جوگندر پال کے ناولٹ نگاری کی اگلی کڑی ، خواب رو ، ہے۔ اس ناولٹ کو 1991میں ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی نے شائع کیا۔ یہ ناولٹ 107 صفحات پر مشتمل ہے۔ جوگندر پال کا یہ خوبصورت ناولٹ تقسیم ہند کے نتیجے میں ہونے والی ہجرت، نئی زمین پر مہاجرین کے مسائل اور دو تہذیبوں اور ثقافتوں کے مابین آمیزش اور ٹکراؤ کے بنیادی موضوع کو تخلیقی گرفت میں لیتا ہے۔ ، خواب رو، ایک پختہ سن نواب مرزا کمال الدین کی کہانی ہے جو تقسیم ہند کے بعد فسادات کے سانحے سے دوچار ہو کر ہندستان کے لکھنؤ سے پاکستان ہجرت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ لیکن اپنی مٹی اور تہذیبی جڑوں سے بچھڑ نے کا غم انہیں حال کے شعور سے پوری طرح محروم کر دیتا ہے اور وہ ایک قسم کے دیوانے پن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کے کراچی میں رہنے کے باوجود انہیں یہ لگتا ہے کہ بدستور لکھنؤ میں رہ رہے ہیں۔ ماضی کی یاد یں ان کے ذہن پر اس طرح اثر انداز ہو چکی ہیں کہ سب کچھ بدل جانے کے باوجود انہیں لگتا ہے کہ کچھ بھی نہیں بدلا ہے۔ ہر علاقے اور جغرافیائی خطے میں کو ئی نہ کوئی تہذیبی نظام جاری رہتا ہے جس میں معاشی، لسانی اور اقتصادی پہلو قدر مشترک کی حیثیت رکھتی ہے اور اس مخصوص علاقے کے رسو مات اور اخلاقی اقدار وغیرہ اس تہذیبی نظام کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان علاقوں میں بسنے والا انسان وہاں کے تہذیبی نظام کو پو ری طرح اپنے اندر جذب کر لیتا ہے اور اس کو اپنا قیمتی اثاثہ اور سرمایہ مانتا ہے جس سے وہ کسی طرح الگ نہیں ہو نا چاہتا۔ لیکن جب کسی بڑے سیاسی واقعے، جنگ یا قدرتی آفات کے سبب انسان کو نقل مکانی پر مجبور ہو نا پڑتا ہے تو اس سے اس کا یہ تہذیبی سرمایہ چھن جاتا ہے ایسی صورت میں انسان بکھر جاتا ہے اور اپنے گرد ایک قسم کا خود ساختہ حصار بنا لیتا ہے جس سے وہ باہر نہیں نکلنا چاہتا۔ نواب مرزا کمال الدین بھی تقسیم اور ہجرت کے کربناک حادثہ سے گزر نے کے بعد ایک قسم کے دیوانے پن میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور لکھنؤسے ہجرت کر کے کراچی میں آباد ہو جانے کے باوجود اپنے خود ساختہ حصار کے سبب انہیں کراچی بھی لکھنؤ ہی معلوم ہونے لگتا ہے۔ جوگندر پال نے نواب مرزا کمال الدین کی صورت میں ان ہزاروں لاکھوں معصوم انسانوں کی زندگی اور ان کی ذہنی و جذباتی کیفیات اور صورت حال کی عکاسی کی ہے جنہیں تقسیم کے بھیانک نتائج کا احساس نہ تھا اور نہ یہ اندیشہ تھا کہ اپنے آبائی گھر بار کو خیر آباد کہنے کے بعد کی صورت حال کتنی غیر متوقع ہو گی۔ طبقاتی آویزش، لسانی امتیاز، احساس برتری و کمتری، سرمایہ داری و غریبی اور غلط فہمی و خوش گمانی کا سامنا ہندستان سے ہجرت کر کے پاکستان جا کر بسنے والوں کو کرنا پڑا اور وہاں حصول اقتدار کی کوششوں نے دونوں طرف کے لوگوں کے مابین رشتے کو سازگار بنانے کی بجائے اس کو اور زیادہ پیچیدہ بنا دیاجس سے ٹکراؤ کی صورت پیدا ہو گئی اور مقامی اور غیر مقامی کا سوال اٹھ کھڑا ہوا۔ ناولٹ کا مرکزی کردار نواب مرزا کمال الدین ہیں جن کو ان کی بیوی، اچھی بیگم، دیوانے مولوی صاحب کہہ کر پکارتی ہیں اور وہ اپنے اس نام کے اتنے عادی ہو گئے ہیں کہ اگر کوئی انہیں مرزا نواب کمال الدین کہہ کر پکا رے تو ان کو لگتا ہے کہ بیچارے کو ان کی شناخت میں غلط فہمی ہوئی ہے۔ ہندستان سے ہجرت کر کے کراچی پہنچنے والوں کے ساتھ جب دیوانے مولوی صاحب بھی اپنے خاندان سمیت کراچی پہنچے تو دوسرے ہی دن انہوں نے لکھنؤ واپس ہونے کی ضد شروع کر دی کیونکہ وہ جس شان و شوکت کے پروردہ تھے ان کو یہاں میسر نہ تھا۔ لیکن مہاجرین نے قلیل عرصے میں ہی کراچی میں ایک ایسا لکھنؤ آباد کر لیا کہ جس پر دیوانے مولوی صاحب کو وہی پرانا لکھنؤ ہونے کا یقین ہو گیا اور وہ ایک طرح کے سپنے اور خواب میں جینے لگے۔ دیوانے مولوی کے بڑے بیٹے نواب مرزا نے اپنے والد کی دیوانگی کا علاج کروانا چاہا تو اچھی بیگم نے اپنے بیٹے کو سختی سے منع کر دیا، کیونکہ وہ نہیں چاہتی تھی کہ دیوانے مولوی صاحب حقیقی دنیا کی تلخیوں کا سامنا کریں۔ ناولٹ کے آخر میں دیوانے مولوی صاحب کی دیوانگی کا سلسلہ اس وقت ٹوٹتا ہے جب ان کی حویلی میں ایک بھیانک دھماکہ ہوتا ہے جس میں اچھی بیگم، نواب مرزا، نواب مرزا کی بیوی چاند بی بی اور اس کی پیاری بیٹی ثریا دب کر زندہ دفن ہو جاتے ہیں۔ دیوانے مولوی صاحب کو یہاں معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے لکھنؤ میں نہیں بلکہ پاکستان کے کراچی میں ہیں۔ لیکن کہانی کے اس مقام پر ان پر ایک دوسری قسم کی دیوانگی طاری ہو جاتی ہے اور وہ سوچنے لگتے ہیں کہ وہ اپنے پوتے سلیم اور پوتی دلنواز کے ساتھ یہاں چند دنوں کے لئے اپنے چھوٹے بیٹے اسحاق مرزا اور ان کی بیوی بچوں سے ملنے آئے ہیں اور وہ پھر جلد سے جلد لکھنؤ لوٹ جانے کی ضد کرنے لگتے ہیں۔ گو یا کہ دیوانے مولوی صاحب ایک خواب سے آزاد ہو کر دوسرے خواب میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ تقسیم کے بعد اردو کے بہت سے ناولوں اور افسانوں میں وسیع پیمانے پر ہونے والی ہجرتوں اور ان کے گو نا گوں مسائل کو پیش کیا گیا ہے۔ جوگندر پال نے بھی ، خواب رو ، میں اسی مسئلے کو پیش کیا ہے۔ جوگندر پال کو ، خواب رو، لکھنے کی تحریک کہاں سے ملی اس بارے میں ، خواب رو، پر لکھے اپنے ایک انگریزی مضمون On writing Sleepwalkers میں وہ خود لکھتے ہیں:
“Once, well past midnight, Ali and I happened to visit a restaurant in the Lucknow of mohajirs. The restaurant was as astir with activity then as it must be in its peak hours. My friend remarked that “Lucknavis” were in the habits of walking out of their dreams at night to come straight to the Chowk. He assured me that these sleepwalkers would keep popping in till the small hours. ‘Khwabrau’ was thus born in my mind. And, months later, when it became ripe for delivery, I prepared myself for what I knew would be a hassle-free labour” (13)
جوگندر پال نے ، خواب رو، میں ہندستان کے لکھنؤ سے مہاجرت کر کے کراچی میں جا کر بسنے والے مہاجروں کے ذہنی رویوں، ثقافتی قدروں اور تہذیبی المیوں کو بڑے فنکارانہ انداز میں پیش کیا ہے۔ ہندستان سے ہجرت کر کے پاکستان جانے والوں میں صرف لکھنؤ کے لوگ نہیں تھے بلکہ ہندستان کے تقریباً تمام حصوں سے ہجرت کر کے لوگ پاکستان گئے تھے لیکن جو گندر پال نے صرف لکھنؤ کے مہاجروں کو نظر میں رکھ کر اپنا یہ تخلیق پیش کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ جوگندر پال نے لکھنؤ کے مہاجرین کو محض ایکsymbolاور استعارے کے طور پر پیش کیا ہے ورنہ تو صورت حال یہ ہے کہ لوگ دنیا کے کسی بھی خطے سے ہجرت کر کے کسی بھی خطے میں جا کر بسیں انہیں یہی ساری مصیبتیں جھیلنی پڑتی ہیں اور انہیں کربوں سے گزرنا پڑ تا ہے۔ جوگندر پال ، خواب رو، کی ابتدا اس طرح کر تے ہیں:
‘‘ یہ لکھنؤ ہے
ملک کی تقسیم پر جب لکھنؤ کے مہا جرین کراچی چلے آئے تو ذرا سنبھلتے ہی انہوں نے یہاں بھی وہی امین آباد کا چوک کھڑا کر لیا۔ ویسے ہی یہاں بھی چھ سات راستے ٹوپیاں ٹیڑھی کئے ادھر ادھر سے بیک وقت آ داخل ہوتے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ ساری دنیا ادھر ہی چلی آ رہی ہے۔ امین آباد میں تل دھرنے کو جگہ نہ رہی اور مہاجرین امین آباد کے گرد و پیش پاؤں جمانے لگے، اور اس طرح ہو تے ہوتے پو را لکھنؤ آباد ہو گیا۔ صرف پر انا شہر ہی نہیں، پرانے شہر کے بطن سے پیدا ہو کر نیا نویلا شہر بھی نواح میں اپنی کھلواڑ کا سماں باندھنے لگا۔ ‘‘
اپنی مٹی اور اپنی جڑوں سے بچھڑ نے کا درد آسانی سے پیچھا نہیں چھوڑتا۔ لہذا مہاجرین نے کراچی میں سب سے پہلے اپنی چھوڑی ہوئی یا چھٹی ہوئی بستیاں آباد کیں۔ انہوں نے اپنی بستیاں اس طرح آباد کیں کہ لکھنوی تہذیب، زبان، طرز زندگی اور طرز معاشرت کی ہو بہو عکس ان میں نظر آنے لگا۔ مہاجرین کے ساتھ ایک بڑا مسئلہIdentity اور شناخت کا ہوتا ہے اس لئے ان کے لئے ہجرت کے بعد چھوڑی ہوئی تہذیب، گھر بار اور آب و ہوا کی بازیافت نفسیاتی اور سماجی ضرورت بن جاتی ہے۔ لہذا یہاں بھی مہاجرین نے اپنے ماضی کی بازیافت اس طرح کی:
‘‘ کہتے ہیں کہ لوگ آتے جاتے رہتے ہیں مگر مقامات ہمیشہ وہیں مقام کئے رہتے ہیں، مگر یہاں تو مہاجرین دل ہی دل میں شہر کا شہر اٹھا لائے، کوئی اپنے گھر کی اینٹیں، کوئی جوں کاتوں پو را گھر، کوئی ساری گلی، کوئی گلی سے باہر تیز تیز چلتی ہوئی سڑک۔ جو بھی جس کے دل میں سماپایا، اور جب کراچی پہنچ کران کی سانس میں سانس آئی تو انہوں نے دلوں سے اینٹ اینٹ سارا شہر بر آمد کر لیا۔ خدا جانے جہاں یہ شہر واقع تھا وہاں اب کیا رہ گیا ہو گا۔ یہاں تو اس کی پھبن کا یہ عالم ہے کہ کوئی کراچی کی سیر کو آئے تواس سے بار بار پوچھا جاتا ہے، کراچی میں لکھنؤ دیکھا۔ ‘‘
جوگندر پال نے ، خواب رو، میں بنیادی طور پر کراچی کا منظر نامہ پیش کیا ہے اور ہندستان سے ہجرت کر کے کراچی میں آباد ہونے والے مہاجرین کی تمناؤں اور امنگوں کے پھلنے پھولنے اور تاراج ہونے کی کہانی پیش کی ہے۔ مہاجرین نے کراچی میں صرف لکھنؤ ہی نہیں بسایا بلکہ اس کے اطراف میں ملیح آباد، میرٹھ، مرادآباد، اعظم گڑھ اور الہ آباد بھی آباد کر لئے۔ لیکن ان سب کے باوجود انہیں یہاں اجنبیت اور غیریت کا احساس ہوتا ہے اور انہیں لگتا ہے کہ یہاں کی مٹی، آب و ہوا اور فضا و ماحول انہیں پہچانتے نہیں اور ان سے کٹے کٹے سے رہتے ہیں۔ اس صورت حال کو دیکھ کر دیوانے مولوی صاحب سارے لکھنؤ کو دیوانہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں:
‘‘ ارے میاں ‘‘ وہ دورو نزد کے گھروں میں باری باری سمجھانے جاتے ہیں۔ ‘‘ اللہ سے رجوع کرو اور پانچوں نمازیں دل لگا کے پڑھا کرو۔ اس سے بڑھ کے کیا عذاب ہو گا کہ اپنے ہی گھر میں ہمہ وقت محسوس ہوتا رہے ہم کہیں اور بیٹھے ہیں۔ ‘‘
لیکن اس کیفیت کے باوجود مہاجرین نے خوب ترقی کی اور معاشی طور پر تو وہ بعض اعتبار سے نہ صرف سندھیوں بلکہ دوسرے مقامی باشندوں سے بھی بازی لے گئے اور محنت اور حکمت عملی سے صوبائی اور قومی سطح پر تجارت، کارخانہ داری، سرمایہ کاری اور نوکر شاہی میں برابر حاوی ہوتے چلے گئے اور اتنے حاوی ہو گئے کہ طاقت کا توازن بگڑنے کے سبب مقامی اور غیر مقامی کا اختلاف و نزاع اٹھ کھڑا ہوا۔ بر صغیر کی آزادی اور تقسیم کی ہڑبونگ میں تو یہ شور دبا رہا، تاہم اس ہمہ گیر ہڑبونگ کے بعد جب پہرے اور پولیس کے ضوابط کا انعقاد ہونے لگا اور مہاجرین کے پاؤں جمنے لگے تو اس شور و شغب کے علاوہ اور کچھ سنائی نہیں دینے لگا۔ تہذیبی و معاشرتی طور پر بھی ان میں نزاع اور اختلاف شروع ہو گیا کیونکہ ہندستان سے پاکستان ہجرت کرنے والوں کا تعلق گنگا جمنی مشترکہ تہذیب سے تھا جبکہ کراچی کی تہذیب گنگا جمنی مشترکہ تہذیب سے خاصی مختلف تھی۔ مہاجر تہذیب اگر فاتح کی حیثیت سے کسی علاقے میں داخل ہوتی ہے تو صورت حال کچھ اور ہو تی ہے لیکن اگر رفیوجی، جلاوطن اور مہاجروں کے ہمراہ وارد ہو تو حالات مختلف ہو جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں اتفاق و ہم آہنگی کے لئے ضروری ہو جاتا ہے کہ مہاجر تہذیب مقامی تہذیب سے اخذ و ماخوذ کا سلسلہ قائم کرے گو کہ مہاجر تہذیب مقامی تہذیب سے زیادہ ترقی یافتہ ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن کراچی میں ایسا نہ ہوا اور ہوا بھی تو کافی سست رفتاری سے جس کے نتیجے میں ٹکراؤ اور اختلاف بڑھتا ہی چلا گیا۔ اس نفرت کے سناٹے میں کچھ لوگ ایسے بھی پیدا ہوئے جنہوں نے حالات کے تقاضے کو سمجھا اور نفرت کی اس خلیج کو محبت سے پاٹنے کی کوشش کی۔ ان میں سر فہرست نظر آتے ہیں دیوانے مولوی صاحب کے چھوٹے بیٹے اسحاق مرزا۔ اسحاق مرزا کو موجودہ تمام نا ہم آہنگیوں کا گہرا شعور ہے اور انہیں نا ہم آہنگیوں کو کم کرنے کے لئے، وہ تمام مخالفتوں کے باوجود ایک سندھی لڑکی سے شادی کر لیتا ہے، یہی نہیں بلکہ سندھیوں کے محلے میں جا کر بس بھی جاتا ہے۔ وہ اپنے اس رشتۂ ازدواج سے پوری طرح مطمئن بھی ہے۔ اسی طرح اسحاق مرزا کا ماموں زاد بھائی ہاشم علی بھی ترقی پسند واقع ہوا ہے اور مقامی لوگوں سے تعلقات استوار کرنے کا قائل ہے جبھی وہ اپنی بڑی بیٹی شہزادی کے ایک سندھی سے شادی رچا لینے پر احتجاج نہیں کرتا بلکہ ان کو خوش آمدید کہتا ہے اور احتجاج کرنے پر اپنے والد کو جواب دیتا ہے:
‘‘ نہیں، ابا حضور، اپنی گریجویٹ لڑکی کو کیا میں کسی قلم گھسیٹ چھٹ بھیے کے گلے باندھ دوں ؟ نہیں جو ہوا، سو ٹھیک ہوا۔ ‘‘
حقیقت پسندی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ آدمی حالات کے مطابق کام کرے اور اختلاف و انتشار کو کم کر کے محبت و یگانگت کی فضا ہموار کرے۔ غریب طبقے میں بھی کچھ لوگا س کوشش میں لگے ہوئے ہیں جیسے کہ عزیزو، جو کہ مہاجر ہے مگر اس کی بیوی کا تعلق بھی ایک سندھی خاندان سے ہے۔ بقائے باہم اور Co-existence کے اصول پر عمل در آوری کے ذریعہ ہی ایک پر سکون معاشرہ تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ خوشحالی اور ترقی کے لئے بھی امن و سکون کے ساتھ ایک دوسرے پر بھروسہ اور اعتماد ضروری ہے۔ اگر بھروسہ اور اعتماد نہ کیا جائے اور ایک ہی سماج کے لوگ مقامیوں اور غیر مقامیوں میں بٹ کر رہ جائیں تو فرقہ واریت ایک مستقل عذاب کی صورت کھڑی کئے رہتی ہے۔ مثلاً غیر مقامی جب مقامی ہو جاتے ہیں تو مقامیوں کے غیر مقامی ہونے کی باری آ جاتی ہے۔ اس لئے ضروری ہے:
‘‘ اگر ہمیں کھلے کھلے سانس لینا ہے تو اس کے سوا کو ئی تدبیر نہیں کہ اپنے ہر نئے مقام پر ہم فوری طور پر مقامی ہو جائیں، اتنے کہ ہم سے نفرت کرتے ہوے مقامیوں کو محسوس ہو کہ وہ اپنے آپ سے ہی نفرت کر رہے ہیں۔ ‘‘
یہ خیالات اسحاق مرز اکے ہیں۔ لیکن اسحاق مرزا جیسے افراد مہاجروں کے درمیان معدودے چند ہیں۔ مہاجروں اور مقامی لوگوں کے درمیان دوری کئی سارے معاشرتی اور اقتصادی مسائل کھڑی کرتی ہے لیکن اس کا احساس نہ تو عوام کو ہے اور نہ ہی سیاست دانوں کو۔ تقسیم ہند کے سانحے کے نتیجے میں پاکستان کا قیام تو عمل میں آ گیا اور ایک الگ ملک حاصل کر کے مسلمانوں نے اطمینان و سکون کی سانس بھی لی، لیکن یہ اطمینان و سکون کی مدت بے حد مختصر تھی کیونکہ مقامی اور غیر مقامی کی تفریق نے لوگوں کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا اور اس طرح بدامنی اور انتشار کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ کہانی آگے بڑھتی ہے دیوانے مولوی صاحب کی حویلی ، نواب محل، میں ایک سندھی باورچی سائیں بابا کے داخلے سے۔ سندھیوں اور مہاجروں کے اختلافات نے آپس کے اعتماد وبھروسے کو اتنا کمزور کر دیا ہے کہ وہ ایک دوسرے پر بالکل اعتبار نہیں کرتے۔ اسی لئے اچھی بیگم اور ان کی بڑی بہو چاند بی بی کو سائیں بابا کو نو کری پر رکھنے میں تردد ہے۔ لیکن باورچی کی اشد ضرورت کے سبب، پس و پیش کے باوجود وہ سائیں بابا کو نو کری پر رکھ لیتی ہیں۔ اندرون ملک مہاجروں اور سندھیوں میں ناچاقی کی وجہ شک و شبہ تو ہے ہی، ہندستان و پاکستان کے درمیان نا اتفاقی کی وجہ بھی شک و شبہ ہی ہے:
‘‘ ہمارے دونوں ملکوں کے ساجھے مرض کی ایک نمایاں علامت شک و شبہ ہے جو ہم ایک دوسرے سے بے سبب برتنے سے بھی گریز نہیں کر تے ؟ آئندہ نسلوں کا چھٹکا رہ یوں ہی ہو سکتا ہے کہ دونوں جوانب کے نو عمر اکثر ملا کریں اور لڑنا بھی ہو تو قومی لڑائیاں لڑ نے کی بجائے صرف نجی طور پر لڑیں جھگڑیں، خوب لڑیں جھگڑیں، پیار سے یا غصے سے مگر ملتے رہیں۔۔ ۔۔ ہماری سرکاروں کی اولین ذمہ داریوں میں یہ بھی شامل ہو نا چاہئے ہاشم کہ اپنے اپنے ہنگامی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر دونوں طرف داخلے میں ڈھیل چھوڑ دیں، ورنہ خوفزدہ عوام کی فطری صلاحیتیں پنپیں گی تو کیا، سلب ہو کر رہ جائیں گی۔ ‘‘
لیکن تقسیم کے پینسٹھ سال بعد بھی آج حالات بدستور ویسے ہی ہیں۔ دونوں طرف کی حکومتیں وقتاً فوقتا اپنے سیاسی مفادات کی حصولیابی کے لئے اختلافات کو اور بھی ہوا دیتی رہتی ہیں۔ گو کہ اب دونوں طرف کی عوام با شعور ہو گئی ہے اور وہ حکومتوں کی چالوں کو سمجھنے لگے ہیں لیکن عوامی سطح پر کچھ بھی کر پانے سے قاصر ہیں۔ بم کی تباہ کاریاں موجودہ عہد کی ایک تلخ حقیقت ہے۔ دیوانے مولوی صاحب نواب محل سے کوئی ڈیڑھ فرلانگ کی دوری پر حکیم معز الدین کے مطب میں بیٹھے ان سے گپ شپ کر رہے ہیں کہ نواب محل کے اطراف سے ایک فلک شگاف دھماکہ سنائی دیتا ہے۔ دھماکہ کی آواز سن کر دیوانے مولوی صاحب حواس باختہ ہو جاتے ہیں۔ در اصل انہیں واہمہ ہو جاتا ہے کہ دھماکہ کہیں نواب محل میں ہی نہ ہوا ہو۔ وہ متوحش اور بے تحا شہ پن سے آگے پیچھے قدم اٹھاتے ہوے نواب محل کا رخ کر تے ہیں۔ انہوں نے دور سے جو کچھ دیکھا ہے اس پر یقین نہ آنے پر آنکھوں پر بار بار زور ڈالا ہے:
‘‘ نواب محل کے پائیں باغ میں پھٹنے والا بم اتنا طاقتور تھا کہ کوئی کہہ رہا تھا یہاں امین آباد میں پھٹا ہے، کوئی نذیر آباد اور کوئی ماموں کی قبر میں۔ سبھی لکھنؤ والوں کو لگا کہ انہی کے گرد و نواح میں کہیں دھماکا ہوا ہے۔ شہر بھرمیں کہرام سامچ گیا۔ ‘‘
دیوانے مولوی صاحب کا بھرا پرا خاندان دیکھتے ہی دیکھتے موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے اور کچھ لوگوں کو چھوڑ کر بیشتر لوگ اس سانحے کا شکار ہو کر لقمۂ اجل بن جاتے ہیں۔ پورے گھر سے نواب مرزا کا ایک لڑکا اور ایک لڑکی بچ جاتے ہیں۔ اتفاق تھا کہ وہ دونوں اس وقت پائیں باغ سے کا فی فاصلے پر لکن چھپن کھیلنے میں مگن تھے:
‘‘ دیوانے مولوی صاحب جب حکیم معز الدین کے مطب سے لوٹ کر نواب محل کے اردگرد کی بھیڑ کو چیرتے ہوئے محل میں داخل ہوئے تھے تو ان کے غم کا انسداد کرنے والے ان کے غم کا اسباب کر کے پرلوک سدھار چکے تھے۔ ان کی اچھی بیگم اور نواب بیٹا اور چاند بہو اور چہیتی ثریا ملبے کی قبر میں دفن تھے اور ان اپنوں کی بجائے ایک غیر شخص، ان کا باورچی، جس کے ہم ذاتوں کے باعث یہ بلا نازل ہوئی تھی انہیں سہارا دینے کے لئے ان کی طرف بڑھ رہا تھا۔ جب اور کو ئی نہ ہو اور دشمن ہی سہارا دینے کے لئے بڑھ آئے تو محبوب سا لگتا ہے اور اسی کی بغلوں میں سر دے کر پھوٹ پھوٹ کے رو دینے سے چین آ جاتا ہے، سو دیوانے مولوی صاحب بھی بے اختیار سائیں با با کے سینے سے آ لگے اور اتنا روئے کہ ان کے ہوش و حواس بحال ہونے لگے۔ ‘‘
سچ کہتے ہیں کہ مصیبت میں ڈھارس بندھانے والا دشمن بھی محبوب لگنے لگتا ہے۔ ایک طرف دیوانے مولوی صاحب اپنے سندھی باورچی کے سینے سے آ لگے ہیں تو دوسری طرف ان کی سندھی بہو، ان کے بچے کچے خاندان کو سنبھال لیتی ہے۔ اسحاق مرزا سندھی کالونی سے نواب محل میں اٹھ آیا ہے اور اس کی سندھی بیوی سلمی بیگم نے دونوں یتیم بچوں کو اپنی نگرانی میں لے کر اتنا پیار دیا ہے کہ سلیم اور دلنواز اپنے آپ ہی اسے امی کہہ کر پکارنے لگے ہیں اور سلمی بیگم ان کے اس معصوم جذبے کو تقویت پہچانے کے ذرائع کو وسیع کئے جانے کی سوچتی رہتی ہے۔ لیکن دیوانے مولوی صاحب کے ذہن پر اس سانحے کا اثر یوں ہوا ہے کہ وہ سوچنے لگے ہیں کہ وہ کراچی چند دنوں کے لئے ملنے ملانے کے لئے آئے ہیں اور وہ جلد از جلد لکھنؤ لوٹ جانا چاہتے ہیں۔ ان کو لگتا ہے کہ لکھنؤ میں اچھی بیگم، نواب مرزا، چاند بی بی اور ثریا بے چینی سے ان کا انتظار کر رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس سانحے میں انہوں نے ان لوگوں کو سداکے لئے کھو دیا ہے۔ دیوانے مولوی صاحب کی یہ عجیب و غریب ذہنیت اور زندگی کے تئیں ان کا یہ رد عمل ذہنی اذیتوں کی ایک ایسی داستان ہے جو حساس ذہنوں کا مقدر بن چکا ہے۔ ناولٹ اس طرح اپنے اختتام کو پہنچتا ہے:
‘‘ تیار ہو جاؤ بیٹے، آج ہم جا رہے ہیں۔
کہاں، بڑے ابو ؟
لکھنؤ، بیٹے، ہمارا لکھنؤ۔
سلیم کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ اس کے ابو کس لکھنؤ کا ذکر کر رہے ہیں۔ وہ کھڑے کھڑے گیند سے کھیلنے لگا ہے جو اچانک کمرے سے باہر اچھل گئی ہے اور وہ یہ جواب دے کر گیند کے پیچھے بھاگ گیا ہے۔
لکھنؤ یہیں تو ہے بڑے ابو !۔ ‘‘
ناولٹ کی یہ آخری سطریں پڑھ کر قاری کی آنکھوں میں آنسو امنڈ آتے ہیں اور ہمیں دیوانے مولوی صاحب سے یک گونہ ہمدردی محسوس ہونے لگتی ہے کہ ان کی زندگی کا بیشتر حصہ خواب ہی میں گزر جاتا ہے۔ وہ اپنے خواب میں سلیم اور دلنواز کو بھی شامل کرنا چاہتے ہیں۔ اس حوالے سے وزیر آغا لکھتے ہیں:
‘‘ دیوانے مولوی صاحب لکھنؤ سے اکھڑے تو انہوں نے کراچی کو لکھنؤ بنا لیا۔ کراچی کا یہ لکھنؤ پاش پاش ہوا تو انہوں نے اسے اپنے خوابوں میں بسالیا اور ایک نئے سفر کی تیاری کرنے لگے مگر وہ اس سفر میں سلیم اور دلنواز کو بھی شامل کرنا چاہتے ہیں جو در حقیقت مستقبل کے چراغ ہیں۔ امکان اس بات کا ہے کہ وہ انہیں تاریک راہوں میں زیادہ دیر تک بھٹکنے نہیں دیں گے بلکہ خواب کی جنت سے نکال کر ہمہ وقت تبدیل ہوتی اس دنیا میں واپس لے آئیں گے جس کے اپنے خواب ہیں۔ ‘‘ (14)
جو گندر پال کے اس خوبصورت ناولٹ میں دنیا کے کسی بھی خطے میں بسنے والے حساس مہاجر کو اپنی ہی داستان نظر آتی ہے اور اسے محسوس ہوتا ہے کہ اپنی مٹی اور اپنی تہذیبی جڑوں سے اکھڑ کر وہ بھی ایک خواب کی سی کیفیت میں جی رہا ہے۔ جوگندر پال کے اس ناولٹ کو پڑھ کر برلن میں رہنے والی ایک مہاجر عورت کا تأثر کیا ہوتا ہے اسے بیان کر تے ہوے جوگندر پال اپنے انگریزی مضمون On writing Sleepwalkers میں لکھتے ہیں:
“A German Indologist visited me with her husband about the time I had just completed the novella. Reading a few pages of the manuscript while I had been busy talking to her husband, she suddenly let out what sounded like a sob.
“Why….?” Alarmed, I asked her in my most persuasive voice. “But this is my story” the tear-stricken lady controlled herself to speak. “This is the story of all of us living on the either side of the Berlin Wall. Let me tell you what happened to our family….”
I knew for certain that she was not feigning interest. She had indeed gone through the same terrible experience in different circumstances. So, shall I say, it is not always the same events but the same emotional impact of the events that accounts for literary authenticity.” (15)
سچ ہے کہ واقعات ہر جگہ چاہے ایک جیسے پیش نہ آتے ہوں لیکن ان کا ذہنی و جذباتی تأثر ہمیشہ ایک جیسا ہی ہوتا ہے اور مہاجرت و جلا وطنی کی زندگی گزارنے والا انسان ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر تا رہتا ہے۔ وہ انسان اپنے بکھراؤ کو کبھی خوابوں کے ذریعے سمیٹنے کی کوشش کرتا ہے اور کبھی حقیقت کے ذریعے۔ جس میں اسے سنگلاخ گزر گاہوں سے گزرنا پڑ تا ہے اور بسا اوقات ٹھو کریں بھی کھانی پڑتی ہیں۔ لیکن یہ زندگی کی کشش ہی ہے کہ انسان ان تمام مصیبتوں سے گزر کر بھی کہتا ہوا نظر آتا ہے:
کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری
صدیوں رہا ہے دشمن دورِ زماں ہمارا
، خواب رو، پر فنی لحاظ سے بات کر یں تو اس میں جوگندر پال نے بیانیہ اسلوب اختیار کیا ہے۔ وہ قصے کے راوی کی حیثیت سے ساری وضاحتیں بیانہ کی تکنیک میں بیان کر تے ہیں لیکن کہانی بیان کرنے کے دوران جو گندر پال موقع و محل کی ضرورت کے مطابق بیانیہ سے اچانک مکالمے کی جانب مراجعت بھی کر جاتے ہیں جس سے قصے کا راوی اور کہانی کے کرداروں کے درمیان کو ئی حد فاصل قائم نہیں ہوتا بلکہ کرداروں کے مکالموں کے ذریعہ سے اس میں ایک فطری بہاؤ آ جاتا ہے۔ جو گندر پال نے اس میں مکاتیب کے اسلوب کو بھی برتا ہے اور تجسیم کی گنجائش بھی نکالی ہے۔ دیوانے مولوی صاحب باغ کے پھولوں سے گفتگو کر تے ہیں اور گلہری سے ہم کلام ہو تے ہیں۔ ، خواب رو، کے اسلوب کے بارے میں شفیق احمد شفیق لکھتے ہیں:
‘‘ پوری کتاب میں مصنف کا بیانیہ اتنا مضبوط، منظم اور مبسوط ہے کہ صفحات کے صفحات پڑھتے چلے جائیں، اظہار میں ذرا بھی جھول کا گمان نہیں ہو تا، ہر لفظ اپنی جگہ فطری اور ضروری محسوس ہونے لگتا ہے۔ اس کتاب میں جمالیاتی انسلاکات کا مظاہرہ ان معنوں میں نظر نہیں آتا کہ انہوں نے زلف و رخ، قد و قامت، قرب و وصال کی لذت اور تالابوں یا جھیلوں میں اشنان کرتی ہوئی گوپیوں کا قصہ رقم نہیں کیا اور نہ اس سے لذت اندوزی کی کو ئی سبیل نکالی ہے۔ بات اصل میں یہ ہے کہ ان کے یہاں جمالیاتی اہتمام کسی نمائشی جذبے کے تحت موجود نہیں۔ ان کا احساس جمال اتنا توانا اور فطری ہے کہ جب وہ کچھ لکھتے ہیں تو جملوں اور عبارتوں کی تنظیم کے دوران از خود ان کی تخلیقات کا جزء لاینفک بن جاتا ہے، جو لکھنے سے زیادہ محسوس کرنے کی چیز ہے۔ ‘‘ (16)
جوگندر پال کے اس قول ، بہ حیثیت ادیب میں اپنی ذات میں بے شناخت ہوں یا میری شناخت کے نقوش کائنات کے سب ہی مظاہر میں مضمر ہیں، میں جو کچھ بھی دیکھتا ہوں وہی بن جاتا ہوں یہی میری شناخت ہے۔ ، کی مکمل تعبیر ہے ان کا یہ ناولٹ۔ کبھی دیوانے مولوی صاحب میں جوگندر پال کی جھلک دکھتی ہے تو کبھی اسحاق مرزا میں۔ وہ اپنی کہانیوں کے کر داروں میں اپنی ذات کو گم کر دیتے ہیں اور پھر ہمیں ہر کر دار میں ان کی جھلک نظر آتی ہے۔ وہ خود اس بارے میں لکھتے ہیں:
“I do believe I am no other than Deewane Maulvi Sahab of Khwabrau and, living here in India, I did experience every detail of his life in Pakistan.” (17)
جو گندر پال پاکستان کے سیالکوٹ میں پیدا ہوئے اور عین نوجوانی کے عالم میں ہجرت کر کے ان کو ہندستان آنا پڑا اور پھر کچھ ہی دنوں بعد انہیں کینیا جانا پڑ گیا جہاں انہوں نے اپنی عمر عزیز کے چودہ برس ذہنی جلاوطنی کے عالم میں گزارے۔ اپنی جڑوں سے کٹنے کا درد جوگندر پال سے بہتر کون محسوس کر سکتا ہے۔ اس لئے ان کا یہ ناولٹ ان کی آپ بیتی بھی ہے اور جگ بیتی بھی۔ اس خوبصورت ناولٹ کا انگریزی ترجمہ سنیل تریویدی اور سکریتا پال کمار نے کیا ہے، جس کو ، کتھاسوسائٹی ، نے مارچ1998/میں کتابی شکل میں شائع کیا۔ اس ناولٹ میں جوگندر پال نے ہجرت کرنے والے افراد کے نفسیا تی و ذہنی کرب کو نہ صرف محسوس کیا ہے بلکہ اس سے نجات پانے کا طریقہ بھی بتانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اس میں روزمرہ کی روانی وسلاست موجود ہے اور ہندی و انگریزی الفاظ کا استعمال اتنی خوبصورتی سے کیا گیا ہے کہ کسی طرح کی کوئی گرانی محسوس نہیں ہو تی ہے۔
٭٭
، بیانات، جوگندر پال کا ایک خوبصورت ناولٹ ہے، اس میں جوگندر پال نے سائنس، فکشن اور زندگی کے باہمی رشتے اور تعلق کو علامتی انداز میں فنکارانہ طریقے سے پیش کیا ہے۔ یہ ناولٹ جوگندر پال نے اپنے قیام اورنگ آباد کے دوران 1971 میں لکھا تھا۔ پہلی بار یہ 1971 میں ہی ، شب خون ، میں چھپا تھا۔ کتابی شکل میں یہ ناولٹ 1975 میں شائع ہواجس کا ناشر انڈین بکس پبلیکیشنز، دلال واڑی، تلک روڑ، اورنگ آباد دکن ہے۔ 92 صفحات پر مشتمل یہ ناولٹ سائنس، فکشن اور زندگی کے باہمی رشتے کو جس طور پر تخلیقی گرفت میں لیتا ہے اس کی کوئی نظیر اردو میں نہیں ملتی۔ مختصر کینوس اور معدودے چند کرداروں کے ذریعہ جوگندر پال نے جس طرح اس ناولٹ کے پلاٹ کو بنا ہے وہ صرف انہیں کا خاصہ ہے۔ اردو میں عام طور پر اس طرح کے موضوعات کو کم برتا جاتا ہے۔ لیکن جوگندر پال نے اپنے ناولوں، ناولٹ، افسانوں اور افسانچوں میں گہرے سوچ و فکر والے موضوعات کو ہی اپنی فنی جولانیوں کی آماجگاہ بنایا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کی اشاعت کے فوراً بعد قارئین و ناقدین نے اس ناولٹ پر بہت زیادہ توجہ نہیں دی۔ یہی وجہ ہے کہ اس پر تنقیدی مضامین بالکل نظر نہیں آتے۔ جب کہ اس زمانے میں سائنس میں نت نئی ایجادات اور ہماری زندگی کے تمام شعبوں میں تیزی سے ان کے حاوی ہونے کے سبب سائنس، فکشن اور زندگی میں توازن بہت تیزی کے ساتھ بگڑ رہا تھا اور پہلے سے بنا بنایا ڈھانچہ بکھر رہا تھا۔ جوگندر پال بڑی گہری سوچ و فکر کے مالک تخلیق کار ہیں۔ ان کی دوربین نگاہیں ان چیزوں تک جاتی ہیں اور ان باریکیوں کو دیکھ لیتی ہیں جن تک عام لوگوں کی نظر بڑی مشکل سے پہنچ پاتی ہے۔ انہوں نے اس بگڑتے توازن کو اپنے اندر جذب کیا اور پھر اسے تخلیقی صورت میں دنیا کے سامنے پیش کر دیا۔
(جوگندر پال کے ناولٹ ‘‘ بیانات‘‘ پر جہانگیر احمد کے باب کا ابتدائی حصہ)
٭٭٭