ہیلو ایمان آج یونیورسٹی کیوں نہیں آئی تم ؟
سوری یار تمہیں بتانا بھول گئی تھی امی جان نے آج نہیں جانے دیا
کیوں یار ؟
یار کل جنید دھمکی دینے آیا تھا کہ میں آپ کی بیٹی اغواء بھی کر سکتا ہوں آپ نے ہاں نہیں کی تو بس امی جان تو ڈر گئیں –
اف یار یہ جنید تمہارے پیچھے ہی پڑ گیا
” ہاں فائزہ ”
اب کب تک نہیں آؤ گئی وہ تو باز آنے والا نہیں ہے –
یار کوشش کرؤں گئی کل آؤں گئی بس امی جان کچھ زیادہ ہی ڈر گئی ہیں ورنہ میں اس کی اس دھمکی سے نہیں ڈرنے والی وہ مجھے اغواء نہیں کر سکتا –
وہ اس وقت اپنی روم میں بیٹھی فائزہ کے ساتھ سیل فون پر بات کر رہی تھی –
زیادہ بہادر بنے کی تمہیں کوئی ضرورت نہیں ہے وہ اغواء کر بھی سکتا ہے –
مجھے حوصلہ دینے کے بجائے تم ڈرا رہی ہو کیسی دوست ہو فائزہ وہ ناراض لہجے میں بولی –
ڈرا کب رہی ہوں تمہیں حقیقت بتا رہی ہوں –
تم یہ حقیقت اپنے پاس سنبھال کر رکھو
ٹھیک ہے جیسے تمہاری مرضی –
سکینہ دستک دے کر روم میں داخل ہوئی باجی وہ سب آپ کا ڈنر پر انتظار کر رہے ہیں –
ٹھیک ہے میں آرہی ہوں –
ٹھیک ہے فائزہ پھر بات ہوتی ہے ڈنر کرنے جارہی ہوں –
چلو پھر خداحافظ ایمان
***************
بھائی صاحب میں آپ سے ایک بات کرنا چاہتا ہوں –
ہاں یوسف بولو-
بھائی وہ میں ایمان کے لیے بہت پریشان ہوں آپ کو بتایا تھا ناں میں نے جنید کے بارے میں کہ وہ ایمان سے شادی کرنا چاہتا ہے حالانکہ ہم نے انکار کر دیا
ہاں یوسف اب کیا ہوا ہے –
رات کے نو بج رہے تھے وہ دونوں اس وقت لاؤنج میں بیٹھے ہوئے تھے
بھائی صاحب وہ کل ہمارے گھر آکر دھمکی دے گیا ہے کہ آپ اس رشتے کے لیے ہاں کر دیں ورنہ میں آپ کی بیٹی کو اغواء بھی کر سکتا ہوں –
وہ اس حد تک جا سکتا ہے میں نے یہ کبھی نہیں سوچا تھا تم نے جاوید سے بات کی ہے –
جی بھائی جاوید سے تو میں نے کل رات ہی بات کر لی تھی کہ آپ اپنے بیٹے کو سمجھائیں -بلکہ آج جاوید خود آفس میں مجھے سے ملنا آیا تھا اور ان کا کہنا ہے ہمارا بیٹا کچھ نہیں سنتا ہم نے اسے سمجھنے کی بہت کوشش کی ہے آپ اپنی بیٹی کی شادی یا نکاح کر لیں تو وہ باز آ جائے نہیں تو وہ کچھ بھی کر سکتا ہے وہ تو اپنے بیٹے کی وجہ سے بہت شرمندہ ہو رہے تھے معاف بھی مانگ رہے تھے کہ ہمارا بیٹا آپ کے لیے پریشان کا باعث بن رہا ہے –
“آج کل کی اولاد اپنے ماں باپ کی سنتی کب ہے اپنی ہی مرضی کرتی ہے ہر کام میں ان بیچاروں کا بھی کوئی قصور نہیں ہے”
جی بھائی صاحب آپ کی یہ بات بھی ٹھیک ہے -لیکن بھائی صاحب مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرہی ہے میں کیا کرؤ آپ تو جانتے ہیں میں ایمان بیٹی سے کتنی محبت کرتا ہوں اسے تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا -اسے کی ماں الگ پریشان ہے مجھ ڈر ہے کہ جنید کوئی غلط قدم نہ اٹھا لے جو ایمان بیٹی کے لیے تکلیف کا باعث بنے-وہ پریشان سے لہجے میں بولے –
یوسف اس کا تو پھر ایک حل ہے کہ ایمان بیٹی کی شادی کر دیں اور شادی کے بعد تعلیم تو حاصل کر سکتی ہے – ایسے آپ لوگوں کی پریشان بھی دور ہو جائے گی اور جنید بھی پھر کچھ نہیں کرے گا -وہ کچھ دیر بعد سوچتے ہوئے بولے –
لیکن بھائی صاحب اب ایمان بیٹی کو کون راضی کرے گا اور اتنی جلدی ہمیں کوئی اچھا لڑکا کیسے ملے گا جو ایمان کے قابل ہو وہ ایمان کی فکر کرتے ہوئے بولے تھے –
ایمان بھی راضی ہو جائے گئی آپ لوگ بات کرنا نہیں تو میں خود ایمان بیٹی سے بات کرؤں گا مجھے یقین ہے وہ انکار نہیں کرے گی اور لڑکے کی تم فکر نہ کرؤ وہ بھی میں نے دیکھ لیا وہ ان کی پریشان دور کرتے ہوئے بولے –
کون سا لڑکا بھائی صاحب وہ حیران ہوتے ہوئے بولے –
بھئی میرے دوست وقار کا بیٹا سکندر جو ہے ماشاءاللہ سے بہت فرمابردار اور بہت اچھا ہے تم بھی بہت بار مل چکے ہو ہمارے آفس بھی آتا رہتا ہے وہ مسکراتے ہوئے بولے –
لیکن بھائی وہ راضی ہو گا یا نہیں
تم اس کی فکر نہ کرؤ میں آج وقار سے بات کرؤں گا مجھے یقین ہے وہ انکار نہیں کرے گا اور اب تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے-
جاؤ اب آرام سے جا کر سو جاؤ-
” جی بھائی ”
***************
جنید نیلی جینز اور سبز ٹی شرٹ میں ملبوس باہر جا رہا تھا -جنید بیٹا روکو کہاں جارہے ہو وہ اس وقت لان میں بیٹھے اخبار پڑھنے میں مصروف تھے
پاپا رضا کے پاس جا رہا ہوں –
ادھر آؤ بیٹھو میرے پاس مجھے تم سے بات کرنی ہے –
پاپا بات رات کو بھی تو ہو سکتی ہے اب میں جلدی میں ہوں –
اب شام کو جا رہے ہو پتہ نہیں تم رات کو کب آتے ہو میں تمہارا انتظار کرتا رہوں گا –
چلو شاباش بیٹھ جاؤ وہ نرم لہجے میں بولے –
پاپا آپ کو بھی پتہ نہیں ہر بات کی جلدی ہوتی ہے ہمیشہ وہ پاس بیٹھتے ہوئے بولا –
بیٹا جی جلدی مجھے نہیں تمہیں ہوتی ہے وہ مسکراتے ہوئے بولے –
پاپا جو بات کرنی ہے آپ کو وہ کریں اب
بیٹا جی تم دو دن بعد بزنس کے سلسلے میں شام کی فلائٹ سے لندن جارہے ہو –
” کیا میں ” اس میں اتنے حیران ہونے والی کیا بات ہے اب تمہیں ہی تو بزنس کو دیکھنا ہے –
لیکن پاپا مجھے تو کچھ ہی دن ہوئے ہیں بزنس جوائن کیے ہوئے مجھے تو اتنا تجربہ بھی نہیں ہے آپ وہاں کیوں بھیج رہے ہیں مجھے –
تم اکیلے نہیں جا رہے ہو منیجر بھی تمہارے ساتھ جائے گا –
لیکن پاپا میں نہیں جا رہا وہ غصے سے بولا –
بہت ہو گئی اپنی مان ماننی آپ تم بچے نہیں رہے ہو میں نے جب کہہ دیا ہے تو تمہیں ہی جانا ہے اور میں کچھ نہیں سننا چاہتا وہ سخت لہجے میں بولے اور وہاں سے چلے گئے –
پتہ نہیں پاپا کو کہاں سے خیال آ گیا مجھے لندن بھیجنے کا –
****************
جانی یار آج تو بہت غصے میں لگ رہا ہے وہ اس وقت رضا کے اپارٹمنٹ میں موجود تھا یہ لے کافی پی لے وہ اس کے سامنے ٹیبل پر کپ رکھتے ہوئے بولا
یار سارا موڈ پاپا نے خراب کر دیا میں نے سوچا تھا آج تو اور میں گھومنے پھرنے جائیں گے –
کیوں جانی یار تیرے پاپا نے اب کیا کہہ دیا –
یار آج کہہ رہے تھے دو دن بعد تم بزنس کے سلسلے میں لندن جارہے ہو –
تو یار اس میں غصہ کرنے والی اب کیا بات ہے -چلے جاؤ گھوم پھر بھی لینا
یار میں تو ابھی اس لڑکی والے معاملے کو حل کرنے کے بارے میں سوچ رہا تھا جو شادی پر راضی نہیں ہو رہی لندن چلا گیا تو پتہ نہیں وہاں کتنے دن لگتے ہیں –
یار تو بات تو ایسے کر رہا ہے جیسے پوری زندگی کے لیے جا رہا ہو وہ مسکراتے ہوئے بولا اور لڑکی کون سی بھاگی جا رہی ہے یا کون سی اس کی شادی ہو رہی ہے ابھی تو وہ پڑھ رہی ہے تجھے اتنی جلدی بھی کیا ہے -وہ اسے سمجھتے ہوئے بولا –
یعنی تو چاہتا ہے چلا جاؤں –
ہاں یار میرے مانو تو چلے جاؤ تمہارے پاپا بھی خوش ہو جائیں گے –
بلکہ یوں کرتے ہیں میں بھی آج کل فری ہوں تیرے ساتھ چلا جاتا ہوں وہاں بزنس بھی دیکھیں گے سیر بھی کریں گے کیا خیال ہے تیرا –
تو آرہا ہے تو چلا جاتا ہوں پھر وہ اسے دیکھتے ہوئے بولا –
چل یہ ہوئی ناں بات میرے یار چل اب باہر جاتے ہیں وہ مسکراتے ہوئے بولا
چل رضا پھر ” سچ میں یار تو میری ساری ٹیشن دور کر دیتا ہے ”
**************
ایمان بیٹی کیا کر رہی ہو وہ اس وقت رائٹنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھی پڑھنے میں مصروف تھی مما ویسے پڑھ رہی تھی –
ایمان بیٹی میں تم سے ایک بات کرنی آئی تھی وہ پاس ہی چئیر پر بیٹھتی ہوئی بولیں –
“جی امی جان کجیئے ”
وہ ہم تمہاری شادی کے بارے میں سوچ رہے تھے –
“کیا وہ حیرانگی سے بولی ” ہاں ایمان
امی جان آپ جانتی ہیں ابھی میری تعلیم بھی مکمل نہیں ہوئی اور آپ لوگوں کو اتنی جلدی یوں اچانک میری شادی کا خیال کیوں آ گیا –
اس کی بھی ایک وجہ ہے تم جانتی ہو جنید دھمکی دے کر گیا کہ وہ تمہیں اغواء بھی کر سکتا ہے اور ہم تمہیں تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے تم جانتی ہو اس لیے ہم سب نے مل کر یہ فیصلہ کیا ہے وہ نرم لہجے میں سمجھتی ہوئی بولیں-
امی جان آپ لوگ تو ایسے ہی اس کی دھمکی سے ڈر گئے ہیں وہ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا وہ ان کو سمجھتے ہوئے بولی –
ایمان بیٹی اس کے پاپا سے ہماری بات ہوئی ہے وہ ان لوگوں کی بھی کوئی بات نہیں سنتا وہ ہر صورت تم سے شادی کرنا چاہتا ہے اور اس کے لیے وہ کچھ بھی کر سکتا ہے تم سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کر رہی ہو –
بس امی جان میں اس بار میں مزید بات نہیں کرنا چاہتی وہ ناراض سے لہجے میں بولی-
ٹھیک ہے میں جارہی ہوں لیکن تم اس بارے میں سوچنا ضرور –
ہوں اس جنید نے تو میری زندگی عذاب بنا دی ہے –
**************
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...