(Last Updated On: )
جدائی کے ستم ّلکھے ہوئے تھے
ہمارے دل کو غم ّلکھے ہوئے تھے
رفاقت عارضی تھی ، مختصر تھی
ہم اُن کے ساتھ کم ّلکھے ہوئے تھے
کسی کا دیر سے ملنا ، بچھڑنا
نہ جانے کیوں بہم ّلکھے ہوئے تھے
لکھانے ہم گئے دل پر خدا کو
جو پلٹے تو صنم ّلکھے ہوئے تھے
زمیں سے جڑ گئے ورنہ فلک پر
ہمارے ہی قدم ّلکھے ہوئے تھے
ہمیں بھی سیدھا رستہ مل گیا تھا
مگر کچھ پیچ و خم ّلکھے ہوئے تھے
ہمیں کیا گنبد و محراب بھاتے
ہمیں ابروے خم ّلکھے ہوئے تھے
ہماری پیاس پر کوئی نہ برسا
بہت ابرِ کرم ّلکھے ہوئے تھے
ڈبو کر نائو دل کی ، موج بولی
مرے سب زیر و بم ّلکھے ہوئے تھے
جہاں ہم ، وہ ہی ، وہ لکھتے تھے جاویدؔ
وہاں اک ہم ہی ہم ، ّلکھے ہوئے تھے