“دیکھو سعدیہ۔! مانا کہ تم منگنی کی رسم کے لیے بےچین ہو، لیکن میری ایک بات تحمل سے سنو۔!” رات کے کھانے کے بعد لان میں چہل قدمی کرتے ابراهيم نے بات شروع کی
“ہادی کو خیر و عافیت سے واپس آ جانے دو، پھر ایک ہی مرتبہ اس کی شادی کرنا۔”
“لیکن۔۔۔”
“لیکن ویکن کچھ نہیں، بات کو سمجھو، تمھارے جوڑوں کا درد اس سردی میں اتنے لمبے سفر کا متحمل نہیں ہو سکتا سعدیہ! اور نہ میں ہی یہ رسک لینے کے لیے تیار ہوں۔”ابراهيم ان کی کوئی بات سننے کو تیار نہیں تھے۔
” تم صوفیہ سے ساری بات طے کر لو، صاف کہہ دو کہ جیسے ہی ہادی چھٹی پہ آیا اس کی شادی کر دیں گے ہم۔”
” ایسے کیسے شادی۔۔۔؟” وہ لان میں دھری کرسی پہ بیٹھتے ہوئے بولیں۔
“ساری تیاری کر رکھیں گے، جیسے ہی وہ آیا، بارات لے جائیں گے۔ گھر کی بات ہے، اور بہتر یہی ہے کہ ہادی کے واپس آنے تک یہ بات بس دونوں گھروں کے درمیان ہی رہے۔” سعدیہ بغور شوہر کی بات سن اور سمجھ رہی تھیں، ان کی ہر بات دل کو لگی تھی کہتے تو ٹھیک ہی تھے۔
“اچھا، اب اٹھ کر اندر چلو، سردی ہے، تکلیف بڑھ ہی نہ جائے۔” دونوں اندر کمرے میں آئے تھے۔
اگلے دن سعدیہ نے صوفیہ اور حیدر سے بات کرکے سب معاملات طے کرلیے تھے، حیدر نے بھی ابراھیم کی بات سے اتفاق کیا تھا۔
“ان مردوں نے تو متفق ہونا ہی تھا ایک دوسرے سے۔۔۔” سعدیہ نے ہنس کر صوفیہ سے اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا۔
ہادی سے رابطہ نہ ہونے کے برابر ہی رہ گیا تھا، کئی دن بعد ایک سے دو منٹ کی کال آ جاتی بس اتنا ہوتا کہ اس کی خیریت معلوم ہو جایا کرتی تھی۔ رابطے کم تھے، لیکن دل سے دل تک دعاؤں کے تار جڑے ہوئے تھے۔ ایک مہینہ ہو چلا تھا، عدی اب محسوس کرنے لگا تھا کہ ماما جان کے لیے اب اکیلے رہنا دشوار ہوتا چلا جا رہا ہے، تو اس نے وہیں سے اسلام آباد کے چند اچھے ہسپتالوں میں جاب کے لیے درخواست دے دی تھی، اور جیسے ہی اسے انٹرویو کے لیے تاریخ دی گئی، اس نے پاکستان کی سیٹ کنفرم کروا لی تھی۔
سعدیہ اس کے آ جانے پہ بہت خوش تھیں، وہ خود بھی مطمئن تھا، جاب شروع کر چکا تھا۔ کچھ عرصہ پریکٹس کے بعد ہی اپنا کلینک شروع کرنا چاہتا تھا، وہ خود کہتا تھا کہ وہ نوکری کرنے والا بندہ نہیں ہے۔ لگے بندھے معمولات سے جلدی ہی اکتاہٹ ہونے لگتی تھی۔ وہ اپنی مرضی سے سونے جاگنے، زندگی گزارنے کا قائل تھا، اور ایسے بندے کے لیے نوکری خاصا صبر طلب کام تھا، لیکن فی الحال صرف اپنے قدم جمانا چاہ رہا تھا، گویا نوکری کے ذریعے اپنا صبر و تحمل اور ضبط آزما رہا تھا۔
“اب تم بھی اپنے لیے کوئی لڑکی پسند کر لو عدی!” سعدیہ کے لیے یہی موضوع سب سے دلچسپ تھا، انھیں ملکی یا غیر ملکی سیاست، کرکٹ، اقتصادی یا معاشی بحران اور جنگ و جدل جیسے موضوعات سے چنداں لگاؤ نہ تھا۔ وہ عام عورتوں کی طرح، بیٹوں کی شادی کی خواہش دل میں رکھنے والی ایک ماں تھیں، جو جلد از جلد اپنے دونوں بیٹوں کے سروں پہ سہرا سجا دیکھنا چاہتی تھیں۔
“دنیا کی ہر ماں کا بس چلے تو وہ اپنے بیٹوں کی گردنوں میں شادی کا پھندا ڈلوا دیں۔” چھری کانٹے سے کباب کاٹتے عدی نے کہا۔ وہ اور ابراهيم جیسے ہی کوئی سیاسی بحث شروع کرنے لگتے، سعدیہ شادی کا ذکر چھیڑ دیتیں۔
“ماما جان! میں کوئی بیس یا بائیس برس کی لڑکی نہیں ہوں کہ جس کی شادی کی عمر نکلی جا رہی ہو۔ آج سے دس سال بعد بھی مجھے کوئی خاتون مل ہی جائے گی۔”
“دس سال۔۔!!” انھیں حیرت کا شدید جھٹکا لگا تھا۔ “یعنی اگلے دس سال تک شادی کا ارادہ نہیں ہے؟”
“امید تو یہی ہے، باقی کچھ کہا نہیں جا سکتا۔” کافی کا گھونٹ بھرتے اس نے ماما جان سے نظر بچا کر بابا جان کو شرارت سے آنکھ ماری تھی۔ وہ مسکرا دیے تھے۔ جبکہ سعدیہ کافی دیر اسے سخت سست سناتی رہی تھیں۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
پھر خبر آئی کہ ہادی کو وہاں شدید بخار ہو گیا تھا، اس کی طبیعت کے پیش نظر اسے گھر بھیج دیا گیا تھا۔ بخار تو اتر چکا تھا لیکن نقاہت ابھی باقی تھی۔ عدی ہی اسے لینے اسلام آباد سے گیا، وہ کافی کمزور ہو گیا تھا۔
واپسی کا سفر شروع ہو چکا تھا،
“اب گھر جا کر خوب کھا پی کر جان بنانا، آخر کو شادی بھی تو ہے تمھاری۔۔۔”
“میری شادی۔؟؟” ہادی کے لیے یہ خبر غير متوقع تھی۔ حیرت چہرے سے عیاں تھی، عدی بھی حیران ہوا
“اتنے حیران کیوں ہو رہے ہو؟؟ تم ہی نے تو ماما جان سے کہا تھا کہ موتیا کو پسند۔۔۔”
“لیکن وہ تو میں نے۔۔۔”وہ بولتے بولتے رک گیا تھا۔ اس کے دل پہ گزرتے حالات سے انجان عدی اسے گزرے ڈیڑھ ماہ میں پیش آئے حالات و واقعات سے آگاہ کرتا گیا۔ اس کے گلے میں پھندا سا لگا تھا۔
“یہ کیا کیا ماما جان آپ نے۔۔!” وہ سارا رستہ اسی سوچ میں گم رہا کہ اب کیسے اس غلطی کو سدھارا جائے۔ گھر پہنچ کر سب سے پہلے سعدیہ نے اس کے نام کا صدقہ دیا کہ وہ لائن آف کنٹرول سے صحیح سلامت واپس آ گیا تھا۔ کبھی کچھ کر رہی تھیں، کبھی کچھ۔
“بس بھی کریں ماما جان پلیز۔!” سفر کی تکان اور راستے میں ملنے والی خبر نے اسے چڑچڑا کر دیا تھا۔
“بچہ تھکا ہارا گھر آیا ہے، اسے آرام کرنے دیجئے بیگم صاحبہ۔!” ابراھیم نے ہاتھ کے خفیف اشارے سے ہادی کو تحمل کا مظاہرہ کرنے کا کہا تھا۔
“اتنے دنوں کے بعد میرا بیٹا بحفاظت گھر آیا ہے، مجھے اس کی بلائیں اتار لینے دیجیے۔”
“فی الحال تو مجھے تم ہی۔۔۔” وہ بات آدھی دبا گئے اندر آتے عدی نے ادھوری بات کا مفہوم سمجھ کر بے ساختہ قہقہہ لگایا تھا۔ سعدیہ نے گھور کر شوہر کو دیکھا، ابراهيم نے ڈرنے کی کمال اداکاری کی تھی۔ اور عدی کو مصنوعی خفگی سے گھورا:
“تمھارے بےوقت کے اس قہقہے نے ان کہی بات بھی سمجھا دی۔”
“بےوقت کا قہقہہ۔۔۔!!” عدی نے شرارت سے انھیں دیکھا۔ “یہ قہقہہ نہ لگتا تو آپ کی بات کو خراج تحسین کیسے پیش کی جاتی؟”
بابا جان۔۔!! “ہادی نے صدائے احتجاج بلند کی تھی، عدی نے اس کے کندھے پہ تسلی بھرا ہاتھ مارا۔۔
“حوصلہ رکھو جوان۔۔ فوجی ہونے کی قیمت تو چکانی ہے۔ شکر کرو کہ ماما جان تمھیں گھر سے جانے کی اجازت دے دیتی ہیں۔” عدی نے میز پہ رکھی پھلوں کی ٹوکری سے ایک کینو اٹھایا اور چھیلتے ہوئے بولا:
“ورنہ ان خواتین کا بس چلے تو ہمیں چوڑیاں پہنا کر گھر بیٹھنے پہ مجبور کر دیں۔” سعدیہ، ہادی کو بھول کر اس کے سر ہو گئیں۔
” بالکل۔۔! جیسے تمھیں تو کبھی گھر سے بار جانے ہی نہیں دیا میں نے۔ جتنا تم نے گھر سے باہر وقت گزارا اتنا تو شاید کسی نے گزارا ہو گا” ان کے الفاظ میں وہی محسوس کیا جانے والا شکوہ تھا جو وہ ہمیشہ عدی سے کرتی تھیں۔
“اوہ میری پیاری ماما جان!” عدی نے محبت سے انھیں اپنے بازو کے گھیرے میں لیا تھا
“اب تو آ گیا ہوں نا آپ کے پاس، گھر میں رہنے کے لیے۔!اب کہیں نہیں جانے کا۔” وہ ماں بیٹا راز و نیاز میں مصروف تھے جب ابراھیم نے ہادی کو اس کے کمرے میں بھیج دیا تھا،تاکہ وہ آرام کر لے۔ اس نے بھی فوری اٹھ جانا ہی غنیمت سمجھا تھا۔
اگلے تین دنوں میں ہادی کو سعدیہ سے بات کرنے کا موقع نہیں ملا تھا۔ لیکن اس نے محسوس کر لیا تھا کہ وہ ان دنوں بہت مصروف رہتی تھیں، ان تین دنوں میں تین چکر بازار کے لگا چکی تھیں۔ گھر کے در و دیوار بھی تازہ رنگ و روغن سے رنگے دکھائی دیے تھے، دل میں خطرے کی گھنٹی بجنے لگی تھی۔ ماما جان سے بات کرنا ناگزیر ہو گیا تھا۔ لیکن موقع بھی چاہیے تھا کہ جب عدی گھر پہ نہ ہو۔ آخر چوتھے دن صبح موقع مل ہی گیا، عدی اور ابراھیم اکٹھے گھر سے نکلے تھے، وہ ناشتے کی میز پہ ہی تھا جب سعدیہ نے خود ذکر چھیڑ دیا:
“ہادی۔! شادی کی تاریخ طے کرنے کشمیر جانا ہے دو دن میں۔”
“لیکن مجھے یہ شادی نہیں کرنی ماما جان۔!”
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...