انسانوں کے لئے ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ دریاوٗں کے پانی کی دنیا میں تقسیم مساوی نہیں۔ کینیڈا، الاسکا، سکنڈے نیویا یا روس میں اتنے زیادہ مستقل دریا، ندیاں اور جھیلیں ہیں کہ زیادہ تر کے نام بھی نہیں رکھے گئے۔ جبکہ سعودی عرب میں کوئی بھی مستقل دریا یا جھیل نہیں۔ ناروے کے پاس 82000 کیوبک میٹر فی کس میٹھا پانی ہے جبکہ کینیا کے پاس 830۔ یہ غیرمساوی تقسیم کیوں؟ اس کی وجہ بڑی حد تک ہوا میں ہے۔
یہ عالمی فضائی سرکولیشن کے پیٹرنز کا نتیجہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر زمین کو دور سے دیکھا جائے تو خطِ استوا کے قریب کے علاقوں میں سبز بارانی جنگل جابجا نظر آئیں گے۔ ایمیزون کے جنگل، افریقہ کا کانگو بیسن، ملیشیا اور انڈونیشیا کے جنگل ۔۔
زیادہ تر جانداروں کو یہ جنگل پسند ہیں۔ اور یہ سبز پٹی زندگی سے بھرپور ہے۔ قسم قسم کی انواع پائی جاتی ہیں جن میں سے بہت سی ابھی دریافت نہیں ہوئیں۔ یہ جنگل یہاں پر اس لئے اگتے ہیں کہ یہاں پر Intertropical Convergence Zone (ITCZ) ہے۔ بادلوں کے جمگھٹے اور بارش سورج کا پیچھا کرتے ہیں۔ سورج سمندر سے بھاری مقدار میں بخارات اڑاتا ہے۔ بخارات اوپر کو جاتے ہیں، ٹھنڈے ہوتے ہیں۔ کنڈنس ہوتے ہیں اور یہاں پر ایشیائی اور افریقی مون سون برساتے ہیں۔ یہ علاقہ سورج کے موسمیاتی مارچ کے ساتھ موسموں کے حساب سے آگے پیچھے ہوتا ہے۔ اربوں جاندار سالانہ ہونے والی بارش کے ان پیٹرنز کے زور اور قابلِ اعتبار ہونے پر منحصر ہیں اور ان جانداروں میں ہم خود بھی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خطِ استوا کے اس ہری بھری پٹی اور مون سون والے علاقوں کے شمال اور جنوب میں دنیا کے خشک ترین صحرا ہیں۔ صحارا، عرب کا صحرا، آسٹریلیا کا صحرا، کالا ہاری، سونوران یہیں پر ہیں۔ یہ شمال اور جنوب میں تقریباً تیس درجے کے عرض بلد پر ہیں۔ ایسا نہیں کہ یہ زندگی سے بالکل خالی ہیں لیکن اپنے سبز ہمسائے سے بہت مختلف ہیں۔
اور اس کی وجہ خطِ استوا کی بارشوں میں ہی پنہاں ہے۔ مرطوب ہوا پانی کو خالی کر کے شمال اور جنوب کی طرف جاتی ہے اور پھر واپس زمین کو آتی ہے۔ زمین کو خشک گرمی میں پکا دیتی ہے۔ ہوا کے یہ چکر کنوکشن لوپ بناتے ہیں۔ نیچے گرتی ہوا جب واپس خطِ استوا کی طرف جاتی ہے تو یہاں پر سورج کی شعاعوں سے بنتے آبی بخارات ایک بار پھر اس کو گیلا کر دیتے ہیں۔ اور یہ چکر جاری رہتا ہے۔ فضا میں سرکولیشن کا یہ سائیکل ہیڈلے سیل کیلاتا ہے اور یہ زمین کے موسموں اور ایکوسسٹم کی تشکیل کرنے والا طاقتور ترین فیکٹر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہیڈلے سیل کی گرتی خشک اور گرم ہوا کے علاقوں میں بہت سے لوگ رہتے ہیں۔ یہاں پر دنیا کے تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی والے علاقے ہیں۔ دس کروڑ کے قریب لوگ افریقہ کے ساہل کے علاقے میں ہیں۔ جبکہ صحارا کے جنوب میں شمالی افریقہ اور جنوبی یورپ کی بڑی آبادی ہے۔ دھول اڑاتے برِاعظم جنوبی ساحل کے ساتھ ساتھ آسٹریلیا کے شہر ہیں۔ یہاں پر خشک علاقے خود آبادی سے بڑی حد تک خالی ہیں۔ لیکن خشک مشرقِ وسطیٰ، جنوبی افریقہ اور پاکستان گنجان آباد ہیں اور یہاں پر دنیا کی کمسن اور تیزی سے بڑھتی آبادی ہے۔
امریکہ میں فینکس اور لاس ویگاس کے پھلتے اور پھیلتے شہر امریکہ کے خشک جنوب مغرب میں ہیں۔ یہ ہیڈلے سیل کے صحرا کا وسط ہے۔ جنوبی کیلے فورنیا میں انیس ملین کی آبادی ہے۔ اور یہ اس لئے یہاں گزارا کر سکتے ہیں کہ ہزاروں میل کی پائپ لائنیں، نہریں، سرنگیں یا دریا کہیں اور سے پانی یہاں لے کر آتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر موسمیاتی تبدیلی کا مسئلہ نہ بھی ہو، تب بھی دنیا کو پانی کی فی کس مقدار کی دستیابی میں کمی کا چیلنج ہے۔ اس کی وجہ ہماری بڑھتی آبادی اور معیشت ہے۔ اور اگر ہم آبادی کا اضافہ روک بھی دیں تو بھی معیارِ زندگی کے بلندتر ہونے کا مطلب گوشت کی زیادہ کھپت، توانائی کی زیادہ ضرورت اور مصنوعات کی زیادہ مانگ ہے۔ ان سب کا مطلب پانی کی فی کس کھپت کا اضافہ ہے۔ عام خیال کے برعکس، آبادی کا بڑھنا اور صنعتکاری پانی کی عالمی سپلائی کے لئے موسمیاتی تبدیلیوں کے مقابلے میں زیادہ بڑا چیلنج ہیں۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...