(Last Updated On: )
سنگاپور میں صبخ کا سورج نکلا تو پاکستان سے آۓ مسافروں نے واپسی کی راہ لی ۔
لیکن وہاں بڑی خاموشی خاموشی تھی جسے اے۔کے نے نوٹ کیا تھا۔_”
سوٹ کیس دھکیلتا وہ ریسیپشن پر پہنچا جہاں اس کی سیکٹری اپنے سوٹ کیس کے ساتھ اس کا انتظار کر رہی تھی۔
سارے بل کلیئر ہو گۓ ہیں سر چلیں۔۔!! اس دیکھتے ہی سیکٹری نے کہا۔۔
حیاسدوانی اور اس کی سیکٹری کو بھی انفارم کر دو ان کی بھی فلائیٹ ہو گی۔۔موبائل چیک کرتا اے۔کے مصروف سے انداذ میں بولا۔۔
وہ دونوں تو رات میں ہی چلی گئ تھیں کہاں گئ ہیں یہ نہیں پتہ۔۔سیکٹری نے اسے آگاہ کیا۔۔
اوکے لیٹس گو_”سوٹ کیس گھسیٹتا موبائل پر مسکراتے ہوۓ کچھ ٹائپ کرتا وہ ہوٹل کا گلاس ڈور کھولتا پارکنگ کی طرف بڑھ گیا۔۔جہاں سے گاڑی کے ذریعے ایئرپورٹ پہنچنا تھا اس نے۔۔
___________________________________________________________________________________________________
میٹنگ روم میں کھڑا وہ پراعتماد انداذ میں اپنی پڑیزینٹیشن دے رہا تھا۔
سب لوگ سانس روکے اکے سن رہے تھے۔،”!!!
تبھی اس کی نظر بار بار بھٹک کر موبائل پر چلی جاتی جو بار بار بلنک کر رہا تھا۔____
ایک گھنٹے بعد میٹنگ ختم ہوئ تو وہ اپنا
موبائل فون لیئے پیون کو فائیلیں کیبن میں پہچانے کی تلقین کرتا اپنے آفس روم میں آ بیٹھا۔۔،”
موبائل چیک کیا تو رخشندھ بھیگم اور سائرہ کی چالیس مِس کالز تھیں۔۔۔
اس نے فکرمندی سے جلدی جلدی سائرہ کا نمبر ملایا۔۔
جی بھابھی خیریت ہے۔۔
جی جی صیح میں آتا ہوں۔کال منقطع کرتا گاڑی کی چابیاں گلاسز پہنتے وہ آفس سے باہر نکلا۔۔
گاڑی سٹارٹ کر کے کاظمی خویلی کو جانے والے رستے پر بڑھا دی۔۔آدھے گھنٹے کی ریش ڈرائیو کرتے پہنچا تھا۔۔_”:
اس کی گاڑی کے ہارن پر چوکیدار نے گیٹ کھولا تو اس کی گاڑی دھول اڑاتی ایک جھٹکے سے رکی۔۔۔
گاڑی سے اترتا وہ تیزی سے اندر کی جانب بڑھا جہاں رخشندہ بھیگم آگ بنی بیٹھیں تھیں۔_’
کیا ہوا بھابھی اتنی جلدی میں بلایا آپ نے خیریت تو ہے۔_”‘ اساور نے پریشانی رخشندہ بھیگم سے توچھا۔۔
تمہاری آوارہ بیوی نے میری بیٹی کو اتنا خودسر کر دیا ہے کہ باہر جاتے ہوۓ ماں سے پوچھنا تو دور بتانا بھی گوارہ نہیں کرتی۔۔_”,رخشندہ بھیگم کا بس نہ چل رہا تھا کہ سامنے دانین ہو اور اس کا سر پھوڑ دیں۔۔
سومو کہیں گئ ہوئ ہے بھابھی۔_”اساور ان کے آگ بھگولہ ہونے کی وجہ سمجھ نہ پا رہا تھا۔۔
آپ کی بیوی صاحبہ سیرسپاٹے کو ساتھ لے گئ ہے تین گھنٹے ہو گۓ واپس نہیں آئیں۔۔_”پاؤں گھسیٹتی سائرہ صوفے پر بیٹھ گئ۔۔
کیا تین گھنٹے ہو گۓ ہیں آپ نے کال کی سومو کو۔_” اساور بھی ایک دم پریشان ہو اٹھا۔۔
تبھی گاڑی کے ٹائروں کی چڑچڑاہٹ گونجی_” کچھ پل بعد سومو اور دانین اندر داخل ہوئیں۔سومو اور دانین کے چہروں پر ایک دلکش مسکراہٹ تھی۔_”‘
مل گئ آوارگی سے فرصت میری بیٹی کو بھی آوارہ کر دیا ہے تو نے آوارہ لڑکی۔_”‘ رخشندہ بھیگم دیکھتے ہی شروع ہو گئ تھیں۔
ماما کیا ہو گیا ہے اتنی غلط باتیں کیوں کر رہی ہیں۔_”‘ ۔سومو کو صدمہ ہوا تھا اس کی ماں کی زبان کتنی غلط ہو گئ تھی۔
دانین کی مسکراہٹ بھی سمٹ گئ تھی۔۔
کہاں تھی تم منع کیا تھا جب میں نے ایک قدم گھر سے باہر نہیں نکالو گی تو کیوں گئ تم۔۔”اساور غصے سے دانین کی طرف بڑھا تھا۔۔
تم باپ بننے والے ہو اساور۔_” اس کا ہاتھ تھام کر دانین نے بہت مان اور مخبت سے کہا تھا۔_”،
اساور ساکت ہوا تھا پل بھر کو ہونٹ مسکراۓ اور پھر وہی معمول کی سنجیدگی۔_”
رحشندہ بھیگم کی تو مارے حیرت کے آنکھیں باہر نکل آئ تھیں۔_”
سائرہ ناگواری سے منہ بناتی تیزی سے ذہن میں کچھ تانے بانے بن رہی تھی۔_”‘
سومو نے اپنے چچا کو دیکھا کہ باپ بن کر چنگیز خان پگھل جاۓ وہ کیا چیز تھا۔_”‘_۔
بکواس کر رہی ہے چاچو۔۔کچھ تانے بانے بنتی سائرہ کچھ فسادی سا سوچتے ہوۓ ایک دم بولی۔۔
آپی یہ رپورٹس گواہ ہیں۔_”سومو نے رپورٹس دکھائیں۔۔
یہ پچہ سعدی کا ہے۔_”‘ سائرہ نے سب کے سروں پر دھماکہ کیا تھا۔اساور تیزی سے پلٹا تھا سومو نے دکھ اور دانین نے صدمے سے اس کی طرف دیکھا۔۔
سائرہ زبان سنبھال کر سعدی بھائ ہے میرا۔_”، دانین کی آنکھ سے آنسو نکلا تھا۔۔۔
سگا تو نہیں ھے نا جیسے وہ چاچو کا کزن ہے ویسے ہی تمہارا بھی کزن ہے۔_”؛ سائرہ دل جلا رہی تھی اس کا۔۔
اور آپ خود بتائیں چاچو سعدی سے ملنے آپ سے چھپ کر نہیں جاتی رہی اور سوچیں اس کو سزا ہو جاۓ گی اس بات پر اس کے دل کو کیوں تکلیف ہو رہی ہے۔_”‘ سائرہ ایک کے بعد ایک پتہ پھینک رہی تھی۔_”
اساور تم میرے اور سعدی کے رشتے کی پاکیزگی کے گواہ ہو تم کچھ بولتے کیوں نہیں۔_” دانین نے اساور کے بازوؤں تھامے،دانین کی آنکھوں میں آس امید مان سب کچھ تھا۔_”
صیح تو کہہ رہی ھے سائرہ تمہارا کزن ھے وہ بھی اور کزن بھائ نہیں ہوتا _”‘
دانین نے ایک دم اساور کے بازوؤں سے ہاتھ ہٹاۓ وہ ساکت سی اسے دیکھے جا رہی تھی آنسو سیلاب بن کر اس کی آنکھوں سے بہہ رہے تھے۔_”،
کچھ تو خدا کا خوف کریں چاچو۔_”، سومو نے باقائدہ ہاتھ جوڑے تھے۔۔
سومو تم جاؤ یہاں سے تم نہیں سمجھتی _”،_رخشندہ بھیگم نے غصے سے کہا۔۔
سب سمجھتی ہوں میں سب کچھ۔_” آپ سب نے مجھ سے کیوں نہیں پوچھا میں سعدی کی اتنی طرفداری کیوں کرتی ہوں اس دن پی۔سی ہوٹل کال کر کے سعدی کو وہاں سے چلے جانے کا میں نے کیوں کہا تھا۔_”سومو روتے ہوۓ چلّا رہی تھی۔اساور نے بےیقینی سے اسے دیکھا وہ تو سمجھا تھا یہ دانین نے کیا ہے۔_”،
سب نے دانین کو ہی کٹہرے میں کیوں کھڑا کیا مجھ سے سوالات کیوں نہیں کیئے گۓ ہاں ۔انصاف چاہیئے تو انصاف کرنا بھی سیکھو مگر افسوس امان بھائ کے علاوہ کاظمی خون میں مخلصی نہ دیکھی میں نے۔۔_”،
کہنا کیا چاہتی ہو تم سومو۔_”،_اساور نے اس کی طرف دیکھا۔۔
محبت کرتی ہوں میں سعدی سے اور اتنی محبت کہ وہ جو کہے میں آنکھیں بند کر کے مان لو اس طرح ٹکے ٹکے کے لوگوں کی باتوں پر کان نہ دھروں۔_”_
میری محبت بچپن کی نہیں ہے کچھ سال ہی پرانی ھے مگر آپ کی برسوں پرانی کھوکھلی محبت سے بہت مظبوط ہے۔_”_
سومو کے لہجہ آنسوؤں سے بھرایا مگر مظبوط تھا۔_”_
سومو وہ قاتل ہے تمہارے بھائ کا۔۔سائرہ بھی چلّائ تھی۔۔
سنا نہیں اتنی محبت کرتی ہوں اس سے کہ ٹکے ٹکے کے لوگوں کی باتوں کو سیرئیس نہیں لیتی۔۔سومو نے خقارت سے سائرہ کی طرف دیکھا سائرہ کو تو گویا آگ ہی لگ گئ تھی۔۔
فِٹے منہ تیری اس محبت کا جو میرے بیٹے کے قاتل سے ھے تجھے _”_رخشندہ بھیگم نے ایک زوردار تھپڑ سومو کو مارا وہ لڑکھڑا کر فرش پر گِری تھی۔۔
چاہے تمہیں اس سے محبت ہو سومو پر پھر بھی مجھ پر اس کا قتل فرض ہے اس کی سانسیں میرے ہاتھوں ہی حتم ہوں گی آئ سوئیر۔۔اساور سفاکی سے بولا۔
اور میں اسے بچا لوں گی آپ کی قسم اساور کاظمی ۔۔سومو نے زخمی مسکراہٹ کے ساتھ سارے لخاظ بالاۓ طاق رکھے۔۔
مرے ہوۓ سے اتنی محبت کہ زندوں کو جلا دیتے ہو واہ_!! اساور کاظمی کمال کرتے ہو ۔۔_سومو کو سہارا دے کر اٹھے دانین دکھی لہجے میں بولی۔۔
اسے چھوڑو بی بی اس گناہ کی پوٹلی کا کچھ کرو۔قاتل کے اولاد اس گھر میں نہیں پلّے گی۔_” سائرہ اپنی بھراس نکال رہی تھی۔۔
اساور کی اولاد ہے یہ۔۔دانین تیزی سے بولی۔۔
نہیں ہے یہ اساور کی اولاد سمجھی تم۔۔_:! رخشندہ بھیگم بھی اسی تیزی سے بولیں۔۔
آپ کو پتہ ہے اساور کے جانے کا کاظمی خویلی کو بہت نقصان ہوا ہے چچچچچ۔_! دانین نے افسوس سے گردن ہِلائ۔
کاظمیوں کا ونچ آگے نہ بڑھ پاۓ گا کیوں کہ وہ اکیلا مرد تھا اس کے بعد تو کوئ مرد بچا نہیں اور نامردوں سے نسلیں نہیں چلتیں۔دانین نے جلا دینے والی مسکراہٹ اساور کی طرف اچھالی۔۔
دانین۔۔__!! اساور نے تھپڑ مارنے کو ہاتھ اٹھایا ہی تھا کہ ہاتھ ہوا میں ہی رک گیا۔۔
انصاف چاہنے والو۔۔!! فار یوؤر کائینڈ انفارمیشن وومین وائیلینس از کرائم ۔ابھی پولیس کو بلا لوں گی تین چار ماہ کو اندر نام پیسہ شہرت سب پھر ٹائیں ٹائیں فِش ۔لوگ ہنسیں گے کہ دیکھو کیسا بندہ ہے دکھتا کچھ اور ہے اور ہے کچھ اور۔۔سومو نے اس کا ہاتھ پکڑ کر جھٹکا تھا۔۔اساور نے حیرانی سے اپنی لاڈلی کو دیکھا تھا۔۔_”_
چلو دانین۔۔!! دانین کا ہاتھ تھامے سومو کمرے میں چلی گئ۔۔
سائرہ کا تو غصے سے برا حال تھا سومو کے آج کے رویئے نے اساور کو تو صدمہ لگا دیا تھا۔۔
اور رخشندہ بھیگم سوچ رہی تھیں ایک قتل واجب ہوتا تو وہ دانین کا پتہ صاف کرتیں۔۔ _’_’_
___________________________________________________________________________________________________
موم میں نے کہا بتائیں عینا کہاں ہے۔۔وہ جب سے لوٹی تھی عینا کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک گئ تھی مگر وہ نہ ملی۔۔
بیٹا آپ کیوں انٹرفئیر کر رہی ہو اس کی لائیف میں اس نے جہاں جانا تھا چلی گئ بات ختم۔۔”__اس کا باپ اسے سمجھاتے ہوۓ بولا مگر وہ سمجھنے والوں میں سے نہ تھی۔۔
جب میں نے کہا تھا اسے روم سے باہر مت نکالیئے گا تو کس نے نکالا۔۔اس کا غصہ شانت ہونے کو نہ تھا۔۔
میں نے نکالا اور بھگا دیا اسے آؤ مار دو اپنی ماں کو۔۔_”_ اس کی ماں آنسو صاف کرتے بولیں۔۔
اِنف۔۔۔مینا نے ایک زوردار ٹھوکر صوفے کو ماری تھی پاؤں میں درد کی شدید لہر اٹھی مگر درد پر غصہ غالب آ گیا۔۔
بیٹا ٹھنڈے دماغ سے سوچو وہ بہن ہے تمہاری وہ اچھی زندگی اپنے شوہر کے ساتھ گزارے تو تمہے خوشی ہونی چاہیئے۔۔
باڑ میں گئ خوشی کسی سے بھی کرتی بس محبت کر کے شادی نہ کرتی تو بہت خوشی ہوتی مجھے لیکن لو میرج ماۓ فٹ۔۔وہ جنونی ہو رہی تھی۔۔
بیٹا بھول جاؤ وہ سب ختم کرو سب زندگی کو نۓ ڈنگ سے گزارو خوش رہو بیٹا۔۔
نۓ ڈنگ سے گزاروں اگنور کیئے جانے ریجیکٹ کیئے جانے کا دکھ سمجھتے ہیں آپ۔۔ میں سمجھتی ہوں یہ دکھ سولہ سال کی عمر میں سہا میں نے اس دکھ نے اس آگ نے میرے دل کو دہکتا لاوا بنایا ہوا ہے جس میں ہر محبت زدہ کو جدائی کا دکھ سہنا ہو گا میرے دل میں لگی آگ محبتوں کو بھسم کرے گی۔۔وہ ہسٹریانی انداذ میں چیخ رہی تھی۔۔
مجھے نہیں ملی محبت تو محبت کسی کو بھی راس نہ آنے دوں گی میں۔۔
بیٹا اس یک طرفہ محبت کے بوجھ سے خود کو آزاد کرو دیکھو دنیا خوبصورت ہے بہت۔۔۔
کیا کمی تھی مجھ میں جو مجھ سے محبت نہیں کی گئ اور کیا ہی خاص بات ہے عینا میں جو کوئ اس سے محبت کر بیٹھا۔۔
میں بھی تو خوبصورت ویل ایجوکیٹڈ ہوں پھر مجھے کیوں ٹھکرایا گیا میری کاسہ محبت کی بھیک سے کیوں محروم رکھا گیا۔۔وہ سر پکڑ کر صوفے پر ڈھے گئ تھی۔۔
مینا میری بچی محبت دلوں کا سودہ ہے زبردستی کا نہیں ۔اس شخص کے علاوہ اور بھی بہت سے لوگ ھیں دنیا میں تم اِدھر اُدھر دیکھو تو صیح ۔
اور میں نے اس شخص کے علاوہ کسی کو ایک نظر دیکھنا بھی تو نہیں چاہا۔وہ ایسا شخص تھا جو زندگی سے چلا تو گیا مگر اس کے بعد بھی مجھے کوئ اور نظر ہی نہیں آیا میں کبھی نہیں نکل سکتی اس شخص کی محبت سے۔
وہ شخص وہ تھا جس کی وجہ سے مجھے دنیا میں مردوں کی کمی لگتی تھی کہ ایک ھی مرد کے سوا میری آنکھوں نے کبھی کسی کو دیکھا ہی نہیں۔۔وہ بےبسی سے بول رہی تھی درد اس کے لہجے میں نمایاں تھا۔۔
اس کے ماں باپ اس کی تکلیف محسوس کر رہے تھے۔مگر وہ ایسا ہی دکھ جو بڑی بیٹی کو کھا رہا تھا چھوٹی کو نہیں دینا چاہتے تھے۔۔
چلیں ہمیں یہاں سے جانا ہو گا میں لوگوں کو فیس نہیں کر سکتی جلدی جلدی پیکنگ کریں۔۔وہ کہتی تیزی سے اپنے کمرے کی طرف بھاگی تھی۔۔
_
آج پھر ایک بار انہیں اپنا گھر چھوڑ دینا تھا صرف اور صرف مینا کے لیئے۔۔__
___________________________________________________________________________________________________
سعدی بیٹھا نوٹس بنا رہا تھا اگلے ہفتے سے ان کے ایگزام ہو رہے تھے۔
امان تو عینا کے ساتھ انجواۓ کر رہا تھا مگر سعدی ہمیشہ کی طرح محنت کر رہا تھا۔۔
امان اللہ لوگوں کا فیملی بزنس تھا جو کئیں دوسرے ممالک تک پھیلا ہوا تھا مگر سعدی کو محنت کر کے اپنے لیئے ایک مقام خاصل کرنا تھا۔۔
گریجوئیشن کے بعد وہ سی۔ایس۔ایس کرنا چاہتا تھا اس کے باپ کی یہ خواہش تھی جو سعدی پوری کرنا چاہتا تھا۔۔
ابھی بھی بیٹھا وہ ایگزام کی تیاری کر رہا تھا جب اس کا موبائل فون بجا۔۔
اس نےنمبر دیکھا تو unknown تھا۔۔
کندھے اچکاتے اس نے موبائل کان سے لگا۔ہاتھ تیزی سے کاپی پر چل رہے تھے جس پر بال پین سے وہ کچھ لکھ رہا تھا۔۔
کیوں تنگ کر رہے ہیں مجھے۔۔_؟؟ معصوم سے لہجے میں سوال کیا گیا۔۔
“_سعدی نے موبائل کان سے ہٹا کر حیرانی سے دیکھا کاپی پر لکھتا ہاتھ رکا تھا۔موبائل اس نے دوبارہ کان سے لگایا۔۔
میں نے کب تنگ کیا تمہیں۔۔وہ اس آواز کو لاکھوں میں پہچانتا تھا۔۔
آپ کر رہے ہیں مجھے تنگ۔۔سومو منہ پھلاۓ ایک ہی بات کیئے جا رہی تھی۔۔
اچھا کیسے تنگ کیا میں نے تمہیں۔۔وہ کرسی سے ٹیک لگا کر کاپی بند کرتا مسکرایا تھا۔۔
کتاب کھولتی ہوں تو اس میں آپ نظر آ رہے ہو۔ مِرر دیکھتی ہوں تو آپ دکھتے ہو سوتی ہوں تو آپ خواب میں آ جاتے ہو اسے تنگ کرنا ہی تو کہتے ہیں۔۔سومو کا معصوم منہ پھولا ہوا تھا جیسے وہ بےبس ہو کر فون کر بیٹھی ہو۔۔
اسے محبت کا آشکار ہونا کہتے ہیں جو تم پر ہو رہی ہے۔۔سعدی ہولے سے بولا۔۔
کیا مم محبت۔۔وہ ہکلائ تھی شائد گھبرائ تھی یا شرمائ تھی سعدی انداذہ نہ لگا پایا تھا۔۔
ہاں محبت کا نزول ہو رہا ہے تم پر چاہے آہستہ آہستہ ہی سہی ۔اور مقدس چیزیں آہستہ آہستہ نازل ہوتی ہیں۔۔سومو کی طرف حاموشی چھا گئ تھی۔۔
سومو سن رہی ہو۔۔!! اس کی خاموشی وہ محسوس کر رہا تھا۔۔
تو آپ کہہ رہے ہیں مجھے آپ سے محبت ہو گئ ہے۔۔__؟؟
یہ تو تم بتاؤ گی نا۔۔بتاؤ ہو گئ ہے۔۔
وہ سائرہ آپا اِدھر ہی مجھے آوازیں دیتی آ رہی ہیں سعدی میں آپ سے بعد میں بات کرتی ہوں۔۔سومو نے عجلت میں فون کاٹ دیا۔۔_”
سعدی کتنی دیر تک فون کو تکتا اس کی آخری بات کو سوچتا رہا تھا آج وہ نہ کہتے ہوۓ بھی کہہ گئ تھی۔
سعدی بھائ کی جگہ صرف سعدی کہا گیا تھا محبت اثر دکھا رہی تھی۔۔
___________________________________________________________________________________________________
اس دن کے بعد سے اے۔کے کو حیاسدوانی کہیں نظر نہ آئ تھی۔
بزنس وائینڈاپ کر کے وہ کہاں چلی گئ کسی کو نہیں پتہ تھا۔
” اے۔کے کو تھوڑا گِلٹ تھا کہ حیا کی کچھ ذیادہ انسلٹ کر دی مگر پھر وہ بھول گیا کوئ حیا بھی تھی”_
آج وہ بہت خوش اتنا خوش کہ خوشی کا کوئ پیمانہ اس کی خوشی کو نہ ماپ سکتا تھا۔
سائرہ کے ولیمے کے ساتھ ہی آج اس کی منگنی تھی اس لڑکی سے جسے وہ بےانتہا چاہتا تھا۔_”
ولیمے کا فنکشن شہر کے مشہور ہال میں تھا ۔لوگوں کی آمد آمد تھی۔
دو دو رسمیں تھیں تو مہمان بھی ذیادہ تھے۔
سائرہ کا شوہر طیب اور اساور کاظمی عرف اے۔کے دونوں بلیو تھری پیس سوٹ میں اسٹیج پر بیٹھے اپنی دلہنوں کا انتظار کر رہے تھے۔۔”_
آمنے سامنے دو اسٹیج بناۓ گۓ تھے جن کو سفید اور سرخ گلابوں کے امتزاج سے بہت خوبصورتی کے ساتھ سجایا گیا تھا_”
تھوڑی دیر بعد مین انٹرنس پر شور اٹھا تھا ۔پھولوں کی برسات تلے سہج سہج کر چلتی وہ دونوں کہیں کی اپسرائیں معلوم ہوتی تھیں۔۔
دانین جمشید علی عرف ڈی۔جے گولڈن رنگ کی میکسی کے ساتھ دوپٹہ سر پر سلیقے سے رکھے ہم رنگ جیولری پہنے سیدھی اساور کے دل میں اتر رہی تھی۔۔۔۔۔۔””_’
جبکہ سائرہ نے ہلکا گلابی لہنگا زیب تن کیا ہوا تھا جس کے ساتھ میچنگ جیولری پہنے دوپٹہ سر پر ٹکا کر ایک طرف سے کمر پر اور ایک طرف سے دائیں کندھے پر بچھایا ہوا تھا۔۔___'”
دونوں چلتی ہوئ اسٹیج کے پاس پہنچی تو طیب اور اساور نے مسکراتے ہوۓ جھک کر ہاتھ آگے بڑھا اور سہارا دیتے ہوۓ صوفے تک لا کر اپنے بٹھایا اور خود بھی پہلو میں بیٹھ گۓ۔۔
سائرہ کے شوہر طیب کی ٹریول ایجنسی تھی اچھی خاصا امیر بندا تھا وہ اس لیئے سائرہ نے بھی کوئ اعتراض نہیں کیا اور دوسری بات رشتے کے لیئے ہاں کی یہ تھی کہ وہ خالہ زاد بھی تھا ورنہ شہزادی سائرہ کاظمی کے مزاج کہاں ملتے تھے ہر کسی سے۔_”_
سب بہت حوش تھے خوشی سب کے چہروں سے جھلک رہی تھی۔۔
امان سب کی تصویریں اتار رہا تھا۔جبکہ سعدی کا فون صرف سومو کے گرد گھوم رہا تھا جسے وہ اچھے سے نوٹ کر رہی تھی اور مسکرا بھی رہی تھی جس سے سعدی کو اپنی کشتی کنارے لگنے کا خوصلہ ہوا تھا۔
“مرد خوصلے کی رسی مظبوطی سے تب پکڑتا ہے جب عورت اپنی مسکراہٹ سے وہ رسی اس کی طرف بڑھاتی ہے۔””
خوش ہو۔_”_ اساور نے دانین کے مسکراتے چہرے کی طرف دیکھ کر پوچھا۔_”_
ہاں دِکھ نہیں رہا تمہیں ناچوں تب پتہ لگے گا۔۔دانین نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ تپ کر کہا۔۔
گُڈ آئیڈیا یار ڈانس کریں ہم دونوں ساتھ۔وہ بچوں کی طرح خوش ہوا تھا”_”_
خوف کرو جو امیج لوگوں کی نظر میں تمہارا بنا ہوا ہے وہی رہنے دو فِری میں شوخے ہو کر چھچھوری خرکتیں نہ ہی کرنا۔۔۔دانین نے ہری جھنڈی دکھائ۔_”_
اوکے مائ لارڈ۔۔_”_اساور نے سینے پر ہاتھ رکھتے ذرا جھک کر کہا تو وہ ہنستی چلی گئ تھی دھنک جیسی ہنسی۔۔وہ مبہوت سا اسے دیکھے گیا تھا۔۔
___________________________________________________________________________________________________
ہاۓ آج تو بڑے بڑے لوگوں نے ہمارے غریب خانے کو رونق بخشی ذہے نصیب ذہے نصیب۔۔وہ رخ موڑ کر کھڑی ڈرائینگ روم کی دیوار پر قدآور فوٹو فریم دیکھ رہی تھی جب آواز پر پلٹی۔
وہ سینے پر ہاتھ رکھے جھک کر کھڑا تھا۔،”_وہ نہ چاہتے ہوۓ بھی کھلکھلا کر ہنس دی تھی۔۔
کیا ہنستی ھو یار چاہے میں جتنا جھوٹا بندہ سہی مگر قسم سے ہنستے ہوۓ تم اپسراؤں کو مات دیتی ہو۔۔ایک گھٹنے کے بل بیٹھتے اس کا ہاتھ تھامتے ہاتھ کی پشت پر بھوسہ دیا۔۔
فلرٹی طبیعت تمہاری ختم نہ ہوئ ابھی تک _”_ وہ ایک ادا سے بولی تھی۔_
ہاۓ میری جان یہ فلرٹ باقی دنیا کی لڑکیوں کے لیئے تمہارے لیئے تو بندہ ہر پل تن من دھن سے خاضر ہے۔۔وہ ہونٹوں کو ٹیڑھا کرتا خباثت سے بولا۔۔
مجھے بھولے نہیں ہو ابھی تک میں سمجھی نام بھی یاد نہ ہو گا۔۔اس نے انگلی کو اس کے چہرے پر پھیرا۔۔
میں تم کو نہ بھلا پاؤں میری جان میری مینا۔۔_!! اس نے مینا کو کمر سے کھینچ کر اپنے بےحد قریب کیا۔۔
مینا نہیں حیا نام ہے میرا حیا سدوانی ۔۔حیا نے اس کے بالوں میں انگلی پھیرتے ایک ہاتھ اس کے سینے پر رکھتے ہلکا سا دھکا دے کر خود سے دور کیا۔۔
“اور مجھ ناچیز کو نومی کہتے ہیں”_سینے پر ہاتھ رکھتے نومی نے جھک کر اپنا تعارف کر وایا۔۔
اتنا کیوں جھک رہے ہو نومی۔۔__”_
دیوی ہو حسن کی تم اور دیویوں کے آگے جھکا جاتا ہے نا سوئیٹ ہارٹ۔۔_”_
اوکے مجھے تم سے کچھ کام تھا__”_ حیا نے اپنے مطلب کی بات کی جس وجہ سے وہ آئ تھی۔_”_
پتہ تھا اس غریب کے غریب خانے پر دیوی حیا ایسے گزرتے گزرتے تو نہیں آ سکتیں ضرور کچھ کام ہو گا ۔۔بولیں جی ہم آپ کے غلام آپ کی سیوا میں خاضر۔_’_”
میری بہن عینا نے گھر سے بھاگ کر شادی کر لی ہے کس سی کی ہے کہاں رہ رہی ہے مجھے نہیں پتہ اور یہ صرف تم پتہ لگا سکتے ہو۔۔_”_
تو اتنا سا کام ہو جاۓ گا کل تک مگر۔۔۔۔ ۔ نومی نے انگلی سے سر کجھایا۔۔
مگر کیا۔۔حیا نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔۔
قیمت لگے گی کچھ بھی مفت تھوڑی ہوتا ہے سوئیٹ ہارٹ ۔۔_”_ نومی نے سر ٹیرھیا کر کے ترچھی آنکھ سے اسے دیکھا۔۔
مل جاۓ گی تمہیں قیمت مگر کام ہونے کے بعد۔_”_ حیا اس کے سارے مطلب اچھے سے سمجھ گئ تھی مگر نفرت کی آگ وہ بھی اپنی ہی بہن کے لیئے اس کے اندر اتنی ذیادہ بھری ہوئ تھی کہ وہ اس نفرت کی آگ میں سب جلا دینا چاہتی تھی چاہے پھر وہ خود ہی کیوں نہ راکھ بن جاۓ۔۔_”_
اوہ واؤ سچ۔۔_! وہ خوشی سے تیزی سے اس کی طرف بڑھا تھا۔۔
ہاں بلکل سچ تم میرا کام کرو تمہیں منہ مانگی قیمت ملے گی۔۔_”_ حیا کے چہرے پر مسکراہٹ تھی بہت خطرناک مسکراہٹ۔۔۔_”_
تھینک یو سوئیٹ ہارٹ ۔۔تھینک یو سو مچ ماۓ لو۔!! ایک ہاتھ سے اس کے بال کان کے پیچھے کرتا دوسرے سے نرمی سے اس کے گال کو مَس کیا تھا۔۔
“نفرت ،حسد یہ دو ایسی چیزیں ہیں جو انسان کو صیح اور غلط کا فرق بُھلا دیتی ہیں پھر انتقام کی چکی چلتی ہے پھر چاہے اس چکی میں انتقام لینے والا خود بھی پِس جاۓ اسے پرواہ ہی نہیں ہوتی”
___________________________________________________________________________________________________
وہ گھر بہت دیر سے لوٹا تھا دن کو ہوۓ فساد کے بعد وہ گھر لوٹنا ہی نہ چاہتا تھا مگر رات گۓ وہ لوٹ آیا تھا۔
دھیرے دھیرے چلتا وہ اپنے کمرے میں داخل ہوا۔_”اسے لگا تھا دانین ابھی تک رو رہی ہو گی وہ جاۓ گا تو اس سے لڑے گی مگر وہ تو صوفے پر آلتی پالتی مارے بیٹھی لیپ ٹاپ کھولے بیٹھی تھی۔”_
دروازہ پاؤں کی ٹھوکر سے زور سے بند کرتا ڈریسنگ کے سامنے آ کھڑا ہوا ۔۔ترچھی نگاہ دانین پر ڈالی جس نے ایک بار بھی سر اٹھا کر اسے نہیں دیکھا تھا۔۔
_”گھڑی اتار کر ڈریسنگ پر رکھتے اس نے ٹائ ڈھیلی کی پھر پیر پٹختا باتھ روم میں گھس گیا_”
دانین نے نظر اٹھا کر باتھ روم کے دروازے کی سمت دیکھا ۔وہ اس شخص سے ایک نفرت ہی تو نہیں کر پا رہی تھی اور دوسری شے تھی محبت جو اب محسوس ہی نہیں ہوتی تھی۔_”_
چینج کر کے وہ باہر نکلا تو وہ پھر سے لیپ ٹاپ میں گم تھی_”_
دن کو ہونے والے ڈرامے پر روشنی ڈالو گی۔_”اساور نے اس سے لیپ ٹاپ چھین کر بیڈ پر اچھالا۔
ساری روشنیاں تم اور تمہاری اس بھتیجی نے ڈال دی تھی میری اتنی مجال جو روشنی ڈالوں۔_”_ چبا چبا کر کہتے وہ پھر سے لیپ ٹاپ لے کر بیٹھ گئ۔۔
مجھے سچ جاننا ہے۔۔_”_ اس کا چہرہ اساور نے ٹھوڑی سے پکڑ کر اونچا کیا۔۔
اور تم سب دن کو سچ بھی بتا چکے ہو۔_”_دانین نے بنا ڈرے کہا۔۔۔
کیا رشتہ ہے تمہارا سعدی سے۔۔_”_ لیپ ٹاپ کارپٹ پر پٹختے اساور نے ہاتھ سے کھینچ کر اسے اپنے مقابل کھڑا کیا۔۔
پتہ ہے اس دن تم نے میرا کرئیر جلایا تھا میرے خوابوں کو آگ میں جھونک دیا تھا اس دن سے پہلے میں نے تم سے بےانتہا محبت کی تھی ۔اس دن کے بعد کچھ بھی نہیں کر پائ نہ محبت نہ نفرت کیونکہ ایک عورت ہوں میں۔ اور عورت محبت اسی سے کرتی ہے جو اس کی عزت کرتا ہے ۔
تم سے بھی محبت اسی لیئے ہوئ تھی کہ تم مجھے عزت دیتے تھے مگر اب تم نے جو کچھ کیا اس کے بعد محبت کی گنجائش ہی نہیں تھی مگر۔ ۔۔__”_
وہ ذرا دیر کو رکی۔۔
جب عورت ماں بنتی ہے تو اس کے پاس دو آپشنز ہوتے ہیں یا صرف عورت رہے یا ماں بن جاۓ اور میں نے دوسرے آپشن کو چنا میں ماں بنی تو میں نے اپنے اندر کی عورت کو رہنے دیا اور ماں کو آنے دیا اور مائیں تو معاف کر دیتی ہیں اور میں نے کر دیا تمہیں معاف کیونکہ تم میرے ہونے والے بچے کے باپ ہو مگر تم نے کیا کر دیا میرے اندر جو صرف ماں رہ گئ تھی آج آدھی ٹوٹ گئ اب تم سے اتنی شدت سے میں نفرت کوں گی کہ تم بھی جلو گے اس آگ میں۔_
“_تم غلط ہو اور ایک دن ثابت ہو جاؤ گے اس دن تمہیں احساس ہو گا تم نے کیا کھو دیا پھر تم پچھتاؤ گے مگر تمہارے ہاتھ کچھ نہیں آۓ گا “_
یاد رکھنا میں معاف نہیں کروں گی اور تم باقی کی زندگی پچھتاوں میں گزارو گے “_گال بہتا اکلوتا آنسو صاف کرتے وہ واش روم میں گھس گئ وہ باقی کے بچے آنسو اس پتھر شخص کے سامنے نہیں بہانا چاہتی تھی “_
اور وہ تو اسے دیکھ کر رہ گیا تھا اکثر یہ سوچتا کہ اگر سب ایسا نہ ہوا جیسا وہ سمجھ رہا ہے تو پھر مگر دوسرے ہی پل اس پر ایک پتھر شخص چھا جاتا جو اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم کر دیتا۔_”_
___________________________________________________________________________________________________
آپ کیوں جا رہی ہیں شامین۔۔عینا صبح سے ایک ہی سوال پوچھے جا رہی تھی۔__”_
گڑیا تم اپنی محبت سے مل گئ میں نہ ملِوں کیا۔۔شامین اس کے گال پر چٹکی کاٹی۔۔
تو آپ اپنے ان کو کہیں وہ یہیں آ جائیں پلیز آپ مت جائیں۔۔
کون کہاں جا رہا ہے بھئ۔۔اندر داخل ہوتا امان سیب کی قاش منہ میں رکھتا بولا۔۔
شامین ترکی جا رہی ہیں سعید بھائ نے بُلا لیا ہے ان کو آپ روکیں نا ان کو۔عینا نے امان کا بازو پکڑ کر بچوں کی طرح ضد کی_”_
اوۓ کیوں جا رہی ہے تو۔۔امان نے ہلکی سی چپت اس کے سر میں لگائ۔۔
سعید سیٹل ہو گیا ہے چاہتا ہے میں بھی اس کے پاس پہنچ جاؤں۔شامین مسکرائ
خوش ہو بہت تم۔۔_”_
ہاں بہت۔۔شامین بہت خوش لگ رہی تھی”_”
چلو خوش رہو تم اور عینا میں ہوں نا تیرے پاس بہت جلد کاظمی حویلی لے جاؤں گا موج سے زندگی گزاریں گے پھر۔۔”__
امان سیب کھاتا صوفے پر ٹانگ پھلاتا بیٹھ گیا۔_”_
کب لے کر جاؤ گے۔۔عینا اس کے پاس ہی بیٹھ گئ۔۔
بہت جلد۔امان نے اس کا گال تھپتھپایا۔۔
تم لوگ جاتے رہنا ابھی میری شام کی فلائیٹ ہے مجھے تو ٹھیک سے وِداع کرو یار۔۔”_
صیح صیح لنچ ہم ساتھ میں باہر کریں گے سعدی کو بھی بلا لیتا ہوں کل ہمیں بھی مری واپس جانا ہے_”،
ڈن ۔۔۔
ڈن۔۔
______________________________________