حالیؔ لکھتے ہیں :
’’جوش سے یہ مراد ہے کہ مضمون ایسے بے ساختہ الفاظ اور مؤثر پیرایہ میں بیان کیا جائے جس سے معلوم ہو کہ شاعر نے اپنے ارادے سے یہ مضمون نہیں باندھا بلکہ خود مضمون نے شاعر کو مجبور کر کے اپنے تئیں اسے بندھوایا ہے۔ ‘‘
اُن کے خیال میں جوش کے معنی بالکل یہ نہیں ہیں صرف زوردار اور جوشیلے الفاظ اور فقرے استعمال کیے جائیں۔ بلکہ یہ ہے کہ کہنے والے کے دل میں جیسا جوش ہو ویسا ہی جوش اور جذبہ پڑھنے والے کے دل میں بھی پیدا ہو جائے۔
ان چھ باتوں یعنی تخیل، مطالعۂ کائنات اور تفحص الفاظ کی خصوصیت جو شاعر کے اندر پائی جانی چاہیے اور سادگی، اصلیت اور جوش جو شاعری میں پائی جانی چاہیے کے علاوہ حالیؔ اپنی نظریاتی تنقید میں جن باتوں پر اصرار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں :
۱۔ تخیل کو قوت ممیزہ کے تابع ہونا چاہیے۔ اُسے کھلی چھوٹ دے کر بے لگام کبھی نہیں چھوڑنا چاہیے۔
۲۔ شاعری سوسائٹی کے تابع ہوتی ہے ، اور بُری شاعری سے سوسائٹی کو نقصان پہنچتا ہے اور اس کے برعکس بُری سوسائٹی سے شاعری کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔
۳۔ شاعری کو جھوٹ اور مبالغہ سے محفوظ رکھنا چاہیے۔