آمدو رفت، بھی جوگندر پال کا ایک خوبصورت ناولٹ ہے۔ اس کو بھی انہوں نے اپنے قیام اورنگ آباد کے دوران لکھا تھا۔ 1971میں پہلی بار یہ ناولٹ ، شاعر، کے ناولٹ نمبر میں شائع ہوا تھا۔ 1975میں اس کو انڈین بکس پبلیکیشنز، اورنگ آباد نے کتابی شکل میں پیش کیا۔ یہ ناولٹ 48صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں جوگندر پال نے مارگن اور شیلا کے کر داروں کے ذریعے بڑے طنزیہ انداز میں ہندستان کی تصویر کشی کی ہے اور یہاں کی معاشرتی تضادات، رجعت پسندانہ روایات، غربت و جہالت، فرقہ وارانہ فسادات، خشک سالی اور سیلاب وغیرہ مسائل کو بڑے طنزیہ و مزاحیہ انداز میں تخلیقی صورت دی ہے۔ اس میں مرکزی کردار مارگن اور شیلا ہیں۔ مارگن کی ماں انگریز ہے اور باپ ہندستانی، لیکن اپنے باپ کی شفقت اسے کبھی نہیں مل سکی کیونکہ اس کی ولادت سے قبل ہی اس کی ماں نے اس کے ہندستانی باپ کو چھوڑ دیا تھا اور انگلینڈ واپس جا کر دوسری شادی کر لی تھی نیز اس نے اپنے انگریز شوہرکو یہ باور کرا دیا تھا کہ یہ بچہ اسی کا ہے۔ مارگن کو بھی اس کا علم اس کی ماں کے انتقال کے وقت تب ہوا جبا س کی ماں نے اپنے اعتراف نامے میں اس کا تذکرہ کیا۔ شیلا ایک ہندستانی نژاد، عیسائی لڑکی ہے جو ہندستان پر ریسرچ کرنا چاہتی ہے اور اپنے اس ریسرچ میں مارگن کو اپنا سوپروائزر بنانا چاہتی ہے۔ مارگن اس کا سوپروائزر بننا منظور کر لیتا ہے۔ پھر دونوں کے تعلقات میں گہرائی آتی ہے اور دونوں شادی کے بندھن میں بندھ جاتے ہیں اور یہ طے کر تے ہیں کہ اپنا ہنی مون ہندستان میں منائیں گے۔ اسی سفر کے حوالے سے ہندستان کے حالات کو باریک بینی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ اس ناولٹ میں ہندستانی معاشرے کے احوال وآثار بڑی صفائی سے منعکس ہوئے ہیں۔ اس میں حقیقتوں کا گہرا ادراک بھی ہے اور احساس کی تیز لہریں بھی۔ اس میں ہندستانی زندگی کی پیچیدگیوں اور الجھنوں کو پیش کرنے کا جو خوبصورت اسلوب اختیار کیا گیا ہے یہ جوگندر پال کا خاصہ ہے۔ جو گندر پال کے دوسرے ناولٹ کے برعکس اس میں فلسفیانہ موشگافیاں نہیں ملتیں بلکہ سیدھے سادے، سلیس انداز میں کرداروں کے افکارو احساسات کے ذریعہ کہانی کو آگے بڑھایا گیا ہے۔ ناولٹ کی پوری کہانی مارگن کے کردار کے توسط سے ہندستانی حالات کو محیط ہے۔ مارگن کو لاشعوری طور پر ہندستان سے گہری دلچسپی ہے۔ اس نے اپنی پہلی اور دوسری پی ایچ۔ ڈی کے مقالے بھی ہندستانی موضوعات پر ہی لکھے۔ انگلینڈ اوراقوام متحدہ کے با اثر حلقوں میں ہندستانی امور پر اس کی رائےا تھارٹی مانی جاتی ہے۔ مارگن انگلینڈ کے سب سے اہم اسکول آف انڈین اسٹڈیز کا ڈائرکٹرہے۔ مارگن کی ماں نے اپنے ہندستانی شوہر سے طلاق کے بعد انگلینڈ لوٹ کر اس کی کوئی چٹھی، فوٹو یاکوئی بھی نشانی باقی نہ رہنے دی۔ اس لئے مارگن کو اپنے باپ کی شکل و شباہت کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں۔ اسے یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ اس کا حقیقی باپ ابھی زندہ ہے یا مرکھپ کر مٹی میں مل چکا ہے۔ لیکن اس کا اندازہ ہے کہ اس کا باپ کب کا مرکھپ گیا ہو گا کیونکہ اس کے خیال میں ہندستانیوں کی اوسط عمر تیس پنتیس برس ہو تی ہے یا پھر بہت زیادہ تو پچاس پچپن برس۔ مارگن سوچتا ہے کہ اس کی ماں کی طرح اس کے باپ نے بھی دوسری شادی کر لی ہو گی اور اس کے کم از کم ایک درجن بہن بھائی تو ضرور ہوں گے۔ لیکن چونکہ وہ ان کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا، کسی کو بھی نہیں پہچانتا، اس لئے وہ پورے پچاس کروڑ ہندستانیوں کو اپنا نصف بہن بھائی مانتا ہے اور اگر ایسا کوئی مارگن آج کے زمانہ میں ہو تو پورے ایک ارب بیس کروڑبہن بھائی۔ مارگن کو اپنے باپ کی شکل کچھ اس طرح نظر آتی ہے:
‘‘ میرے لئے میراباپ اپنا بھوت سا ہے جس کی پوری شکل مجھے دکھائی نہیں دیتی اب بڑی بڑی مونچھیں ہلتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ اب کٹے ہوے ہاتھ ہوا میں لہرا رہے ہیں۔ اب صرف ناک ابھرآئی ہے۔ میرا پو را باپ مجھے آدھا بھی دکھائی نہیں دیتا ہے آدھا باپ کم از کم دیکھنے میں تو پورا تھا۔ ‘‘
مارگن کے اس جملے سے ، میرا پورا باپ مجھے آدھا بھی دکھائی نہیں دیتا، آدھا باپ کم از کم دیکھنے میں تو پورا تھا، اس کا کرب جھلکتا ہے۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کسی شخص نے اپنی عمر کے چالیس برسوں تک جسے اپنا باپ سمجھا ہو، اس کے بارے میں اچانک یہ معلوم ہو جائے کہ یہ اس کا باپ نہیں ہے بلکہ اس کا باپ کوئی اور شخص ہے جس کی کوئی بھی نشانی موجود نہیں ہے، تو اس کی ذہنی و نفسیاتی کیفیت کیا ہو گی۔ کہانی آگے بڑھتی ہے مارگن کے نام ایک ہندستانی مداح کے خط کے ذریعہ۔ یہ مداح مارگن کے کسی مضمون سے بہت زیادہ متأثر ہو گیا ہے جس میں مارگن نے ہندستان کے مسائل کو موضوع بنایا ہے۔ اس مداح کا اپنا ادراک یہ ہے کہ برٹش مصنفین جب ہندستان پر لکھتے ہیں تو یا تو وہ بڑے بھائی کا شفیق لہجہ اختیار کر لیتے ہیں یا انگلش پبلک اسکول کے کسی اولڈ ٹیچر کے مانند اپنی ہر سطر میں موٹی موٹی ججمنٹ اور وارننگ دینے کو بیتاب رہتے ہیں یا پھر انڈیا کے اولڈ برٹش سول سرونٹس کی طرح ہندستانیوں کو سرے سے انسانی برادری میں شامل ہی نہیں کر تے۔ مگر مارگن کا انداز مخلصانہ ہے۔ لیکن چونکہ مارگن نے خود ہندستان دیکھا نہیں ہے اس لئے یہاں کے صحیح حالات کا اسے اندازہ نہیں ہے اور ہندستان کے بارے میں اس کا مطالعہ اور ادراک اکادمی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کے لوگ ہندستانیوں کو متمدن نہیں سمجھتے، مگر اس ہندستانی مداح کا تہذیب و تمدن کے بارے میں یہ ماننا ہے:
‘‘ ہماری مشکل یہ ہے کہ ابھی تک دنیا کے نمائندوں کے نزدیک تمدن کی پہچان بھی وہی ایک نہیں۔ کوئی تمدن کو کھانے اور اوڑھنے کی شئے سمجھتا ہے اور کوئی اسے سجا کر رکھنے کی۔ در اصل ہر شئے کی پہچان کے تعین کا انحصار لوگوں کی اپنی اپنی فوری ضرورت پر رہتا ہے۔ ‘‘
اس چیز کی وضاحت عصری حالات میں ، دہشت گردی، کی اصطلاح سے بہت اچھی طرح ہو جاتی ہے کہ دنیا کے بڑے ممالک اپنی اپنی فوری ضرورتوں کے تحت اس اصطلاح کے معنی و مفاہیم متعین کر لیتے ہیں۔ امریکہ، برطانیہ، جاپان، کنیڈا، روس اور انڈیا نیو کلیائی ہتھیار بنائیں تو کو ئی دہشت گردی، کوئی جرم نہیں لیکن ایران بنانے کی کوشش بھی کرے تووہ دہشت گرد ہے۔ امریکہ دنیا کے کسی بھی ملک، کسی بھی خطے پر حملہ کرے تو کوئی دہشت گردی نہیں، لیکن فلسطینی اپنی دفاع کے لئے احتجاج بھی کریں تو وہ دہشت گردہیں۔ مارگن نے اپنے مضمون میں تاریخی شعورکو بڑی اہمیت دی ہے لیکن اس مداح کوہندستانیوں کے تاریخی شعور پر اعتبار نہیں ہے۔ وہ ہندستانیوں کے تاریخی شعور کا مذاق اس طرح اڑاتا ہے:
‘‘ میرا ایک چچیرا بھائی ہے جو ہمارے ملک کی ایک بہت بڑی یونیورسٹی میں تاریخ کے شعبہ کا صدر ہے۔ اس کی اسپیشل اسٹڈی ، پراچین بھارت میں ہندو راجیہ ، ہے۔ اور میرا چچا یعنی اس کا باپ سنسکرت بھاشا کا مانا ہوا ودوان ہے۔ مجھے اپنے تاریخی شعور کے بیان سے بے اختیار اپنے چچیرے بھائی کا خیال آ گیا ہے جو نئے ہندستان کے مسائل کا حل پراچین ہندو راجیہ کے سیاق میں ڈھونڈھنے کا حامی ہے۔ ‘‘
جب ہندستان کی ایک بڑی یونیورسٹی کے تاریخ کے شعبہ کے صدر کے تاریخی شعور کا یہ عالم ہے تو عام ہندستانیوں کا عالم کیا ہو گا اور ان کے تاریخی شعور پر اعتبار و انحصار کہاں تک جائز ہو گا۔ جو گندر پال نے یہ تنقید اسّی کی دہائی کے ہندستان کے حوالے سے کی ہے۔ مگر آج اکیسویں صدی میں بھی ہمارے یہاں کچھ پولیٹکل پارٹیاں ایسی ہیں جو عصری ہندستان کے مسائل کا حل پراچین ہندو راجیہ کے سیاق میں ڈھونڈھنے کی حامی ہیں۔ مارگن کے اس ہندستانی مداح کا ماننا ہے کہ ہمارا تاریخی شعور ہمارے معاصرانہ اقدام کی نفی کرتا ہے۔ کیونکہ ہم جن آقاؤں کی پیروی کرتے ہیں ان کی صورتحال یہ ہے:
‘‘ ہمارے آقاؤں کے پیٹوں نے ان کے آباء و اجداد کے تہذیبی ترکے کی گیسوں سے پھول پھول کر انہیں اپنی ہمت سے دو قدم چلنے کا بھی اہل نہیں رہنے دیا۔ اور ہم جن کے عمل کا انحصار انہی کی حکمت عملی پر ہے، ان کے پیچھے پیچھے چلنے کے لئے قدم قدم پر کئی کئی سال اس انتظار میں رکے رہتے ہیں کہ وہ اٹھیں اور ہماری رہبری کریں۔ ‘‘
مگر نہ وہ اٹھ سکیں گے اور نہ ہی ہماری رہبری کر سکیں گے۔ اس لئے مسٹر مارگن اگر آپ کو ہمارے قدیم ذہن کی ضرورت ہو تو لے لیجئے، بلکہ لے ہی لیجئے کہ اس سے آپ کے عجائب گھر کی توقیر بڑھ جائے گی۔ ہاں بدلے میں آپ ہمیں ہمارے روزمرہ کی چھوٹی چھوٹی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے اپنی حاضر دماغی دے دیجئے۔ یہ مداح مارگن کو ہندستان کی آبادی کے بارے میں لکھتے ہوئے بتاتا ہے کہ یہاں چاروں طرف روز افزوں آبادی کی بھیڑ دیکھ کر لگتا ہے کہ ہم اجنتا کے غاروں میں گھوم رہے ہیں۔ یہاں ہر لمحہ ان گنت بچے پیدا ہو رہے ہیں اور مزید ان گنت بچے پیدا ہونے کے لئے کیو میں لٹکے ہوئے ہیں۔ مداح مارگن کو بتاتا ہے کہ ہمارے یہاں جب کوئی دلہن بیاہ کر لائی جاتی ہے تو بزرگ اسے اس طرح دعا دیتے ہیں:
‘‘ تیرے آنگن میں اتنے بچے جمع ہو جائیں کہ تمہارے باہر جانے کا راستہ رک جائے تو وہ دھرم کرم کی ناری شردھا سے اس کے پاؤں چھونے کے لئے جھک جاتی ہے۔ ‘‘
مداح نے مارگن کو ہمارے مذہبی رہنماؤں کے بارے میں بھی تفصیل سے بتایا ہے کہ کیسے یہ خاص سمجھدار لوگ اس جیون میں بھی خوب سکھ لیتے ہیں اور بعد از مرگ تحفظ اور آرام کا سامان بھی یہیں سے بک کرا لیتے ہیں۔ ان کی عیاری و مکاری کے سبب بھگوان کے دیش کا ایکسچینج کنٹرول بھی ان کی راہ میں حائل نہیں ہوتا ہے۔ مداح ڈاکٹر مارگن کوب تاتا ہے کہ ہندستان مکمل طور پر ایک راز ہے۔ اس لئے آپ ہندستان آیئے اور دیکھئے کہ یہ کتنا عجیب و غریب ملک ہے۔ اب کہانی میں شیلا کی انٹری ہوتی ہے، شیلا پی ایچ۔ ڈی کی اسٹوڈنٹ ہے اور اس کے مقالے کا عنوان ہے ، دی ریلے ونس آف دا پریزنٹ انڈیا ٹو دا فیوچر آف دا ورلڈ سوسائٹی، (The Relevance of the Present India to The Future of The World Society) جس میں ڈاکٹر مارگن کو وہ اپنا گائڈ منتخب کرتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ہندستانی مسئلے کے موضوع پر ڈاکٹر مارگن سے بہتر گائڈنس کون دے سکتا ہے۔ جب شیلا پہلی بار ڈاکٹر مارگن سے ملنے جاتی ہے تو اس کی سوچ اس طرح کی ہوتی ہے:
‘‘ اگرچہ میں نے سوچا تھا کہ ڈاکٹر مارگن کوئی حواس باختہ بوڑھا کھوسٹ ہو گا تاہم میری خواہش تھی کہ وہ کوئی خوش باش جوان آدمی ہو۔ عورت پہلی بار جب اپنے آپ کو کسی اجنبی مرد سے۔۔ ۔۔ خواہ وہ مرد اس کے باپ کا کوئی ہم عمر دوست ہو۔۔ ۔ ملنے پر آمادہ کرتی ہے تو اس کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ کچھ اور ہو نہ ہو۔۔ دیکھنے میں پورا مرد ضرور ہو، کہ اسے دیکھ کر ہی طبیعت خوش ہو جائے۔ ‘‘
مارگن شیلا کی خواہش کے عین مطابق نکلا ہے وہ اتنا خوبصورت ہے کہ شیلا فوراً اس کے طرف مائل ہو جاتی ہے، مارگن کی دلچسپی بھی شیلا میں بڑھتی ہے اور چند ہی ملاقاتوں میں وہ دونوں ایک دوسرے کے بالکل قریب آ جاتے ہیں، مارگن شیلا سے پوچھتا ہے کہ کیا تمہاری یہ خواہش نہیں کہ اپنے باپ دادا کے دیش کو جا کے دیکھو؟ وہ کہتا ہے کہ تم چاہو تو ہم اپنا ہنی مون ہندستان میں ہی منائیں گے۔ شیلا ہندستان جانے کے لئے تیار ہو جاتی ہے۔ مارگن اور شیلا کے سفر ہندستان کے ذریعہ ہی کہانی اپنی ارتقائی منزل تک پہنچتی ہے۔ اخبار کے ایک خبر کے مطابق مارگن اور شیلا ہندستان میں ایک سال تک رہیں گے اور یہاں کے سارے اہم مقامات کے علاوہ وہ ہندستانی طرز زندگی کا مطالعہ بھی کریں گے۔ خبر سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مارگن اور شیلا کی خواہش ہے کہ ان کا پہلا بچہ ہندستان میں ہی پیدا ہو۔ ایئر پورٹ کے باہر مارگن اور شیلا کا خیر مقدم کرنے والوں میں اسکول آف اورینٹل اسٹڈیز کے لیکچرر ڈاکٹر رامجس بھی ہیں۔ رسمی بات چیت کے بعد مارگن سے وہ اپنی ایک خواہش کا اظہار کرتے ہیں:
‘‘ میری ایک اور خواہش ہے ڈاکٹر: آپ ہمیں ہمارے ہندستان پرکم سے کم ون سیریز آف لیکچر ضرور دیجئے۔
لیکن میں تو اس لئے یہاں آیا ہوں کہ انڈین ایکسپرٹ ہندستان کے بارے میں میرے علم میں اضافہ کریں۔
ہم ناچیز کیا اضافہ کر سکتے ہیں ڈاکٹر مارگن؟ اپنے ملک کے تعلق سے ہمارا علم تو صرف نصاب و درس تک محدود ہے۔ ؟!۔
آپ کا متعجب ہونا غلط نہیں۔ ہم ہندستان میں رہ ضرور رہے ہیں مگر ہندستان پر کوئی معقول ریسرچ کرنے کے لئے ہمیں انگلینڈ کے ماحول کی ضرورت ہے ڈاکٹر مارگن۔
تو پھر ریسرچ چھوڑ دیجئے اور اپنی روزمرہ کی انڈین لائف کا سیدھا سادہ مشاہدہ کر کے اپنے نتائج اخذ کیجئے۔
ہاں ڈاکٹر، یہ آپ نے بڑے پتے کی بات کہی ہے۔ ‘‘
ڈاکٹر مارگن کی گفتگو سے حقیقت پسندی جھلکتی ہے۔ تو ڈاکٹر رامجس کی گفتگو سے فرسٹریشن اور مایوسی۔ رامجس کی گفتگو کے ذریعہ جوگندر پال نے ہندستانی اسکالرس میں خود اعتمادی کی کمی اور اپنے علم و آگہی کو ہیچ سمجھنے کا جو رجحان پایا جاتا ہے اسے بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ ہمارے اندر دوسری اقوام سے مرعوب ہونے کی جو خو ہے وہ انتہائی مہلک ہے۔ ہمیں اپنے علم و آگہی پر پہلے خود اعتماد کرنا ہو گا تب ہی دنیا اسے قابل اعتنا سمجھے گی۔
آج ہندستان میں صوبائی عصبیت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے اور صوبائی سیاسی پارٹیاں اس آگ کو اور بھی ہوا دے رہی ہیں۔ ہندستان ایک جمہوری ملک ہے اور یہاں وفاقی حکومت قائم ہے۔ ہندستان کے کسی بھی شہری کو کسی بھی صوبے میں جانے، روزگار حاصل کرنے اور رہنے سہنے کا بنیادی حق حاصل ہے۔ لیکن 2008 میں مہاراشٹر میں یوپی اور بہار کے لوگوں کے ساتھ مہاراشٹر کے لوگوں نے وہاں کی کچھ سیاسی پارٹیوں کے بہکاوے میں جو سلوک روا رکھا اور حکومت کی اس پوری صورت حال پر سرد مہری کے ساتھ موک درشک بنے رہنے کے حوالے سے یا پھر 2008میں ہی آسام میں بہار کے لوگوں کے ساتھ جو بربریت ہوئی اس حوالے سے جوگندر پال کا یہ خوبصورت طنز دیکھئے:
‘‘ کتنی بھیڑ ہے شیلی!
ہاں معلوم ہوتا ہے، سارا ہندستان ریلوے اسٹیشن پر جمع ہو گیا ہے۔ تم ٹھیک کہتی ہو، آج سارا ہندستان یہاں ریلوے اسٹیشن پر جمع ہے اور کہیں جانے کا انتظار کر رہا ہے۔
کہاں جانے کا؟ یہ گاڑیاں تو جہاں بھی جائیں گی اسے کہیں اس کے اندر ہی لے جا کر ڈال دیں گی۔ ہندستان سے باہر تو نہ جائیں گی۔
ہاں، نادان لوگ ہیں، انہیں پتہ نہیں کہ یہاں سے وہاں تک سارا سفر طے کر کے ہندستان سے ہندستان ہی پہونچیں گے۔۔ ۔۔ مگر نہیں ٹھہرو! ہندستان میں ہندستان ہے کہاں ؟ ہندستان میں پنجاب ہے، مہاراشٹر ہے، آندھرا، تامل ناڈو یا بنگال ہے۔ ان سب گاڑیوں کو وہیں کہیں جانا ہے۔ انہیں ہندستان نہیں جانا ہے۔ ہندستان کہاں ہے ؟بتاؤ، ابھی تک کہیں نظر آیا۔ ‘‘
یہ صورتحال اسّی کے دہائی کی ہے۔ آج حالات اور خراب ہو چکے ہیں اور صوبائی عصبیت اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے Communal accommodation اور Tolerance spirit جو ہندستان کی امتیازی خصوصیت تھی اب اس کا فقدان ہو چکا ہے۔ اب Regional languageآدمی کے استحقاق اورا س کے امتیاز کی علامت بن گئی ہے۔ آبادی جتنی تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے اسی تناسب سے بے روزگاری، مفلسی، ناداری اور بیماری بھی بڑھ رہی ہے۔ چور اچکوں اور جیب کتروں کی یہاں بہتات ہے:
‘‘ ارے ! میں تمہیں ایک بات بتانا بھول گیا شیلی، جب ہم پلیٹ فارم نمبر تین پر کھڑے تھے تو ایک آدمی، میری پتلون کی جیب میں ہاتھ ڈال رہا تھا، میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر چھوڑ دیا، یہ سوچ کر کہ اتنی بھیڑ میں اس قدر جڑ کر کھڑے ہوں تو کیا پتہ چلتا ہے کہ اپنی پتلون کی جیب ہے یا کسی اور کی؟۔۔ ۔۔ میں نے اس کی طرف آنکھ اٹھا کے بھی نہیں دیکھا۔ بے چارہ شرمندہ ہو کر رہ جاتا۔۔ ارے میرا بٹوہ۔ شیلی وہ آدمی سچ مچ میرا بٹوہ اڑا لے گیا۔ ‘‘
ہندستان میں کسی بھی بھیڑ بھاڑ والے علاقے میں، ریلوے اسٹیشن پر، بسوں میں اور کسی بھی پر ہجوم جگہ پر ایسا ہو نا بالکل عام بات ہے۔ جب کسی غیر ملکی زائر کے ساتھ ایساہوتا ہے تو ہماری پہلے سے ہی خراب شبیہ ان کی نظر میں اور بگڑ جاتی ہے۔ جوگندر پال نے ہندستان کے اور بھی کئی مسائل کو فنی پیرائے میں بڑی خوبی سے پیش کیا ہے اور ان مسائل سے بے توجہی پر طنز کیا ہے۔ مثلاً ہندستان میں ناخواندگی اور بچہ مزدوری کا مسئلہ، فرقہ وارانہ فسادات کا مسئلہ، یہاں کے لوگوں کی ماضی پرستی اور گھسی پٹی رسم و رواج میں ہی مگن رہنے کا مسئلہ۔ ان تمام چیزوں کو پیش کر کے جوگندر پال نے یہاں کے سیاسی رہنماؤں اور پالیسی میکرس کو جھنجھوڑنے کا کام کیا ہے۔ لیکن ان کی بے حسی اور غنو دگی اتنی گہری ہے کہ ٹوٹنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ فسادات کے پس منظر میں یہ اقتباس دیکھئے:
‘‘ رانچی کے پاگل خانے میں۔۔ ۔
وہ بوڑھا کون ہے ڈاکٹر؟۔۔ وہ جو سب سے الگ تھلگ بیٹھا ہے ؟
ایک مسلمان ہے بیچارہ، پچھلے سال ہندو مسلم فساد ہوا ڈاکٹر مارگن، تو اس کے گھر کے سبھی لوگ مارے گئے۔ اپنے ہاتھوں سے انہیں قبروں میں لٹا کر گھر پہنچتے پہنچتے پاگل ہو گیا۔ ‘‘
2002میں ہندستان کے صوبہ گجرات میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات میں مسلمانوں کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا۔ ان کے کاروبار کو پوری طرح سے تباہ و برباد کیا گیا۔ ان کی ماں، بہنوں، بیویوں کی آبروریزی کی گئی اور بالآخر انہیں جلا دیا گیا یا مار دیا گیا۔ ان تباہ حال لوگوں میں جو کچھ بچ گئے ان میں کتنے آپ کو ایسے مل جائیں گے جو غم کی وجہ سے پاگل ہو گئے۔ ایک فنکار کی نگاہ حال کے ساتھ ساتھ مستقبل میں وقوع پذیر ہونے والی چیزوں کو بھی اپنی بصیرت سے دیکھ لیتی ہے۔ جوگندر پال گو یا ان چیزوں کو دیکھ رہے تھے۔ لیکن یہاں کے حکمرانوں کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ان ظلم و زیادتی کرنے والوں سے آج تک مواخذہ نہیں کیا گیا۔ وہ آج بھی کھلے عام گھوم رہے ہیں اور اپنی بربریت دکھانے کا شاید کو ئی اور موقع ڈھونڈھ رہے ہوں۔ ان جنونی لوگوں کا رشتہ کسی مذہب و ملت سے نہیں ہوتا، یہ محض بربریت کے پجاری ہو تے ہیں۔ لیکن:
‘‘ کو ئی بھی خون کرے، انسان ہی خونی ہے۔ میں ہی خونی ہوں، مجھے سزا دو، سولی پر چڑھا دو اس وقت تک سولی پر چڑھائے رکھو، جب تک میرا ضمیر نہ جی اٹھے۔۔ ۔ مگر مجھے کو ئی سزا نہیں دیتا۔ میں آپ کے پاؤں پڑتا ہوں۔ مجھے سزادو۔ مجھے اپنے آپ سے ڈر لگتا ہے۔ مجھے سخت سے سخت سزادیجئے۔ ‘‘
دنیا بھر میں ہندستان کی رسوائی کا سبب بننے والے گجرات فسادات کے دوران نریندر مودی گجرات کے وزیر اعلی تھے اور ان پر الزام ہے کہ انہوں نے نہ صرف بے قصور مسلمانوں کے قتل عام سے چشم پوشی کی تھی بلکہ انسانیت کے خلاف بھیانک جرائم کے مرتکب ہونے والے ہندو انتہا پسندوں کی پشت پناہی بھی کی۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گجرات فسادات کے دوران 1180لوگ ہلاک ہوئے تھے جبکہ غیر سرکاری ذرائع کے مطابق جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 3000سے زیادہ ہے۔ پاگل خانے کا بوڑھا خان بابا ایک فرقہ وارانہ فساد میں ہی اپنے عزیزوں کے مارے جانے کے غم سے پاگل ہو گیا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ مر کر جنت میں پہنچ گیا ہے۔ شیلا کی طرح اس کی بھی ایک نوجوان بیٹی تھی جس کو فسادیوں نے قتل کر دیا تھا۔ وہ شیلا کو ہی اپنی بیٹی سمجھ لیتا ہے اور کہتا ہے:
‘‘ آؤ بیٹی آؤ میرے گلے لگ جاؤ۔۔ ۔ تمہاری ماں کہاں ہے ؟ محمود کہاں ہے ؟ وہ سب لوگ کہاں چھوڑ آئی ہو؟۔۔ بولو۔۔ مریں تو انہیں بھی کیوں نہ ساتھ لے آئیں۔۔ ۔ ان سے کہتیں وہ آنکھ جھپکنے میں تم سب کو بیک وقت ڈھیر کر کے رکھ دیتے۔ ان جنگجوؤں کے سامنے یہ کون سا بڑا کام تھا۔ بس یہ اب جی رہے ہو اور یہ اب مر گئے۔۔ شکر ہے اللہ کا مر گئے ہو ورنہ مجھے فکر لاحق تھی کہ کیسے جیو گے۔۔ ۔ چلو چھٹی ہوئی۔ خدا نے ہماری سن لی۔۔ ۔ بیٹی اس جنت میں یہ جو ڈاکٹر ہے نا۔۔ ہندو ہے۔ ہاں ہندو ہی ہے۔۔ ڈرو نہیں، اتنا شریف آدمی ہے کہ خدا نے اسے جنت کا ڈاکٹر بنا دیا ہے۔ ڈرو نہیں بڑا شریف آدمی ہے۔ اک ذرا نماز نہیں پڑھتا، ورنہ اس سے تمہاری شادی کر دیتا۔ ‘‘
جو گندر پال نے شعوری طور پر ہندو ڈاکٹر کے کردار کے ذریعہ یہ بتایا ہے کہ انتہاپسندی، ظلم اور بربریت کا تعلق کسی مذہب سے نہیں ہے۔ یہ تو انسانی ذہن کی کج روی ہے جو انسان کو ایسے کاموں پر آمادہ کر دیتی ہے جس سے پوری انسانیت سرمشار ہو جاتی ہے۔ ہندستانی زندگی میں اور بھی بہت سے تضادات ہیں مثلاً ڈاکٹر مارگن اور شیلا کلکتہ کی ایک شاہراہ پر ایک سردرات چہل قدمی کرتے ہوے مشاہدہ کرتے ہیں کہ ایک بہت بڑی فرنشنگ کی دوکان کی ونڈو کے شیشے کے پیچھے ایک بڑا آرام دہ، بیڈ نما صوفہ بچھا ہوا ہے۔ صوفے پر ایک خوبصورت لڑکی کا بت نرم و گرم پلش کے کمبل میں لپیٹ کر اس طرح لٹایا گیا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ مٹی کا بت ونڈو کے شیشے کے اندر حیات آفریں حدت سے جی اٹھا ہے۔ جبکہ ونڈو کے نیچے فٹ پاتھ پر ایک ننگا دھڑنگا، میلا کچیلا نوجوان لمبا ہوا پڑا ہے۔ اس کی بے سانس شکل پر کسی اچھے برے سپنے کا سایہ نہیں، بس بت کا بت ہے۔ جس بے جان مٹی کے بت پر سردی کا کوئی اثر نہیں ہے۔ دولت کی یہ غیر مساوی تقسیم ہی مسائل کو بڑھاتی ہے۔ ایک سروے کے مطابق ہندستان میں 45فیصد لوگوں کے پاس اتنی دولت ہے کہ وہ باقی 55فیصد لوگوں کو زندگی بھر بٹھا کر کھلاسکتے ہیں۔ لیکن ناداروں اور مفلسوں پر کوئی رحم نہیں کھاتا اس کے برعکس ہر کوئی انہیں کا خون چوس کر اپنی دولت بڑھانے میں لگا ہوا ہے۔ جو گندر پال نے ہو ٹل مہاراجہ کے لاؤنج میں اسپیشل انڈین نائٹس کی شاندار پارٹی میں غیر ملکیوں کی اکثریت کے ذریعہ یہ طنز کیا ہے کہ آج بھی ہم ذہنی طور پر غلام ہیں اور گوری انگریز قوم آج بھی ہمارے آقا و حکمراں ہیں۔ ناولٹ کے آخری حصے کا عنوان ، مارگن، ہے۔ ہندستان کے متعلق مارگن کے احساسات کے نشیب و فراز کی عکاسی ہی ناولٹ کو مرحلہ انجام تک پہنچاتی ہے۔ مارگن کے احساسات کے بدلتے ہوئے نقوش، ہندستان سے متعلق اس کے تصورات کے کئی رنگوں کی ترجمانی کر تے ہیں:
‘‘ نامعلوم میں کہاں بیٹھا ہوا ہوں، باہر یا کہیں اندر؟۔۔ ۔۔ اور مجھے اپنے سامنے ایک بوڑھا اجنبی نظر آ رہا ہے۔ اور نہ میں اس اجنبی سے باتیں کر رہا ہوں، نہ وہ اجنبی مجھ سے مگر اس وقت میرے ذہن میں اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ میری آنکھیں اس کے سر پر ٹکی ہوئی ہیں۔ یہ سارے کا سارا کرہ ارض، جسے میں گو یا اپنے راکٹ سے جھانک کر دیکھے جا رہا ہوں اور میرا راکٹ بڑی تیزی سے خلاؤں کو پار کر کے کرہ ارض کی جانب چلا آ رہا ہے۔ ابھی ابھی یہاں دھند ہی دھند تھی۔ کچھ بھی دکھائی نہ دے رہا تھا۔ اب پانی اور خشکی جدا جدا دکھائی دینے لگے ہیں۔ کتنا زیادہ پانی ہے۔۔ ۔۔ ۔ پانی ہی پانی۔۔ ۔ موت کی اجنبی وسعتیں اور گہرائیاں، جنہوں نے زندگی کو گھیر رکھا ہے مگر زندگی کا باعث بھی ہیں۔ ہماری زمین غرقاب کے اس منظر میں بھر پور زندہ معلوم ہو تی ہے۔ بڑے بڑے پہاڑوں اور وادیوں اور میدانوں کی سانسوں سے آس پاس کا خلا بھی ذی جان سالگ رہا ہے۔۔ میں نے کرہ ارض کو چھو لیا ہے۔ ‘‘
جوگندرپال نے مارگن کی سوچ کے اس مونتاژ کے ذریعہ کئی مسائل کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ مارگن بے خیالی اور بے خودی کے عالم میں بھی اپنے حقیقی باپ کے حصار سے باہر نہیں نکل پا رہا ہے۔ ہر وقت ایک نامانوس چہرہ اس کے سامنے آ جاتا ہے جس پر مارگن کو اپنے باپ کا چہرہ ہونے کا گمان ہوتا ہے۔ لیکن وہ اجنبی چہرہ مارگن سے اپنی شناسائی کا اظہار نہیں کرتا کہ مارگن کے بے قرار و بے چین دل کو قرار آ جائے۔ عناصر اربعہ سے تشکیل شدہ انسان ان عناصر کے حصار سے باہر نہیں نکل پاتا ہے اور دھر تی سے کوسوں میل دور خلا میں بھی وہ پانی کے بارے میں سوچتا ہے کہ زمین کے تین چوتھائی حصہ پر پھیلے اس پانی پر ہی انسانی و جود منحصر ہے۔ لیکن پانی جہاں انسانی وجود کو قائم رکھنے میں اہم کردار ادا کر تا ہے وہیں پانی انسانی وجود کے لئے تباہی و بربادی کا ذریعہ بھی ہے۔ سونامی، کٹرینا، ایلا، ہدہد اور نیلوفر جیسی نہ جانے کتنی تباہیاں پانی کی وجہ سے آ چکی ہیں۔ اللہ نے دھرتی بنائی تو انسانی قدم سے اسے زینت بخشا لیکن یہی انسان اس کی تباہی و بربادی کا باعث بھی ہے۔ یہ انسان امن و سکون سے رہے تو دھرتی جنت نشاں بن جاتی ہے اور جنگ و جدال پر اتر ائے تو یہی دھرتی جہنم بن جاتی ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر امریکہ نے اپنی برتری ثابت کرنے کے لئے ناگاساکی اور ہیروشیما پر جو ایٹم بم برسائے تھے اس سے زمین اتنی زہر آلود ہو گئی تھی کہ آج پچھتر سال گزر جانے کے بعد بھی وہاں بچے لولے، لنگڑے پیدا ہوتے ہیں۔ مارگن نے کرہ ارض کو چھو کر امن اور خاکساری کا پیغام دیا ہے۔ ہندستانیوں اور تمام پسماندہ ممالک کو یہ بھی پیغام دیا ہے کہ اپنی مٹی اور اپنے خمیر سے مایوس مت ہو۔ بقول علامہ اقبال:
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زر خیر ہے ساقی
مارگن کا یہ پیغام استعاراتی انداز میں اس طرح اپنے اختتام کو پہنچتا ہے:
‘‘ مارگی!۔۔ ما۔۔ ر۔۔ ۔ !
مجھے بہت دور سے سنائی دیا ہے اور اپنے وجود سے باہر نکل کر میں نے دیکھا ہے کہ شیلی میرے سامنے کھڑی مسکرا رہی ہے اور بڑی اچھی لگ رہی ہے اور میں نے اس کے گلے میں باہیں ڈال کر اسے اپنے پاس بٹھا لیا ہے اور زرخیز دھر تی سونگھ سونگھ کر مجھے بے اختیار خواہش ہونے لگی ہے کہ ہل چلانا شروع کر دوں۔ اور دھر تی نے شرما کر اپنا سر جھکا لیا ہے اور اپنے خیال ہی خیال میں دیکھ رہی ہے کہ اس کے خوبصورت چہرے پر نئی زندگی کا بور پھوٹ رہا ہے۔ ‘‘
یہ رجائیت ہی جوگندر پال کی شخصیت کا وہ خاص وصف ہے جسے وہ اپنے قارئین تک منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ صبر و استقلال کے ساتھ جہد پیہم اور عمل مسلسل ہی تمام مسائل کا حل ہے۔ آج ہم اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں داخل ہو چکے ہیں اور دیکھ رہے ہیں کہ ہندستان نے اقوام عالم میں اپنا ایک وقار حاصل کر لیا ہے۔ دنیا کے بہت سے ممالک ہندستان کی جانب رشک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں اور اس کی معاشی و سیاسی پالیسیوں کو اپنے لئے نمونہ عمل تصور کر رہے ہیں۔ یہ ایک خوش آئند مستقبل کا واضح اشارہ ہے۔ جو گندر پال کے اس ناولٹ کی فنی ندرت اس کے پلاٹ میں ہے۔ ہندستان کی اس کہانی کو پیش کرنے کے لئے انہوں نے بڑی فن کاری کے ساتھ پلاٹ کا تانا بانا بنا ہے۔ سید مہدی احمد رضوی اس کے پلاٹ کے حوالے سے لکھتے ہیں:
‘‘ آمد آمد، کے پلاٹ کی تشکیل میں فنی شعور کی ندرتیں سامنے آتی ہیں۔ اس ناولٹ کی سب سے اہم خصوصیت اس کی تکنیکی شادابی اور اسلوبی ندرت ہے۔ جوگندر پال نے ناولٹ کے پلاٹ کو شعور کی رو تکنیک کے جزوی استعمال کا پابند رکھا ہے۔ مارگن کے خیالات اور اس کے احساسات کی لہریں ہی ناولٹ کے پلاٹ کی تشکیل کرتی ہے۔ ناولٹ نگار کے اپنے بیانات کہیں نہیں ملتے۔ پلاٹ سے وابستہ واقعات کے بہاؤ کا وسیلہ بھی خیال اور احساس کی رو ہے۔ ان واقعوں میں سرگرمئی عمل نہیں ہے، سر گرمیِ احساس اور سرگرمئی خیال ہے۔ ‘‘ (12)
یہ ناولٹ 1971میں ماہنامہ شاعر کے ناولٹ نمبر میں ، آمد آمد ، کے عنوان سے شائع ہوا تھا لیکن 1975میں جب اس کو کتابی شکل دی گئی تو اس کا نام ، آمدو رفت، کر دیا گیا۔ سید مہدی احمد رضوی نے ، آمدورفت، کو ، بیانات، کے مقابلے میں زیادہ اچھا ناولٹ قرار دیا ہے لیکن میرے نزدیک ، بیانات، اس سے بہتر ناولٹ ہے۔ ، بیانات، پورے طور پر علامتی ناولٹ ہے جو استعاراتی انداز میں لکھا گیا ہے جبکہ ، آمدورفت، سیدھے سادے انداز میں لکھا گیا ناولٹ ہے اس میں مسائل کو کھلے لفظوں میں پیش کیا گیا ہے اور کہیں کسی طرح کی پیچیدگی اور الجھاؤ نہیں ہے۔ لیکن اس کی تکنیک ، بیانات، کے مقابلے میں کمزور ہے۔ حالانکہ دونوں ہی ناولٹ میں شعور کی رو کا جزوی استعمال ہوا ہے لیکن ، بیانات، میں ، داخلی خود کلامی، کی جو تکنیک استعمال کی گئی ہے وہ اسے ممتاز کر تی ہے۔
٭٭
‘‘ وہ ساہو کو رام کرنے کے لئے اس سے کہتا ہے:
‘‘ ساہو، سیما تمہارے آرٹ کو تم سے بھی زیادہ سمجھتی ہے۔ اگر تمہاری شخصیت تمہارے آرٹ سے مختلف نہیں تو سیما کی بدولت تمہارے سارے کا سارا اپنا آپ تمہاری سمجھ میں آ جائے گا۔‘‘
ساہو یہ جانتا ہے کہ سیما سے مکمل ارتباط و اختلاط کے بغیر ہستی کی معنویت تک رسائی نہیں ہو سکتی، وہ محسوس کرتا ہے:
‘‘ ہاں، عورت وہی اپنی ہو تی ہے جسے گلے لگا کر ہماری ذات کے سارے بھید ہم پر واہو جائیں اور جینا کسی پرائمری ٹیکسٹ بک کے مانند سرل معلوم ہونے لگے۔ سیما کے سینے سے سینہ جوڑ کر بڑی بڑی باتیں میرے لئے عام فہم ہو جائیں گی، میری کہانیاں ازخودسطحوں پر آ جائیں گی اور پہنچے ہوئے درویشوں کی طرح میرا باہر باہر بھی باطن میں ڈوبا ڈوبا معلوم ہو گا۔ ‘‘
مگر ساہومیں عمل کا حوصلہ نہیں ہے۔ وہ کچھ کرنا نہیں چاہتا ہے اس کے برعکس وہ چاہتا ہے کہ سیما یعنی زندگی خود آ کر اس سے بے اختیار لپٹ جائے اور اس کے منع کرنے کے باوجود اس سے کہے ، میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتی۔ ‘‘
(ڈاکٹر جہانگیر احمد کے تحقیقی مقالہ ‘‘ جوگندر پال کی ناولٹ نگاری‘‘ کے باب ‘‘ بیانات‘‘ سے اقتباس)
٭٭٭