(Last Updated On: )
جو سجدہ ریزی سے خود آپ کو بچایا ہے
زمانے تُو نے تو ہر داو آزمایا ہے
میں دوستی میں اگر دو قدم بھی آگے تھا
بھرم تو اُس نے بھی اِس ساتھ کا نبھایا ہے
اُسے میں بھول اگر جاوں موت ممکن ہے
مِری تو روح میں نس نس میں وہ سمایا ہے
تمام رات ترے انتظار میں گزری
تمام رات تِری یاد نے رُلایا ہے
مِری خطا بھی نہیں پھر بھی یہ سزا عاقل
قدم قدم پہ زمانے نے کیوں ستایا ہے