آج بھی سفید محل کے کمرے میں سناٹا چھایا ہوا تھا،کمرے کے عین وسط میں رکھی بڑی سی میز کے گرد پانچ لوگ کرسیوں پر براجمان تھے،سربراہی کرسی اور اسکے ساتھ والی کرسی خالی تھی۔
کچھ ہی دیر گزری کہ کمرے کا دروازہ کھلا اور زاشہ اندر داخل ہوئی ‘مکمل سیاہ لباس میں سے صرف سیاہ آنکھیں دکھائی دیتی تھیں،اسکے پیچھے ہی سکندر بھی کمرے میں داخل ہوا ۔
زاشہ کو دیکھتے ہی سب لوگ احترام سے کھڑے ہوئے ،اس نے سربراہی کرسی سنبھال کر مخصوص اشارہ کیا اور سب لوگ اپنی اپنی نشست پہ بیٹھ گئے ۔
“جی عزیز یوسفی صاحب۔۔۔ کیا رپورٹ ہے، مال تو ڈیلیور ہو گیا نا! ۔۔۔۔ کوئی بڑا مسئلہ تو پیش نہیں آیا ؟ ”
گھمبیر رعب دار آواز میں زاشہ نے سوال کیا۔
“جی مادام۔۔۔ سب کام خیریت سے ہو گیا کوئی مسئلہ نہیں ہوا، ویسےبھی جو اے ایس پی مسئلہ کرتا تھا وہ آجکل آفیشل لیو پر ہے”
یوسفی نے سر جھکا کر جواب دیا اور ساتھ ہی ایک فائل بھی آگے بڑھائیی جو سکندر نے تھام لی۔
“اور خاقان صاحب۔۔۔۔ آپکی اور نعیم صاحب کی کیا رپورٹ ہے آپ دونوں نے اسلحے کے ٹرک ابھی تک بھیجے کیوں نہیں
آغا زرداب کا فون آیا تھا افغانستان سے وہ اس دیری کی وجہ سے سخت ناراض ہیں ”
زاشہ نے سختی سے استفسار کیا ۔
خاقان اور نعیم کے چہرے کا رنگ پھیکا پڑا
“وہ۔۔۔۔۔مادام۔۔۔۔۔ ہمیں آپکو بتانا یاد نہیں رہا ۔۔۔۔۔ وہ دراصل مائیکل سے ہماری ڈیل فائنل نہیں ہو سکی تھی ہم نے دوسری جگہ بات کی ہے امید ہے آج ہی ڈیلیوری ہو جائے گی”
“اوہہہہ۔۔۔۔۔ اب ذرا یہ بھی بتا دیں آپ لوگ کہ مائيکل سے ڈیل کیوں کینسل ہوئی؟”
زاشہ نے ٹھنڈے لہجے میں پوچھا۔
خاقان اور نعیم کے دل کی ڈھڑکن رکی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ٹیبل پہ ہاتھ رکھ کر ذرا آگے کو جھکی
“تم دونوں کی خاموشی بتا رہی ہے کہ تم لوگوں کا جرم بڑاہے۔۔۔۔۔۔۔۔آغا کے ساتھ غداری کا سوچا ہے تم لوگوں نے”۔۔۔۔۔۔۔ وہ ایک دم سے غرائی تھی۔
“مادام ہمیں اپنی غلطی کا کا احساس ہے ہمیں ایک موقع اور دے دیں” دونوں گڑگڑائے تھے۔
“موقع صرف ایک ہی بار ملتا ہے جو تم لوگوں نے گنوا دیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سکندر انہیں گیسٹ روم میں پہنچا دو انکا فیصلہ آغا خود یہاں آ کرکریں گے۔۔۔۔ تب تک ان کی مہمان نوازی کرو”
سکندر کے اشارے پر باہر کھڑے دو گارڈز فوراً اندر آئے اور انکو گھسیٹتے ہوئے لے گئے۔
۔
۔
“اب اسلحے کا کام آپ دونوں سنبهالیں گے۔۔۔۔ مائيکل نے کافی تعریف کی ہے آپ دونوں کی”
زاشہ نے اپنے سامنے بیٹھے کلارک اور سمتھ سے کہا۔
دونوں نے زاشہ کو مکمل یقین دہانی کروائی۔
“میں ایک بات آپ سبکو پھر سے بتادینا چاہتی ہوں کہ مجھے اس کام میں زور زبردستی بالکل بھی پسند نہیں جیسے ہر کام کے کچھ اصول ہوتے ہیں ہمارے کام کے بھی اصول ہیں
ایمانداری اور وفا داری بہت اہم جزو ہیں،کسی بھی لڑکی سے زبردستی کرنا یا انکی اسمگلنگ کرنا منع ہے،تعلیمی اداروں میں طلبا کو زبردستی نشے کا عادی نہیں بنایا جاتا انکو ٹریپ کیا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور سب سے اہم بات ۔۔۔۔ زاشہ ذرا رک کر گویا ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ انڈر ورلڈ ایسی کالی دنیا ہے جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہے،ایک بار اس دنیا میں قدم رکھ دیا تو واپسی صرف آپکی موت سے ہو گی”
زاشہ کی بات سن کر سب نے سر جھکایا۔
“او کے ۔۔۔۔ نیکسٹ میٹنگ میں ملاقات ہو گی آپ لوگ اب جا سکتے ہیں”
یہ کہہ کر وہ اٹھی تھی اور کمرے سے نکل گئی۔
“””””””””””””””””””
ایس پی تبریز لاشاری آفس چيئر پہ بیٹھا تھا وجیہہ چہرے پہ اس وقت مکمل سنجیدگی چھائی تھی۔۔۔۔۔۔ ایس ایچ او سامنے ہاتھ باندھے کھڑا سارے انڈر انکوائری کیسز کی ڈیٹیل سر کو دے رہا تھا جسے تبریز سنجیدگی سے سن رہا تھا۔
“اور سر یہ فائل ‘دی آغا زرداب اینڈ زاشہ’گینگ کی ہے،جس پہ اے ایس پی تیمور خان کام کر رہے تھے آجکل وہ آفیشل لیو پر ہیں”
حنیف نے ایک فائل تبریز کی جانب بڑھائی۔
“ہنہہ۔۔۔۔۔ زاشہ اینڈ زرداب گینگ ۔۔۔۔۔ مطلب ایک عورت نے جرائم کی دنیا میں تہلکہ مچا رکھا ہے اور سارے پولیس ڈیپارٹمنٹ کی نیندیں اڑا رکھی ہیں”
تبریز نے حیرت سے سر جھٹکا۔
“جی سر لیکن مادام زاشہ کوکسی نے آج تک دیکھا نہیں ہے اور آغا زرداب زیادہ تر دبئی میں ہوتا ہے اسی لیئے اب تک پو لیس انکو اپروچ نہیں کرسکی”
حنيف کی بات سن کر تبریز نے طنزیہ نگاہوں سے اسے دیکھا
“اسکی بھی تو کوئی وجہ ہو گی نا حنیف صاحب”
تبریز نے کہا ۔
“وہ سر۔۔۔۔۔۔۔ مادام زاشہ باقاعدگی سے ہمارا حصہ بھجواتی ہیں ۔۔۔۔ اپنے پی اے سکندر حیات کے ہا تھوں”
حنيف دانت نکوستے ہوے بولا۔
“حنیف صاحب ۔۔۔۔۔ مت بھولیں کہ میں آ پکا باس ہوں”
تبریز غصے سے بولا۔
“یس سر”
حنیف فوراً سیدھا ہوا تھا۔
“اب آپ جائیے اور اس گینگ کے بارے میں ساری انفارمیشن مجھے کل صبح اپنی ٹیبل پہ چاھیے۔۔۔۔۔ از دیٹ کلیئر ”
تبریز نے کہا۔
“یس سر” حنیف نے پھنسی پھنسی آواز میں جواب دیا۔
“بھئی ہم نے اپنی ڈبل وصولی بھی تو لینی ہے آخر ۔۔۔۔۔۔۔ انکی کمزوریاں ہمارے ہاتھ میں ہوں گی تو تب ہی ہم اپنا کام نکلوا سکیں گے آسانی سے”
تبریز نے حنیف کے تاثرات دیکھ کر بات بنائی۔
“جی بالکل سر میں صبح آپ کو ساری ڈیٹیل پہنچا دوں گا”
حنیف خوشدلی سے بول کر باہر نکل گیا،تبریز کی پر سوچ نگاہوں نے اسکا پیچھا کیا تھا۔
“انٹرسٹنگ۔۔۔۔۔۔۔ مادام زاشہ اب تو آپ سے ملنا ہی پڑے گا۔۔۔۔۔ آخر دیکھیں تو سہی اس ہستی کو جس نے پولیس والوں کو بھی اپنا وفادار بنا رکھاہے”
تبریز زاشہ کی فائل دیکھتے ہوئے گویا ہوا۔
زاشہ نے اپنے کمرے میں آتے ہی نقاب نوچ کر دور پھینکا صبیح چہرہ غم و غصے سے سرخ ہو رہا تھا خوبصورت سیاہ آنکهوں میں آنسو ضبط کرنےکی وجہ سے لال ڈورے پڑے تھے،تبھی دروازے پر دستک ہوئی اور بوا نے دروازہ کھول کرکھانے کا پوچھا۔
“نہیں بوا مجھے بھوک نہیں ہے پلیز اب مجھے ڈسٹرب مت کیجیئے گااور اگر آغا کا فون آئے تو بول دیجیئے گا کہ میں سو رہی ہوں”
زاشہ نے رخ موڑے موڑے ہی جواب دیا، دروازہ بند ہونے کی آواز پہ وہ پلٹی اور بیڈ پہ جا بیٹھی۔
کالی سیاہ رات سی آنکهيں بے دریغ موتی لٹا رہی تھیں۔
“آخر کب تک میں اس جہنم میں رہوں گی میرے مولا۔۔۔۔۔۔۔ آخر کب مجھے آزادی ملے گی آغا نامی عفریت سے۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے مولا کسی کو تو بھیج دے میری مدد کیلئے ”
زاشہ مسلسل آنسو بہاتے اللہ تعالی سے فریاد کر رہی تھی۔
بے بسی سے روتی اکیس سالہ دھان پان سی زاشہ اس زاشہ سے قدرے مختلف لگ رہی تھی جسکا نام سن کر بڑے بڑوں کا پتہ پانی ہو جاتا تھا۔
رات بھیگتی جا رہی۔ تھی اور ساتھ ہی زاشہ کا تکیہ بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔