قصہ کوتاہ کام کندلا کے بچھڑنے سے مادھو نل کو بھی دکھ بھاری ہوا اور تیر عشق کا اس کے دل پر بھی کاری لگا۔ برہ کی تپ سے اس کی جان بے تاب جلنے لگی اور دم بہ دم منہ سے آہ نکلنے لگی۔ بن بن دیوانوں کی طرح پھرتا تھا۔ روتا اور آنسوؤں کے پانی سے سینے کے داغ دھوتا۔ درد جدائی کی شدت سے ایک پل اسے آرام نہ تھا۔ اضطرابی اور بے قراری کے سوا کچھ اور اسے کام نہ تھا۔ کبھی بین بجا کر اپنے سوکھے بدن میں مانند درخت خشک کے آگ لگاتا اور کبھی وہ بروگی اپنے من میں چنتا اس طرح کرتا تھا جیسے جوگی گورکھ کے گیان میں دھیان لگائے رہتا ہے۔ واقعی یہ سمندر فراق کا نہ کنارہ رکھتا ہے نہ تھاہ! احوال اس کا نہ بیان کیا جاتا ہے نہ لکھا۔ جو کوئی اس میں گرے، ہرچند کہ دانا ہو پر دین دنیا کی اسے مطلق خبر نہ رہے۔ اور برہ کا سانپ جس کو ڈسے وہ جیتا ہر گز نہ بچے۔ قسم ہے یہ جدائی کی آگ جس کو لگے نہ بجھے، بلکہ بھڑکتی ہی رہے۔ سو ہی آگ مادھو کے بھی تن میں لگی تھی۔ اس کے سوز سے جلتا ہوا صحرا بہ صحرا پھرتا تھا۔ بس کہ دل و جگر و پوست و استخوان جلتے تھے۔ سانس اس کے منہ سے دھواں سا نکلتا تھا۔ برہ کی ہوک دل میں اٹھتی تھی، آنسو آنکھوں سے بھر لاتا تھا۔اور ناتوانی اس قدر تھی کہ سوکھے پتے کی طرح جنگل کی باؤ سے کبھی ادھر جا پڑتا کبھی ادھر۔ اگر کانٹا پاؤں میں چبھتا تو اف بھی نہ کرتا پر درد فرقت سے ڈاڑھیں مار مار کر روتا۔
غرض اس کی آہ و زاری سے جنگل کے وحشی آرام نہ پاتے تھے اور درندوں گزندوں میں سے کوئی اُس کے پاس نہ آتا۔ اور جو کوئی آتا تو اس کی آگ کی لپٹ سے پھر بھاگ جاتا۔ اور اس برہ کے مارے کی یہ صورت تھی آنکھیں آنسوؤں سے بھریں، چہرہ زرد، ہاتھ پاؤں ٹھنڈے، جگر گرم، لہو خشک، مارے دبلاپے کے ہڈیوں میں چمڑا لگا ہوا، نہایت نڈھال، خستہ حال، نہ بھوک نہ پیاس، میلے کپڑے، جی اداس۔
قصہ کوتاہ اُسی حالت میں جوں توں اپنے تئیں سنبھال کر جی میں یہ کہنے لگا: “اگر اس بن میں درد جدائی سے مر جاؤں تو کام کندلا کو پھر کہاں پاؤں۔ اس سے بہتر یہ ہے کہ ایسے شخص کی تلاش کیجیے جو اپنے دکھ درد کو پہنچے اور کام کندلا سے ملا دے۔ جو لوگ دولت کو دیتے ہیں اور بیت دور کرتے ہیں، مشکل کے آسان کرنے والے ہیں اُن کا ہی نام جہاں میں روشن اور جینا بھی ان کا ہی لطف رکھتا ہے جیسے راجا رام چندر، راجا بھتری، راجا بل، راجا کرن تھے۔ حیف کہ ان میں سے کوئی نہیں جو میرے درد کو پہنچے اور اس دکھ سے چھڑاوے۔ مگر ایک راجا بکر ماجیت اُجین میں سنتے ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ اُس پاس چلیے، شاید وہ اپنے یہ درد دل کی دوا کرے اور اس بلا سے نجات ملے”۔
یہ سوچ کر بین اور برہ کو ساتھ لیے نیند، بھوک، پیاس بس لیے اُس جنگل کو چھوڑ اُدھر کا راستہ لیا۔ منزلیں طے کرتا، دن رات دکھ بھرتا چند روز میں متصل سواد اُجین کے جا پہنچا تو دیکھتا کیا ہے کہ ایک دریا موج مار رہا ہے اور سبزہ لہرا رہا ہے۔ از بس کہ اُس کے گرد و نواح میں کوئیں اور تالاب ہیں۔ باغ زراعت وہاں کے سر سبز و شاداب۔ وہاں سے آگے بڑھا تو شہر بہ درجہ آباد دلچسپ نظر آیا۔ بازار اُس کا نہایت خوش اسلوب اور عمارات حد سے زیادہ خوب۔ حویلیاں وہاں کی سونے سے منقش اور جواہر نگار۔ ہر ایک مکان رکھتا تھا نئی طرح کی بہار۔ کوٹھوں اور دیواروں پر سنہرے کلس جگمگا رہے تھے اور بادلے کے نشاں پھرا رہے تھے۔ بیت ؎
ہر ایک قصر ایسا عالیشاں
قصر قیصر کا پست ہوئے جہاں
اور لوگ وہاں کے تمام مال و منال سے ایسے آسودہ تھے کہ غنی غریب پہچانا نہ جاتا تھا۔