نواب ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا۔ اُس کی بہن زینت اور وہ جڑواں پیدا ہوئے تھے۔ نواب دماغی طور پر ٹھیک نہیں تھا۔ اس کی عمر انیس سال تھی۔ محلے کی تمام عورتیں اس سے پردہ نہیں کرتی تھیں۔ وہ بٹیر اور کتے پالنے کا بے حد شوقین تھا۔ اگر چہ اس کا اصل نام منیر تھا۔ ماں باپ اور بہنیں اسے پیار سے نواب صاحب کہتی تھیں۔ کچھ لوگ اُسے فقیر سمجھتے، اُس سے دم کرواتے، اُس سے اپنے جسم کے دکھتے حصوں پر ہاتھ پھرواتے۔ اسے پیسے دیتے، کھانے پینے کے لیے چیزیں دیتے مگر کچھ مرد اور بچے اُسے چھیڑتے۔ اُس پر جملے کستے، اُس پر ہنستے اور لطف اُٹھاتے۔ نواب اُن کے پیچھے بھاگتا، ان پر پتھر پھینکتا اور گالیاں دیتا۔
ایک دن اُس نے ایک آدمی کا سجا ہوا، مہندی لگا، موٹا تازہ دُنبہ دیکھا تو بپھر گیا اور باپ سے کہا ” مجھے ابھی ابھی یہ دنبہ خرید دو”
اُس کے باپ نے دُنبے کے مالک سے بات کی۔ ” مجھے یہ دُنبہ اپنے بچوں کی طرح پیارا ہے۔ میں اِسے نہیں بیچ سکتا” دُنبے کے مالک نے کہا۔ مگر شام کو وہی آدمی نواب کے دروازے پر آیا اور اُس سے معافی مانگنے لگا۔
” مجھے وہ دُنبہ آپ کو تحفے میں دے دینا چاہیے تھا۔ خدا کے واسطے اب میرے بچوں کو بدعا نہ دینا۔ میں آپکے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں ” وہ نواب کی ہتھیلی پر پانچ روپے کا نوٹ رکھ کر چلا گیا۔
نواب کی تین بہنیں تھیں مگر سب سے بڑی اور اُس کی ہم سن بہن زینت اُس سے بہت پیار کرتی، اسے کھانا اور چائے دیتی۔ اُس کے کپڑے دھوتی۔
جب زینت کی شادی ہو رہی تھی اور وہ دُلہن بنی کوٹھے میں بیٹھی تھی تو نواب نے اس سے پوچھا: ” باجی آج عید ہے ؟ ”
“نہیں تو ”
” تو پھر تم نے مہندی کیوں لگائی ہے ؟ نئے کپڑے کیوں پہنے ہیں ؟
” بس ایسے ”
“پاگل اس کی شادی ہے۔ یہ اپنے نئے گھر چلی جائے گی” زینت کی ایک سہیلی نے کہا۔
” نئے گھر چلی جائے گی ؟ہمارے گھر کیوں نہیں رہے گی ؟ میں اسے کہیں نہیں جانے دوں گا”
” آج رات باراتی زینت کو اونٹ پر بٹھا کر لے جائیں گے ” سہیلی بولی۔
” لے جا کر تو دکھائیں ! میں انھیں گولی مار دوں گا ”
” پاگل ایسی باتیں نہ کر۔ ”
ہنستی کھلکھلاتی لڑکیوں نے نواب کو چوری کھلائی۔ جب سکھیاں دُلہن کو سنگار کرا رہی تھیں تو ایک لڑکی نے نواب کی آنکھوں میں سرمہ لگایا۔ دوسری نے اُس کے بالوں میں کنگھی کی۔
“سرخی لگا دوں ؟” ایک لڑکی نے پوچھا۔
” سرخی تو عورتیں لگاتی ہیں۔ میں کیا تمھیں عورت نظر آتا ہوں ؟”
“ہاتھوں پر مہندی لگا دوں ؟ “دوسری نے پوچھا۔
” مہندی لگا دو مگر۔۔ ۔ میرا بٹیر کون پکڑے گا ؟”
” میں پکڑوں گی !” ایک چنچل حسینہ نے اپنا نازک ہاتھ بڑھایا۔
“مگر مہندی لگانے کے بعد میں نسوار کیسے رکھوں گا ؟”
” تو اُس کی فکر نہ کر، تیرا یہ کام بھی میں کر دوں گی۔ ” حسینہ نے پیشکش کی۔
ایک لڑکی نے اُسے ہاتھوں پر مہندی لگا دی۔
زینت کے لئے کھانا آیا تو سہیلیاں روٹی کے نوالے دُلہن کے منہ میں دیتیں اور دلہن روٹی کے نوالے نواب کے مُنہ میں دیتی۔
“نواب بتاؤ کونسی لڑکی پسند ہے تمہیں ؟بولو۔ ” چاچی نے اُس سے پوچھا۔ ” آج بتا دو ورنہ پچھتاؤ گے۔ آج ہمارا گھر محلے کی ساری خوبصورت لڑکیوں سے بھرا ہوا ہے۔ بتاؤ کس سے شادی کرو گے ؟”
” مجھے شادی وادی نہیں کرنی “وہ ہاتھوں سے مہندی مروڑنے لگا۔
” اچھا یہ بتاؤ ان تمام لڑکیوں میں سب سے خوبصورت کون ہے ؟”
” خوبصورت۔۔ ۔ خوبصورت۔۔ ۔ میری زینت باجی ہے۔ ” عورتیں اور لڑکیاں زور زور سے ہنسنے لگیں۔
بچپن میں نواب سکول بھی جاتا تھا مگر سکول میں وہ نہ تو کبھی اپنا بستہ کھولتا تھا اور نہ کسی کو اپنے بستے کو ہاتھ لگانے دیتا تھا۔ جب دوسرے بچے پڑھ یا کھیل رہے ہوتے تو نواب اپنے بستے کی چوکیداری کرتا رہتا۔ ایک دن بچوں نے ایک دوسرے سے شرط لگائی کہ جو لڑکا نواب کے بستے کو ہاتھ لگا کر دکھائے گا، اسے دو دن تک سکول میں جھاڑو لگانے اور سکول کا پانی بھرنے سے چھٹی ملے گی۔
جب کوئی لڑکا بستے کو ہاتھ لگانے کی کوشش کرتا تو نواب کڑک مرغی کی طرح اپنے بستے پر بیٹھ جاتا اور حملہ کرنے والے بچوں سے لڑنے کے لیے تیار ہو جاتا۔ کچھ دن بعد جب بچے اس مذاق سے تھک گئے تو اُنہوں نے ایک دوسرے سے شرط لگائی کہ جو لڑکا نواب کی ٹوپی یا جوتوں کو ہاتھ لگا کر دکھائے گا۔ اس لڑکے کی جگہ استاد صاحب کے گھر کا پانی دوسرے لڑکے بھریں گے۔ ایک دو لڑکے تو نواب کی ٹوپی اور جوتوں کو ہاتھ لگانے میں کامیاب ہو گئے مگرفوراًاُس نے اپنی ٹوپی اور جوتوں کو بستے میں ڈال کر مضبوطی سے بند کر دیا۔ اس کے بعد جب وہ لڑکوں کے بدلے تیور دیکھتا تو بندر کی طرح بستے کے اوپر چڑھ کر بیٹھ جاتا۔
نواب کچھ بڑا ہوا تو محلے کے بچوں کے ساتھ مل کر باغوں سے آم، ٹماٹر اور مولیاں چُراتا، محلے کے کسی بوڑھے، کانے کو چھیڑتا، مسجد میں نماز پڑھنے جاتا۔ گرمیوں کی لمبی دوپہروں کو لڑکوں سے ملکر آوارہ گدھوں پر سواری کرتا اور سردیوں میں گیدڑ اور سیہ کا شکار کرنے جاتا۔
عشاء کے وقت باراتی سجا ہوا اُونٹ لئے ناچتے گاتے دُلہن کے گھر پہنچ گئے۔ جب باراتی عورتیں آئیں تو نواب اپنی بہن کے پہلو سے نہ اُٹھا اور اپنے بٹیر کو چاول کھلاتا رہا۔ جب باراتی عورتیں ناچ رہی تھیں، تو نواب بھی اُن کے ساتھ ناچنے لگا۔ کچھ عورتوں نے اس کے سرپر روپے کے نوٹ ڈالے اور لڑکیوں نے کاغذ کے پرزے نچھاور کئے۔
نواب نے جب سجا ہوا اُونٹ دیکھا تو اُونٹ پر بیٹھنے کے لیے ضد کرنے لگا۔ دُلہے کے باپ نے جَت سے کہا اور وہ اُسے اونٹ پر بٹھا کر دس بارہ منٹ تک گلیوں میں گھماتا رہا۔ اور لڑکے لڑکیاں اُس کے گرد شور مچاتی اور تالیاں بجاتی رہیں۔
دُلہن کو لینے اُس کا ماما اور چاچا کوٹھے میں آئے۔ باراتی عورتیں اپنے چہرے نہ دکھانے کے لیے جتنا سکڑتیں اور دوپٹوں کو جتنا اپنے چہروں کے گرد کھینچتیں اُتنا ہی ان کے چہرے کھل کر نظر آ رہے تھے۔ ماما اور چا چا نے دُلہن کو رضائی پر بٹھایا، رضائی کو کونوں سے پکڑا اور باہر جانے لگے۔
” تم باجی کو کہاں لے جا رہے ہو؟اسے کیا ہوا ہے ؟” نواب پریشان ہوا۔
” اسے کچھ بھی نہیں ہوا” ماما نے جواب دیا۔
” تو پھر تم اسے اُٹھا کر کیوں لے جا رہے ہو؟ یہ خود کیوں نہیں چلتی ؟”
” خود چل کر دُلہنیں اپنے نئے گھر نہیں جاتیں، پگلے۔ ” مامی نے وضاحت کی۔
” یہ اپنے نئے گھر جار رہی ہے ؟”
“ہاں ”
“یہ ہمارے گھر میں نہیں رہے گی؟”
” نہیں ”
” یہ کہیں بھی نہیں جائے گی۔ اسے کوئی لے جا کر تو دکھائے ! ” نواب گلی والے دروازے کی دہلیز پر بیٹھ گیا۔ ” کوئی یہاں سے گزر کر تو دکھائے۔ ”
دروازے کے باہر باراتی انتظار کر رہے تھے۔ ڈھول بج رہا تھا۔ اونٹ اپنے بڑے بوڑھوں کی عظیم روایت پر عمل کرتے ہوئے یتز ابی پیشاب کی پچکاریاں چلائے جا رہا تھا۔ کچھ رشتہ داروں نے نواب کو راستے سے زبردستی ہٹانے کا مشورہ دیا۔ مگر اُس کی ماں نے اُنہیں منع کر دیا۔ ” یہ فقیر ہے، اس کا دل مت دکھاؤ۔ باراتی تھوڑا انتظار کر لیں گے۔ بند راستوں کو زبردستی نہیں کھولنا چاہیے۔ ”
زینت کو واپس اپنے کوٹھے میں لے جایا گیا۔ سکھیوں کے آنسوں آہستہ آہستہ خشک ہوتے گئے۔ اور وہ دوبارہ خوش گپیوں میں مصروف ہو گئیں۔
” آؤ کوٹھے میں چلیں۔ ” ماں نے نواب کے بالوں میں انگلیاں پھیریں۔
” نہیں، میں نہیں جاؤں گا۔ ”
” آؤ سوتے ہیں، تمھیں نیند آ رہی ہے ”
” مجھے نیند نہیں آ رہی ”
” آؤ تمھیں سویاں دوں ” ٰ
” میں سویاں نہیں کھاتا۔ ” نواب دروازے کے ساتھ سر لگا کر بیٹھ گیا۔
آخر ایک گھنٹے کے انتظار کے بعد اُس کی آنکھ لگ گئی۔ ماما اور چاچا نے اُسے ٹانگوں اور بازوؤں سے پکڑا اور کوٹھے میں لا کر چار پائی پر لٹا دیا۔ باراتی دوبارہ حرکت میں آ گئے۔ میراثی کے ہاتھ دوبارہ ڈھول کو پیٹنے میں مصروف ہو گئے۔ سکھیوں اور سہیلیوں کی اکھیاں دوبارہ ندیاں بن گئیں۔
” میں نواب سے مل لوں ؟” زینت نے روتی آواز میں پوچھا۔
” اس سے نہ ملو تو اچھا ہو گا۔ وہ دوبارہ جاگ گیا تو مسئلہ بن جائے گا۔ ” ماما نے صلاح دی۔
” یہ اپنے جڑواں بھائی سے ملے بغیر کیسے اپنے نئے گھر جائے گی؟ تم تو جا نتے ہو، نواب زینت سے کتنا پیار کرتا ہے۔ وہ دونوں اکٹھے میرے پیٹ میں کھیلے ہیں۔ کاش تم لوگ ان کی محبت کو سمجھ سکتے۔ ” اس کی ماں رونے لگی۔
زینت نے اپنے بھائی کے ہاتھوں اور ماتھے پر بوسہ دیا۔ اس کے گرم آنسوؤں جب نواب کے ماتھے پر گرے تو وہ جاگ گیا۔
” تم کہیں نہیں جاؤ گی۔ باجی تم مجھے چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤ گی !”
” میں کہیں نہیں جا رہی، پگلے۔ ”
“مجھے سب پتہ ہے، یہ لوگ تمھیں لینے آئے ہیں۔ ” وہ دوڑ کر آیا اور دوبارہ دہلیز پر بیٹھ گیا۔
میراثی کے ہاتھ رُک گئے۔ باراتی بھوکی شہد کی مکھیوں کی طرح بھنبھنا نے لگے۔ دوبارہ انتظار ہونے لگا۔ اندھیرا گہرا ہو گیا تھا۔ بارات کیساتھ آئے کچھ لوگ تھک کر اپنے اپنے گھروں کو چل دئے۔
آدھا گھنٹہ بعد نواب کو دوبارہ نیندا ٓ گئی۔ آخر رات کے دس بجے دُلہن کو کجاوے میں بٹھا کر اپنے نئے گھر لے جایا گیا۔
صبح جب نواب جاگا تو اپنی بہن کو غائب پا کر مٹی میں لوٹنے لگا۔ اُس دن اُس نے نہ کچھ کھایا اور نہ پیا۔ اور نہ ہی اپنے بٹیر کو باجرہ کھلایا۔ شام سے پہلے کچھ بچے دوڑتے ہوئے آئے۔ اور نواب کو خبر دی ” پڑوسیوں کی کتیا نے بچے دیئے ہیں ”
“کب؟”
” کل رات ”
” کتنے بچے دیئے ہیں ؟”
” پورے پانچ”
” اُن میں دو پلے میں رکھوں گا”
وہ بچوں کیساتھ دوڑتا ہو اپنے پڑوسیوں کے گھر گیا۔ سرخ مریل کتیا اپنے اندھے مندھے بچوں کو سینے سے لگائے بھوسے میں لیٹی ہوئی تھی۔ نواب نے جب دو پلوں کو علیحدہ کرنے کی کوشش کی تو کتیا غرانے لگی۔ اس نے کتیا کو روٹی اور گڑ کھلایا، کتیا اسے دوست سمجھنے لگی۔ اس نے نشانی کے طور اپنے دو پلوں کے گلے میں رنگ برنگے چیتھڑے باندھ دیے۔
اب نواب کا سارا وقت پلوں اور کتیا کے پاس گزرتا۔ کبھی کبھار کتیا کی غیر موجودگی میں وہ اپنے دو پلوں کو اپنے گھر لے آتا اور اُنہیں دودھ پلاتا۔
تین سال بعد زینت کو ٹی بی ہو گئی۔ سسرال والوں نے اُسے اپنے میکے بھیج دیا۔ ” جب تک تو ٹھیک نہیں ہو جاتی اپنے میکے رہے گی” سسرال والوں کا کہنا تھا کہ چونکہ وہ یہ بیماری اپنے باپ کے گھر سے لائی تھی۔ تو وہی اُس کا علاج کرے گا۔ زینت کا باپ نسبتاً خوشحال تھا۔ وہ اس کا علاج کراتا رہا مگر وہ صحت یاب نہ ہوئی، اس کا رنگ ہلدی ہوتا گیا، اس کے جسم سے گوشت جھڑتا گیا۔ وہ پرہیزی خوراک کھاتی تھی۔ ماں نے اُس کے برتن علیحدہ کر دیے تھے مگر نواب سب کے منع کرنے کے باوجود زینت کے ساتھ کھانا کھاتا تھا۔
ایک دفعہ چاند رات کو جب نواب کی دوسری بہنیں مہندی لگا رہی تھیں تو زینت چار پائی پر لیٹی کھانس رہی تھی۔ نواب نے اس سے کہا ” باجی تم اپنے ہاتھوں پر مہندی کیوں نہیں لگاتی ؟”
“میرے ہاتھوں پر مہندی پہلے ہی سے لگی ہوئی ہے نا، اس لیے ! دیکھو میرے ہاتھ پیلے ہیں نا؟”
” ہاں پیلے ہیں ”
” تو پھر مجھے مہندی لگانے کی کیا ضرورت ؟”
” لیکن تم نے مہندی تو لگائی ہی نہیں پھر یہ پیلے کیسے ہو گئے ؟۔۔ ۔ دیکھو باجی جو بھی ہو اگر تم مہندی نہیں لگاتی تو میں بھی مہندی نہیں لگاؤں گا۔ ” یہ کہہ کر اُس نے زبردستی زینت کے ہاتھ سے پکڑا اور اس پر مہندی لگانے لگا۔
عید کے کچھ ہی دن بعد زینت چل بسی۔ اُس کی نمازِ جنازہ دن کے دس بجے ہونا تھا۔ رشتہ دار مرد جب جنازہ اُٹھا کر جانے لگے تو نواب دروازے کی دہلیز پر بیٹھ گیا۔ ” تم اِسے کہیں بھی نہیں لے جا سکتے ”
کچھ رشتہ داروں نے مشورہ دیا کہ اُسے زبردستی راستے سے ہٹا یا جائے مگر اُس کی ماں نے روتے ہوئے کہا “یہ فقیر ہے، اس کا دل مت دکھاؤ۔ زینت نے زندگی میں کبھی بھی اسے خفا نہیں کیا تھا۔ کبھی اس بڑھیا کی بات بھی مان لیا کرو ”
مرد جنازہ واپس لے آئے۔
” نواب تم نے روٹی نہیں کھائی۔ آؤ روٹی کھالو۔ ” ماں نے اسے پھسلایا۔
” میرے لیے چٹنی اور پیاز لاؤ۔۔ ۔ اورلسی بھی۔ ”
جب روٹی، چٹنی، لسی، پیاز لائے گئے تو وہ سب چیزیں اُٹھا کر اپنی بہن کی لاش کے پاس آیا۔
” میں اور باجی اکٹھے روٹی کھائیں گے۔ ”
” باجی تو کب کی روٹی کھا کر سو گئی ہے ” ماں نے کہا۔
” باجی نے روٹی کھا لی ہے ؟اُس نے میرا انتظار کیوں نہیں کیا ؟”
” اُس نے تیر انتظار کیا مگر تو گھر سے غائب تھا۔ تو اپنے دوستوں کیساتھ کھیل رہا تھا۔ ”
” اچھا، ٹھیک ہے۔ ” نواب نے روٹی کھائی، اپنے کتوں کو بھی کھلائی۔
” اچھا تیری باجی سو گئی ہے۔ اب تم بھی آرام سے سو جاؤ ورنہ باجی جاگ جائے گی۔ اُسے تنگ نہ کر و۔ اُسے بخار ہے۔ اس لیے جلدی سو گئی ہے۔ تم بھی سو جاؤ۔ شاباش !” اُس کی ماں اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگی۔
وہ اپنی چار پائی پر لیٹ گیا اور جلد اسے نیند آ گئی۔
دن کا ایک بجا تھا اور سورج آگ برسا رہا تھا۔
“جنازہ ابھی ابھی گھر سے نکال لینا چاہیے اگر نواب جاگ گیا تو پھر مسئلہ کھڑا کر دے گا۔ ” نواب کے بوڑھے باپ نے مشورہ دیا۔
” مگر اس وقت سخت گرمی۔ سب لوگ سوئے ہوئے ہیں۔ جنازہ تو اب ظہر کی نماز کے بعد ہی ہو گا۔ ” اس کے چاچے نے جواب دیا۔
” کوئی بات نہیں۔ ہم جنازہ گاہ میں انتظار کر لیں گے۔ وہاں درخت ہیں۔ سایہ ہے۔ ” بوڑھا بولا۔
عصر سے پہلے زینت کو دفنا دیا گیا۔ گھر میں اڑوس پڑوس کی عورتیں جمع تھیں۔ نواب کا باپ اور چاچا فاتحہ خوانی کے لئے مسجد میں بیٹھے تھے۔ کسی نے نو اب کو نہ جگایا، سب یہ کہہ رہے تھے: ” اُسے سونے دو ! اِس میں ہم سب کی بھلائی ہے ”
جب سب لوگ رات کی روٹی کھا چکے تو نواب کی ماں روٹی لے کر اُس کے پاس گئی اور اُسے جھنجھوڑا۔ مگر وہ نہ جاگا۔ عورتیں اُس کی چارپائی کے گرد جمع ہو کر رونے لگیں۔
” جڑواں بچوں کی محبت کچھ ایسی ہی ہوتی ہے۔ وہ اکٹھے آتے ہیں اور اکٹھے جاتے ہیں۔ ” ایک بڑھیا روتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...