اسٹوڈنٹس کی آمد ورفت جاری تھی۔ یونیورسٹی میں گیمز کی تیاریاں چل رہی تھیں ہر کوئی اپنے اپنے پسندیدہ کھیل کو اور زیادہ بہتر کرنے میں لگا تھا، یونیورسٹی کہ وسط میں اسٹیج بھی بنایا گیا تھا جہاں مائق وغیرہ کا بندوبس کیا گیا تھا۔ ہر طرح کا کھیل کھیلنے کی پریکٹس جاری و ساری تھی۔ ہر کوئی کھیل میں خصہ لے رہا تھا سواۓ نین سکندر کہ وہ سارے منظر دیکھ کر انجواۓ کر رہی تھی
“نین یار تم کتنی بورنگ ہو کسی کھیل میں تم بھی پارٹ لے لو یار”، لنڈا نے اصرار کیا تھا۔”کھیل کر خود کو ہلکان کرنے سے بہتر ہے بندہ آرام سے بیٹھ کر دیکھے اور انجواۓ کرے”، وہ تسلی سے گراؤنڈ کی طرف دیکھتے ہوۓ بولی تھی جہاں ہر طرف رونق تھی۔
“ہیلو گرلز تم لوگ خصہ نہیں لے رہیں کھیلوں میں”
شہریار لنڈا کی کزن مایا کہ ساتھ اُن کہ سر پہ کھڑا پوچھ رہا تھا۔ نین نے فوراً اسے دیکھا تھا، اُس دن کہ بعد وہ آج یونی آیا تھا۔ نین نے مایا کو غور سے دیکھا تھا اور اُسکی یہ حرکت لنڈا نے دیکھی تھی۔ نین فوراً بیگ اُٹھا کر جانے کو تیار ہو گئی ۔شہریار نین کی خالت سے مخظوظ ہو رہا تھا، جبھی وہ جان بوجھ کر نین کو جلانے کی خاطر مایا کو بار بار مخاطب کر رہا تھا نین کو جاتا دیکھ کروہ پھر سے بولا،
“مایا سویٹ ہارٹ آج لنچ کہاں کریں”، مایا کہ چہرے سے بال پیچے کرتے ہوۓ شوخی سے گویا ہوا تھا۔ نین نے یہ منظر دیکھا تھا اور اُسکی آنکھیں گلابی پڑنے لگی تھیں، اُسنے فوراً رُح موڑ لیا۔
“سنو نین کہاں جا رہی ہو کیا تمہیں میرا اور مایا کا کپل اچھا نہیں لگا ،؟ ارے بندہ تعریف کہ دو لفظ ہی بول دیتا ہے اور تم پیٹھ پھیرے کھڑی ہو” وہ نین کی تڑپ دیکھنا چاہتا تھا۔ وہ مڑی اور شہریار کہ قریب آ کر اُسکی آنکھوں میں جھانکتے ہوۓ نارمل انداز میں کہا تھا
“بہت بہت مبارک ہو شہریار ملِک ” اور پھر دیکھے بنا وہاں سےچل دی۔اور شیری لاکھ کنٹرول کہ باوجود اپنی مسکراہٹ نا روک سکا۔
******=======*******
دوسرے سال کہ پیپرز بھی ہو چلے تھے۔پیپروں سے فارغ ہو کر جہاں سارے اسٹوڈنٹس نے سکھ کا سانس لیا وہیں نین کا کا رہا سہا سکون غارت ہوا تھا، جب ہانمپتی ہوئ لنڈا اس کہ پاس آئی اور بولی۔۔۔۔ “نین”۔۔۔نین جلدی چلو میرے ساتھ وہ”۔۔۔۔۔۔ وہ نین کا ہاتھ پکڑتے ہوۓ بولی تھی۔ “کیا ہوا لنڈا اتنی پریشان کیوں ہو؟سب خیریت ہے نا؟ کیا ہوا کیا ہے؟تمہارا رنگ کیوں اُڑا ہوا ہے”؟ نین جو کپڑے تہہ کر کہ الماری میں رکھ رہی تھی لنڈا کی اُڑی رنگت دیکھ کر گھبرا کر فوراً پوچھنے لگی۔
“نین شیری”۔۔۔۔۔ وہ بس اتنا ہی بولی تھی۔ “شیری؟کیا شیری؟ کیا ہوا شیری کو”؟ نین کہ ہاتھ پاؤں پھولنے لگے تھے۔
“شیری نے خودکشی کرنے کی کو۔۔۔کوشش کی ہے، وہ بہت سیریس کنڈیشن میں ہے” لنڈا روتے ہوۓ با مشکل اپنی بات پوری کر پائی تھی۔
“کیا”؟ نین کہ کان سائیں سائیں کرنے لگے ۔”نہیں ایسا نہیں ہو سکتا تمہیں کوئی غلط فہمی بھی تو ہو سکتی ہے؟ابھی کل ہی تو ملا تھا بلکل ٹھیک تھا۔پھر یو اچانک ایسے کیسے ہو سکتا ہے”اور پھر اُسے خیال آیا تھا کہ ابھی کل ہی تو وہ اُست دھمکی دے کہ گیا تھا کہ اگر وہ نا مانی تو وہ اپنی جان لے لے گا، اور کل کہ بولے گے الفاظ آج حقیقت کا روپ دھاڑے اُسکہ سامنے موجود تھے۔ اور پھر کپڑے اُسکہ ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے بیڈ پہ بکھر گے اور وہ خود بھی بیڈ کی پائنتی کہ ساتھ لگی بیٹھتی چلی گیئ۔ لنڈا کو نین کی زہنی خالت پہ شبہ ہوا تھا جبھی فوراً آگے بھڑ کر اُسے جھنجھوڑ ڈالا
“نین ہوش کرو میں کیوں جھوٹ بولوں گئ بھلا، اور یہ سب تمہاری وجہ سے ہی ہوا ہے۔محبت ہی تو کی تھی اُسنے کون سا گناہ کیا تھا پھر کس بات کی سزا دے رہی ہو اُسے، اگر محبت کرنا اتنا ہی بڑا گناہ ہے تو پھر تو اس دنیا سے محبت ختم ہو جانی چاہے، شیری کو اس خال میں پہنچانے والی صرف تم ہو”۔ لنڈا کو آج پہلی بار نین پر ٹوٹ کر غصہ آیا تھا
اور پھر کب کیسے وہ ہاسپیٹل پہنچی یہ وہ خود بھی نہیں سمجھ پائی ڈاکٹرز نے چوبس گھنٹے کا ٹائم دیا تھا۔ نین بےچینی سے باہر ٹہل رہی تھی جب اوپریشن ٹھیٹھر کا دروازہ کھلا اور وہ لپک کر ڈاکٹر کہ پاس پہنچی۔
“ڈاکٹر شیری کیسا ہے؟ وہ ٹھیک ہے نا؟
“آپ کون”؟ ڈاکٹر نے دریافت کرنا چاہا۔
“میں دوست ہوں شیری کی”
“آپ مل سکتی ہیں ” کہہ کر وہ آگے بھڑ گے تو وہ اندر کی طرف بھاگی
وہ بیڈ پہ لیٹا تھا آنکھیں موندھے۔ نین چلتی ہوئی اُسکہ قریب آئی اور پاس پڑے اسٹول پہ بیٹھ گی۔اور بغور اُسے دیکھنے لگی آنسو تھے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھے پھر آنسو صاف کرتے ہوۓ بولی
“شیری یہ۔۔۔یہ۔ ۔۔س۔۔۔ سب کیا کِیا تم نے کیوں کیا یہ سب؟ تم ایسا کیسے کر سکتے ہو ایک بار بھی نہیں سوچا میرا کیا ہو گا اے۔جے کا کیا ہو گا؟ ہم کیسے جیں گے تمہارے بغیر، کتنے خودغرض ہو تم آج بھی صرف اپنے بارے میں سوچا تم نے باقی کسی کی کیا پرواہ تمہیں سب جائیں بھاڑ میں۔۔۔ ہیں نا؟
میں جانتی ہوں یہ سب میری وجہ سے ہوا ہے، تم نے ٹھیک کہا تھا کہ میری محبت کی اتنی تزلیل مت کرو کہ پچھتاوے کا بھی موقع نا ملے، میں تمہاری گناہگار ہوں میں نے تمہاری محبت کی قدر نہیں کی آئی ایم سوری شیری، لیکن میں تم سے بےخد محبت کرتی ہوں، لیکن کبھی تم سے کہہ نہیں پائی، تمہیں پا کر بھی کھو دینے کہ احساس نے مجھے کبھی اس حقیقت کو قبول کرنے ہی نہیں دیا کہ میں بھی تم سے محبت کرتی ہوں۔پلیز شیری آنکھیں کھولو تم ایسے ہمیں چھوڑ کہ نہیں جا سکتے پلیز آنکھیں کھولو مجھے اپنی محبت قبول کرنے کا موقع دو “۔۔۔
“تو کرو نا قبول روکا کس نے ہے”؟
وہ اُس کہ داہنے پہ جھک کر بے بسی سے رونے لگی تھی۔جب شیری کی آواز پہ اُسنے سر اُٹھا کر اُسے دیکھا تھا۔اور وہ آنکھیں کھولے شیریر مسکراہٹ کہ ساتھ اُسے دیکھ رہا تھا۔
“شیری تم۔۔۔ تم ٹھیک ہو” وہ ایک دم سے بولی
“ہاں بلکل ایک دم فسٹ کلاس”وہ ایک دم سیدھا ہو بیٹھا
“شیری تم بیٹھ گۓ” اور پھر نین کو سمجھ آنے لگا تھا یہ سب مخض ایک ڈرامہ تھا۔ نین خود کو سرزش کرتی ہوئی اُٹھ کھڑی ہوئی، ڈاکٹر کا اُسے دیکھتے ساتھ اندر جانے کا کہنا، جب کہ مریز جب تک خطرے سے باہر نا ہو کسی کو ملنے کی اجازت نہیں ملتی پھر نین کو کیسے مل گئ اور دوسری بات اگر ایسا کچھ ہوتا تو اے۔جے یہاں موجود ہوتیں، نین کو وہ ساری باتیں اب سمجھ آرہی تھیں جنیں اُسے پہلے سمجھنا چاہیے تھا، پر وہ کیسے سمجھتی جب کہ خود اسکی دوست دشمنِ جانا کہ ساتھ ملی ہوئی تھی
“تم نے یہ سب ڈارمہ کیا تھا؟ دماغ خراب ہو گیا ہے تمہارا، جانتے ہو کتنا پریشان کر دیا تھا تم نے؟ کیسے کیسے خیال آ رہے تھے مجھے، تمہارے لیے ہر چیز مزاق ہے کیا شیری؟ مزاق بھی وقت کی نزاکت دیکھ کر کیا جاتا ہے، لیکن تمہیں کیا تم تو بس اپنا سوچتے ہو، انتہائی خودغرض ہو تم بات مت کرنا آئندہ میرے سے” کہہ کر وہ پلٹنے لگی جب شیری نے اُسکا ہاتھ تھام کر اُسے اپنی طرف کیا تھا اور وہ شیری کہ اُپر گرتی چلی گئی تھی۔
“یہ ڈرامہ صرف تمہارے منہہ سے اپنے لیے محبت کا اقرار کروانے کہ لیے کیا تھا، میں نے سوچا جب گھیی سیدھی اُنگلی سے نہیں نکل رہا تو انگلی ٹیرھی کرنی پڑے گی اور پھر کیا ؟یہ میلو ڈرامہ کرنا پڑا میں جانتا ہوں میرا طریقہ غلط تھا پر میں کیا کرتا تم بھی تو محبت کہ اقرار کو جنگ کا مہاز بنا کر ڈٹ گئی تھی مجبوراً مجھے یہ سب کرنا پڑا
لیکن جس کہ لیے یہ سب کیا اُسے پایا بھی تو ہے، آج تم نے خود اپنے منہ سے میری محبت قبول کی ہے”
نین کی کلائی تھامے محبت پاش نظروں سے نین کو دیکھنے لگا تھا۔
“تم بہت بُرے ہو شیری” تم نے ایسا مزاق کر کہ میرا بہت دل دُکھایا ہے، کوئی کرتا ہے بھلا ایسے وہ ناراض نظروں سے شیری کو دیکھتے ہو بولی تھی بل آخر اُسنے شیری کی محبت قبول کر لی تھی۔ وہ اب بھی غصے میں تھی اور غصہ کرنے والی بات بھی تو تھی، نین غصے سے پلٹنے لگی جب وہ بولا۔ میں نے مزاق کیا صرف تمہارے اقرار کہ لیے، لیکن لگتا ہے تم یہ سب سچ میں ہوتے ہوۓ دیکھنا چاہتی تھی۔تم سچ میں چاہتی تھی کہ میں جان سے گزر کر تمہیں اپنی محبت کا یقین دلاتا، تو چلو ٹھیک ہے تمہاری یہ حواہش ابھی پوری کر دیتا ہوں۔
نین نے تڑپ کر دیکھا تھا شیری چھری اپنی نبض پہ رکھے ہر حد پار کرنے کو تیار تھا۔نین فوراً آگے بھڑی اور ایک جھٹکے سے شیری کہ ہاتھ سے چھری چھین کر دور پھینکی اور چیخ کر بولی۔
بس کرو شیری خدا کیلیے بند کرو یہ مرنے مارنے کا کھیل، تمہارے لیے یہ سب کرنا آسان ہو گا لیکن ہمارے لیے یہ سب سہنا آسان نہیں ہے، بہت بُرے ہو تم بہت ساتھ ہی وہ ہچکیوں سے رو دی۔”ہاں وہ تو میں ہوں ہر تم سے تھوڑا کم” کہتے ہوۓ وہ کھلکھلا کر ہنس دیا تھا اور نین بھی روتے روتے چنپ کر ہنس دی “ویسے نین تمہیں کیا لگا میں سچ میں اتنا بےوقوف ہوں کہ تمہیں پانے کہ لیے دنیا چھوڑ دیتا ؟ جب کہ میری دنیا وقط تم ہی تھی”۔
نین کی آنکھوں میں جھانکتے ہوۓ وہ اب بھی اپنی محبت کا یقین دلا رہا تھا۔ اور وہ بس محبت سے اُسے دیکھ رہی تھی ساتھ ہی اُٹھنے لگی جب دوبارہ اسنے ہاتھ تھام کر پوچھا
“محبت کرتی ہو نا مجھ سے”؟ نجانے اُسنے یہ سوال کیوں کیا تھا نین نے اُسکی آنکھوں میں دیکھا اور پھر شرارت سے سر نفی میں ہلاتی ہوئی ہاتھ چھڑوا کر باہر بھاگ گئی تو ایک جاندار مسکرہٹ نے شیری کہ چہرے کا احاطہ کیا تھا۔
*****======******
شیری کہاں لے کر جا رہے ہو کچھ تو بتاؤ مسلسل ایک ہی سوال پوچھ پوچھ کر وہ تھک گئی تھی اور وہ بھی نین صبر کرو کہہ کہہ کر تنگ آ گیا تھا۔۔۔۔
اُف۔ف۔ف۔ف۔ شیری بتا بھی دو؟
اچھا بابا بس آ گیا؟؟
اُس نے نین کی آنکھوں سے پٹی ہٹائی تو نین نے آہستہ سے جالیدار پلکیں اُٹھا کر ارد گرد کا جائزہ لیا تو مارے خیرت کہ وہ شیری کا منہ دیکھنے لگی، جھیل کہ اس پار بڑی خوبصورتی سے ٹیبل سجایا گیا تھا اس کہ ساتھ سفید پردے ہوا کی وجہ سے پھڑ پھڑا رہے تھے، اس کہ ارد گرد مختلف کلر کی فیری لائٹس لگائی گئی تھیں۔ ارد گرد کا موحول اس قدر خوبصورت تھا نین نے ستائش بھری نظروں سے سارے منظر کا جائزہ لیا، ہلکی ہلکی ہوا کہ ساتھ بکھرتا خوبصورت گیت، موحول کو یک دم ہی خوشگوار بنا گیا تھا۔ شام کہ سُنہرے پل سورچ کی الویدہ ہوتی کرنوں میں ڈوبے کچھ اور ہی سما پیدا کر رہے تھے، جہاں سورج کی کرنیں الویدہ ہوتی دیکھائی دے رہی تھیں وہیں شام کی سیاہی بھی ہلکی ہلکی نیلے آسمان پہ پھیلتی جا رہی تھی۔وہ پیرس کی سب سے خوبصورت جھیل کا کنارہ تھا جسے شہریار نے اپنی محنت سے اور زیادہ خوبصورت بنا دیا تھا، جھیل کی سائڈوں پہ پڑا پانی ٹھنڈک کا احساس اُجاگر کر رہا تھا۔
شیری نے ہاتھ آگے بڑھایا تو نین نے دو پل اُسے بغور دیکھنے کہ بعد ہاتھ تھا لیا۔
وائٹ لمبی فراک جو کہ شیری کی پسند سے ہی وہ پہن کر آئی تھی میں راجاؤں کہ دور کی شہزادی معلوم ہو رہی تھی، شہریار نے بھی وائٹ پینٹ سوٹ پہن رکھا تھا ارد گرد کا ہر منظر سفیدی میں ڈوبا ہوا تھا پل بھر کہ لیے ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے پرستان سے شہزادی اور شہزادہ چھپکے سے دبے پاؤں زمیں پہ رقص کرنے اُترے ہوں۔ ایک دوسرے کہ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے جگ سے بیگانے اپنی دل کی سننے والے من موجی پنچھی ایک دوسرے میں کھوۓ ہوۓ دل کی تمام وسوسوں سے دور اپنی الگ دنیا قائم کیے ہوۓ دو پریمی لگتے تھے
وہ دھیرے سے نین کا ہاتھ تھام کر اُسے ٹیبل تک لایا اور پھر کرسی کھیچ کر اسے بیٹھنے کا کہہ کر خود واپس پلٹ گیا۔
نین اب تک ہر ایک چیز کو محبت بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ جب شیری واپس آیا۔ نین نے اُسکی آنکھوں میں دیکھا جہاں بہت کچھ جل بجھ رہا تھا گو کہ نظروں کی چمک آج بھی ویسی تھی جیسی نین سکندر نے پہلے روز دیکھی تھی۔ وہ کھڑا مسلسل نین کو محبت سے دیکھ رہا تھا نین کہ چہرے پہ خیا کہ ہزاروں رنگ بکھر گے تو اُسنے چہرے کا رُح بدل لیا۔
وہ آہستہ سے نین کہ قریب آیا اور گھوٹنوں کہ بل جھک گیا، نین کہ لیے یہ سب بہت نیا تھا لیکن جو بھی تھا ایک خوشنوما احساس اُسکہ رنگوپے میں ڈور گیا تو وہ اُٹھ کھڑی ہوئی لیکن نظریں ہنیوز شیری کہ وجیہہ سراپے پہ تھی۔
اُسنے جیب میں ہاتھ ڈال کر محمل میں لپٹی ڈیبیا نکالی اُسے کھولا اور نین کہ سامنے کرتے ہوۓ بولا
“نین سکندر کیا تم شہریار ملِک سے شادی کرو گی،؟ کیا تم میری ہو کر میری زندگی کی ہمسفر بنو گی”شیری کہ بولنے کی دیر تھی کہ پیچھے سے مدھم سا میوزک اُبھرنے لگا، شاید شیری نے پورا بندوبست کر رکھا تھا نین کو فلمی انداز میں پروپوز کرنے کا
نین کچھ نا بولی بس آہستہ سے ہاتھ آگے بڑھا دیا۔اب کسی انکار کی کوئی گنجائش ہی کہاں بچی تھی ۔اب کی بار انکار کا مطلب شیری کی موت ہی ہونا تھا اور وہ نین کو کیسے گوارہ تھا ۔جیسے وہ دل کی گہرائیوں سے چاہتی تھی اسے مرتا ہوا کیسے دیکھ سکتی تھی۔
شیری نے رنگ نین کی نازک انگلی میں ڈال دی اور ہاتھ پکڑ کر کھڑا ہو گیا ۔دو قدم چل کہ نین کہ قریب آگیا اتنا قریب کہ نین کی تیز تیز چلتی دھڑکنیں تک اُسے سنائی دے رہی تھیں۔وہ نین کی آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ مزید قریب آیا تو نین نے فوراً آنکھیں میچ لیں وہ اس وقت شیری کہ رحم وکرم پہ تھی وہ جانتی تھی کہ شیری کبھی ایسی ویسی حرکت نہیں کرے گا لیکن آج شیری کہ بڑتے قدموں کو نا روک سکی۔ شیری اسکہ کان کہ قریب جا کر ہلکی سی سرگوشی میں بولا تم دنیا کی سب سے خوبصورت لڑکی ہو نین سکندر۔۔۔۔۔ اور نین کا اٹکا ہوا سانس بخال ہوا تھا۔
نین نے آنکھین کھولیں تو شیری اُسے دیکھتے ہوۓ مسکرا دیا اور بولا
” نین سکندر تمہاری خیا میری جینے کی وجہ ہے۔ خیا سے پُرنور تمہارا یہ چہرہ مجھے غلط کام کرنے سے روک سکتا ہے لیکن غلط کام کرنے پہ آمادہ نہیں۔۔۔۔۔ محبت میں احترام لازم ہے، اور میں تم سے محبت کہ ساتھ ساتھ تمہارا احترام بھی کرتا ہوں، جیسے محبت میں شراکت قبول نہیں تو محبت میں تزلیل بھی گوارہ نہیں”۔وہ نین کو شانوں سے پکڑتے ہوۓ اعتماد سے بولا تو نین مسکرا دی۔۔اس کہ چہرے پہ چاندی بکھر گئی۔
*****========*****
ہاتھوں میں ہاتھ لیے دونوں ساحل کہ کنارے ننگے پاؤں قدموں کی چھاپ چھوڑتے جا رہے تھے۔لہروں نے ساحل سے ٹکرا کر اُدھم مچا رکھا تھا، تیز ہوا سے اُسکہ بال لہرا رہے تھے جنیں وہ بار بار کان کہ پیچھے کرتی باتوں میں مشغول تھی۔
“شیری ایک بات کہوں”؟
ہاں بولو میں تمہیں ہی تو سننا چاہتا ہوں” محبت سے کہا تھا۔
“مجھے تم سے محبت ہے لیکن اس کہ باوجود میں نے کبھی تمہاری محبت قبول نہیں کی اس کی صرف ایک ہی وجہ ہے، میں ڈرتی تھی کہ پاپا کبھی تمہیں ایکسیپٹ کریں گے یاں نہیں، میں بچپن سے ہی پاپا سے اٹیچڈ رہی ہوں میرے لیے دنیا کی ہر محبت سے اُپر پاپا کی محبت ہے، اور اگر کبھی پاپا اور تم میں سے کسی ایک کو چننا پڑا تو میں پاپا کی محبت کو تمہاری محبت پہ فوقیت دوں گی”۔ اُسنے تحمل سے بات ختم کر کہ شیری کو دیکھا تھا۔
“اس کا مطلب تمہاری ایک ہاں کہ لیے میں نے جو پاپڑ بیلے ہیں اب تمہارے پاپا کی ہاں لیے بھی وہی سب کرنا ہو گا”۔وہ شرارت سے گویا ہوا۔
“اُف شیری کبھی تو سیریس ہو جایا کرو ہر بات کو مزاق میں اُڑا دیتے ہو”۔وہ بلا ارادہ غصہ کر گئی۔
“ارے ارے رُکو تو سہی یار ایک تو تم غصہ بہت جلدی کر جاتی ہو” اُسکا ہاتھ تھامتے ہوۓ بولا تھا نین بس اُسے دیکھ کر رہ گئی جب وہ دوبارہ بولا
“نین سکندر تم صرف میری ہو اُپر والے نے میری لکیروں کہ ساتھ تمہاری قسمت جوڑی ہے اس بات کا مجھے یقین ہے، اور دیکھنے میں، میں اچھا خاصا صوبر سا بندہ ہوں تمہارے پاپا نا کر ہی نہیں سکتے “۔وہ ایک بار پھر سے مزاق میں بولا تھا۔
“میرے پاپا کو منانا اتنا آسان کام نہیں ہے، اسی لیے میں منا کر رہی تھی کیوںکہ دو پل کی قربت کی خاطر میں ساری زندگی کا روگ نہیں پال سکتی، ان چند دنوں کی قربت کہ بعد اگر جدائی کا ستم سہنا لکھا ہے تو مجھے یہ چند پل نہیں چاہیے، مجھے اپنی پوری زندگی صرف تمہاری قربت میں گزارنی ہے،محبت کہ ہزاروں پل صرف تمہارے سنگ بیتانے ہیں، اگر ایسا ممکن نہیں تو یہ چند پل مجھے نہیں چاہیے کہ بعد میں ساری زندگی کانٹوں پہ چل کر گزارنی پڑے”۔ نجانے کہاں سے آنسوؤں کاسیلاب سا اُمڈ آیا تھا اُس نے رح پھیر لیا تھا وہ شیری کہ سامنے کمزور نہیں پڑنا چاہتی تھی۔
“نین میری طرف دیکھو” وہ اُسکا رُح اپنی طرف موڑ کر اُسکا آنسوؤں سے تر چہرہ صاف کرتے ہوۓ گویا ہوا تھا۔
“تمیں اپنے شیری پہ بھروصہ ہے نا”؟؟
نین نے سر اُٹھا کر شیری کی چمکدار آآنکھوں میں دیکھتے ہوۓ اثبات میں ہلکا سا سر ہلایا تھا۔
“تو پھر یقین رکھو اس بات کا کہ تم صرف میری ہو میری ہی رہو گی، میں نے دو سال صرف تمہاری ہاں کہ انتظار میں گزارے ہیں، پھر بھلا تمہیں کسے کھو سکتا ہوں،میں کچھ بھی کروں گا تمہارے پاپا کو منانے کہ لیے، جب تک وہ ہاں نہیں کہیں گے میں کوشش کرتا رہوں گا کیونکہ میں ٹلنے والوں میں سے نہیں ہوں کہتے ہوۓ اسنے ہر بار کی طرح نین کہ چہرے سے الجھی الجھی لٹوں کو اسکہ کان کہ پیچھے اڑسا تھا فرق صرف اتنا تھا کہ ہر بار کی طرح اس بار نین کہ قدم پیچھے کی جانب نہیں اُٹھے تھے بلکہ اسے یہ سب محبت بھرا احساس بہت بھلا لگا تھا۔ شہریار کا چھونا پہلی بار اُسے اچھا لگا تھا اور پہلی بار اُسنے دل سے دعا مانگی تھی کہ کاش یہ وقت یہیں ٹھہر جاۓ یاں کاش یہ وقت ایسی اُڑان بھرے کہ ایسی جگہ لے جاۓ جہاں ملن کی گھڑیاں بے صبری سے ان کہ ایک ہونے کا انتظار کر رہی ہوں اور کاش یہ وجیہہ سا مکمل مرد ہمیشہ کہ لیے اسکا ہو کر اسکی زندگی کا ہمسفر بن جاۓ۔
“ایسے کیا دیکھ رہی ہو” نین کو اپنی جانب مکمل دیکھتا پا کر وہ بولا ۔
“کچھ نہیں” وہ بھی چینپ کر مسکراتے ہوۓ بولی تھی جبکہ اندر ہی اندر اپنی حرکت پہ خود کو لان تان کر رہی تھی۔
“ویسے نین سکندر تمہیں ماننا پڑے گا کتنی چلاک ہو تم، محبت تو تمہیں تھی ہی پھر دو سال تک مجھ غریب کو کیوں لٹکا کہ رکھا کس جنم کا بدلہ لے رہی تھی تمہیں میری معصوم سی شکل پہ بھی رحم نا آیا”۔وہ شریر انداز میں بولا تھا۔
“کس خوش فہمی میں ہو شہریار ملِک محبت تو مجھے اب بھی نہیں ہے تم سے، یہ تو بس تمہاری جان کہ صدقے ماننا پڑا” وہ بھی شہریار کہ ساتھ کا اثر پا کر کافی خد تک شریر ہو گئی تھی۔
“اچھا تو پھر ٹھیک ہے اگر تمہیں محبت نہیں ہے تو کوئی بات نہیں، کیونکہ مایا ابھی ویٹنگ پہ ہے پھر اُسکا دل کیو توڑوں اسی سے شادی کر لیتا ہوں ٹھیک ہے نا؟ ویسے تمہیں بھی تو مایا کافی پسند ہے نا؟
“جان نکال دوں گی تمہاری بھی اور تمہاری مایا کی بھی” وہ ہلکی سی چت شیری کہ چوڑے شانے پہ لگاتے ہوۓ بولی تھی اور شیری نین کہ غصے سے مظوظ ہوتا
ہنس دیا۔ نین ناراضگی سے آگے آگے چلنے لگی تو شیری بھی مسکراہٹ دباتا ہوا اُسکہ پیچھے لپکا۔محبت میں شراکت کب قبول ہوتی ہے بھلا۔۔۔۔
تین فروری، دوپہر بارہ بجے
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...