جولیا کر سٹیوا سلیون بلغاریہ میں۲۴جون ۱۹۴۱ کو پیدا ہوئی۔ اس کا والد گرجا کا اکا ئو نٹنٹ تھا،اس نے اپنی ہو نہار بیٹی کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی۔ زمانہ طالب علمی ہی سے اسے ادب اور لسانیات سے گہری دلچسپی تھی۔ جولیا کر سٹیوا نے اُس زمانے کے بلغاریہ کے ما ر کسسٹ معاشرے کے عمو می حالات اور افراد کی زندگی کے جُملہ نشیب و فراز پر نظر رکھی۔ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد۱۹۶۶ میں اس نے یونیورسٹی آف صوفیہ (بلغاریہ)سے لسانیات میں ڈگری حاصل کی ۔یکم اکتوبر ۱۸۸۸ میں روشنی کے سفر کا آغاز کرنے والی اس عظیم اور قدیم جامعہ صوفیہ سے جولیا کر سٹیوا کو بہت محبت رہی ۔اس جامعہ نے اس کے فکر و نظر کو مہمیز کیا اور اس نے لسانیات میں تحقیق و تنقید کو نصب العین بنا لیا۔اس جامعہ میں بیس ہزار کے قریب طالب علم جدید علوم میں اعلیٰ تعلیم کے مدارج طے کر رہے ہیں۔۱۹۶۵ میں جو لیا کر سٹیوا نے ڈاکٹریٹ کی فیلوشپ پر فرانس جانے کا عزم کیا۔فرانس میں اسے دنیا کے ممتاز ماہرین لسانیات سے اکتساب فیض کے فراواں مواقع میسر آئے۔ ۱۹۶۵ میں جو لیاکرسٹیوا نے ٹل کوئیل (Tel Quel)میں شمولیت اختیار کرلی ۔ لسانیات ،ادب اور فلسفہ کے شعبوں میں جو لیا کرسٹیوا نے ہمیشہ گہری دلچسپی لی۔ پیرس میں جولیا کرسٹیوا کی ملاقات فلپ سولرز سے ہوئی جس نے ۱۹۶۰ میںادیبوںکی تنظیم ٹل کوئیل کی بنیاد رکھی تھی ۔ فلپ سولرز کے معتمد ساتھیوں میںرولاں بارتھ ،ژاک لاکاں اور لوئس التھسر شامل تھے۔ رفتہ رفتہ فلپ سولرز کے ساتھ باہمی اعتماد کا تعلق اس قدر مستحکم ہو گیا کہ ۲۔اگست ۱۹۶۷کو وہ فلپ سولرز کی شریکِ حیات بن گئی ۔شادی کے بعد جولیا کر سٹیوا نے ادبی حلقوں سے معتبر ربط بر قرار رکھا اورخوب سے خوب تر کی جانب فکری سفر کا سلسلہ بھی جاری رہا۔پیرس میں اس نے جن ممتاز ماہرین لسانیات سے تبادلہ ء خیال کا سلسلہ جاری رکھا ان میں رومانیہ سے تعلق رکھنے والا یہودی فلسفی ساختیاتی اور مارکسسٹ نقاد اور سو شیالوجسٹ لیوسن گولڈ مین بھی شامل تھا۔ اس زمانے میں کلاڈ لیوی سٹراس، رولاں بارتھ اور لیوسن گولڈ مین کے اسلوب سے وہ بہت متاثر ہوئی۔ لیوسن گولڈ مین کو اپنے عہد کا عمدہ ،زیرک اور فعال مارکسسٹ نقاد سمجھا جاتا تھا۔ ٹل کوئیل میں جو لیا کر سٹیوا کے تحقیقی اور تنقیدی مقالات پیش ہونے کا سلسلہ ۱۹۶۷ میں شروع ہوا ۔ اپنے مقالات میں اس نے روسی ادیب میخائل باختن کے اسلوب پر نگاہ ڈالی اور مغربی ممالک کے دانش وروں کو میخائل باختن کے حقیقی مقام اور مرتبے سے متعارف کرانے کی مقدور بھر کوشش کی۔ اس کے علاوہ روسی ہئیت پسندی کے موضوع پر جو لیا کر سٹیوا نے کُھل کر لکھا ۔اس نے ہیگل کے نظریات کا مطالعہ کر کے اس پر اپنے تجزیے پیش کیے ۔لسا نیات میں اس نے نشان کا خاص طور پر مطالعہ کیا اور اس کی گہرائی کو سمجھنے کی پوری کوشش کی ۔ ۱۹۷۳ میں جو لیا کرسٹیوا نے پریکٹیکل سکول آف ایڈوانس سٹڈیز پیرس سے پی ایچ ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی۔اس نے لسانیات کے اہم شعبے کو اپنی تحقیق کے لیے منتخب کیا تھا۔اس کے تحقیقی مقالے کا موضوع’’Revolution in Poetic Language ‘‘ تھا۔اعلیٰ تعلیم کے مدارج مکمل کرنے کے بعد ۱۹۷۴ میںجولیا کرسٹیوا کا تقرر یونیورسٹی آف پیرس کے شعبہ لسانیات میں ہوگیا۔اس کے بعد۱۹۷۹ میں جو لیا کر سٹیوا نے سائیکا ٹرسٹ کی حیثیت سے باقاعدہ پریکٹس کا آغاز کیا۔ تخلیقِ ادب اور تنقید کے حوالے سے ابتدا میں جولیا کر سٹیوا نے ساختیات کے مطالعہ پر توجہ دی لیکن جلد ہی ساختیات سے پسِ ساختیات کی جانب اس کی مرا جعت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ساختیاتی فکر پر اس نے شدید گرفت کی اُس کا خیا ل ہے کہ ساختیاتی فکر کی تہی دامنی کا یہ حال ہے کہ یہ منزل تو بہت دور کی بات ہے محض نشان ِ منزل دینے کی استعداد سے بھی یکسر محروم ہے ۔ جولیا کر سٹیوا نے ساختیاتی فکر کے حامیوں کو ہدف ِتنقید بناتے ہوئے انھیں ازمنہء قدیم کی تاریخ کے افکارِ پارینہ کے فرسودہ تصورات کے طوماروں کے محافظ، بوسیدہ افکار کی گرتی ہوئی دیواروں اور کہنہ روایات کے آثارِ قدیمہ کی دلچسپی میں وقت اور محنت کا زیاں کرنے والے ،جامد و ساکت بتوں سے توقعات رکھنے والوں اور مردو ںکے ڈھانچوں کو کُھدیڑنے والوں کاایک راہ گم کردہ گروہ قرار دیا جو زندگی کی حیات آفریں اقدار و روایات کو پس پشت ڈال کربے وقت کی راگنی الاپنے میں خجل ہو رہا ہے ۔ان کی تحریریں پُشتارہء اغلاط ہیں جو زندگی کی حقیقی معنویت سے عاری ہیںاورجن سے مثبت نتائج کی توقع ہی عبث ہے۔ ادبی تنظیم ٹل کوئیل میں منعقد ہونے والی تنقیدی نشستوں اور وہاں ہونے والے تنقیدی مباحث نے جو لیا کر سٹیواکی صلاحیتوں کو صیقل کیا اور اس کے اعتماد میں بے پنا ہ اضافہ ہوا۔ پیرس میںجو لیا کر سٹیوانے رولاں بارتھ ،کلاڈ لیوی سٹراس ،ژاک لاکاں ،مشل فوکو،میخائل با ختن اور متعدد ماہرین لسانیات کے خیالات سے استفادہ کیا۔ اپنے عہد کے ممتاز دانش وروں کے ساتھ ہونے والی ان ملاقاتوں کے اعجاز سے خوب سے خوب تر کی جستجو کا سلسلہ اس نے جاری رکھا۔ ٹل کوئیل میں جو لیا کرسٹیوا کے جو مقالات زیرِ بحث آئے وہ اس ادبی تنظیم کے ترجمان مجلے ’’Critique‘‘میں شائع ہوئے ۔ ۱۹۷۰ میں جو لیا کر سٹیوا کو اس رجحان ساز ادبی مجلے کی مجلس ادارت میں شامل کر لیا گیا جو اس کے لیے بہت بڑا اعزاز و امتیاز تھا۔جولیا کر سٹیوا نے اعلیٰ تعلیم کے مدارج طے کرنے کے دوران لسانیات میں اپنی دلچسپی بر قرار رکھی اپنے تخلیقی سفر میںابتدا میں اس کا جھکائوساختیاتی فکر کی جانب رہا لیکن جلد ہی اس نے پس ِساختیات کو اپنا مطمح نظر بنا لیااور تانیثیت اور تحلیل نفسی پر اپنی توجہ مرکوز کردی۔سگمنڈ فرائڈ ،سوسئیر اور چارلس سینڈرز پئیرس کے خیالات سے وہ بہت متاثر ہوئی۔ اپنے تخلیقی سفر میں ا س نے عالمی شہرت کے حامل ممتاز ماہر نفسیات سگمنڈ فرائڈ کے نظریہ (Psychoanalysis) سوسئیر اور چارلس سینڈرز پئیرس کے تصورات(Semiotics) کو اپنے اسلوب کی اساس بنایا ۔یہی وجہ ہے کہ جو لیا کرسٹیوا کے منفرد اسلوب کو (Semanalysis)سے تعبیرکیا جاتا ہے۔ جو لیاکرسٹیوا کا یہ اسلوب جہاںسائنسی اندازِ فکر کاآئینہ دارہے وہاں یہ جولیاکر سٹیواکی مستحکم شخصیت کامظہر بھی ہے۔ اس عالمِ آب و گِل میںاس انگارہء خاکی کی تمام فعالیتوں اور ان کے پس ِ پردہ کار فرما عوامل کے بارے میں جو لیا کر سٹیوا نے نہایت وضاحت کے ساتھ اپنا ما فی الضمیر بیان کیا ہے۔ خاص طور پر ۱۹۸۰ کے بعد اس کی بیشتر تحریریں تحلیل نفسی کے عوامل کو سامنے لاتی ہیں ۔اس کی تحریروں میں نفسیات ،علم بشریات اور لسانیات کا جو امتزاج پایا جاتاہے وہ اسے منفرد مقا م عطا کرتا ہے ۔مثا ل کے طور پر Falls of love,Black sun,Power of horror,An Essay in Abjection،ایسی تحریریں ہیں جو ادب میں تحلیلِ نفسی کے موضوع پر تازہ ہوا کا جھونکا سمجھی جاتی ہیں۔ جذبات اور احساسات کے بیان میں جو لیا کرسٹیوا نے تحلیل نفسی کو ہمیشہ پیش نظر رکھاہے ۔ایک نو مولود بچے کے جنم لینے کو اس نے اپنی ماں کے جسم سے الگ ہو کر ایک نئی زندگی پانے کے عمل سے تعبیر کیاہے اور اس بچے کو اپنی ماں کے لخت ، جگر کا نام دیاہے ۔ حیاتیاتی اعتبار سے انسانی جسم کے جُملہ محر کات کا زندگی سے انسلاک جو لیا کر سٹیوا کے اسلوب کا اہم موضوع سمجھا جاتا ہے ۔پس ساختیاتی فکر کے علم بردار وں میں جو لیا کرسٹیوا کا نام کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ادبی معنیات کے شعبے میں اس نے اپنے اشہب قلم کی خوب جولانیاں دکھائی ہیں۔ پسِ ساختیات،مغربی فلسفہ،ادبی تنقید،تحلیل نفسی،عمرانیات،علم بشریات،تانیثیت اور ناول نگاری میں جو لیا کرسٹیوانے اپنی تخلیقی فعالیت کا لوہا منوایا۔کو لمبیا یو نیورسٹی نیو یارک میں جو لیا کر سٹیوا نے لسانیات کے موضوع پر افادیت سے لبریز لیکچرز دئیے۔پوری دنیا میں اس کی علمی فضیلت اور لسانی مسائل پر کامل دسترس کا اعتراف کیا جاتا ہے۔دنیا کی آٹھ بڑی جامعات نے جو لیا کر سٹیوا کو پی ایچ۔ڈی کی اعزازی ڈگری سے نوازاان میں ہارورڈ یو نیورسٹی اور صوفیہ یو نیورسٹی بھی شامل ہیں۔
اپنے منفرد اسلوب میں جو لیا کر سٹیوا نے تحلیل نفسی کو کلیدی اہمیت دی ہے اور اپنی تحریروں کو افکارِ تازہ سے مزین کر کے جہانِ تازہ تک رسائی کے امکانات کو پیشِ نظر رکھاہے۔بادی النظر میں اس کا اسلوب تحلیل نفسی کی اساس پر استوار محسوس ہوتا ہے۔اس نے اس حقیقت کی جانب متوجہ کیا کہ تحلیل نفسی کی اہمیت روزافزو ں ہے اور اس کے بارے میں مثبت شعور و آگہی پروان چڑھانا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔تخلیق ادب میں تحلیل نفسی کی اہمیت کا احساس و ادراک تخلیق فن کے لمحوں میں خون بن کر رگِ سنگ میں اُترنے کی معجز نما صلاحیت سے متمتع کرتا ہے۔سائنس وٹیکنالوجی کے عروج کے موجودہ زمانے میںتحلیل ِ نفسی کی تفہیم، اس کی وسعت اور ہمہ گیری اور ادب و فنون لطیفہ پر اس کے اطلاق کی ضرورت سگمنڈ فرائڈ کے عہد سے کہیں زیادہ بڑھ چُکی ہے۔ان تمام حقائق سے شپرانہ چشم پوشی ایک ایسی مہلک غلطی کے مترادف ہے، جس کے مسموم اثرات سے تخلیق ادب کی تمام رُتیں بے ثمر ہو کر رہ جائیں گی۔ایک زیرک نقاد اور وسیع المطالعہ ادیبہ کی حیثیت سے جو لیا کر سٹیوا نے تحلیل ِ نفسی کی اہمیت و افادیت کو محسوس کیا اور تحلیلِ نفسی کو رو بہ عمل لانے والے ماہرِ نفسیات کے کردار کی صراحت کرتے ہوئے لکھاہے:
I want to stress the fact that the function of the psychoanalyst is to reawaken
the imagination and to permit illusions to exist (1)
علم بشریات سے جو لیا کرسٹیوا کو گہری دلچسپی تھی۔والدین اور بچے کے نفسیاتی مسائل کے موضوع پر اس کی تحریریں قارئین پر فکر و نظر کے متعدد نئے دریچے وا کرتی ہیں۔ مادی دور کی لعنتوں نے ہمیں یہ دن دکھائے ہیں کہ فرد کی بے چہرگی اور عدم شناخت کا مسئلہ روز بروز گمبھیر صورت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے۔شخصیت کی شناخت اوراس کے اندرونی اختلافات جو لیا کرسٹیوا کا پسندیدہ موضوع رہا ہے۔ اس نے انسانی سائنس کے مطالعہ میں قلب ،روح اور جسم کی فعالیت کی تفہیم پر اصرار کیا۔اس نے قلب کے سوز اور جسم کی حرکت و حرارت کو تخلیق فن پر اثر انداز ہونے والے عوامل میں کلیدی اہمیت کا حامل سمجھتے ہوئے ان کے مطالعہ کی جانب متوجہ کیا۔انسانی شخصیت کو انتشار کی بھینٹ چڑھانے میں مے و انگبیں کی لاگ ،طائوس و رباب،ساز کی لے ،رقص و سرود ،جنس و جنوں ،غیر سنجیدہ رویہ،روم کو جلتا دیکھ کر نیرو کے مانند ہر
معاملے کو خندہء استہزا میں اُڑا دینا اور محض شاعرانہ استدلال کی رو میں بہہ کر وادیء خیال کو مستانہ وار طے کرنے اور ہوا میں گِرہ لگانا اورحقائق سے آنکھیں چُرا کر زندگی کی شبِ تاریک کوسحر کرنے کے خواب دیکھنے کی روش نے ہمیشہ لرزہ خیز کردار اداکیاہے۔انسان کی ہزاروں خواہشیں ایسی ہیں کہ ہر خواہش پر دم نکلتا محسوس ہوتا ہے۔جو لیاکرسٹیوا نے انسانی تمنائوں کی بے ہنگم یلغار اور ان کے سیل رواں کے سامنے احتیاط اور تدبر کا بند باندھنے پر اپنی توجہ مرکوز رکھی ہے۔تمنا کے دوسرے قدم کی جستجو اورغیر مختتم آرزوئوںکے پیدا کردہ یاس و ہراس اور دشتِ امکاں کے سرابوں کے عذابوں کے اعصاب شکن اثرات سے بچنے کے لیے ایک تخلیق کار تزکیہ نفس پر انحصار کرتا ہے اورجو کیفیت اس کے دل پر گزرتی ہے وہ پرورشِ لوح و قلم کے دوران صفحہ ء قرطاس پر پورے خلوص اور دردمندی کے ساتھ منتقل کرتا چلا جاتاہے۔اس کی لوح ِدِل پر گردشِ ایام کے جو نقوش مرتب ہوتے ہیںوہی اس کا موضوع سخن بن جاتا ہے۔ اپنی ادبی تخلیقات اور تنقید میں جو لیا کرسٹیوا نے شعریات کو جدید عصری تقاضو ں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت پر زوردیا۔ اس کی تحریروں سے اس تاثر کوتقویت ملتی ہے کہ ہزار خوف میں بھی زبان کو دل کی رفاقت کا حق ادا کر نا چاہیے۔ایک ذہین اور ہفت رنگ اسلوب کی حامل نہایت فعال اور مستعد ادیبہ کی حیثیت سے جو لیاکرسٹیوا نے گزشتہ چار عشروں میںلسانیات ،تانیثیت اور تحلیلِ نفسی کے شعبوں میںاپنے فعال تخلیقی وجود کا اثبات کیا ۔تقلید کی مہلک روش کے آئینہ دار تصورات کو تہس نہس کرنے میں اُس نے کبھی تامل نہیں کیا۔۱۹۷۰ کے بعد سے جو لیا کر سٹیوا نے خواتین کے مسائل پر اپنی توجہ مر کوز کر دی۔ مرد اور عورت کے جنسی معاملات کے بارے میں وہ ٍاپنا ایک الگ زاویہء نگاہ رکھتی ہے ۔تانیثیت کے موضوع پر اس نے مضامین ِ نو کے انبار لگا دئیے اور علم و ادب کے خوشہ چینوں کو اپنی تخلیقی فعالیت اور مستعدی سے حیرت زدہ کر دیا۔ اس کی بائیس وقیع تصانیف شائع ہو چُکی ہیںجنھیں قارئین ادب کی طرف سے بہت پذیرائی ملی ہے۔ اسے کئی عالمی ایوارڈز سے نوازا گیا اور دنیا بھر میں اس کے اسلوب کو پسند کیا گیا۔تاریخ ِادب ،نفسیات ،لسانیات ،سوانح اور آپ بیتی کا رنگ لیے جولیا کر سٹیوا کی تحریریں قاری کی لوحِ دِل پر انمٹ نقوش ثبت کرتی ہیں۔اس نے پسِ ساختیات ،لسانیات ،تحلیل نفسی اور خود نوشت کے معجز نماامتزاج سے اپنے منفرد اسلوب کا اس طرح نکھار عطا کیا ہے کہ رنگ ،خوشبو اورحسن و خوبی کے تمام استعارے اس کے اسلوب میں سمٹ آئے ہیں۔مثال کے طور پر ۱۹۸۰میں شائع ہونے والی اس کی تصنیف ’’Strangers to ourselves‘‘کے مطالعہ سے قاری کئی چونکا دینے والے حقائق سے آنا ہوتا ہے ۔ قاری اپنے من کی غواصی کر کے سوچتا ہے کہ وہ خود بھی اپنی حقیقت کا شناسا نہیں اور وہ عمر بھر زندگی کی حقیقی معنویت سے بے خبر اندھیروں میں ٹامک ٹوئیے مارتا رہا ہے۔قاری اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ اس کے بحر تخیل کی گہرائی اس قدر زیادہ ہے کہ وہ اپنی شخصیت کی غواصی کر کے حقائق کے گہر ہائے آب دار بر آمد کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔لسانیات کا مطالعہ بہت محنت اور عرق ریزی کا متقاضی ہے۔ تحلیل ِنفسی اورشعری لسانیات کے متعلق سگمنڈ فرائڈ کے خیالا ت پر جو لیا کر سٹیوا نے ایک قابل فہم انداز میںاپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔اس نے واضح کیا ہے کہ تخلیق ادب کا لا شعوری محرکات سے گہر ا تعلق ہوتا ہے ۔لا شعور میں جو تمنائیں پروان چڑھتی ہیںشعری لسانیات میں جاری انجذاب کا عمل انھیں موقع و محل کی مناسبت سے جس طرح چاہتا ہے رو بہ عمل لا سکتا ہے۔ تخلیق کار کی کارگہ ِفکر میں لا شعور کی اثر آفرینی معاشرتی اور سماجی زندگی میں کبھی سوز و ساز رومی کی کیفیت سامنے لاتی ہے تو کبھی یہ پیچ و تاب رازی کا سماں پیش کرتی ہے۔ تحلیل نفسی اور سگمنڈ فرائڈ کے نظریات پر اس کاایک اہم مضمون بہ عنوان ’ ’The Ethics of Linguistics‘‘ڈیوڈ لاج(David Lodge)کی مرتب کردہ تالیف ’’Modern Criticism and Theory‘‘میں شامل ہے۔اس مضمون میںجو لیا کر سٹیوا نے لکھا ہے:
’’One might submit that Freud,s discovery of the unconcious provided the necessary conditions for such a reading
of poetic language.This would be true for the history of thought ,but not for the history of poetic practice.”(2)
جو لیا کر سٹیوا نے پس ِ ساختیاتی فکر کوبہ نظر تحسین دیکھتے ہوئے اسے جدید عصری تقاضوں سے ہم آہنگ قرار دیا۔یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ پس ِ ساختیاتی فکر نے ادبی تخلیقات کوپہلے سے طے شدہ اور متعینہ معانی کے حصار سے نکال کر انھیںکُھلی اور آزادانہ فضا میںپہنچا دیا۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پس ساختیاتی فکر کے علم برداروں نے اپنے افکارکی جو لانیوں سے معانی کو اس قدر وسعت سے آشنا کیا جو اس سے پہلے انھیں کبھی میسر نہ تھی ۔پس ساختیاتی فکر کے اعجاز سے معانی کو اب ناقابل تخفیف حد تک کثیر المعنویت حاصل ہو گئی ہے۔ قارئینِ ادب پراب یہ حقیقت واضح ہو رہی ہے کہ ہر لفظ کئی جہتیں اور طرفیں رکھتاہے اوراسے گنجینہء معانی کے طلسم کی حیثیت حاصل ہے۔ساختیات اور پسِ ساختیات کے فرق کوسمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ ساختیات نے متن کی اساس پر اپنے افکار کی عمارت تعمیر کی ۔ساختیاتی مفکرین کا اصرارتھا کہ متن پر کامل دسترس حاصل کرکے متن کے معانی کی تفہیم ممکن ہے ساختیات نے یک طرفہ اور آمرانہ انداز میں معانی کے تعین کی جو کوشش کی پسِ ساختیات نے اس پر گرفت کی اوراس انداز فکر کو لائق اعتنا نہیں سمجھابل کہ متن کے مفہوم کو متعدد قوتوں کا مر ہون منت قرار دیا ہے اور اس بات پر اصرارکیا ہے کہ جب تک دیگر قوتوں کو بروئے کار نہیں لایاجاتا اس وقت تک قلزم معانی کی غواصی کا خواب شر مندہء تعبیر نہیں ہو سکتا۔ان قوتوں کو تاریخی ،لسانی اور لاشعور کی قوتوں سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ پسِ ساختیاتی مفکرین کے خیال میں یہی وہ قوتیں ہیںجن پر خلاقانہ دسترس حاصل کر کے ایک زیرک تخلیق کار اپنے اسلوب میںایک رنگ کا مضمون سو رنگ سے باندھنے اور قلب اور روح کی اتھاہ گہرائیوں میں اُتر جانے والی اثر آفرینی کے اعجاز سے دلوں کومسخر کر سکتا ہے۔ایک بلند پایہ ادبی تخلیق میں نہاں جہانِ معانی کی دریافت کے سلسلے میں یہی قوتیں خضر راہ ثابت ہوتی ہیں۔ا ن قوتوں کی دست گیری سے معنی نما کومعنی سے بچ نکلنے کا کوئی موقع نہیں ملتا۔پس ساختیات کی رُو سے معانی کا تعین ایک غیر محتاط اور غیر ذمہ دارانہ اندازِ فکر کا مظہر ہے ۔پس ساختیات نے معانی کے یک طرفہ اور آمرانہ انداز میں تعین کے بجائے متعدد استفسارات کے ذریعے متن میںموجود معانی کی تفہیم کے امکانات کا جائزہ لینے کی راہ دکھائی۔پسِ ساختیاتی دانش وروں نے نشان کی وحدت کو دو لخت کر کے ثابت کر دیا کہ لفظ و معنی کی وحدت کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں۔ہر لفظ اپنے مفاہیم کے ابلاغ کے لیے دوسرے الفاظ پر انحصار کرتا ہے ۔جو لیا کر سٹیوا اور پسِ ساختیات کے دوسرے اہم علم برداروں نے اپنی تما م تر تو جہ اس امر پر مر کوز کر دی کہ س امر کا کھوج لگایا جائے کہ لفظ کس طرح گنجینہء معانی کا طلسم بن جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پسِ ساختیات کے علم برداروں نے اس بات کو لائقِ اعتنانہیں سمجھا کہ معانی قابلِ تعین ہیں۔اُن کا خیا ل ہے کہ متن کے مفاہیم کا سلسلہ ایک دشوار اور غیرمختتم جالا ہے جو اس کی تعبیر اوراخذ معانی میں اعانت کی نئی تدابیر سامنے لاتا ہے۔
جولیا کرسٹیوا نے فلسفہ اور لسانیات کے شعبوں میں بولتے اجسام کے موضوع پرایک منفرد سوچ کو پروان چڑھایا۔اس نے یہ خیال ظاہر کیا کہ جسم کی جُملہ حرکات و سکنات لسانی عمل پردُور رس اثرات مرتب کرتی ہیں۔یہ کہناغلط نہ ہو گا کہ زبان کی ساخت کا جسم سے گہرا تعلق ہے اور زبان کی ساخت پہلے ہی جسم میں فعال کردا رادا کر رہی ہے۔ جولیا کرسٹیوا کے اسلوب سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اس نے متکلم موضوع کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ فکر و خیال کا اچھوتا پہلوسامنے لاتا ہے۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ متکلم موضوع اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک منقسم موضوع ہی ہو سکتا ہے۔ اگر سگمنڈ فرائڈ اورژاک لاکاں کے تصورات کا بہ نظر غائر جائزہ لیا جائے تو اس حقیقت کے اداک میں کوئی امر مانع نہیںکہ متکلم موضوعات ایک شعوری فہم کی اساس پر استوارہیں ۔اس میں سماجی حدودا ور معاشرتی عوامل کا گہرا عمل دخل ہے ۔جہاں تک سماجی حدود کا تعلق ہے اس میںخاندان اور قبیلے کی تشکیل ،وسائل اور پیداوار کے طور طریقے شامل ہیں۔اس کے علاوہ لاشعوری محرکات بھی کلیدی اہمیت کے حامل ہیں ۔ان تمام کے پس پردہ جسمانی اور حیاتیاتی عمل بھی اپنا رنگ دکھاتا ہے ۔یہی وہ محرکات ہیں جو ہر رنگ کو متکلم بنا دیتے ہیں اور ہر بات کی عطر بیزی قریہء جاں کو معطر کرکے اذہان کی تطہیر و تنویر کا اہتمام کرتی ہے ۔عورت ،جنس اور جذبات کے موضوع پر جو لیا کر سٹیوا کے خیالات کے بارے میںشدید تحفظات کا اظہار کیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ کئی قسم کی علاقائی،لسانی، قومی اور مذہبی عصبیتیں بھی اس کے ا سلوب میں در آئی ہیںجن کے نتیجے میںاس کی تحریروںکی اثر آفرینی متاثر ہوئی ہے۔جہاں تک تانیثیت کا تعلق ہے اس موضوع پر بھی جو لیا کرسٹیوا کی تحریریں قبولیتِ عام کے معیار پر پُوری نہیں اُترتیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مصنفہ نے عورت کے جنسی احساسات اور جذباتی میلانات کو مبالغہ آمیز انداز میں پیش کیا لیکن مسلمہ اخلاقی اقدار و معائرپر مناسب توجہ نہیں دی۔تانیثیت کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ عورت کی شخصیت اور عصمت کے تقدس سے چشم پوشی کر لی جائے۔آلام روزگار کے پاٹوں میں پسنے والی مظلوم ،بے بس اوردُکھی انسانیت کے زخموں پر مرہم رکھنے میں جو لیا کرسٹیوا نے بالعموم جس تامل کا مظاہرہ کیا ہے،اس کو دیکھ کر مظلوم اقوام کو مایوسی اور اضطراب کے سوا کچھ نہیں ملا۔جو لیا کرسٹیوا کے خیالات عام فہم نہیںبل کہ عام قاری ان کے مطالعہ کے بعدکسی حتمی نتیجے تک پہنچنے میںدقت محسوس کرتا ہے اور وہ زبان حال سے پُکاراُٹھتا ہے کہ کون سی اُلجھن کو سُلجھاتے ہیں ہم۔
مآخذ
(1)Julia Kristeva:In the beginning was love,Columbia University Press Newyork,1987,Page,18
(2)David Lodge:Modern Criticsm and Theory,Pearson Education ,Singapore ,2004,Page209.