سال بھر سے روم میں قید رہ کر اب وہ انقباض خاطر اور ضد رغبت کی مورت بن چکی تھی ۔۔۔ جس پل اور حسب دلخواہ کی وہ برسوں سے منتظر تھی آج قسمت نے اسے دے دیا تھا۔
اپنے روم کا دروازہ کھلا دیکھ وہ روم کی دہلیز یوں پار کر گئی تھی جیسے کوئی بچہ کھلونے کی جانب مائل ہوتا ہے ۔۔۔۔ احتیاطی تدابیر کے تحت اسنے قدموں کی چاپ کو مدھم رکھا جو چادر بدن کے گرد لپٹی تھی اس سے چہرہ ڈھکتے وہ انٹرنس سے باہر نکلی ۔۔۔ گارڈ فون سننے کی غرض سے اسکی جانب پیٹھ کیئے کھڑا تھا جس سے وہ پھرتی دکھاتی گیٹ کی جانب دوڑی ۔۔۔۔ بالآخر وہ اس گھر سے نکلنے میں سرخرو ہو گئی تھی جہاں وہ گزشتہ سال سے قید تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
“چودہ دن یونہی بیت گئے ۔۔۔ اٹھارہ دن نین تارا کے فراق میں اور میں یوں ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھا ہوں ۔۔۔ میں تو اپنے لیئے کوئی قدم نا اٹھا سکا اور نین تارا کا ساتھ نبھانے کے دعوے کرتا رہا ۔۔۔ مجھ سے زیادہ بد نصیب کون ہو گا بھلا؟ لوگ دن رات ایک کرتے ہیں اعلی منصب ،،، عہدے اور اپنی محبت کو پانے کیلیئے اور میں ۔۔۔ وقت میرے ہاتھوں سے ریت کی مانند پھسل رہا ہے کل تک شاید میں ان سب سے بھی برطرف بھی کر دیا جاوں ۔۔۔ ناپسندیدہ چیز کو بھی دل سے تسلیم کرنے والا آج ہر چیز میں کیڑے نکال رہا ہے ۔۔۔ میری ہٹ دھرمی ، کاہلی، انا اور غصے نے سب برباد کر دیا اور جو ہے وہ بھی ٹائمر سے ریت کی مانند گر رہی ہے”۔ اپنے کیبن میں چیئر کی بیک سے پشت ٹکائے وہ سوچ کے دلدل میں پھنسا تھا کہ سعد دروازے پہ آ کھڑا ہوا۔
“آو سعد”۔ بولتے ہی وہ سیدھا ہوا۔ ” کہو کیا صورتحال ہے؟؟”۔ آس کا چراغ آنکھوں میں جلائے اسنے کہا۔
“سر اس شہر میں تیس سے زائد یتیم خانے ہیں ابھی صرف اور صرف پانچ کی معلومات فراہم ہوئی ہیں اور ان میں سے کہیں بھی آپکی وائف کا ذکر نہیں”۔ سعد نے بد دل ہوتے کہا۔
“ڈیم اٹ مجھے یقین تھا ایسا ہی ہوگا اور دوسرے کام کا کیا بنا؟؟”۔ ذہن میں ڈیرہ جماتی سوچ کے عین مطابق نتیجہ موصول ہوتے وہ مزید تپ اٹھا۔
“سر میں اپنی پوری کوشش کر رہا ہوں مگر حالات اور آثار بالکل مخالف سمت ہیں”۔
“میں ایسا ہرگز نہیں ہونے دے سکتا یہ سب جانتے ہیں کہ سیٹھ رفیق نیازی اور اسکا بیٹا شریف اور مہذب شہری ہونے کا ڈھونگ کر رہے ہیں اور کچھ نہیں ۔۔۔ میری سنسیڑیٹی پہ شک کرتے کورٹ قطعا میرے خلاف ارسٹ وارنٹ جاری نہیں کر سکتا”۔ غیض و غضب میں وہ چیئر سے اٹھا تھا۔
“لیکن سر ہم کر بھی تو کچھ نہیں سکتے ۔۔ ہمارے پاس کوئی ٹھوس ثبوت نہیں انکے خلاف”۔
“نہیں سعد جو نظر آتا ہے اکثر اوقات ایسا نہیں ہوتا اور جو ہوتا ہے وہ ہماری حدود سے دور ہوتا ہے ۔۔۔ چور چاہے کتنا ہی عقل مند کیوں نا ہو اپنے پیچھے نشان ضرور چھوڑ جاتا ہے بس حدت نظر کی ضرورت ہوتی ہے”۔ سعد کو باور کراتے اسنے اسکی جانب پشت کی۔ “اس جج کا نام کیا ہے؟؟”۔ خیال آتے احتشام نے سعد کی جانب پلٹا۔
“جی سر نصیر الدین”۔ سعد نے اختصار کیا۔ “سر مجھے لگتا ہے یہ جج بکاو ہے تبھی یہ ہمارے شواہد اور پیش کردہ دلیلوں سے بال کی کھال نکال رہا ہے”۔ سعد نے تشویش ظاہر کی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
شام کے چار بج رہے تھے ۔۔ گرمی کا زور اور شدت اپنے عروج پر تھی ایسے میں وجود کے گرد حائل سیاہ چادر مزید تپش اور گرمائش کا سبب بن رہی تھی ۔۔۔ بنا کسی چیز کی پرواہ کیئے وہ اپنے قدم جما کر رکھ رہی تھی ۔۔۔ صبح سے اب تک وہ فاقے میں تھی بغیر ایک بوند حلق سے اتارے وہ چلتی جا رہی تھی۔
“میں کس سے پوچھوں؟؟ کسے معلوم ہو گا؟؟ کون ساتھ دے گا میرا؟”۔ چلتے چلتے اسکے قدم یکایک ساکت ہوئے۔
اسکا پورا بدن پسینے سے شرابور تھا یہاں تک کہ ہتھیلیاں اور تلے بھی شدید نم تھے۔
“بڑے عہدے دار کی بیٹی ہونے کا خمیازہ میں ابھی تک بھگت رہی تھی یہ دنیا بھیڑیوں سے پر ہے کسی مسیحا کے ظہور کیلیئے بالکل بھی انتظار نہیں کر سکتی ۔۔۔ پتہ نہیں وہ کہاں؟؟ ۔۔۔ یہ مجھے ک۔۔۔۔۔۔”۔ تھکن سے چور اور پسینے سے نہایا اسکا وجود فٹ پاتھ پہ ڈھیر ہوا۔
گرمی کی شدت کے باعث لوگ اپنے گھروں میں قید تھے ایسے میں اسکا وجود بے آسرا پڑا تھا چند ہی لمحوں میں ایک سفید سیوک فٹ پاتھ کے قریب آ رکی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
“آپ آ گئے”۔ نصیر کو روم میں موجود دیکھ زینت کے حواس خمسہ جاتے رہے۔
“زینت تمھارے چہرے کے رنگ کیوں اڑ گئے؟؟ کورٹ میرا عارضی مقام ہے اسکے بعد تو ظاہر ہے میں نے گھر ہی آنا ہے”۔ زینت کا رد عمل اسے شاق گزرا۔
“نہیں نصیر ایسی بات نہیں وہ مجھے آپکی آمد کا علم ہی نا ہوا اس وجہ ہے”۔ بات کو ٹالتے اسنے مصنوعی مسکراہٹ لبوں پہ آراستہ کی۔ “چلیں آپ فریش ہو جائیں میں آپکے لیئے کھانا لگاتی ہوں”۔ بولتے ہی وہ دروازے پہ گھوم گئی۔
“اچھا زینت نبیہا کو کھانا دے دیا ہے نا اس سے پوچھ لینا کہیں کسی چیز کی ضرورت تو میسر نہیں”۔ “نبیہا” کا نام سنتے اس پہ خوف کی لہر دوڑ گئی۔
“ج۔ جی میں نے اسے کھانا دے دیا ہے ۔۔۔ میں نے اس سے پوچھا بھی تھا مگر اس نے انکار کر دیا”۔ نصیر کی جانب گھومتے اسنے متبسم انداز میں کہا۔
“اگر نصیر کے کانوں تک یہ بات پہنچ گئی کہ نبیہا بھاگ گئی ہے تو نجانے کیا ہو گا؟”۔ ذہن میں جنم لیتے ہزار وسوسے اسے اپنی گرفت میں لے گئے جس پہ وہ مصلحتا خاموش رہی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
ہوسپٹل میں وہ بیڈ پہ بے حواس پڑی تھی ۔۔۔ سعد اسکے قریب سٹول پہ بیٹھا اسکے ہوش میں آنے کا منتظر تھا۔۔۔ اسے ہوش میں آنے کیلیئے کچھ منٹ صرف ہوئے۔۔۔ آنکھوں کے سامنے سعد کو موجود دیکھ وہ تلملا کے اٹھ بیٹھی۔
“ڈونٹ نیڈ ٹو گیٹ اپ ۔۔۔ یو شڈ ٹیک سم ریسٹ”۔ اسکی گھبراہٹ کے سبب سعد نے دھیرے سے کہا۔
“کون ہو تم؟؟ اور مجھے یہاں کیوں لائے ہو؟؟”۔ وہ ملگجا سا حلیہ بنائے ہوئے تھی اور چہرے پہ کافی گرد اکھٹی تھی۔
“میری چھوڑو اپنی بتاو ۔۔۔ کیا اس علاقے میں نئی ہو؟؟ آج سے پہلے تو میں نے تمھیں نہیں دیکھا”۔ اسکا رف حلیہ دیکھتے سعد نے اندازہ لگایا۔
“ایس پی احتشام ۔۔۔ مجھے ایس پی احتشام سے ملنا ہے مگر مجھے اسکی کوئی خیر خبر نہیں ۔۔۔ نجانے میں کب بیہوش ہوئی اور تمھارے ہاتھ لگ گئی”۔
“کیا؟؟؟ ۔۔۔ کیا کہا تم نے؟؟ تم ایس پی احتشام سے کیوں ملنا چاہتی ہو؟؟”۔ سعد چاک و چوبند ہوا۔
“وہ میں ۔۔۔۔۔۔ کیوں؟؟ میں تمھیں کیوں بتاوں کہ تم اس بات کا ڈھنڈورا پیٹ دو ہاں”۔ بولتے ہی وہ فورا بیڈ سے اٹھی۔
“ارے تم مجھے اپنا خیر خواہ ہی سمجھو کیونکہ میں ہی وہ انسان ہوں جو تمھیں ایس پی احتشام سے ملوا سکتا ہے”۔ سعد بھی ہڑبڑاہٹ میں سٹول سے اٹھتا اسکی جانب لپکا۔
“میں تمھاری بات پہ یقین نہیں کر سکتی ۔۔۔ یہ میری لڑائی ہے جسے مجھے خود ہی لڑنا ہے”۔ بولتے ہی اسنے دروازہ کھولا جہاں ڈاکٹر پہلے ہی موجود تھی۔
“تم کہاں جا رہی ہو؟؟ تمھاری طبیعت ابھی ٹھیک نہیں ہے ۔۔۔ انسپکٹر سعد آپ نے اسے روکا نہیں؟”۔ دوشیزہ کے بعد ڈاکٹر نے سعد کو مخاطب کیا جس پہ وہ دوشیزہ حیرت سے سعد کی جانب گھومی۔
“تم انسپکٹر ہو؟؟”۔
“جی ہاں ۔۔۔ انسپکٹر سعد اور یہی بات بتانے کی میں کب سے کوشش کر رہا ہوں مگر آپ لڑکیاں کسی کو بولنے کا موقع فراہم کہاں کرتی ہیں”۔ سعد نے شانے اچکائے۔
“ایم سوری”۔ دوشیزہ پشیماں سعد کے قریب آئی۔
“کوئی بات نہیں ۔۔ میں نے مائنڈ نہیں کیا”۔ سعد نے مسکراہٹ چہرے پہ سجائی۔ “کون ہو تم؟؟”۔ سعد مدعے پہ آیا۔
“نبیہانصیر ہائی کورٹ کے جانے مانے جج نصیر الدین کی بیٹی”۔ سعد کے سامنے بیٹھتے اسنے کہا۔
“تم جج نصیر الدین کی بیٹی ہو مگر تم ایس پی احتشام سے کیوں ملنا چاہتی ہو؟؟”۔ سعد نے بھچک کر کہا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
بیڈ پہ سیدھا لیٹے اسنے اپنا دائیاں بازو پیشانی پہ جمایا تھا اسی اثنا میں روہینہ ہچکچاتے اسکے روم میں داخل ہوئی اور ہلکے قدم رکھتی اسکے قریب آئی۔
“بھائی مجھے آپ سے بات کرنی ہے”۔ جھجکتے اسنے پہل کی۔
“مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی تم جا سکتی ہو”۔ بغیر اسکی جانب دیکھے احتشام نے کراہت سے کہا۔
“بھائی ایک بار میری بات سن لیں”۔ باطنی بے بسی کو عیاں کرتے اسنے کہا۔
“تمھارا بھائی مٹی تلے دفن ہو چکا اور یہ انسان تم سے بات کرنا نہیں چاہتا”۔ بولتے ہی وہ اٹھ بیٹھا تھا۔
“پلیز بھائی ایسا مت کہیں اللہ آپکو عمر دراز عطا کرے”۔ آنسو کے ہمراہ اسکی آواز بھی سسکیوں کی زد میں آ گئی تھی۔
“روہینہ میرے غصے کو طول مت دو تمھاری وجہ سے میں زندہ لاش بن گیا ہوں ۔۔۔ ایسا کونسا اذیتوں کا طوفان ہے جسکی پکڑ میں میری ذات نہیں آئی ۔۔۔۔ میں تمھیں ہمیشہ اپنی چھوٹی بہن ہی سمجھتا رہا ایسی بہن جسکا دماغ ہمہ وقت اپنے بھائی کی زندگی کو نشانے پہ رکھتے اسے برباد کرنے میں گوشاں رہا”۔ روہینہ کے مقابل کھڑے ہوتے اسنے برہمی سے کہا۔
“آئی ایم سوری بھائی ۔۔۔ پلیز مجھے معاف کر دیں”۔ ہاتھوں کو جوڑتے روہینہ رو دی۔
“روہینہ اس سے پہلے کہ میری دماغ کی نس پھٹ جائے یا میں آپے سے باہر ہوتے ہر حد پار کر جاوں نکل جاو یہاں سے”۔ غصے میں بولتے احتشام نے منہ پھیرا۔
“پلیز بھائی”۔
“آئی سیڈ گیٹ آوٹ”۔ دروازے کی جانب اشارہ کرتے وہ چیخا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
لاکھ کاوشوں اور بھاگ دوڑ کے باعث وہ کورٹ میں تہی دست بیٹھا تھا۔۔ بظاہر جفاکش،، مستحکم اور مضبوط دکھنے والا شخص اندر سے مکمل ٹوٹ چکا تھا ۔۔۔ احتشام کی بے رونق اور خالی آنکھیں آس کی لو میں ایڈووکیٹ ہمایوں اور انسپکٹر سعد کی راہ دیکھ رہیں تھیں اسکے برعکس ان دونوں سے ٹیلیفونک رابطہ منقطع ہونے کے سبب اس پہ مایوسی کی گھٹا چھائی ہوئی تھی۔
سیٹھ رفیق نیازی،، بلال اور اسکا مقرر کردہ وکیل وقت پہ کورٹ پہنچ گئے تھے برعکس اسکے احتشام والی سائیڈ صرف احتشام کا وجود لیئے ہوئے تھی جسکا ذہن کشمکش میں تھا ۔۔۔ جج کی آمد بھی پندرہ منٹ پہلے ہو چکی تھی جو اسکی گھبراہٹ میں دگنا اضافہ کر رہی تھی۔
“ایس پی احتشام آپ کے وکیل کی عدم موجودگی کورٹ کا وقت برباد کر رہی ہے ۔۔۔ کیا آپکا اپنے وکیل سے رابطہ ہوا؟؟”۔ گھڑی پہ ٹائم دیکھتے جج نے احتشام کو مخاطب کیا۔
احتشام کی بے بسی سیٹھ رفیق نیازی اور بلال کے ساتھ ساتھ انکے وکیل کیلیئے باعث تسکین بنی۔
“وٹ دا ہیل اسکا فون آف کیوں ہے؟؟”۔ جج کے مخاطب کرنے پہ احتشام نے ہمایوں کا نمبر ڈائل کیا جو اسکے لیئے مایوسی کا پیغام لایا تھا۔
“میں معذرت خواہ ہوں جج صاحب کہ کورٹ کا وقت میری وجہ سے برباد ہو رہا ہے مگر مجھے امید ہے کہ ایڈووکیٹ ہمایوں راستے میں ہوں گے”۔ احتشام سیٹ سے اٹھا۔
“جج صاحب مجھے نہیں لگتا کہ ایڈووکیٹ ہمایوں اب آئیں گے وہ وقت کے پابند ہیں ایسے میں انکی تاخیر کورٹ کا قیمتی وقت برباد کر رہی ہے بہتر ہے کہ آپ اپنا فیصلہ سنا دیں”۔ جاوید نے چیئر سے اٹھتے مداخلت کی۔
پانچ منٹ مزید انتظار کرنے کے بعد جج نے آواز بلند کرتے سب کو متوجہ کیا۔
“ایس پی احتشام کے وکیل کی غیر حاضری کی بدولت کورٹ سیٹھ رفیق نیازی کے صاحبزادے پہ لگایا گیا الزام جھوٹ قرار دیتی ہے اور ایس پی احتشام شامیر کے خلاف ارس۔۔۔۔۔۔۔”۔
“ایک منٹ جج صاحب”۔ ہمایوں نے با آواز بلند مداخلت کی پھر کورٹ میں داخل ہوا جس کے تعاقب میں سعد تھا۔
“ایم سوری یور آنر ٹریفک جام کی وجہ سے میں وقت کی پابندی نا کر سکا”۔ ہمایوں قدم اٹھاتا جج کے قریب آیا جبکہ سعد احتشام کے برابر جا بیٹھا تھا اور آنکھوں کے اشارے سے احتشام کو مثبت رسپانس دیا۔
اب کی بار سیٹھ رفیق نیازی اور بلال پہ وسوسوں کا طوفان آیا تھا۔
“جج صاحب اگر آپکی اجازت ہو تو میں اپنے آخری گواہ کو بلانا چاہوں گا”۔ جج کی جانب دیکھتے ہمایوں نے اجازت طلب کی۔
“اجازت ہے”۔
“گواہ حاضر ہو”۔
کورٹ میں گونجتی آواز کے ساتھ ہی ایک دوشیزہ عبایا میں کورٹ میں داخل ہوتے کٹہرے میں آ کھڑی ہوئی۔
“سب سے پہلے تو میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ نقاب ہٹاتے کورٹ پہ اپنی پہچان نمایاں کریں”۔ کٹہرے کا رخ کرتے ہمایوں نے کہا۔
دوشیزہ کا نقاب ہٹتے بلال کے ساتھ ساتھ جج کے پیروں تلے سے زمین کھسکی۔۔۔ حواس باختہ ہوتے جج سیٹ سے اٹھا۔
“مس نبیہا نصیر ۔۔۔ ارے جج صاحب آپ کھڑے کیوں ہیں؟”۔ مصنوعی سنجیدگی میں ہمایوں نے جج کا رخ کیا۔
“جج صاحب مس نبیہا نصیر کا گزشتہ سال یونیورسٹی واش روم میں ریپ ہوا تھا جو مسٹر بلال نے بے دردی سے کیا تھا ۔۔۔ ثبوت اور بیان اس فائل میں موجود ہیں”۔ بولتے ہی اسنے فائل جج کی جانب بڑھائی۔ ” جج صاحب اس فائل مین موجود تمام ٹیسٹ رپورٹس اس بات کو چیخ چیخ کر بیان کرتی ہیں کہ مسٹر بلال ایک مہذب شہری نہیں بلکہ انسانیت کے نام پہ بدنما دھبہ ہیں”۔
ہمایوں نے سیٹھ رفیق نیازی اور بلال کی حرکات پہ روشنی ڈالتے ان پہ دائرہ تنگ کیا۔
“تمام ثبوتوں اور گواہوں کے پیش نظر کورٹ ایس پی احتشام شامیر پہ لگے الزامات کو غلط ثابت کرتے انہیں اس کیس سے باعزت بری کرتی ہے اور بلال نیازی کو ایک معصوم کی عزت کے ساتھ کھیلنے کی پاداش میں عمر قید کیساتھ دس لاکھ جرمانے کی سزا سناتی ہے”۔ جج نے مجبوری کے تحت سزا سنا دی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆