آپ نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا –
“جی وہ ایمان کی تو شادی ہو گئی ”
کیا تم سچ کہہ رہی ہو وہ اپنا غصہ ضبط کرتے ہوئے بولا اس نے تو کبھی سوچا نہیں تھا ایسا ہو گا –
جی اس کی شادی ہو گئی ایک مہینے سے زیادہ ہونے کو ہے –
“ہوں اس کو تو میں چھوڑؤں گا نہیں ساتھ میں جس کے ساتھ شادی ہوئی اسے بھی وہ لوگ کیا سمجھتے ہیں اس کی شادی کر دیں گے تو میں اسے چھوڑ دؤں گا وہ غصے سے بولا ”
یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟
ٹھیک کہہ رہا ہوں اپنی دوست کو بھی بتا دینا –
“کیا ہم بیٹھ کر بات کر سکتے ہیں وہ گبھرائے ہوئے لہجے میں بولی – کیوں وہ نہیں چاہتی تھی کہ جنید ایمان کو پھر سے تنگ کرنا شروع کر دے ”
کیوں ؟
مجھے آپ سے بات کرنی ہے پلیز –
************
اوکے چلو کینٹین پھر وہ کچھ سوچتے ہوئے بولا –
جی بولیں اب وہ چئیر پر بیٹھتے ہوئے بولا –
وہ آپ ایمان کا پیچھا چھوڑ دیں اب تو اس کی شادی ہو گئی ہے –
کیا یہی بات کرنی تھی یا کوئی اور یہ تو بھول جائیں کہ میں اسے چھوڑ دؤں گا
“غلطی تو آپ کی تھی ناں کیا اچھی بات ہے یہ کسی لڑکی کا راستہ روک کر اسے تنگ کرنا اس دن سکندر آ گیا تو اس میں اس کا تو کوئی قصور نہیں تھا ”
“اور اس نے ایک ٹھیک بات کی تھی جو آپ کو بری لگی آپ اس کے پیچھے پڑ گئے کہ اس نے آپ کو ساری یونیورسٹی کے سامنے باتیں سنائی یہ تو آپ کو یاد ہے
اور جو آپ نے اس کا راستہ روک کا پوری یونیورسٹی کے سامنے تماشا بنایا وہ آپ کو یاد نہیں ”
“اس سب میں غلطی تو آپ کی ہے آپ نہ اس کو روکتے نہ ہی یہ سب کچھ ہوتا وہ اسے سمجھتے ہوئے نرم لہجے میں بولی ”
آپ یہ سب کچھ اپنی دوست کے لیے کر رہی ہیں تاکہ میں اسے چھوڑ دؤں –
میں کچھ غلط نہیں کہہ رہی ہوں اگر آپ سوچیں تو اس کی یہ شادی بھی آپ کی وجہ سے ہوئی ہے وہ تو ابھی شادی بھی نہیں کرنا چاہتی تھی میں ایک ٹھیک بات کر رہی ہوں –
اب میں آپ سے درخواست کرتی ہوں پلیز اس کا پیچھا اب تو چھوڑ دیں وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی تھی -وہ اس کے نرم لہجے سے متاثر ضرور ہوا تھا –
ٹھیک ہے آپ چاہتی ہیں میں اس کا پیچھا چھوڑ دؤں تو پھر کیا یاد کریں گئی آپ کی خاطر چھوڑ دیتا ہوں وہ کچھ سوچتے ہوئے غور سے اسے دیکھتے ہوئے بولا –
کیا میری خاطر وہ حیرانگی سے بولی –
ہاں مگر میری ایک شرط ہے –
کیسی شرط ہے آپ کی –
“مجھے سے شادی کریں گئی ”
“کیا شادی اس نے سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ یہ شرط رکھے گا ”
ہاں مجھے یہ شرط منظور ہے وہ کچھ دیر بعد سوچتے ہوئے بولی –
“اس نے اپنی دوست کے لیے اور ایک انسان کو سیدھے راستے پر لانے کے لیے ہاں کہہ دی تھی ”
چلو یہ تو پھر اچھی بات ہے وہ مسکراتے ہوئے بولا اب آپ کا نام پوچھ سکتا ہوں –
جی فائزہ نام ہے میرا وہ پر اعتماد لہجے میں بولی –
اچھا نام ہے تو فائزہ جی یہ بتائیں آپ مجھ سے کب شادی کر رہی ہیں اب؟
“جب میری سٹڈی مکمل ہو جائے گئی تب”
مطلب مجھے مزید ایک سال انتظار کرنا ہو گا ابھی –
“جی بالکل ”
چلو جی کیا یاد کریں گئی آپ یہ انتظار بھی آپ کی خاطر قبول ہے –
************
کہاں سے آرہا ہے آج آفس نہیں گیا جانی
نہیں رضا یار کچھ تو ریسٹ بنتا ہے لندن میں اتنا تو کام کرتا رہا ہوں تیرے سامنے ویسے بھی دو دن میں آفس نہیں جاؤں گا تو کچھ نہیں ہو گا –
یونیورسٹی گیا تھا وہاں سے تیرے پاس آیا ہوں اب –
وہ رضا کے اپارٹمنٹ میں موجود تھا –
اس وقت اس کے بیڈ پر لیٹا ہوا تھا –
اب تیرا کیا کام یونیورسٹی میں کیا کرنے گیا تھا ؟
اس لڑکی سے ملنے گیا تھا وہ تو ملی نہیں تیری بھابی مل گئی -اس وقت اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی –
کیا بھابی کون بھابی مجھے تو تیری سمجھ نہیں آتی وہ حیرانگی سے بولا –
یار وہ اس لڑکی کی دوست جس کا تو نے مجھے پتا دیا تھا –
فائزہ نام ہے ایک سال بعد ہم شادی کر رہے ہیں وہ مسکراتے ہوئے بولا –
یہ سب کیسے ہوا اب کوئی نیا چکر تو کوئی نہیں ؟
یار اس لڑکی کی تو ہو گئی شادی میری وجہ سے جلدی اور وہی اس کی دوست فائزہ اس کی حمایت کر رہی تھی اب آپ اس کا پیچھا چھوڑ دو –
میں نے بھی سوچا اس کی یہی سزا بہت ہے میری وجہ سے اس کی جلدی شادی ہو گئی –
تو میں نے بھی شرط رکھ دی مجھے سے آپ شادی کر لو پھر وہ مان گئی بس اس نے بولا ایک سال انتظار کرؤ میری سٹڈی مکمل ہو جائے پھر شادی کرؤں گئی –
میں نے کہا ٹھیک ہے مجھے بھی کوئی جلدی نہیں انتظار کر لوں گا –
حیرانگی ہے اس نے ہاں کیسے کہہ دی اور تو اسے سے کیوں شادی کرنا چاہتا ہے وہ اسے دیکھتے ہوئے بولا تھا –
یار تیرا دوست کسی سے کم ہے کیا وہ انکار کیسے کر سکتی تھی اور کچھ میرے دل کو بھی وہ اچھی لگی وہ مسکراتے ہوئے بولا تھا –
“واہ یار بڑا تیز ہے تو ”
چھوڑ باتیں یار کچھ کھانے پینے کو لے آؤ بہت بھوک لگ رہی ہے –
یار آڈر کر کے منگوا لو مجھے سے اس گرمی میں کچھ نہیں بن رہا -وہ منہ بناتے ہوئے بولا تھا –
یار تو بھی ناں چل پھر اس سے اچھا کسی ریسٹورنٹ میں چلتے ہیں –
“ہاں یہ ٹھیک ہے ”
تیری جاب کا کیا بنا ہے ؟
انڑویو تو دیا ہے دیکھتے ہیں کیا بنتا ہے
یار میرے آفس کر لے تجھے انٹرویو دینے کی کیا ضرورت ہے –
“چھوڑ یار تیرا شکریہ ”
شکریہ کے بچے کل صبح تیار رہنا پاپا سے آج رات میں بات کر لوں گا –
***********
فائزہ یہ تم کیا کہہ رہی ہو تم جنید سے کیسے شادی کر سکتی ہو –
اتنا ہینڈسم تو ہے بھئی کیا خرابی ہے –
لڑکیوں کو تنگ کرنا اور کلب میں جانا یہ خرابی کیا کم ہے –
“اس نے یہ سب چھوڑ دیا ہے اب تو ویسے بھی وہ اپنے پاپا کے ساتھ آفس جاتا ہے
ویسے بھی ایمان کوئی شخص پیدائشی تو برا نہیں ہوتا ہے اس کے حالات اسے بناتے ہیں اچھا یا برا انسان”
“اس لیے ایمان میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ میں جنید سے شادی کر کے اس کو ایک اچھا انسان بنا دؤں گئی ”
وہ دونوں سیل فون پر بات کر رہی تھیں
“محبت سے ہی نفرت کو انسان ختم کر سکتا ہے ”
“اؤر اچھائی سے ہی برائی ختم کی جاسکتی ہے ”
ٹھیک ہے اب تم نے سوچ ہی لیا ہے تو میں کیا کر سکتی ہوں فائزہ –
ویسے اچانک تم نے اس سے شادی کرنے کا فیصلہ کیوں کیا ؟
جب اسے پتا چلا تمہاری تو شادی ہو گئی تو اس نے مجھے بولا مجھے سے شادی کرؤ گئی –
میں نے بس بول دیا ہاں کرؤں گئی لیکن ایک سال تک جب سٹڈی مکمل ہو جائے گی –
چلو میری دعا ہے ہمیشہ خوش رہو اچھا خداحافظ لگتا ہے سکندر آگیا ہے –
وہ کار کے ہارن کی آواز سنتے ہوئے بولی تھی –
“اوکے ایمان خداحافظ ”
*********
آج دو دن ہو گئے ہیں نہ ہی سکندر نے بات کی ہے نہ ہی میں نے –
میری وجہ سے بیچارہ صوفے پر سو رہا ہے –
آج میں اس سے لازمی بات کرنی کی کوشش کرؤں گئی اللہ نہ کرے وہ کوئی اس پہلے فیصلہ سنا کتنی بری بات کر رہا تھا-
“طلاق دے دؤں گا ”
وہ بیڈ پر بیٹھی ہوئی سکندر کے بارے میں سوچ رہی تھی –
وہ دن میری زندگی میں کب آئے گا جب میں آفس سے لیٹ ہو جاؤں گا وہ لاؤنج میں بیٹھ کر میرا انتظار کر رہی ہو گئی
وہ لاؤنج میں داخل ہوتے ہوئے سوچ رہا تھا –
ہوں دو دن سے انتظار کر رہا ہوں کچھ بول ہی نہیں رہی ہے کسی بھی بات پر ہاں جی کرتی رہی گئی یا خاموشی سے ٹی وی دیکھتی رہے گئی یا میگزین اور سیل فون پر گیم کھیلتے رہے گئی دو دن سے میں تو یہی دیکھ رہا ہوں –
” پہلے میں ایک بات کرتا تھا سو وہ سناتی تھی غصہ تو ہر وقت اس کے ناک پر سوار رہتا تھا اس خاموشی سے اچھا تو اس کا غصہ تھا چلو بات تو کرتی تھی غصے سے ہی سہی ”
وہ اسے سوچتا ہوا دستک دے کر روم میں داخل ہوا –
اس نے ایک نظر سکندر پر ڈالی اور پھر سے سیل فون پر متوجہ ہو گئی –
“میرا دل تو اس وقت کر رہا ہے اس سیل فون کو توڑ دؤں ابھی میں فریش ہو کر باہر آؤں گا تو ملکہ صاحبہ یہاں موجود نہیں ہوں گئی جب میں ڈائننگ ٹیبل پر جاؤں گا وہاں انتظار ہو رہا ہو گا جب میں کھانا شروع کرؤں گا وہ بھی کر دے گئی ”
ہوں بس بہت ہو گئی خاموشی ڈنر کے بعد آج تو لازمی بات کرؤں گا –
***********
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...