مجھے بال بنانے نہیں آتے اتنے بڑے۔۔۔۔آپ بنا دیں گے” وہ اتنی معصومیت سے بولتی تھی کہ ریان کا جی چاہتا اسکے ہر کام خود کردے اور وہ ایسی ہی معصوم بنی بیٹھی اسے دیکھتی رہی-
آؤ میں بنادوں۔۔۔گل لالہ تو اس وقت یہاں ہوتی نہی ہے!! ریان اس سے برش لے کر اب اسکے بال سلجھا رہا تھا-
“پہلے کون بناتا تھا تمہارے بال۔۔۔!! ریان آرام سے ہاتھ چلاتے ہوئے اس سے باتیں بھی کر رہا تھا-
“داجی بناتی تھیں۔۔۔انہوں نے کبھی کٹوانے بھی نہیں دیے۔۔۔۔میرا دل چاہتا تھا میرے بھی آپکے جیسے چھوٹے سے بال ہوں۔۔۔وہ معصومیت سے منہ کے زاویے بگاڑ کر بولے جا رہی تھی اور ریان اسکی شکل آئینہ سے دیکھتے ہوئے ہنس رہا تھا-
“اتنے تو پیارے ہیں تمہارے بال۔۔۔دیکھو بن بھی گئے۔۔!! ریان اسکے بالوں کی چوٹی بنا کر اب اسکو دکھا رہا تھا۔۔۔
“پر مجھے بنانے نہیں آتے نا۔۔!! عشال کی شکل رونے والی ہوگئی تھی-
“کوئی بات نہیں میں بنادیا کروں گا۔۔!! ہر بات پہ روتے نہیں اچھے بچے اور عشو تو بڑی ہے۔۔۔بڑے بچے ہر وقت روتے تو نہیں۔۔۔۔وہ اسے بچکارتے ہوئے بولا تو عشال ہنس دی۔۔۔!!
♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡
“کہاں رہ گیا ہے یہ لڑکا۔۔اب تک کیوں نہی آیا؟؟۔۔
آغاجان انتظار کرتے کرتے تھک گئے تھے پر وہ اب تک نہی آیا تھا-
“آغاجان آجائے گا راستے میں دیر سویر ہوجاتی ہے-”
“فون کرو اسے۔۔۔” آغاجان کو اسکے جلد از جلد پہنچنے کی پڑی تھی-
“یار مہک رات کے 11 بج چکے ہیں اتنا تو سفر نہیں ہوتا اسلام آباد سے مری تک کا” عریبہ بےزار سے لہجے میں بولی تھی۔۔
“آئیں جائیں گے لالہ اتنی بھی کیا جلدی پڑی ہے کوئی ہوائی جہاز سے تو نہیں آرہے”
مہک کو غصہ آگیا تو پھٹ پڑی۔۔
♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡
“یہ لو مزے کرو۔۔” ریان نے شاپر عشال کی طرف بڑھایا-
“ارے واہ۔۔اتنی ساری چاکلیس۔۔۔وہ بھی میری پسندیدہ۔۔” عشال چاکلیٹ کا ریپر اتارتے ہوئے بولی-
“ہاں اب حویلی جاکر ہی کھانا کھائیں گے ابھی اسی پہ گزارا کرو-” ریان ﮈرائیونگ کرتے ہوئے باتیں بھی کر رہا تھا اور عشال اسے دیکھتی رہ جاتی کہ یہ شخص ﮈرائیونگ کرتے ہوئے بھی باتیں کر رہا۔۔۔!!
“کیا ہوا؟؟ بہت پیارا لگ رہا ہوں-” ریان اسے اپنی طرف دیکھتے پاکر پوچھ بیٹھا۔۔۔!!
“ہاں آپ ہیں تو بہت پیارے۔۔۔۔۔پر میں کچھ اور سوچ رہی تھی-”
کیا؟؟ ریان نےگاڑی کی سپیڈ اب کم کردی تھی کیونکہ چڑھائی چڑڑہے تھے-
“میں سوچ رہی تھی کہ آپ گاڑی چلاتے ہوئے باتیں کیسے کر رہے ہیں۔۔۔؟؟
“آہاں۔۔۔یہ کوئی مشکل کام تھوڑی۔۔۔ بولنا تو منہ سے ہوتا ہے۔!! ریان کا دل کر رہا تھا حویلی جانے کے بجائے سارا وقت عشال سے باتیں کرتا رہے پر ہر خواہش کب پوری ہوتی ہے۔۔!!!
♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡
وہ لوگ اب حویلی پہنچنے والے تھے۔۔۔۔
“عشو میری ایک بات غور سے سنو!!” ریان موڑ کاٹتے ہوئے بولا-
“ہاں جی بولیں۔۔۔” عشال اسکی طرف متوجہ ہوگئی-
“تم نے وہاں جاکر میرے ساتھ سب کو سلام کرنا ہے اور میں جب کمرے میں جانے کا بولوں تب میرے کمرے میں چلے جانا ہے۔۔۔ٹھیک ہے؟؟”
“جی ٹھیک ہے۔۔۔ پر مجھے آپکے کمرے کا پتا کیسے لگے گا؟؟ عشال سوچتے ہوئی بولی-
“جس طرف میں اشارہ کروں گا وہاں جانا اور تھوڑی دیر آرام کرلینا۔۔۔!!وہ اثبات میں سر ہلا گئی!!
ریان اسکو دیکھ کے یہی سوچ رہا تھا کہ آغاجان اب اس بیچاری کو کیا کچھ سنائیں گے اس لیے اسنے پہلے سے ہی اسے کمرے میں جانے کا بول دیا تھا- آغاجان کا کیا بھروسہ رات کے اس پہر ہی اسکو دھکے دے کر گھر سے نکال دیں گے۔۔!!!
“یہ دیکھو ہماری حویلی”۔۔۔۔ارے واہ۔۔۔اتنی بڑی حویلی۔۔۔آپ کھو نہیں جاتے یہاں؟؟
“ہاہاہا۔۔۔۔۔ نہیں جب سب کو راستے پتہ ہوں تو کوئی کھو کیسے جائیگا۔۔۔!!” ریان اب گاڑی پارکنگ میں لگا رہا تھا-
“میں تو نہیں جانتی اگر میں کھو گئی توكيا هوگا؟؟ وہ معصومیت سے پوچھ رہی تھی ریان کو اس پہ ﮈھیر سارا پیار آیا۔۔۔!!
“میں ہوں نا!! میرے ساتھ رہو گی تو کہیں نہیں کھو گی۔۔۔”
وہ اسکے ساتھ چل کر حویلی کے دروازے تک پہنچا۔۔!!
♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡
“اسلام علیکم!!” ریان سب کو سلام کرتے ہوئے داخل ہوا-
“وعلیکم اسلام!! آگئی یاد ہماری برخوردار-” آغاجان کھڑے ہوتے ہوئے بولے۔۔
“جی اب بھی مشکل سے آیا ہوں آغاجان۔۔۔آپ تو جانتے ہی ہیں کہ مجھے مصروفیت ملتی ہی نہیں ہے-” ریان ان سے گلے ملتے ہوئے بولا۔۔
“ہاں!! نظر آرہی ہے تمہاری مصروفیت۔۔۔!!”
آغاجان نے عشال کو سرتاپا دیکھتے ہوئے ریان سے کہا-
“اوہ! میں آپکو ملانا بھول گیا ۔۔۔یہ ہیں میری پیاری بیوی عشال۔۔!” ریان عشال کا ہاتھ پکڑتے ہوئے بتا رہا تھا اور سب کو اسکی بات پہ کرنٹ لگ گیا وہ بھی 200 وولٹ کا۔۔۔۔
اوپر کھڑی عریبہ،عافيہ اور مہک تو آنکھ جھپکانا ہی بھول گئیں۔۔۔
“اسلام علیکم!!” عشال نے سب کو سلام کیا پر کسی کو جواب دینے کا بھی ہوش نہیں تھا-
“یہ کیا بکواس کر رہے ہو ریان۔۔۔۔۔کون ہے یہ؟ اور کس کوڑے دان سے اٹھا کے لائے ہو اسے؟”
آغاجان نے جب اپنے چہیتے بیٹے کو نہیں بخشا تھا تو پوتے کو کیسے بخش دیتے-
“بس کریں آغاجان!! آپ اس معصوم کو کچھ نہیں کہ سکتے کیونکہ اسکے آگے میں کھڑا ہوں۔۔!!” ریان تو انکی باتوں پہ سرتاپا سلگ گیا تھا-
“عشو جاؤ اس کمرے میں اور آرام کرو۔۔میں تھوڑی دیر تک آتا ہوں!!” ریان نے اپنے روم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا اور عشال اسکی بات مانتے ہوئے فوراً اسکے روم کی طرف بھاگ گئی۔۔۔!!!!
♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡
“عریبہ اس طرح رونے سے کیا ہوگا۔۔عافیہ اسے چپ کرا رہی تھی- جب سے ریان نے بتایا تھا کہ عشال اسکی بیوی ہے۔۔
“کیا کروں میں۔۔خوشی خوشی اسکی بیوی کے گلے میں ہار پہناؤں” عریبہ چیخی اور ریان جو اسی طرف آرہا تھا اسکی باتیں سن کے پھٹ پڑا-
“میں نے تمہیں کبھی بھی اپنی طرف راغب نہیں کیا تھا، نہ وعدے کیے تھے۔۔۔جو تم اس طرح ﮈھنڈورا پیٹ رہی ہو!!”
“ہاں تبھی آغاجان مجھے حوصلہ دیتے تھے نا تم جھوٹے مکار انسان۔۔۔۔یہاں آغاجان کو بولا کہ مجھ سے شادی کروگے اب وہاں سے کسی کو اٹھالائے اور مجھ سے کہتے میں نے تم سے کوئی وعدے نہیں کیے۔۔۔”
عریبہ کی باتیں سن کی اسے غصہ آگیا۔۔!!!
“اسٹاپ اٹ- بند کرو اپنی بکواس!!” ریان کا دل کر رہا تھا اسکا منہ نوچ ﮈالے-
“ہاں ہاں اب تو یہی بولوگے نا تم۔۔۔۔بتاؤ اور کتنیوں کے ساتھ عیاشیاں کی ہیں۔۔۔”عریبہ بے خوف بولی جارہی تھی-
“چٹاخ۔۔۔۔آئندہ فضول بکواس کی تو میں تمہیں مارﮈالوں گا ” ریان اسے دھکیلتا ہوا اپنے روم میں چلا گیا-
“دیکھ لیا۔۔تم لوگوں نے جس شخص کے ساتھ کے میں خواب دیکھتی آئی ہوں وہی آج مجھ پر ہاتھ اٹھا گیا ہے۔۔میں کبھی معاف نہیں کروں گی اسے!!” عریبہ چیخ چیخ کے بول رہی تھی-
عافیہ، مہک، احمد اور زین خاموش کھڑے تھے۔۔۔۔وہ بول بھی کیا سکتے تھے ایک طرف انکی پیاری کزن اور بہن تھی تو دوسری طرف انکا بڑا اور چاہنے والا بھائی تھا- زین جانتا تھا کہ ریان ایسا نہیں ہے جیسا عریبہ کہ رہی تھی ورنہ ایک بھائی اپنی بہن کو تھپڑ کھاتے ہوئے کیسے برداشت کرسکتا تھا-۔۔۔
♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡
“فاطمہ کیا ہوا؟؟تم ٹھیک تو ہو-” عرفان جو ابھی گھر میں داخل ہوا تھا فاطمہ کو لیٹے دیکھ کر اسکے پاس آیا
“نہیں طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی۔۔۔۔تھوڑی دیر تک سہی ہوجاؤں گی-”
“کوئی نہیں اٹھو ﮈاکٹر کے پاس چلتے ہیں”
عرفان جو تھکا ہارا آیا تھا اسکی طبیعت خراب دیکھ کے رہ نہ سکا۔۔۔حویلی سے نلکلنے کے بعد اسکے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہی تھی۔۔شہر آکر اگلے دن اس نے پہلے جاب تلاش کی ہفتہ بھر وہ ﮈھونڈتا رہا تھا
آخر کار اسکو ایک جاب مل گئی جسکا معاوضہ صرف پیٹ بھر سکتا تھا۔۔۔۔
اسی طرح شکر گزاری میں دونوں نے سال گزارا۔۔۔ایک دن اچانک عرفان کو اپنا پرانا دوست مل گیا جو اسکے ساتھ سکول سے یونیورسٹی تک تھا پھر وہ لندن چلا گیا تھاکچھ سالوں بعد وہ یہاں آگیا تھا اپنا بزنس کرنے۔۔۔وہیں اسنے عرفان کو بھی اپنے ساتھ رکھ لیا تھا اب اسکا گزارا اچھا ہورہا تھا۔۔۔۔!
پانچ سالوں بعد انکے گھر ایک ننھی منی پری نے جنم لیا۔۔۔عرفان نے حویلی کال کی تھی پر اسکی سننے والا وہاں کوئی نہیں تھا اسنے اپنی خوشی بیوی کے ساتھ ہی مل کر منائی تھی اسکی دنیا اب مکمل ہوگئی تھی-
“اٹھ بھی جاؤ فاطمہ۔۔۔زیادہ طبیعت خراب ہوگئی تو کیا کریں گے-” عرفان اب فریش ہوکے بھی آچکا تھا-
“عرفان اسکو کہاں چھوڑ کر جائیں گے-” فاطمہ میں بلکل ہمت نہی تھی کہ وہ دو سال کی بچی کو لے کر بائیک پہ بیٹھ سکے تو ان دونوں نے ساتھ والوں کے گھر چھوڑ دیا تھا بچی کو۔۔۔۔ انکی ان لوگوں سے کافی جان پہچان ہوچکی تھی۔۔!!!!
♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡
“عشو رو کیوں رہی؟” ریان کا عشال کو رورو دیکھ کر سارا غصہ اڑنچھو ہوگیا تھا-
“مجھے بھوک لگ رہی ہے۔۔۔آپ نے کہا تھا ہم حویلی جاکر کھانا کھائیں گے-” ریان کو اسکی یہی معصومیت بھاتی تھی وہ فوراً اٹھ کےکمرے سے باہر آگیا اور مہک کو جا کر کھانا لانے کو بولا-
“آرہا ہے کھانا۔۔۔میرے حصے کا بھی تم ہی کھالینا-” وہ شرارت سے بولا تھا- اندر آتی مہک دیکھتی رہ گئی کہ ریان لالہ بھی ہنستے ہیں۔۔جبکہ اسنے کبھی بھی ریان کو ہنستے نہیں دیکھا تھا-
تھینک یو مہک!! اسنے ٹرے مہک سے لے کر عشال کے آگے رکھ دی تھی
“لالہ ایک بات پوچھوں؟” مہک عشال کو کھانے میں مصروف دیکھتی ریان سے آہستہ آواز میں پوچھ رہی تھی-
“ہاں پوچھو۔۔ہزار باتیں پوچھو میری پیاری بہن!!
ریان ہمیشہ مہک سے ایسے ہی پیش آتا تھا کیونکہ مہک کو وہ اپنی بہن ہی سمجھتا تھا اور مہک بھی بولتی تھی کہ میرے دو بھائی ہیں-
“لالہ یہ لڑکی اتنی چھوٹی سی ہے۔۔آپ نے شادی کیسے کرلی اس سے- آپ تو تائی جان کو ہمیشہ کہتے تھے کہ میرے لیے سگھڑ اور سمجھدار لڑکی تلاش کیجئے گا-!!
“مہک آؤ باہر چل کے بیٹھتے ہیں۔۔” وہ عشال کو کھانا میں مصروف دیکھ کر باہر چلا جاتا ہے!!
“ہمم اب بولو! کیا بول رہی تھی؟”
یہی کہ آپکی اور اس لڑکی کی شادی کیسے ہوئی؟آپکو تو سمجھدار لڑکیاں پسند تھیں۔۔!!
♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...