وہ کمرے میں کھڑکی کے سامنے رکھے صوفے پہ بیٹھی باہر بارش دیکھ رہی تھی۔۔ باہر بارش بہت دھیمی رفتار میں ہو رہی تھی یوں جیسے کسی کی جدائی کے غم میں رو رہی ہو۔۔
یا شاید حور کو لگ رہا تھا کیونکہ وہ خود ویسا محسوس کر رہی تھی۔۔ آہان کی یاد آج اسے شدت سے آ رہی تھی ویسے تو کوئی ایسا دن نہ گزرا تھا کہ اسے اس کی یاد نہ آئی ہو۔۔
مگر آج۔۔ آج تو وہ ٹوٹ کر یاد آ رہا تھا۔۔ چار ماہ ہو گئے تھے اسے گئے اور ناراضگی کا یہ عالم تھا کہ پیچھے مڑ کر پوچھا تک نہیں۔۔
ایسا نہیں تھا کہ وہ بلکل کھو گیا تھا۔۔ اماں کا بیٹا ماہا کا بھائی۔۔ سب کے رشتے وہ بخوبی نبھا رہا تھا۔۔
بس نہیں رہا تھا تو حور کا شوہر۔۔ ہاں حور کا شوہر گم ہو گیا تھا۔۔ نجانے کتنے ہی آنسو وہ اس کی یادوں کی نظر کر چکی تھی ابھی بھی ایک آنسو اس کی گلابی آنکھوں سے نکل کر اسکی کن پٹیوں میں جذب ہو گیا تھا۔۔ ماضی کی یاد ایک بار پھر اس کو ستانے لگی تھی۔۔
@@@
گولی چلی تھی۔۔ اور چیخ حور کی نکلی تھی۔۔ نقاب پوش آہان کے پیٹ سے خون نکلتا دیکھ کر الٹے پاؤں بھاگے تھے۔۔
حور کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔۔ کیا کرے کیا نہیں۔۔ نہ موبائل تھا پاس اور نہ ہی کوئی اس سنسان جگہ پہ آنے والا تھا۔۔
آہان بڑے تحمل سے کار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھا تھا خون بڑی شدت سے اس کے پیٹ سے نکل کر زمین کو رنگین کر رہا تھا۔۔ اور حو اس کا بازو پکڑے روئے جا رہی تھی
مجھے رونے کی بجائے کسی گاڑی کو ڈھونڈو۔۔ نہیں تو یہ رونا تمہیں ساری عمر کا ہو جائے گا۔۔ آنکھوں میں لال رگیں اس کی تکلیف کی گواہ تھی جنہیں وہ ضبط کر رہا تھا۔۔
اوکے میں ڈھونڈتی ہوں۔۔ وہ فورا اٹھ کر روڈ پہ آئی تھی۔۔ گاڑی تو اس قدر ڈیمج ہو چکی تھی کہ وہ چلانے کے قابل نہ رہی تھی کم از کم ایک ٹیکنیشن جب تک اس کو دیکھ نہ لیتا۔۔
کتنی دیر وہ روڈ پہ یونہی ٹہلتی رہی۔۔ کوئی گاڑی گزرتی دکھائی نہیں دے رہی تھی۔۔ خون ذیادہ بہنے کی وجہ سے اہان اب غنودگی میں جا رہا تھا۔۔ آہان کی یہ حالت دیکھ کر حور کے رکے آنسو پھر سے بہنا شروع ہو گئے تھے۔۔
زبان پہ دعائیں پڑھتی وہ پھر سے روڈ کے تھوڑا آگے گئی۔۔ یقیناً اس کی دعاؤں کا ہی نتیجہ تھا کہ تھوڑی ہی دور اسے گاڑی کی ہیڈ لائٹس دکھ گئی تھی جنہیں دیکھ کر وہ یوں خوش ہوئی تھی جیسے اسے زندگی کی نوید سنا دی گئی ہوں۔۔
حور۔۔ دروازہ کھولنے کی آواز پہ وہ ماضی کی یادوں سے باہر آئی۔۔ حور کی اس جانب پشت تھی اس لیے وہ حور کے تاثرات دیکھ نہ سکی۔۔
جی آپی۔۔ بمشکل اپنی بھیگی آواز پہ قابو پا کر وہ بولی۔۔ رخ ابھی بھی کھڑکیوں کی اور ہی تھا۔۔
حور جان آ جاؤ۔۔ ڈائننگ پہ سب تمہارا ویٹ کر رہے ہیں۔۔ ماہا کا دل کیا اس کے قریب جائے۔۔ کیونکہ وہ جانتی تھی وہ رو رہی ہے۔۔ وہ چاہے جتنا بھی اپنی بھیگی آواز کو چھپانے کی کوشش کرتی۔۔ اپنا چہرہ موڑ کر اپنے جذبات چھپاتی۔۔ لیکن وہ تو اسکی ماں جائی تھی۔۔ اس کے بن کہے بن دیکھے سب کچھ جاننے والی۔۔ ابھی بھی کیسے نہ جانتی کہ وہ رو رہی ہے۔۔ لیکن پھر کچھ سوچ کر دروازے پہ ہی خاموش کھڑی رہی۔۔
جی آپی۔۔ آپ جائیں میں آ رہی ہوں۔۔ ہونٹوں کو دانتوں سے کاٹتے اس نے اپنے آنسوؤں کو مزید بہنے سے روکا۔۔
ٹھیک ہے چندا جلدی آ جانا۔۔ وہ کہہ کر تو چلی تو گئی تھی پر دھیان ابھی بھی حور کی طرف تھا۔۔
دروازہ بند ہوتے ہی اس کے رکے آنسو پھر سے بہہ نکلے تھے۔۔
آہان کہاں چلیں گئے ہیں مجھے اپنا عادی بنا کر۔۔ کہاں گئے وہ آپ کے محبت کے وعدے جو میری اتنی سی غلطی برداشت نہیں کر سکے۔۔ تصور میں اسے سوچتی وہ چیخ چیخ کر رو دی تھی۔۔
لیکن اس کی پکار کو سننے والا کوئی نہ تھا۔۔ کوئی ہوتا بھی تو اسے تو صرف وہ چاہیے تھا جس کی دل ہمک ہمک کر خواہش کر رہا تھا۔۔
@@@
آ رہی ہے۔۔ وہ ابھی کرسی گھیسٹ کر بیٹھی ہی تھی کہ اماں نے پوچھا۔۔
جی اماں۔۔ مختصر سا جواب دے کر اس نے سالن کا باؤل اپنک طرف کھینچا۔۔
کیا کر رہی تھی۔۔ ان کے پوچھنے پہ اس کے ہاٹ پاٹ کی طرف جاتا ہاتھ رک گیا۔۔ ہاتھ واپس جھولی میں رکھ کر اس نے ایک گہرا سانس لیا۔۔
کیا کر رہی ہو گی۔۔ وہی جو پچھلے چار ماہ سے کر رہی ہے۔۔ خاموشی سے باتیں۔۔ ماہا کے لہجے میں دکھ ہی دکھ تھا۔۔
میں ہمیشہ اس کی آواز اسکی باتوں پہ اس کو ڈانٹتی تھی۔۔ لیکن تمہیں پتہ ہے نا ماہا۔۔ میں دل سے نہیں چڑتی تھی۔۔ بس ڈر لگتا تھا اسکی ہنسی۔۔ اسکی ہنسی اتنی پیاری تھی ماہا کی میرا دل گھبراتا تھا کہ اس کو کسی کی نظر نہ لگ جائے۔۔ وہ زندہ دل کی لڑکی کا دل اگر اپنا زندہ پن کھو گیا تو میں جانتی تھی وہ ٹوٹ جائے گی۔۔ میری بچی ٹوٹ گئی ماہا۔۔ اس کی ہنسی کو نظر لگ گئی اس کے بولنے کو نظر لگ گئی۔۔ آہان کو کہو بس کر دے میری بچی کہ سزا۔۔ نہیں دیکھا جاتا اس کا یہ روپ مجھ سے۔۔
وہ بات کرتے کرتے رو دی تھی۔۔ آخر ماں تھی۔۔ اولاد کا غم تو بڑے بڑوں کا دل نرم پڑا ہے۔۔ یہاں تو وہ پھر پہلے سے ہی نرم دل تھیں۔۔
اماں کے آنسو دیکھ کر ماہا کی آنکھیں بھی نم ہو گئی تھی۔۔
اماں آپ فکر نہ کریں سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔ ان کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھتی وہ خود بھی روتے ہوئے بولی۔۔
کیسے فکر نہ کروں۔۔ بس ہو گئی اب میری ماہا۔۔ نہیں دیکھا جاتا اس کا ویران چہرہ بنجر آنکھیں۔۔ وہ اب تک رو رہی تھی۔۔
آپ کیجیے گا نہ آہان بھائی سے بات۔۔ آپ کی بات تو وہ کبھی نہیں ٹالیں گئے۔۔ ماہا انہیں تسلی دیتی بولی۔۔
کی ہے۔۔ کتنی بار کی ہے۔۔ جب بھی کرتی ہوں بات بدل۔ دیتا ہے۔۔ آخر کیا کروں میں۔۔ اپنا سر ہاتھوں میں گرا کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔۔
اماں۔۔ ماہا اٹھ کر ان کے پاس آئی اور انہیں گلے لگایا۔۔
سب ٹھیک ہو جائے گا آپ۔ صبر رکھیں۔۔ انشاءاللہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔ انہیں گلے سے لگائے وہ انہیں تسلیاں دے رہی تھی جبکہ اس کے انشاءاللہ بولنے پہ انہوں نے بھی سرگوشی میں “انشاءاللہ” کہا تھا۔۔
@@@
وہ کچن میں کھانا بنا رہی تھی جب فون کی بیل بجی۔۔ اپنی سوچوں سے پیچھا چھڑانے کے لیے اس نے گھرداری میں پناہ لے لی تھی۔۔ اور ان چارماہ میں وہ اچھی کک تو لازمی بن گئی تھی۔۔
اماں اور ماہا شادی کی شاپنگ کے لیے گئے تھے۔۔ ایک ہفتے بعد ماہا کی شادی تھی۔۔ حور نے سچے دل سے راحب سے معافی مانگی تھی اور وہ بھی اس کی نادانی سمجھ کر اس کو معاف کر چکا تھا۔۔ اس لیے تو وہ آج بھی اسے بہنوں کی طرح چاہتا تھا۔۔
سالن کو ہلکی آنچ پہ رکھ کر وہ لاؤنج میں پڑے وائرلیس کی طرف آئی۔۔
ہیلو۔۔ فون اٹھا کر فوراً کان سے لگایا۔۔ آواز سے کوئی بھی اندازہ لگا سکتا تھا کہ وہ اس وقت مصروف تھی۔۔ لیکن اس کے ہیلو کہنے پہ بھی آگے مکمل خاموشی تھی۔۔
ہیلو۔۔ ایک اور بار کہا گیا۔۔ لیکن اس بار حور کی آواز میں لڑکھڑاہٹ صاف تھی کیونکہ شاید وہ سنجھ گئی تھی فون کرنے والا کون ہے۔۔
آہان۔۔ لبوں نے ہلکی جنبش دی اور وہ شاید جنبش کو بھی سن چکا تھا۔۔ اس لیے اس کے آہان بولتے ہی فون بند ہو چکا تھا۔۔
ٹوں ٹوں ٹوں کہ آواز پہ اس نے کان سے فون الگ کر کے اس کی طرف دیکھا۔۔
آہان اتنی ناراضگی۔۔ فون میں جیسے وہ آہان سے شکوہ کر رہی تھی۔۔ فون وہی رکھ کر وہ بھاگی اپنے کمرے میں گئی تھی۔۔ آنسو پھر سے لڑیوں کی مانند اس کے گالوں بہہ رہے تھے۔۔
@@@
کہاں جا رہے ہیں آپ آہان۔۔ اس کو ہاسپٹل سے آئے ابھی تین دن ہی ہوئے تھی جب وہ اپنا سامان پیک کر رہا تھا۔۔ اس کو اس طرح بیگ میں کپڑے رکھتے دیکھ کر وہ پوچھ بیٹھی۔۔
واپس۔۔ ایک لفظ جواب دے کر وہ پھر سے اپنے کام میں مصروف ہو چکا تھا۔۔
آہان اتنی جلدی۔۔ ابھی تو آپ کی ریکوری بھی ٹھیک سے نہیں ہوئی۔۔ آپ کو ریسٹ کی ضرورت ہے۔۔ حور اس کے نزدیک آ کر اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولی جسے آہان نے بڑے غیر محسوس طریقے سے نکالا۔۔
کوئی جواب دیے بغیر وہ اب ڈریسنگ ٹیبل پہ پڑی اپنی چیزیں اٹھا رہا تھا۔۔ اور جب سے گولی لگی تھی تب سے ایسے ہی ہو رہا تھا۔۔ وہ بولتی تھی اور وہ اسے نظرانداز کر دیتا تھا۔۔
آہان۔۔ اس سے پہلے کہ وہ لچھ بولتی اس نے اس کی بات کاٹ دی۔۔
میں جا رہا ہوں۔۔ واپسی کا کوئی پتہ نہیں۔۔ تم یہاں رہنا چاہو تو رہ سکتی ہو ورنہ اماں کے گھر چلی جاؤ۔۔ اٹس اپ ٹو یو۔۔ کہتے ساتھ ہی وہ اس کی بغیر سنے۔۔ بغیر اللہ حافظ کہے۔۔ چلا گیا تھا۔۔
کتنی دیر کے لیے یہ اس نے نہ بتایا اور نہ بتانا ضروری سمجھا۔۔ حور ابھی تک اس دروازے کو گھور رہی تھی جہاں سے وہ گیا تھا۔۔
@@@
روتے روتے اس کی آنکھیں سوج گئی تھی وہ ویسے ہی اوندھے منہ وہ لیٹی تھی جب ماہا کمرے میں آئی۔۔
حور کہاں تھی تم۔۔ سارا سالن جل۔۔ وہ اپنے دھیان سے بولتی ہوئی آئی تھی آگے حور کو اوندھے منہ پڑا دیکھ کر وہ رک گئی۔۔
حور جان کیا ہوا ہے۔۔ وہ بھاگتی ہوئی اس کے پاس آئی اور اس کو سیدھا کیا۔۔
آپی وہ کیوں کر رہے ہیں ایسے میرے ساتھ۔۔ جب پاس تھی میں مانتی ہوں تب محبت نہیں تھی لیکن اس کی جڑیں اتنی گہری نہیں تھی۔۔ شاید تب شروعات تھی۔۔ لیکن اب بہت تھک گئی ہوں۔۔ اس کی محبت دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے۔۔ نہ مجھ سے ان کی محبت کا بوجھ سہا جاتا ہے نہ بے رخی کا۔۔ میں تھک گئی ہوں آپی۔۔ ان سے بولیں اب میری سزا ختم کر دیں۔۔
وہ ماہا کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔۔ اور ماہا شاید اس کے پاس بولنے کو بلکل بھی الفاظ نہ بچے تھے۔۔
@@@
آج ماہا کی بارات تھی۔۔ وہ تیار ہو کر سامنے آئینے نیں اپنا عکس دیکھ رہی تھی۔۔ کل وہ بہت دل سے تیار ہوئی تھی کہ شاید وہ آئے گا پر وہ نہیں آیا۔۔ ہمیشہ کی طرح وہ نہیں آیا۔۔ اور حور کا انتظار انتظار ہی رہا۔۔
خود کو عکس میں دیکھ کر وہ مسکرائی۔۔ اہان کی آواز اس کے کانوں میں کہی آس پاس ہی گونج رہی تھی۔۔
تمہیں کبھی محبت ہوئی ہے حور۔۔ وہ سڑک کے کنارے پیدل چل رہے تھے۔۔ آہان کی آواز اب اسے خیالوں میں بھی امرت لگ رہی تھی۔۔
محبت۔۔ اس طرح کے سنجیدہ کام بھئی مجھ سے نہیں ہوتے۔۔ وہ لاپروائی سے کہتی سڑک پہ پڑا پتھر دور پھینکا۔۔
ہاہاہا۔۔ پھر تو حور بی بی بچ کر رہنا جو اس سے بھاگتا ہے نا یہ اسی کو جونک کی طرح چمڑ جاتی ہے۔۔ اس کے بولنے پہ وہ ہنسی تھی۔۔
اور اب بھی اس کا اندر اس پہ ہنس رہا تھا۔۔ محبت اسے ہو ہی گئی تھی اور واقعی جونک کی طرح چمڑ گئی تھی۔۔
بارات آ گئی۔۔ اس آواز نے اسے اپنی سوچوں سے باہر نکالا تھا اور وہ گجروں کا تھال پکڑ کر باہر چل دی۔۔
@@@
وہ نہیں آیا۔۔ وہ پھر سے نہیں آیا۔۔ آج بھی اس کا انتظار انتظار ہی رہا۔۔ کتنے لمحوں کو اس کی آنکھیں entrance پہ جمی رہی کہ وہ آئے گا ابھی آئے گا۔۔ لیکن نہیں اسے تو اسے اذیت دینی تھی تو وہ کیوں آ کر اس پہ رحم کرتا۔۔
سارے فنکشن کے بعد چیزیں سمیٹ کر وہ اپنے کمرے میں آئی تھی۔۔ آج ماہا اور راحب دونوں ہی بہت پیارے لگ رہے تھے ہر ایک نے انکی تعریف کی تھی۔۔ پر اسے تو صرف اس کا انتظار تھا جس کے سامنے اس کو دنیا کی ہر خوبصورتی مانند نظر آتی تھی۔۔
کیوں رو رہی ہو جان۔۔ وہ رو رہی تھی جب کسی نے اسکے کندھوں پہ ہاتھ رکھا۔۔ آواز پہ وہ ایک دم چونکی تھی پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ تھری پیس سوٹ میں اس کے سامنے کھڑا تھا۔۔
چہرے پہ وہی بشاشت وہی مسکراہٹ وہی نیا پن۔۔ وہی ہلکی ہلکی داڑھی جسے دیکھ کر حور کا دل دھڑک اٹھتا تھا۔۔
آہان۔۔ لبوں نے جنبش کی۔۔ آواز سرگوشی سے ذیادہ نہ تھی۔۔ وہ بلکل ٹرانس کی کیفیت میں اسے دیکھ رہی تھی۔۔
جی جان آہان۔۔ وہ اس کے انداز تخاطب پہ مر مٹا ہی تو تھا۔۔ اس کے چہرے کے نقوش کو ہاتھ لگا کر دیکھتی وہ جیسے اپنے حواس میں نہیں تھی۔۔
یہ میں ہی ہوں جان یقین کر لو۔۔ اس کا ہاتھ کو ہونٹوں سے چھوتا وہ جیسے اسے یقین دلا رہا تھا۔۔ اور اسے یقین آ گیا۔۔ آنکھوں سے آنسو پھر سے نکل آئے۔۔
کہاں تھے۔۔ ہائے۔۔ کیسا شکوہ تھا۔۔ اس کی جدائی کی راتوں کی نہ تفصیل پوچھی نہ وجہ۔۔ پوچھا تو صرف اس کے دور رہنے کا ٹھکانہ۔۔
تمہارے دل میں۔۔ اس کے سر سے سر ٹکاتا وہ بولا۔۔ آخر وہ ظاہراً تو اس سے ناراض تھا لیکن اس کی ایک ایک پل کی رپورٹ اس کے پاس تھی۔۔
کیوں نہیں آئے پاس۔۔ ایک اور سوال۔۔
تم نے بلایا ہی نہیں۔۔ بلایا تو دیکھو آ گیا نا۔۔ اور سینیئر سے لڑ کر چھٹی لے کر آ گیا۔۔ اس کے ماتھے پہ اپنی محبت کی مہر ثبت کی۔۔
میں نے بہت مس کیا آپ کو۔۔ اب شکوے سے اقرار آ گیا۔۔
میں نے بھی۔۔ وہ اسے ابھی تک اپنے بازوؤں کے گھیرے میں لیے کھڑا تھا۔۔
اب نہیں جائیں گے نا۔۔ وہ جو سوچے بیٹھی تھی کہ جب وہ آئے گا تو اتنی شکایتیں کرے گی لیکن اس کے آ جانے سے لگا کہ بس اب یہی کافی ہے۔۔
بلکل نہیں۔۔ لیکن ایک شرط پہ۔۔
کونسی۔۔ حور نے اچھنبے سے اسے دیکھا۔۔
مجھے وہی حور واپس چاہیے۔۔ وہ شوخ دل وہ ہنسنے والی۔۔ اس کے بالوں کی لٹ پیچھے کرتا وہ اسے فرمائش کر رہا تھا۔۔
اسی حور کو آپ چھوڑ کر گئے تھے۔۔ نا چاہتے ہوئے بھی شکوہ آ ہی گیا تھا۔۔
ہاں پر وہ حور نا سمجھ تھی۔۔ اب سمجھتی ہے۔۔ اب مجھے یقین ہے کہ وہ اپنی زبان کو لحاظ کے ساتھ چلاتی ہے۔۔ اس کے گال کو چومتا وہ اسے مان بخش رہا تھا۔۔
اوکے منظور ہے۔۔ لیکن آپ کے ساتھ یہ کام نہیں کر سکتی۔۔ یا یوں کہہ لیں کہ آپ کے ساتھ وہ شرط اینڈ ہو جائے گی۔۔ اس کے گردن کے گرد بازو حائل کرتی وہ لاڈ سے بولی۔۔
اچھا جی۔۔ اور اگر کسی نے کہا کہ یہ ٹھیک نہیں تو تب۔۔ اس کے اپنے قریب کرتا وہ اب اس سے پوچھ رہا تھا۔۔ اگر وہ لاڈ کر رہی تھی تو وہ لاڈ اٹھانے کو بھی تیار تھا۔۔
کوئی کون ہوتا ہے کہنے والا۔۔ اور ویسے بھی۔۔ میرا فوجی میری مرضی۔۔ اپنی بات کے آخر پہ وہ آنکھ دبا کر بولتی ہنسی۔۔ اور اس کے ہنسنے پہ آہان بھی قہقہہ لگا کر ہنس پڑا۔۔
اب ان دونوں کو خوش رہنا تھا۔۔ حور نے تھوڑی سزا کے بدلے ذیادہ اجر پا ہی لیا تھا۔۔
ختم شد
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...