ہرکور اور کنٹھی کی شادی جب ہوئی تو ان کی کل عمروں کا مجموعہ دس سال سے کم تھا۔ ان دنوں اس عمر میں شادی ہندوستان کا عام رواج تھا۔ اگر مہاتما گاندھی اور مس مایو یہاں نہ پیدا ہوتے تو یہ رواج اب تک چل رہا ہوتا۔
ہرکور اور کنٹھی کے گاؤں دناگری پہاڑ کے دامن میں ایک دوسرے سے چند میل کے فاصلے پر تھے۔ دونوں نے پہلی بار ایک دوسرے کو تب دیکھا جب دونوں رشتہ داروں اور دوستوں کے مجمع میں دلہا دلہن بنے۔ یہ دن ان کی یاداشت میں ہمیشہ یاد رہے گا کہ اس روز انہوں نے حلوہ پوری اتنی زیادہ کھائی کہ ان کے ننھے ننھے پیٹ پھٹنے کو آ گئے۔ یہ دن ان کے باپوں اور گاؤں کے بنیوں کو بھی ہمیشہ یاد رہے گا کہ بنیا چونکہ ان کا مائی باپ ہے، نے ان کی مجبوری کو سمجھا اور چند روپے قرض دیئے۔ ان رپوں کی مدد سے ہی وہ اپنے بچوں کی شادی اس عمر میں کرنے کے قابل ہوئے کہ جس عمر میں بچوں کی شادی ہو جانی چاہیئے۔ اس خوش نصیب دن کا انتخاب گاؤں کے پنڈت نے کیا۔ بنیئے نے اپنے رجسٹر میں ان کے نام درج کر دیئے۔ بے شک پچاس فیصد سود بہت مہنگا تھا لیکن اس کی ادائیگی بھی لازمی تھی کہ دیگر بچے بھی جلد ہی شادی کی عمر کو پہنچنے والے تھے۔ ان کی بار بھی بنیا ہی کام آتا۔
شادی کے بعد کنٹھی پھر اپنے باپ کے گھر کو چلی گئی جہاں وہ اگلے کئی سال تک ہر وہ کام کرتی رہی جو غریبوں کے بچے اپنے گھروں میں کرتے ہیں۔ تاہم کنواری لڑکیوں کے برعکس اب کنٹھی کو محض ایک کپڑے سے اپنا جسم ڈھانکنے کی اجازت نہیں تھی۔ اس کا نیا لباس ایک ڈیڑھ گز لمبی چادر، جس کا ایک سرا سکرٹ میں اور دوسرا سرا سر پر تھا، ایک بغیر بازو کی قمیض اور ایک چند انچ لمبا سکرٹ تھا۔
اس طرح کئی سال گذر گئے۔۔ جب کنٹھی کی عمر اتنی ہو گئی کہ وہ اپنے خاوند کے ساتھ اپنی نئی زندگی کا آغاز کر سکے، اس کی رخصتی کا دن آ گیا۔ ایک بار پھر بنیا ان کی مدد کو آیا اور اس نے دلہن کے لئے نئے کپڑوں کا انتظام کیا اور آنسو بھری آنکھوں کے ساتھ اپنے پیا کے گھر سدھار گئی۔ اس منتقلی کا صرف اتنا سا اثر ہوا کہ ہر وہ کام جو کنٹھی اپنے باپ کے گھر کرتی تھی، اب اپنے سسرال میں سرانجام دینے لگی۔ ہندوستان میں غریب لوگوں کے گھر چھوٹے بڑے کی کوئی تمیز نہیں ہوتی اور ہر فرد کو اپنی اپنی ذمہ داری بخوشی سرانجام دینی ہوتی ہے۔ کنٹھی اب کھانا پکانے کی عمر کو پہنچ چکی تھی۔ ناشتے کے بعد ہر وہ فرد جو مزدوری کر سکتا، مزدوری کرنے نکل جاتا اور چاہے ان کی مزدوری کی اجرت کتنی ہی کم کیوں نہ ہو، گھر کو چلانے میں اہم کردار ادا کرتی۔ ہرکور کا باپ مستری تھا اور ایک امریکی مشن سکول کی تعمیر میں کام کر رہا تھا۔ جب ہرکور بڑا ہوتا تو اپنے باپ کے پیشے کو ہی جاری رکھتا۔ تاہم ابھی اس کا کام اپنے باپ اور دیگر مستریوں کو تعمیراتی ساز و سامان لا کر دینا تھا۔ دس گھنٹے طویل اس مزدوری کے بدلے اسے دو آنے ملتے۔ کھیتوں میں فصلیں تیار ہونے والی تھیں۔ ناشتے کے بعد جب کنٹھی برتن دھو مانجھ لیتی تو اپنی ساس اور بہت ساری نندوں کے ہمراہ نمبردار کے کھیتوں کو چل دیتی جہاں گاؤں کی دیگر عورتیں بھی فصل کاٹنے کو آئی ہوئی ہوتیں۔ یہاں کنٹھی دس گھنٹے کام کرتی اور اس کے بدلے اسے محض ایک آنہ ملتا۔ اندھیرا ہونے کے بعد یہ عورتیں اور کنٹھی اپنے گھر آن پہنچتیں۔ یہ گھر نمبردار کی مہیا کردہ جگہ پر ہرکور کے باپ نے بنایا تھا۔ بڑوں کی عدم موجودگی میں بچوں نے خشک لکڑیاں جمع کی ہوتی تھیں جن کی مدد سے رات کا کھانا پکتا اور کھایا جاتا۔ رات کے کھانے کے بعد جب برتن دھو مانجھ لئے جاتے تو کنٹھی دیگر لڑکیوں کے ہمراہ ایک کونے میں جبکہ ہرکور اپنے بھائیوں اور باپ کے ساتھ دوسرے کونے میں جا کر سو جاتا۔ جب ہرکور کی عمر اٹھارہ اور کنٹھی کی عمر سولہ سال ہوئی تو دونوں اپنی چند اشیا اتھا کر گھر سے نکلے۔ رانی کھیت کی چھاؤنی سے تین میل دور ہرکور کے چچا نے اسے جھونپڑا بنانے کے لئے جگہ فراہم کی تھی۔ اس جگہ کئی بیرکیں زیر تعمیر تھیں اور بہ آسانی ہرکور کو مستری کی جگہ مل گئی اور کنٹھی بطور مزدور کام کرنے لگی۔ اس کے ذمے پتھر اٹھا کر مستریوں کے پاس زیر تعمیر جگہ تک لے جانا تھا۔
چار سال تک یہ جوڑا رانی کھیت کی چھاؤنی میں کام کرتا رہا۔ اس دوران کنٹھی کے ہاں دو بچے پیدا ہوئے۔ چوتھے سال نومبر کے وقت چھاؤنی کی تعمیر مکمل ہو گئی اور ہرکور اور کنٹھی کو اب کسی نئی جگہ کام کی تلاش کرنی تھی۔ ان کے پاس جو تھوڑی بہت جمع پونجی تھی وہ چند دن تک ہی خوراک کے لئے کافی ہوتی۔
اس سال سردیاں جلدی شروع ہوئیں اور اندازہ تھا کہ اس بار سردیاں بہت شدید ہوں گی۔ اس خاندان کے پاس گرم کپڑے نہیں تھے اور ہفتہ بھر مزدوری کی ناکام تلاش کے بعد ہرکور نے تجویز پیش کی کہ اس نے سنا ہے کہ پہاڑ کے دامن میں نہر کی تعمیر جاری ہے اور وہاں مزدوری کی کمی نہیں۔ کیوں نہ وہ لوگ وہاں منتقل ہو جائیں؟ سو دسمبر کے شروع میں یہ پورا خاندان بلند حوصلوں کے ساتھ دامن کی طرف چل پڑا۔ ان کے گاؤں اور پہاڑ کے دامن یعنی کالا ڈھنگی گاؤں جہاں نہر کا کام ہو رہا تھا، کا درمیانی فاصلہ پچاس میل بنتا ہے۔ رات کو درختوں کے نیچے سوتے، دن کےو قت پہاڑ کی چڑھائیاں اترائیاں طے کرتے اور اپنے سارے سامان اور بچوں کو باری باری اٹھاتے ہوئے یہ لوگ چھ دن بعد کالا ڈھنگی پہنچے۔
اچھوت ذات کے دیگر بے زمین افراد بہت پہلے ہی ادھر ہجرت کر آئے تھے اور انہوں نے اپنے واسطے جھونپڑے تعمیر کر لئے تھے۔ ہر جھونپڑے میں تیس تک افراد رہ سکتے تھے۔ یہاں ہرکور اور کنٹھی کو رہائش نہیں ملی۔ انہوں نے اپنے لئے اپنا جھونپڑا تعمیر کرنے کا سوچا۔ انہوں نے جنگل کے کنارے ایک جگہ منتخب کی جہاں ایندھن کی فراوانی اور بازار کا قرب تھا۔ علی الصبح اور شام کو کام کرتے ہوئے انہوں نے پتوں اور شاخوں سے اپنا چھوٹا سا جھونپڑا بنایا۔ ان کے پاس رقم نہیں تھی اور یہاں کوئی بنیا بھی نہیں تھا کہ جس سے مدد مانگی جاتی۔
وہ جنگل جس کےکنارے انہوں نےا پنا جھونپڑا بنایا، میری پسندیدہ شکار گاہ تھی۔ اس جنگل میں پہلے پہل میں مزل لوڈر بندوق لے کر گھر کے کھانے کے لئے سرخ جنگلی مرغ مارنے نکلتا تھا اور بعد ازاں بڑے شکار کی تلاش میں جدید رائفل کی مدد سے میں نے اس کا کونہ کونہ چھان مارا۔ جس وقت ہرکور اور کنٹھی نے اس جنگل کے کنارے ڈیرہ جمایا، اس وقت ان کے دو بچے تھے۔ لڑکا پنوا تھا جو تین سال کا تھا اور پتلی جو دو سال کی لڑکی تھی۔ اس وقت میرے علم کے مطابق جنگل میں کم از کم پانچ شیر، آٹھ تیندوے، چار ریچھوں کا خاندان، دو ہمالیائی کالے ریچھ، جو اونچے علاقوں سے یہاں آلوبخارے اور شہد کی تلاش میں آئے تھے، بے شمار لگڑبگڑ جو پانچ میل دور اپنی کھوؤں میں رہتے تھے اور شیروں اور تیندوؤں کے شکار پر ہاتھ صاف کرتے تھے، دو جنگلی کتے، بے شمار گیدڑ، لومڑیاں اور پائن مارٹن تھے، بھیڑیئے اور دیگر اقسام کی بلی کے خاندان کی مخلوقات بھی تھیں۔ اس کے علاوہ یہاں دو پائتھن، بے شمار دیگر اقسام کے سانپ، بازوں کی کئی اقسام اور سینکڑوں گدھ بھی موجود تھے۔ میں نے ہرن، بارہ سنگھوں، سور اور بندروں کا ذکر نہیں کیا کہ وہ انسان کے لئے خطرہ نہیں ہوتے، اس لئے ان کا تذکرہ فضول ہے۔
جس دن ان کا جھونپڑا مکمل ہوا، ہرکور کو آٹھ آنے روز کی مزدوری پر باقاعدہ مستری کی ملازمت مل گئی اور کنٹھی نے دو روپے بھر کر حکومت کے محکمہ جنگلات سے گھاس کاٹنے کا اجازت نامہ لے لیا۔ یہ گھاس بازار میں دوکان دار بطور چارہ بیچتے تھے۔ اس کا سبز گھاس کا بنڈل جو شاید تیس سے چالیس کلو تک وزنی ہوتا تھا اور جس کے لئے اسے کم از کم دس سے چودہ میل کا سفر طے کرنا ہوتا تھا جس کا زیادہ تر حصہ چڑھائی اور اترائی تھی، کنٹھی کو چار آنے ملتے۔ ایک آنہ وہ بندہ لے جاتا جو حکومت کی طرف سے بازار میں گھاس کی فروخت کا ٹھیکہ لئے ہوئے تھا۔ آٹھ آنے جو ہرکور کماتا تھا اور تین آنے جو کنٹھی کماتی تھی، چار افراد کا خاندان آرام اور سکون سے گذر بسر کر رہا تھا۔ اس وقت خوراک عام اور سستی تھی۔ اب پہلی بار وہ مہینے میں ایک بار گوشت کھانے کے قابل ہو گئے تھے۔
ہرکور اور کنٹھی نے یہاں تین ماہ رہنے کا سوچا تھا اور اس کے دو ماہ ہنسی خوشی گذر گئے۔ کام کا دورانیہ بہت طویل تھا اور اس میں کوئی وقفہ نہیں تھا لیکن وہ لوگ بچپن سے اس زندگی کے عادی تھے۔ موسم بہترین تھا اور بچے بھی اچھی حالت میں تھے۔ یہاں آنے کے بعد جھونپڑے کی تعمیر پر لگنے والے چند دنوں کے سوا وہ بھوکے نہیں رہے تھے۔
شروع شروع میں بچوں کی وجہ سے پریشانی ہوئی تھی کہ وہ نہ تو ہرکور کے ساتھ اس کے کام پر جا سکتے تھے اور نہ ہی کنٹھی کے ساتھ گھاس کی تلاش میں لمبے سفر پر جانا ان کے لئے ممکن تھا۔ پھر چند سو گز دور ایک اور جھونپڑے میں رہنے والی ایک بوڑھی عورت ان کی مدد کو آئی اور انہیں کہا کہ ان کی غیر موجودگی میں وہ ان بچوں پر عمومی نظر رکھے گی۔دو ماہ تک یہ سلسلہ بخوبی چلتا رہا اور ہر شام کو پہلے چار میل کا فاصلہ طے کر کے ہرکور واپس آتا اور اس کے کچھ دیر بعد کنٹھی بھی گھاس بیچ کر آ جاتی۔ پنوا اور پتلی بے چینی سے ان کی واپسی کا انتظار کرتے۔
جمعے کے دن کالا ڈھنگی میں بازار لگتا اور آس پاس کے دیہاتوں سے لوگ ادھر بازار کا رخ کرتے جہاں سستی خوراک، پھلوں اور سبزیوں کے لئے عارضی دکانیں بنتیں۔ جمعے کے دن ہرکور اور کنٹھی اپنے معمول کے وقت سے نصف گھنٹہ پہلے آجاتے تاکہ اگر کوئی سبزی باقی بچی ہو تو اسے کم قیمت پر خریدا جا سکے۔ اس کے بعد یہ عارضی دکانیں رات کے لئے بند ہو جاتیں۔
ایک خاص جمعے کے دن جب ہرکور اور کنٹھی بازار سے ضرورت کے مطابق سبزی اور پاؤ بھر بکری کا گوشت لے کر پہنچے تو پنوا اور پتلی گھر پر نہ تھے۔ ہمسائی بوڑھی عورت سے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ دوپہر سے اس نے بچوں کو نہیں دیکھا۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ شاید بچے بازار میں جھولے جھولنے دیگر بچوں کے ہمراہ چلے گئے ہوں گے۔ چونکہ یہ عام فہم بات تھی، اس لئے ہرکور بچوں کو ڈھونڈنے بازار کو چل دیا جبکہ کنٹھی کھانا بنانے گھر کو چل دی۔ ایک گھنٹے بعد ہرکور واپس آیا۔ اس کے ساتھ بہت سارے آدمی تھے جنہوں نے بچوں کی تلاش میں اس کی مدد کی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ بچوں کو تلاش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ جتنے بھی آدمیوں سےا نہوں نے پوچھا، کسی نے بھی بچوں کو نہیں دیکھا تھا۔
ان دنوں یہ افواہ پھیلی ہوئی تھی کہ فقیر بچوں کو اغوا کر کے صوبہ سرحد میں غیر اخلاقی کاموں کے لئے بھیج دیتے ہیں۔ میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ اس افواہ میں کتنی صداقت تھی تاہم اخبار میں یہ خبریں پڑھنا عام معمول تھا کہ اکثر جگہوں پر لوگوں نے فقیروں پر تشدد کیا ہے اور پولیس اگر ان کی مدد نہ کرتی تو شاید یہ فقیر مار دیئے جاتے۔ان دنوں ہندوستان میں تمام والدین ان افواہوں سے متائثر تھے۔ جب ہرکور واپس لوٹا تو اس نے اپنے خدشات کا اظہار کیا کہ شاید میلے میں اغوا کی نیت سے آنے والے فقیروں نے ان کے بچوں کو اغوا کر لیا ہے۔
گاؤں کے نچلے سرے پر پولیس کی ایک چوکی تھی اور وہاں ہیڈ کانسٹیبل اور دو کانسٹیبل متعین تھے۔ بہی خواہوں کے ہجوم کے ساتھ ہرکور اور کنٹھی پولیس سٹیشن پہنچے۔ ہیڈ کانسٹیبل ایک نرم دل کا بوڑھا آدمی تھا جو خود بھی صاحب اولاد تھا۔ اس نے ہرکور اور کنٹھی کی بات آرام سے سنی اور ان کے بیان کو اپنی ڈائری میں لکھ دیا اور بولا کہ ابھی تو رات ہو رہی ہے۔ ابھی کچھ کرنا مشکل ہے۔ تاہم اگلی صبح وہ ڈھنڈورچی کو آس پاس کے تمام دیہاتوں میں بھیجے گا۔ اس نے مشورہ دیا کہ بچوں کی بحفاظت واپسی کے لئے ضروری ہے کہ پچاس روپے کا انعام بھی رکھا جائے۔ ہرکور اور کنٹھی پچاس روپے کا نام سن کر ششد رہ گئے۔ انہیں علم ہی نہیں تھا کہ دنیا میں اتنی بڑی رقم بھی ہو سکتی ہے۔تاہم اگلے دن ڈھنڈورچی آس پاس کے تمام دیہاتوں میں جا کر ڈھنڈورا پیٹ کر آ گیا اور اس نے پچاس روپے انعام کا بھی اعلان کیا۔ ہیڈ کانسٹیبل کی تجویز سن کر کالا ڈھنگی کے ایک آدمی نے یہ رقم دینے پر آدمادگی ظاہر کر دی تھی۔
اس رات کا کھانا دیر سے کھایا گیا۔ بچوں کا حصہ الگ سے رکھ دیا گی۔ ساری رات سردی سے بچاؤ کے لئے آگ جلائی رکھی گئی۔ وقفے وقفے سے ہرکور اور کنٹھی باہر جا کر بچوں کو آواز دیتے اگرچہ انہیں علم تھا کہ انہیں کوئی جواب نہیں ملنا۔
کالا ڈھنگی میں دو سڑکیں ایک دوسرے کو زاویہ قائمہ پر کاٹتی ہیں۔ ایک سڑک ہلدوانی سے رام نگر کو پہاڑ کے دامن سے گذر کر جاتی ہے اور دوسری نینی تال سے بزپور کی طرف۔ جمعے کی رات ہرکور اور کنٹھی آگ کے پاس بیٹھے رہے کہ سردی بہت شدید تھی۔ انہوں نے سوچا کہ اگر بچے صبح تک نہ آئے تو وہ پہلی سڑک پر جائیں گے اور راستے میں لوگوں سے پوچھتے جائیں گے۔ اغوا کنندگان کے لئے یہ سڑک ممکنہ راستہ ہو سکتی تھی۔ہفتے کی صبح سویرے پو پھٹتے ہی وہ کانسٹیل کی طرف گئے تاکہ اسے اپنے پروگرام کا بتا سکیں اور راستے میں رام نگر اور ہلدوانی میں بھی پولیس کو رپورٹ درج کرا سکیں۔نرم دل پولیس ہیڈ کانسٹیبل نے بتایا کہ وہ ہلدوانی کے انسپکٹر صاحب کو خط بذریعہ ہرکارہ بھیج رہا ہے تاکہ وہ تمام ریلوے جنکشنوں پر تار سے اطلاع کرا دیں تاکہ بچوں کی تلاش کا دائرہ بڑھایا جا سکے۔ خط میں وہ بچوں کا حلیہ بھی لکھ رہا ہے ۔
اس روز سورج غروب ہوتے وقت کنٹھی اپنی چوبیس میل لمبے سفر سے واپس آئی۔ وہ ہلدوانی کے پولیس سٹیشن سے ہو کر آئیت ھی تاکہ اپنے بچوں کے بارے اطلاع کر سکے اور واپس آ کر اس نے ہیڈ کانسٹیبل کو اپنی ناکامی کا بتایا ۔ اسی وقت ہرکور اپنے چھتیس میل لمبے سفر سے واپس آیا۔ وہ رام نگر براہ راست پولیس سٹیشن گیا تھا تاکہ بچوں کے بارے معلوم کر سکے اوران کی گمشدگی کی اطلاع بھی دے سکے۔ اگرچہ اسے ناکامی ہوئی تاہم اس نے ویسے ہی کیا جیسا کہ اسے ہیڈ کانسٹیبل نے بتایا تھا۔ اسی اثناٗ میں بہت سارے بہی خواہ اور آس پاس کی مائیں ، جن کو اپنے بچوں کی فکر لگ گئی تھی، ان کے جھونپڑے کے سامنے جمع تھے تاکہ ہرکور اور پنوا کی ماں سے افسوس کر سکیں۔ ہندوستان میں شادی کے بعد عورت اپنا پیدائشی نام گنوا دیتی ہے۔ کنٹھی کو شادی کے بعد پہلے پہل “ہرکور کی بیوی “اور پنوا کی پیدائش کے بعد سے “پنوا کی ماں” کہا جاتا تھا۔
اتوار کا دن ہفتے کے دن کی طرح گذرا۔ فرق صرف اتنا تھا کہ اس بار کنٹھی اور ہرکور شرقاً غرباً کی بجائے شمالاً جنوباً گئے۔ کنٹھی نینی تال کی طرف اور ہرکور بزپور کو گیا۔ کنٹھی کا سفر تیس میل کا تھا اور ہرکور کا بتیس میل۔ صبح سویرے نکلنا اور رات گئے کو واپس آنا، ان دونوں نے سفر کا بڑا حصہ جنگلی پگڈنڈیوں پر طے کیا جہاں عموماً لوگ بڑی جماعتوں کی شکل میں جاتے تھے اور جہاں سے اکیلے گذرنے کا خواب بھی ہرکور اور کنٹھی نہ دیکھ پاتے اگر انہیں بچوں کی پریشانی نہ ہوتی۔جنگل میں جنگلی درندوں اور ڈکیتوں کا خطرہ تھا۔
اتوار کی رات کو جب وہ نینی تال اور بز پور سے ناکام واپس آئے تو انہیں پتہ چلا کہ پولیس کی تفتیش اور ڈھنڈورچی کو بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ سنتے ہی ان کا حوصلہ جواب دے گیا۔ انہوں نے سوچا کہ شاید اب وہ پنوا اور پتلی کو کبھی نہ دیکھ سکیں۔ یقیناً یہ ان کے دیوتاؤں کا قہر تھا کہ ایک فقیر ان کے بچے دن دیہاڑے اغوا کر گیا۔ اپنی لمبے سفرکا آغاز کرنے سے قبل انہوں نے گاؤں کے پنڈت سے مشورہ کیا تھا۔ جس نے مبارک دن کا انتخاب کر کے بتایا۔راستے میں آنے والے ہر مندر پر وہ کچھ نہ کچھ دان کرتے اورکسی جگہ خشک لکڑیاں، کسی جگہ کنٹھی کی چادر سے کپڑے کی دھجی، کہیں ایک اور دھجی، کہ اس سے زیادہ ان کے بس میں نہیں تھا۔ کالا ڈھنگی میں ہر وہ مندر جہاں وہ اپنی اچھوت ذات کی وجہ سے داخل نہ ہو پاتے، ہاتھ اٹھا کر اپنی حاضری لگواتے جاتے۔ پھر کیوں ان پر یہ بدقسمتی نازل ہوئی؟ انہوں نے تو کبھی کسی کا کچھ نہ بگاڑا تھا۔
پیر کے دن وہ اتنے مایوس اور اتنے بد دل تھے کہ جھونپڑے سے باہر نہ نکلے۔ خوراک ختم ہو چکی تھی اور جب تک وہ کام پر واپس نہ جاتے، پیسے یا خوراک کا تصور ناممکن تھا۔ پر اب کام کا کیا فائدہ کہ کام تو وہ اپنے بچوں کے لئے کر رہے تھے۔ دوستوں کا آنا جانا لگا ہوا تھا۔ہر ممکن طریقے سے وہ اپنی ہمدردی کا اظہار بھی کرتے رہے۔ ہرکور دروازے پر بیٹھا اپنے تاریک مستقبل کو تک رہا تھا جبکہ کنٹھی کے تو آنسو بھی خشک ہو چکے تھے۔ کونے میں بیٹھی ادھر ادھر جھول رہی تھی۔
پیر کے دن صبح کو میرا ایک واقف بندہ اپنی بھینسوں کو لے کر جنگل میں چرانے گیا تھا۔ اس جگہ جنگلی جانور اور پرندے بھی موجود تھے، جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں۔ یہ بندہ سادہ سا تھا اور اپنی زندگی کا بڑا حصہ جنگل میں بھینسوں کو چراتے ہوئے گذار چکا تھا۔ یہ بھینسیں پتاب پور کے نمبردار کی تھیں۔اسے شیروں سے لاحق خطرات کا بخوبی اندازہ تھا اور سورج غروب سے ذرا پہلے اس نے اپنی بھینسیں جمع کیں اورجنگل سے گذرنے والی پگڈنڈی لے کر گاؤں کو لوٹا۔ اچانک اس نے دیکھا کہ ہر بھینس راستے پرایک جگہ رک کر دائیں گردن موڑ کر کچھ دیکھتی۔ جب پچھلی بھینس اسے دھکیلتی تو وہ آگے بڑھتی۔ جب وہ اس جگہ پہنچا تو اس نے بھی دائیں جانب مڑ کر دیکھا۔ دائیں طرف پگڈنڈی کے ساتھ ہی ایک نشیب سا تھا جہاں دو بچے لیٹے ہوئے تھے۔
اگرچہ ہفتے کے دن ڈھنڈورچی کے اعلان کےو قت وہ جنگل میں تھا تاہم اس رات اور اگلی رات ہرکور کے بچوں کی گمشدگی ہر ایک کی زبان پر تھی۔ درحقیقت یہ پورے کالا ڈھنگی کی اہم خبر بن چکی تھی۔ یہ ہی وہ بچے تھے جن پر پچاس روپے کا انعام رکھا گیا تھا۔ لیکن انہیں قتل کر کے اتنی دور کیوں لا کر پھینکا گیا تھا؟ بچے ننگے بدن تھے اور ایک دوسرے کی بانہوں میں چھپے ہوئے تھے۔ اسے اس بات کا یقین تھا کہ بچے مر چکے ہیں۔ تاہم قریب سے دیکھتے ہوئے اس نے محسوس کیا کہ بچے سانس لے رہے ہیں۔درحقیقت وہ مردہ نہیں تھے بلکہ سو رہے تھے۔ چونکہ وہ خود بھی صاحب اولاد تھا، اس نے نرمی سے بچوں کو چھو کر جگایا۔ اگرچہ وہ خود اعلٰی ذات کا برہمن تھا اور ان اچھوت بچوں کو چھونا اس کے لئے جرم تھا، تاہم اس طرح کے حالات میں کون دیکھتا ہے۔ بھینسوں کو ان کے حال پر چھوڑ کر کہ وہ خود اپنا راستہ جانتی ہیں، اس نےبچوں کو اٹھایا اور کالا ڈھنگی بازار کو چل دیا۔دونوں بچے اس کے کندھوں پر تھے۔ یہ آدمی بیچارہ اتنا توانا نہ تھا کہ ہمارے پہاڑیوں کی طرح یہ بھی ملیریا کا شکار تھا۔ بچے اس پر ایک ناقابل برداشت بوجھ تھے اور ان کو اٹھائے رکھنا بہت مشکل تھا۔ اس کے علاوہ جنگل میں موجود پگڈنڈیاں شمالاً جنوباٍ ً تھیں جبکہ اسے مشرق سے مغرب کو جانا تھا۔ اس لئے اسے بار بار راستہ بدلنا پڑتا تاکہ گھنی جھاڑیوں اور گہری کھائیوں سے بچ سکے۔ تاہم بار بار رکتے ہوئے اس نے اپنا سفر جاری رکھا۔ پتلی بولنے کے قابل نہیں تھی لیکن پنوا تھوڑا بہت بول سکتا تھا اور اس نے بتایا کہ وہ کھیل رہے تھے کہ راستہ بھول گئے۔
ہرکور دروازے پر بیٹھا تھا اور رات کی تاریکی کو گھورے جا رہا تھا جہاں اب لالٹین کی روشنیاں یا ادھر ادھر جلتی ہوئی آگ دکھائی دے رہی تھی۔ پھر اس نے بازار کی طرف سے ایک چھوٹے ہجوم کو آتے دیکھا۔ ہجوم کے سامنے ایک بندہ چل رہا تھا جس کے دونوں کندھوں پر کچھ لدا ہوا تھا۔ آس پاس اور ہر طرف لوگوں کی آواز آ رہی تھی کہ ہرکورکے بچے، ہرکور کے بچے۔ اسے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔ تاہم جلوس سیدھا اس کی طرف ہی آ رہا تھا۔
کنٹھی بے چاری اپنے ذہنی اور جسمانی تھکن سے نڈھال ہو کر سو چکی تھی۔ ہرکور نے اسے جھنجھوڑ کر جگایا اور اس وقت وہ دروازے کو پہنچے جب چرواہا بچوں کو کندھے پر لادے وہاں پہنچا۔
آنسوؤں سے بھری مبارکادیں، دعائیں اور شکریوں کے بعداور لوگوں کی مبارکبادیوں کے بعد جب کچھ سکون ہوا تو ہجوم میں سے کسی نے انعام کی رقم کی بات چھیڑ دی۔ اس جیسے غریب آدمی کے لئے پچاس روپے خزانے کے برابر تھی۔ اس سے وہ تین بھینسیں یا دس گائیں خرید سکتا تھا اور ساری زندگی کے لئے بے فکر ہو جاتا۔ تاہم یہ شخص ہجوم کی توقعات سے بڑھ کر شریف تھا۔ اس نے کہا کہ دعائیں اور شکریہ اس کے لئے انعام ہیں اور پچاس رپوؤں میں سے وہ ایک پائی بھی نہیں لے گا۔ ہرکور اور کنٹھی بھی اس رقم کو بطور تحفہ یا ادھار لینے کو تیار نہیں تھے۔ انہیں ان کے بچے مل گئے تھے جب وہ انہیں دوبارہ پانے کی تمام تر امیدوں سے مایوس ہو چکے تھے۔ اب وہ اپنا کام دوبارہ شروع کر سکتے تھے۔ اس دوران ہجوم میں سے چند افراد دودھ، مٹھائیاں اور پوریاں لے آئے تھے جو اس خاندان کے لئے کافی تھیں۔
دو سالہ پتلی اور تین سالہ پنوا جمعہ کو دوپہر کےو قت گم ہوئے اور چرواہے نے انہیں پیر کے دن پانچ بجے دیکھا۔ اس بات کو تقریباً بہتر گھنٹے گذر گئے تھے۔ میں آپ کو پہلے بتا چکا ہوں کہ اس جنگل میں کون کون سے جانور موجود تھے جہاں بچوں نے یہ وقت گذارا۔ یہ فرض کرنا غلط ہوگا کہ اس سارے عرصے انہیں کسی جانور نے نہیں دیکھا، سنا یا سونگھا نہیں ہوگا۔ پھر بھی جب چرواہے نے بچوں کو والدین کے حوالے کیا تو ان کے جسم پر ایک بھی خراش نہ تھی۔
ایک بار میں نے ایک ماہ عمر کے بکری کے ایک بچے پر شیرنی کو گھات لگاتے دیکھا۔ زمین کھلی تھی اور میمنے نے شیرنی کو آتے دیکھ لیا اور ممیانے لگا۔ فوراً ہی شیرنی نے حملے کا ارادہ ترک کر دیا اور عام رفتار سے چلتی ہوئی اس تک جا پہنچی۔ چند گز دور پہنچ کر شیرنی نے گردن بڑھا کر اسے سونگھا۔ میمنہ چل کر اس تک پہنچا اور اور چند سیکنڈ تک میمنہ اور جنگل کی ملکہ ایک دوسرے کے سامنے کھڑے رہے۔ پھر شیرنی مڑی اور چل کر دوسری طرف جنگ میں غائب ہو گئی۔
ہٹلر کی جنگ ختم ہونے والی تھی۔ ایک بار میں نے برطانیہ کے تین عظیم ترین لوگوں کی تقاریر کا خلاصہ پڑھا جس میں انہوں نے جنگ کے مظالم کے بارے بتاتے ہوئے دشمن پر “جنگل کے قانون” کو متعارف کرانے کا الزام لگایا۔ اگر خدا نے انسانوں کے لئے بھی وہی قوانین بنائے ہوتے جو اس نے جنگلی جانوروں کے لئے بنائے ہیں، دنیا میں کبھی بھی جنگ نہ ہوتی کیونکہ ہر طاقتور انسان دوسرے کمزور انسان کا ویسے ہی خیال کرتا جیسے جنگل میں ہوتا ہے۔
تابناک مستقبل کی تشکیل کے لئے ماضی کو محفوظ کرنا ضروری
تابناک مستقبل کی تشکیل کے لئے ماضی کو محفوظ کرنا ضروری اسٹیٹ پبلک لائیبریری ، پریاگ راج میں یونیسکو اور...