آپ لاکھ فرض کر لیں کہ آپ کی موت واقع ہوچکی ہے ،پر مرے بغیر مرنا تو نہیں ہوتا،مگر میرا یہ ہے کہ کوئی نصف صدی سے کہانیاں لکھ لکھ کر اس دوران میں ایک اپنے سوا ساری کائنات کو جیتا رہا۔ سو یہی لگتا ہے کہ میرے ساتھ جو اور جیسے بھی بیتی وہ میرے مَرے مَرے ہی بیت گئی۔اس لیے اپنا وفات نگار آپ ہی بنتے ہوئے مجھے کسی لے دے کا سامنا نہیں۔ایک بات اور،ایک کہانی کار ہونے کے ناطے میں اس سے غافل نہیں کہ مُردوں کو بھی کیوں کر خود آپ ہی چل پھر کر اپنی کہانیاں پوری کرنا پڑتی ہیں۔لہٰذا پس مرگ بھی سانس لیے جانا اور اپنی موت جیے جانا مجھے غیر فطری معلوم نہیں ہوتا۔میرے ملنے جلنے والے مجھے اپنے وجود میں نہ پا کر اکثر شکایت کرتے ہیں کہ کیا پتہ،میں کہاں ہوتا ہوں۔ہاں، واقعی کیا پتہ،کہاں؟ اپنے کرداروں میں سے جس کے بدن میں بھی رات آجائے۔مجھ سے ملنا مطلوب ہو جیسے بھی بنے اپنے گمان میں اسی کردار کی ٹوہ میں لگ جائیے،یا پھر بس دعا کیجیے کہ خدا مغفرت کرے،کیا خوب آدمی تھا!
مجھے اوائل سے ہی زندگی کسی کہانی کی طرح پیش آئی۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...