے رابی تمہاری ساس تم سے کپڑے دھلوائے۔تمہارا شوھر تمھیں آلو ٹنڈے کھلائے ” وہ روتے ہوے کہتی اٹھ بیٹھی تھی۔رابیل کو اسپر ٹوٹ کے پیار آیا تھا اسنے نرمی سے اسے روک کے اسکے آنسوں صاف کئے تھے۔”اتنی اتنی سی باتوں پے رونا کب چھوڑوگی تم” رابیل نے اسکا چہرہ ہاتھوں میں لے کر پوچھا تھا۔جو اب بھی روٹھی روٹھی لگ رہی تھی۔
“تم پیار سے اٹھایا کرو نا تھانیدارنی کی طرح اٹھاتی ہو تم تو” اسنے ناک چڑھاتے ہوے بچوں کی طرح کہا تھا۔
“اچھا اب پیار سے اٹھایا کرونگی تمہیں جاؤ نماز پڑھ لو اب” رابیل نے اسکے گال کھینچے تھے اور وہ فوراً وضو بنانے چل دی تھی یہی عادت تو اسکی سب کو پسند تھی وہ فوراً مان جاتی تھی کسی سے ناراض نہیں رہتی تھی۔
۔
تم ہمیشہ تنگ کرتی ہو عرش بہت تنگ کرتی ہو تم مجھے وہ دونوں ہاتھ گھٹنوں کے گرد لپیٹتی بری طرح سسکی تھی مگر آج اسکے رونے پر تڑپ جانے والی عرش نہیں تھی۔۔
ماضی۔۔۔
وہ ظہر کی نماز پڑھ کے نیچے آئ تو گھر پر غیر معمولی طور پر شور زیادہ تھا ڈرائنگ روم میں اشر کے ساتھ جلابیب کو بیٹھے دیکھ کر وہ ڈائریکٹ کچن میں گئی تھی۔ عرش کاؤنٹر پر بیٹھی ٹرائفل سے انصاف کر رہی تھی۔
“کھاتے ہی رہنا تم وزن دیکھو اپنا” وہ عرش کو کہتی فاطمہ بیگم کی طرف آئ تھی۔۔ “ماما کچھ ہیلپ کروا دوں ؟”
“ہاں میرا بچہ بس کیک اون سے نکل لو بیک ہو گیا ہو گا اور عرش تم جاؤ ٹیبل سیٹ کرو بیٹا” انہوں رابیل کے ساتھ عرش کو بھی کام پے لگایا تھا۔
“ماما پہلے اسے کہیں مجھے سوری کہے دیکھیں میرا وزن اسکے ہی جتنا تو ہے پھر یہ میرے کھانے پے نظر کیوں لگاتی ہے” وہ رونے کے لئے تیار تھی ساتھ ہی ٹرائیفل کا آخری چمچہ منہ میں ڈال چکی تھی ۔۔
“ہاں میرا بچہ تم دونوں بلکل ایک جیسی ہو اور رابی تم کیوں میری بچی کو تنگ کرتی ہو بھئ” انہوں نے مصنوعی خفگی سے رابیل کو دیکھا تھا
“ماما اٹس ناٹ فیئر! آپ اسے میری طرح نہیں کہا کریں میرے بال اس سے لمبے ہیں” رابیل نے احتیجاج کیا تھا
بھئ اب ہو ایک جیسی تو ایک جیسی ہی کہونگی نا” انہوں نے مسکراتے ہوے دونوں کو دیکھا تھا۔
“صرف شکل میں ہی ایک جیسی ہیں یہ ماما اور اتنی ایک جیسی ہیں کے بندہ رابیل سمجھ کے عرش کی تعریف کر دے۔۔ باقی تو ہر چیز میں رابی زیادہ سمجھدار ہے۔ کیوں عرش؟ ”
جواب رابیل کی بجائے اشر کی طرف سے آیا تھا وہ کھانے کا کہنے آیا تھا فاطمہ بیگم کی بات سن کر رابیل کے ساتھ میدان میں آگیا تھا۔اسنے مسکراہٹ دبا کے عرش کو دیکھا جو رونے کے لئے تیار ان دونوں کو ہی دیکھ رہی تھی۔۔
“ارے یار میں تو مذاق کر رہا تھا یہ تم رونے کیوں لگتی ہو ہر بات پے۔۔ عنصر کے پانی کا خرچ بچا لوگی تم رو رو کے ٹنکی تو فل کر ہی دوگی” اشر نے اسے اپنے ساتھ لگاتے ہنستے ہوے کہا تھا وہ جو آنسوں پوچھ رہی تھی عنصر کا نام سن کے دوبارہ زور شور سے رونے لگی تھی۔۔
“عرش چپ ہو جاؤ نا گڑیا تم تو میرے بھائی کا نام سنتے ہی ایسے رونے لگتی ہو جیسے سامنے آتے ہی وہ تمہیں کھا جایئگا ”
اشر نے اسکے آنسوں صاف کرتے ہوے شرارت سے کہا تھا
“چلو بھئ بچوں اب آ بھی جاؤ کچن سے باہر اشر تم جاؤ جلابیب کو بھی بلا لاؤ اسے اکیلے ڈرائنگ روم میں چھوڑ کر یہاں بہنوں کے ساتھ لگے ہوئے ہو۔
“اور عرش تم بھی جاؤ فریش ہو کے ٹیبل پے آجاؤ۔ رابی سیٹ کر دیگی میرے ساتھ ٹیبل” اشر کے جانے کے بعد انہوں نے اسے بھی باہر بھیجا تھا ۔
“پتا نہیں کیا ہوگا اس لڑکی کا اتنی اتنی سی بات پے یوں رونے لگتی ہے” انہوں نے اسکی پشت دیکھتے ہوے فکرمندی سے کہا تھا۔
آپ پریشان نہیں ہوا کریں ماما ہم سب ہیں نا عرش کے لئے” رابیل نے ساری چیزیں سلیقے سے ٹیبل پر سیٹ کرتے ہوے انھیں دلاسہ دیا تھا۔
“جبھی تو میں نے عنصر کے باہر جانے سے پہلے ہی اُسکا نکاح کروا دیا اپنی عرش سے۔ میں اپنی معصوم بچی کو کہیں باہر بھیجنے کا رسک نہیں لے سکتی۔ اشر بھی اپنی کسی کولیگ کو پسند نہیں کرتا تو میں تمہاری شادی اشر سے کروا دیتی۔ میری دونوں بچیاں میری نظروں کے سامنے رہتیں اور کیا چاہئیے تھا مجھے مگر یہ آج کل کے بچے سنتے کہاں ہیں۔ کہتا ہے رابی اور عرش میری بہنوں کی طرح ہیں”
انہوں نے دکھی دل سے رابیل کو دیکھتے ہوئے کہا تھا
“اوہو ماما یہ کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ اشر بھائیا بھائی ہیں ہمارے آپ یہ سب نہیں سوچیں پلیز اور قسمتیں تو اوپر سے ہی طے ہوتی ہیں ماما کسکی قسمت میں کون ہے یہ تو اللہ تعالیٰ جانتے ہیں۔اور مجھے اور عرش کو ثمر بھابی بہت پسند آئ ہیں عنصر بھیا آجائیں تو ہم انکے گھر چلیں گے اشر بھائیا کا رشتہ لے کر ” اسنے رسان سے فاطمہ بیگم کو سمجھایا تھا۔
“میری بیٹی بہت سمجھدار ہے اللہ تمہارے نصیب اچھے کرے” انہوں نے رابیل نے کی پیشانی چومتے ہوئے کہا تو وہ مسکرائ تھی۔۔” اللہ پاک میرے نصیب میں کچھ برا لکھ ہی نہیں سکتے وہ تو ستر مائوں سے زیادہ محبت کرتے ہیں ماما جو رب اپنے بندوں سے اتنی محبت کرتا ہے وہ کیسے اسکے نصیب میں کچھ برا لکھ سکتا ہے۔” وہ اسے دیکھ کے رہ گئیں تھیں۔
اسنے اپنا دوپٹہ پھر سے نماز کی طرح ٹھیک سے باندھا تھا فاطمہ بیگم نے اسے پیار سے دیکھا تھا وہ جانتی تھیں کے وہ پردے کے معاملے میں بہت زیادہ نا صحیح لیکن خیال ضرور رکھتی تھی جب سے اسنے ہوش سمبھالا تھا وہ اشر اور عنصر کے سامنے بھی سر سے دوپٹہ نہیں اتارتی تھی۔ عرش اسکے مقابلے میں تھوڑی لابالی سی تھی ۔ نماز کی عادت انہوں نے سب بچوں میں بچپن سے ہی ڈالی تھی رابیل کی یہ عادت بھی خود بہ خود پختہ ہو گئی تھی۔ اشر اور عنصر کے علاوہ صرف جلابیب ہی کبھی کبھی گھر پے آجاتا تھا وجہ اسکا اشر کا بہت اچھا دوست ہونا تھا ۔
اشر جلابیب کے ساتھ اندر داخل ہوا تو وہ اپنے خیال سے چونکی تھیں ۔
“کیسے ہو جلابیب بہت دنوں بعد یاد آئ ہے ہماری بیٹا” انہوں نے جلابیب کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوے شکوہ کیا تھا ۔
“ایسی بات نہیں ہے آنٹی بس ٹائم نہیں مل رہا تھا میں تو کافی دنوں سے آنا چاہ رہا تھا” اسنے آرام سے جواب دیتے ایک نظر رابیل پہ ڈالی تھی جو خاموشی سے نظریں جھکائے کھانا نکال کر فاطمہ بیگم کے آگے رکھ رہی تھی۔
” مجھے بھی جلدی کھانا دے دیں ماما بہت بھوک لگی ہے” عرش نے اپنے اندر آنے کا اعلان کیا تھا فاطمہ بیگم سمیت سب کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھر گئی تھی
“آئیں بیٹھ جائیں آپ بھی عرش ” جلابیب نے مسکراتے ہوے کہا تو عرش نے حیرت سے اسے دیکھا
“آپ کیسے جانتے ہیں کے میں عرش ہوں؟ ہم دونوں کو تو کوئی نہیں پہچان پاتا ہے کے کون رابیل ہے اور کون عرش ہے” وہ اپنی بڑی بڑی آنکھیں حیرت سے پھیلائے پوچھ رہی تھی۔
“میں رابیل کو پہچان جاتا ہوں میں رابیل کو ہزاروں میں بھی پہچان سکتا ہوں”
اسنے آہستگی سے کہا تھا۔
اسکے جواب پہ جہاں اشر نے حیرت سے اسے دیکھا تھا وہیں فاطمہ بیگم کے لئے پانی نکالتی رابیل کے ہاتھ بےاختیار کانپ اٹھ تھے۔
میرا مطلب ہے رابیل کا گیٹ اپ آپ سے مختلف ہوتا ہے نا” اسنے اپنی بات کوور کرنے کی کوشش کی تھی
“ماما میں جاؤں”
رابیل نے لرزتی آواز میں کہا تھا۔
ارے بیٹھ جاؤ نا یہیں کھالو پلیز کچن میں تم اکیلے کیسے کھاؤگی” عرش نے اسکا ہاتھ پکڑ کر بیٹھا دیا تھا۔
عرش پلیز ۔۔
” رابیل کوئی بات نہیں بیٹا کھالو سب کے ساتھ ہی”
اسنے مزاہمت کرنی چاہی مگر پھر فاطمہ بیگم کے کہنے پر بیٹھ گئی تھی
اس پورے عرصے میں اسنے ایک بار بھی جلابیب کے جانب نظریں اٹھا کے نہیں دیکھا تھا وہ خاموشی سے پلیٹ میں چمچ ہلا رہی تھی جلابیب نے محسوس کیا کے وہ اسکی موجودگی میں ٹھیک سے کھا نہیں پا رہی تھی کبھی اپنے ہاتھوں کو چادر کے اندر کرتی کبھی نکالتی وہ نروس نہیں تھی مگر ایک عجیب سی بیچنی تھی اسکے وجود میں جسے جلابیب کوئی نام نہیں دے سکا تھا۔ وہ جلد ہی ٹیبل سے اٹھ گیا تھا اور جب ہاتھ دھو کے وہ آیا تو اسکے توقع کے عین مطابق وہ ٹیبل سے اٹھ چکی تھی اسکے ہونٹوں پہ بےساختہ مسکراہٹ ابھری تھی جو اشر کی نظروں سے چھپی نہیں رہ سکی تھی۔۔
اسکے ٹیبل سے اٹھتے ہی وہ جلدی جلدی اپنا کھانا ختم کر کے اٹھ گئی تھی کچن میں آ کر اسنے گہری سانس لی۔۔ اس آدمی کی نظریں اسے کنفیوز کر رہی تھی ۔
تم جلابیب بھائی کے سامنے اتنا ڈر کیوں جاتی ہو رابی”اسکے پیچھے ہی عرش بھی کچن میں آئ تھی ۔
“میں ڈرتی نہیں ہوں عرش پر وہ نامحرم ہیں میں انکے سامنے کمفرٹ فیل نہیں کرتی” اسنے چائے چڑھاتے ہوے جواب دیا تھا۔
ہائے رابی تمہاری باتیں مجھے سمجھ میں نہیں آتی کبھی کبھی” عرش نے منہ بنایا تھا۔
“تم اپنے چھوٹے سے دماغ پہ اتنا زور نہیں دو ۔ یہ چائے دے دینا وہاں سب کو ” اسنے عرش کے گال کھینچتے ہوے کہا تھا
تم کہاں جا رہی ہو؟”
کمرے میں’ عرش کو جواب دیتے وہ کچن سے نکلی گئی تھی مبادہ عرش کام کے ڈر سے رونا ہی نا شروع کر دے ۔۔
وہ کافی دیر سے اپنے کمرے میں بیٹھا تھا اپنی آنے والی زندگی کے بارے میں سوچ رہا تھا ۔ عرش کے انتقال کو ایک ہفتہ گزر گیا۔ اپنے اور رابیل کے بارے میں ابھی اسنے کوئی بات نہیں کی تھی اشر سے ۔ وہ اچھی طرح جانتا تھا کے عرش رابیل کے لئے کیا تھی۔ مگر اس ایک ہفتے میں ایک بار بھی رابیل کا خیال اسکے ذہن سے نہیں نکلا تھا اس ایک ہفتے میں وہ جتنی بار بھی رابیل ولاء گیا تھا رابیل کے آنکھوں کی سوجن اسکی نظروں سے مخفی نہیں رہ سکی تھی۔۔ اسنے اس لڑکی کو پوری شدتوں سے چاہا تھا۔۔ اسکی ذرا سی تکلیف پر بھی وہ تڑپ اٹھتا تھا۔
اسکی سوچوں کو دروازے پر ہونے والے دستک نے توڑا تھا
آجائیں خالہ بی” وہ جانتا تھا خالہ بی ہی ہونگی اسکے کمرے میں انکے علاوہ اور کوئی نہیں آتا تھا
“ناشتہ کر لو جلابیب بیٹا” انہوں نے نرمی سے کہتے ہوے ٹرے ٹیبل پہ رکھا تھا
میں نیچے آجاتا نا خالہ بی آپ نے کیوں تکلیف کی ” اس نے شرمندگی سے کہا تھا۔ اگر میں نہیں آتی تو تم آج بھی بغیر ناشتہ کئے ہی چلے جاتے۔۔ انہوں نے اسے مزید شرمندہ کیا تھا پچھلے دو دنوں سے وہ بناء ناشتہ کئے ہی چلا جا رہا تھا۔
تمہاری بیوی آجاۓ تو وہ تمہیں پیار سے کھلایا کریگی پھر میں دیکھونگی تم کیسے ناشتہ کئے بغیر جاؤگے ”
“یہ پیار کی بھی آپ نے خوب کہی خالہ بی میرے تو باپ نے ہی آج تک مجھے وہ پیار نہیں دیا جسکا میں حقدار ہوں” وہ اداسی سے مسکرایا تھا
جلابیب کے بابا زوار صاحب شہر کے مشھور بزنس مین تھے انکے پاس جلابیب کو دینے سب کچھ تھا سوائے محبت اور وقت کے وہ اسے بلکل ویسے ہی ٹریٹ کرتے تھے جیسے اپنی بزنس ڈیلز کو۔ ۔۔
وہ کافی دیر سے فرشتے کو چپ کروانے کی کوشش کر رہا تھا پر وہ مزید رونے لگ رہی تھی۔ رو رو کے اسکا چہرہ سرخ ہو گیا تھا۔ بلآخر تھک ہار کر وہ اسے لے کے رابیل کے کمرے کی طرف گیا تھا۔ ہلکی سی دستک سے ہی دروازہ کھل گیا تھا وہ اندر داخل ہوا تو سامنے ہی سوفے پے بیٹھی شاید قرآن پڑھ رہی تھی فرشتے کی رونے کی آواز سن کر وہ بھی عنصر کی طرف متوجہ ہو گئی تھی۔
“کیا ہوا فرشتے کو عنصر بھیا یہ یہ اس طرح رو کیوں رہی ہے؟”اسنے فوراً ہی فرشتے کو عنصر کی گود سے لیا تھا۔
اور فرشتے رابیل کی گود میں جاتے ہی بلکل چپ ہو گئی تھی عنصر نے حیرت سے فرشتے کی جانب دیکھا جو اب رابیل کو دیکھ کر غوں غاں کی آوازیں نکال رہی تھی۔
“یہ کافی اٹیچ نہیں ہو گئی ہے تم سے” اسنے رابیل سے کہا تھا مگر نظریں اب بھی فرشتے پر ہی مرکوز تھی ۔
“اسے اٹیچ ہونا بھی چاہئیے۔ آنی اتنا پیار جو کرتیں ہیں اس سے۔ کیوں فرشتے آپ بھی پیار کرتی ہو نا آنی سے۔” رابیل نے اسکے لہجے پر غور کئے بغیر فرشتے کو پیار کرتے ہوئے جواب دیا تھا۔
وہ اثبات میں سر ہلاتا فرشتے پر ایک گہری نظر ڈال کر چلا گیا تھا۔۔