عشال کی دھڑکنیں یہ بارگراں سہہ نہ پائیں، وہ ضیاءالدین صاحب کو جواب کیا دیتی، اسی کی آنکھوں میں تاریکی بھرنے لگی اور وہ شاخ نہال کی مانند انھی کے بازوؤں میں جھول گئی تھی۔
****************
سرپرائز!
نو سالہ آبریش نے چہک کر اسے بتایا تھا۔ نورین نے بھی کسی سرپرائز کاذکر کیا تھا۔ دن بھر وہ جسمانی اور اعصابی جنگ میں مبتلارہی تھی۔ اس وقت بھی وہ اپنے اندر تھکاوٹ سی محسوس کررہی تھی۔ مضمحل سے وجود کے ساتھ جونہی اس نے لاؤنج میں قدم رکھا تھا اس کی حسیات چونک کر بیدار ہواٹھی تھیں۔
آغا جان!
وہ سر تا پیر سرشار سی ان کے گلے جالگی۔ وہ بھی مسکراتے ہوئے اس کے سر کو تھپکے گئے۔
میری بیٹی! میری عشال! کیسی ہو؟ تم تو سلام بھی فراموش کرگیئیں!
انھوں نے شفقت بھرے انداز میں اسے یاد دلایا۔
السلام علیکم آغا جان!
دیکھ لیجیے میرے ہوش وحواس اپنی جگہ پر ہیں اور میں سلام بھی نہیں بھولی۔
نورین نے اندر داخل ہوتے ہوئے مسکرا کر انھیں مخاطب کیا تھا۔
آغاجان نے شفقت بھری مسکراہٹ کے ساتھ اس کے سر پر بھی ہاتھ پھیرا تھا۔
وعلیکم السلام کیسی ہے ہماری جان؟
بالکل ٹھیک اور اب اور بھی فریش ہوگئی ہوں۔
نورین نے دوسری طرف کا سنگل صوفہ سنبھال لیا تھا۔
کیسا رہا سرپرائز عشال آپی؟
آبریش نے خوشی سے چہکتے ہوئے اس سے پوچھا تھا۔
عشال نے محض مسکرانے پر اکتفا کیا۔
آپ تو مجھے بھول ہی گئے آغا جان! پورے تین سال بعد یاد آئی ہماری! وہ بھی یقینا کسی دورے پر ہی آئے ہوں گے۔
عشال نے ایک ساتھ شکووں کی پٹاری کھول دی تھی۔
آغا سمیع الدین اور ضیاءالدین صاحب مسکرانے لگے۔
آپ نے آنے کی اطلاع کردی ہوتی آغا جان! خواہ مخواہ آپ نے اتنی زحمت اٹھائی۔
ضیاءالدین صاحب نے کہا تھا۔
ارے بھئی!
آغا جان نے بے نیازی سے کہا۔
اب کیا تمہیں زحمت دیتے؟ تمہارے دفتری اوقات کار تھے۔ ہم کون سا پیدل چل کے آئے ہیں، ائیر پورٹ سے ہی گاڑی مل گئی تھی۔
پھر بھی آغا جان! گھر سے کسی نہ کسی کا ہونا اچھا ہوتا ہے۔ اس طرح انجانے لوگوں پر کہاں اعتبار کیا جاسکتا ہے؟
ضیاءالدین صاحب نے شہر کے حالات کے پیش نظر خدشات کا اظہار کیا تھا۔
عشال فریش ہونے کےلیے اٹھ گئی اور آغاجان ضیاءالدین صاحب کے ساتھ گفتگو میں مصروف ہوگئے۔ نورین بھی سطوت آراء کی مدد کی غرض سے کچن کی جانب بڑھ گئی تھی۔
ایک بڑا سرپرائز ابھی عشال کا منتظر تھا۔
**************
عائشہ کی نظریں شیشے کے پار موسم کی آخری برسنے والی بارش پر تھیں۔ خود ان کاوجود مسلسل جلنے والی قندیل کی طرح سلگ رہا تھا، جب پشت پر دروازے کی ناب گھومنے کی نحیف آواز گونجی۔ مگر عائشہ کے پتھر وجود میں حرکت پیدا نہ ہوئی۔ وہ دیکھے بغیر بھی جانتی تھیں کہ زبیر عثمانی بیڈروم میں داخل ہوچکے ہیں اور اب اطمینان سے ٹائی ڈھیلے کرکے شرٹ کے بٹن کھول رہے ہیں۔ یہ وقت ہی ایسا تھا۔ رات کا ایک پہر گذر چکا تھا اور دوسرا ابھی ان کے اورعائشہ کے درمیان ہلکورے لے رہا تھا۔
زبیر عثمانی کے اطمینان میں فرق نہ آیا اور وہ شرٹ کو پینٹ سے نکال کر بیڈ پر دھرا نائٹ ڈریس اٹھاتے ہوئے واش روم چلے گئے۔
ان کی واپسی تک بھی عائشہ بے حس و حرکت کھڑی رہیں۔
تولیے سے سر رگڑتے ہوئے اب انھیں غیر معمولی پن کا احساس ہوا تھا۔
تمہیں کیا ہوا؟ جب سے آیا ہوں بت بنی کھڑی ہو، کافی تک کا نہیں پوچھا تم نے؟
عائشہ چابی کے کھلونے کی مانند ان کی طرف گھومی تھیں۔
زبیر عثمانی تازہ شیو بنائے عام طور سے زیادہ فریش نظر آئے۔
تم نے کبھی زمین بوس عمارت کو دیکھا ہے؟ زبیر عثمانی!
عائشہ کے لہجے میں کانٹوں سی چبھن تھی۔
کیا مسئلہ ہے؟ تمہارا موڈ کیوں خراب ہے؟ کوئی بات ہےتو سیدھی طرح کرو، یہ بے کار کا فلسفہ مت بگھارو میرے ساتھ!
اور بیزاری ناک پر سجائے ایل۔ ای۔ ڈی کا ریموٹ ہاتھ میں لے لیا۔
یہ فلسفہ نہیں میری ذات کی کرچیوں کی آوازیں ہیں، میری آہیں ہیں، جو تمہاری نازک سماعتیں برداشت نہیں کرسکتیں۔
عائشہ اب چیخ پڑی تھیں۔
تمہاری بے کار باتوں پر میں وقت برباد نہیں کرناچاہتا۔
زبیر صاحب کی بےنیازی میں فرق نہیں پڑا تھا۔
اور والیم کے نمبروں میں اضافہ کردیا۔
عائشہ نے ریموٹ ان کے ہاتھ سے جھپٹ کر فرش پر پٹخ دیا۔ لیکن دبیز قالین پر وہ اچھل کر رہ گیا۔
عائشہ!!!!
ہوش میں آؤ! زبیر صاحب برداشت نہ کرسکے۔
تم کام کے نام پر ہوش، حواس عزت سب کچھ دوسری عورتوں پر لٹاتے پھرو! اور۔۔۔ میں پھر بھی ضبط سے کام لوں؟ ہوش میں رہوں؟ کیوں؟ کس لیے؟
تمہاری سو کالڈ ریپوٹیشن کے لیے؟
میں نے آج اس لمحے تک اپنا نام، خاندان، شان وشوکت،عزت، ذات، حتی زندگی تم پر لٹا دی! اور تم نے؟ میری عزت، میری وفا، میری ذات کی دھجیاں اڑا دیں؟ کیوں؟ زبیر عثمانی!
میں نے ہر چیز کی قربانی دے کر خود کو تمہارے بنائے ہوئے سانچے میں ڈھال لیا، مگر۔۔۔۔ تمہیں کس چیز کی ہوس مسلسل گرنے اور گرتے چلے جانے پر مجبور کررہی ہے۔ پیسے کی؟ نام کی؟ شان کی؟ کس چیز کی؟
چیخنے کی وجہ سے عائشہ کے گلے میں خراشیں پڑنے لگی تھیں۔
طاقت کی۔۔۔۔!
زبیر عثمانی نے اچانک عائشہ کو بازوؤں سے جھنجھوڑ کر ہلا ڈالا تھا۔ ان کی آواز سرگوشی سے مشابہ تھی لیکن اس میں تیزاب کی کاٹ تھی۔
عائشہ کی بھیگی سرخ آنکھوں میں حیرت اور اچھنبا لہرایا۔ وہ ابھی اپنے ہوش میں نہیں تھیں۔ تب ہی پورا زور لگا کر زبیر عثمانی کو پرے دھکیل دیا تھا۔
وہ بری طرح جھٹکا کھا کر رہ گئے لیکن گرنے سے محفوظ رہے۔
انھوں نے ایک بار پھر عائشہ کو جکڑ کر اس کی آنکھوں میں جھانکا۔
طاقت۔۔۔! طاقت چاہیے مجھے! وہ طاقت جس کے نشے میں چور ہوکر پیر نواز علی نے مجھے اپنے جوتوں سے ٹھڈے مارتے ہوئے اپنی حویلی سے باہر پھینکا تھا۔ جیسے کسی کتے کو پھینکا جاتا ہے۔
مت بھولو عائشہ بیگم! میں نے یہ زندگی جیتی ہے، اپنے بل بوتے پر۔۔۔( مٹھی بھینچ کر بازو لہرایا)۔
اور مجھے ابھی بہت آگے جانا ہے، اپنی منزل پانے کےلیے مجھے جیسے اور جوکچھ کرنا پڑا میں کروں گا۔ تم اگر تھک چکی ہو، اس سفر میں میرا ساتھ دیتے دیتے، تو شوق سے راستے الگ کرسکتی ہو۔ ویسے بھی ہمارا رشتہ اب سوکھے پیڑ کی کمزور شاخ جیسا ہوچکا ہے، اس کا مستقبل کوئی نہیں ہے۔
اور ایک جھٹکے سے عائشہ کو چھوڑ دیا تھا۔
عائشہ کے آنسوؤں اور سلگتی سانسوں کے زیروبم میں نیوز اینکر کی آواز بھی شامل ہوچکی تھی۔
زبیرعثمانی خاموشی سے بیڈ پر بیٹھ چکے تھے۔
عائشہ نے کٹیلی نظروں سے انھیں دیکھا اور استہزائیہ لہجے میں بولیں۔
ہونہہ رشتہ! اس رشتے کو اور تمہیں یہاں تک میں لے کر آئی ہوں! کیا تھے تم؟ اور کیا ہو؟ آج اگر میں اپنے قدم پیچھے ہٹا لوں تو زمین بوس ہونے کا مطلب اچھی طرح سمجھ آجائے گا تمہیں۔۔۔۔ مسٹر زبیرعثمانی!
عائشہ نواز تمہیں چٹکیوں میں مسل کر رکھ سکتی ہے۔۔۔۔! مجھے عائشہ نواز بننے پر مجبور مت کرو!
زبیر عثمانی کو بہت کچھ یاد آیا تھا۔ اندر ہی اندر خائف ہونے کے باوجود اپنی انا کا بھرم رکھنا مرد ہونے کی حیثیت سے ضروری تھا۔
تم ہمیشہ اپنی کمزوریوں کو یہی ڈھارس دیتی ہو، جس کو تقویت دینے میں میرا بڑا ہاتھ ہے۔ کیپ اٹ! مجھے اب کوئی فرق نہیں پڑتا۔
تمہیں فرق پڑنا چاہیے، زبیرعثمانی! کیونکہ۔۔۔۔۔؟ ایک کمزور لمحے کا ہی نتیجہ ہے، ہمارا رشتہ بھی اور۔۔۔۔۔شامی بھی!
عائشہ خود پر سارا ضبط کھو چکی تھیں۔
شٹ اپ!!
زبیر عثمانی کی دھاڑ کے ساتھ زبیر صاحب کا ہاتھ بھی اٹھاتھا۔ اور عائشہ کے گال کو سلگا گیاتھا۔
تمہیں اب پراپر ٹریٹمنٹ کی ضرورت ہے، تمہارے فٹز میں اضافہ ہوتا جارہاہے۔
زبیر عثمانی نے عائشہ کو ان کی حیثیت بتانے کی کوشش کی تھی۔
لیکن عائشہ نے بھی بھرپور جوابی وار کیاتھا۔۔ان کا جھگڑا طول پکڑ رہا تھا۔ دونوں میں سے کوئی شکست تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھا۔
کورریڈور سے اسٹک ٹیکتا ہوا شامی ان کی آوازیں سن چکا تھا۔ اور وہ یوں آگے بڑھ گیا تھا، گویا یہ آوازیں اس کے والدین کی نہیں ٹی وی پرچلنے والے کسی شو کی ہوں۔ویسے بھی وہ اس ریئلٹی شو کو بہت بچپن سے دیکھتا اور سنتا چلا آرہا تھا۔
اکثر ایسا ہوتا تھا، جب بھی عائشہ کو زبیرصاحب کے کسی نئے افیئر کا پتہ چلتا تھا۔یہ ڈرامہ ایکشن ری پلے ہوتا تھا۔
شامی نے اطمینان سے جوگرز پیر جھٹک کر اتارے، اسٹک سے بازو کو آزاد کیا، میوزک پلیئر آن کیا اور بیڈ پر گرگیا۔
**************
بڑے وقت پر آغاجان کی آمد ہوئی ہے۔
سطوت آراء نے ادرک کی چائے ضیاءالدین صاحب کی طرف بڑھائی اور کھڑکی کے پٹ مضبوط کرنے لگیں۔ شام کے بعد سے بارش برس رہی تھی اور جاتی ہوئی سردی تھوڑی سی خنکی میں بدل گئی تھی۔ انھوں نے یونہی احتیاطا کھڑکیاں بند کردی تھیں۔
کوئی خاص بات؟
ضیاءالدین صاحب نے ان کی طرف دیکھ کر پوچھا تھا۔
مسز شافعہ خاتون نے بات کی ہے، عشال کے لیے۔۔۔۔ وہ آنا چاہ رہی ہیں، رشتے کے سلسلے میں!
سطوت آراء کے لہجے میں دبادبا سا جوش تھا۔
ہونم!ضیاءالدین صاحب نے پر سوچ انداز میں ہنکارا بھرا۔
کون ہیں یہ خاتون؟ آپ کی واقفیت کیسے ہوئی ان سے؟
ضیاءالدین صاحب نے چند ثانیوں کے وقفے سے بیگم سے پوچھا تھا۔
وہ لڑکا نہیں تھا، وقار؟ جو عشال کے پاس ٹیوشن لینے آتاتھا، اس کی والدہ ہیں۔ بڑی ہی سلجھی ہوئی فیملی ہے۔ سچ پوچھیں تو مجھے لڑکا بہت پسند آیا۔۔۔ لیکن یہ خیال بھی ان کے ذہن میں آسکتا ہے؟ میں نے تو سوچا بھی نہیں تھا۔
ضیاءالدین صاحب خاموش ہوگئے۔ وقار کو انھوں نے دیکھ رکھا تھا۔ ان گھر میں اس کا آناجاناتھا۔ اور انھیں اس پر کوئی اعتراض بھی نہیں تھا۔ شرافت، رکھ رکھاؤ اور نجابت اس کے ہر انداز سے جھلکتا تھا۔ لیکن ایسے فیصلے یونہی تو نہیں کیے جاسکتے تھے۔
لیکن ان کا لڑکا تو ابھی پڑھ رہا ہے؟
ضیاءالدین صاحب نے خیال ظاہر کیا تھا۔
نہیں! وہ اپنے بڑے بیٹے کی بات چلانا چاہتی ہیں۔ سطوت آراء نے شوہر کی غلط فہمی دور کی تھی۔
چلیے! فی الحال انھیں آنے دیں۔۔۔ پھر جو مناسب ہوا دیکھ لیں گے۔ اور یہ بھی آپ نے خوب کہی، آغا جان واقعی بڑے اچھے وقت پر آئے ہیں۔ اچھا ہے اگر سب کچھ ان کی موجودگی میں ہوجاتا ہے تو!
ضیاءالدین صاحب کے چہرے پر اطمینان تھا۔ سطوت آراء دل سے خوش تھیں اور اس رشتے کے لیے سرگرم بھی۔ صارم برہان پر ان کے دل ونظر ٹھہر گئے تھے۔
***************
عثمانی ولا میں صبح معمول کے مطابق اتری تھی۔ ایک دوسرے کے چہروں پر ماضی کی راکھ اڑانے کے بعد مسٹر اینڈ مسزعثمانی نارمل تھے۔ اور اپنی اپنی سرگرمیوں میں فعال بھی ہوچکے تھے۔ ناشتے کی ٹیبل پر دونوں میں سے کسی نے بھی مقابل کو مخاطب کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔
زبیر عثمانی آفس رخصت ہوچکے تھے۔ عائشہ کو اپنے اس تازہ ترین زخم کو سہلانے کےلیے آج فرصت مل ہی گئی تھی۔ ان کی این۔ جی۔ او کے آفس میں رینیووشن کے کام کی وجہ سے کم ازکم آج کےلیے انھیں فرصت تھی۔ اور کلب کارخ انھوں نے اپنی مرضی سے نہیں کیا تھا۔ عجیب سی کسلمندی دل ودماغ کو جکڑے ہوئے تھی۔
وہ وقت گذاری کے لیے لان میں چلی آئیں۔ گذشتہ رات برسنے والی بارش نے سب کچھ دھو کر فضا میں نکھار سا پیدا کردیا تھا۔ لیکن بہار کی ٹھنڈی سبک ہوا عائشہ کے سامنے ماضی کے دریچے کھول رہی تھی۔ اور لاکھ اس سے نظریں چرانے کے باوجود، وہ ضدی بچے کی طرح ان کے دامن سے لپٹ گیا تھا۔
پیر نوازلعل شاہ پشتوں سے زمیندار تھے۔ خاندانی رعب ودبدبہ اور رعونت ان میں بھی بدرجہ اتم موجود تھی۔ چار شادیوں کے باوجود اولاد نرینہ کی خواہش، خواہش ہی رہی۔
عائشہ ان کی پہلی بیوی کی اولاد تھی اور اکلوتی بھی۔
روایتی گھرانے کے باوجود پیر صاحب کی سوچ روایتی نہیں تھی۔ وہ زمانہ شناس تھے اور زمانے کی چال کو بھانپ چکے تھے۔ اسی لیے، خاندانی گدی کے دروازے بند ہوتے دیکھ کر سیاست کی گدی حاصل کرنے میں اپنی تمام تر توانائیاں خرچ کرنے لگے۔
لیکن عائشہ کے معاملے میں ان کی سوچ روایتی ہی رہی۔ عائشہ کو تعلیم کا شوق تھا۔ اور حویلی سے باہر تعلیم کےلیے وہ تأمل کا شکار تھے۔لیکن یہ مسئلہ قدرت نے حل کردیا۔
زبیر ان کی رشتے کی بیوہ بہن کا بیٹا تھا۔ والد کے انتقال کے بعد چچاؤں نے دونوں ماں بیٹے کو باہر کا راستہ دکھا دیا تھا۔ زبیر کی والدہ بیٹے کی زندگی غنیمت جان کر میکے چلی آئیں۔ زبیر کی ننھیال میں کوئی ان کا پرسان حال نہیں تھا۔ در در کی ٹھوکریں کھانے کے بعد وہ پیر نواز لعل شاہ کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہوگئیں۔ پیر صاحب نے ان کے حال پر رحم کھا کر انھیں حویلی کے سرونٹ کواٹر میں جگہ دے دی۔
نوجوان زبیر اس وقت مقابلے کے امتحان کی تیاری کررہا تھا۔ پیر صاحب نے اسےعائشہ کو پڑھانے کی ذمہ داری سونپ دی، جو اس نے بخوشی قبول کرلی۔ کچھ عرصہ انھوں نے سختی سے نظر رکھی مگر زبیر نے انھیں شکایت کا موقع نہیں دیا۔
ان کے پاس بھی مصروفیات کا انبار تھا۔ عائشہ کی ذمہ داری انھوں نے بیوی پر چھوڑ دی۔
اس طرف سے مکمل اطمینان حاصل کرنے کے بعد وہ اپنی سیاسی مصروفیات میں مگن ہوگئے۔
زبیرکا سہ پہر کا ایک گھنٹہ عائشہ کےلیے مخصوص تھا۔ اس دوران پورا وقت ملکانی صاحبہ عائشہ کے ساتھ رہتی تھیں اور دبیز پردوں سے ڈھکے درودیوار میں زبیر کی آواز گونجتی رہتی۔
حالات اپنی مخصوص ڈگر پر رواں دواں تھے تلاطم اس وقت پیدا ہوا، جب اسباق معاشیات کی کتابوں سے نکل کر محبت کے اسراروموز تک پہنچنے لگے۔ عائشہ خوبصورت تھی، نوعمر تھی، اور کسی حد تک سادہ مزاج۔ حویلی کے باہر کی دنیا اور اس کے پرپیچ راستوں سے وہ انجان تھی۔ زبیر کی قربت اور باتیں اس کےلیے روزن تھیں۔ اور اس روزن سے آنے والی تیز روشنی اس کی آنکھیں چندھیا رہی تھیں۔
ملکانی صاحبہ ان کے ساتھ بیٹھتی ضرور تھیں، لیکن بیٹھے بیٹھے وہ اونگھنے لگتیں۔ اور گفتگو کا سلسلہ آنکھوں سے ہوتا ہوا کاغذوں اور لفظوں میں ڈھلنے لگا۔
پردے کے اس پار زبیر کی تحریر بولتی تھی تو دوسری جانب عائشہ کی دھیمی دھیمی سی مسکراہٹ۔
عائشہ معصوم تھی لیکن حویلی کی جہاندیدہ ملازمہ نہیں۔
زبیر کے انتظار میں عائشہ کی بیقراری، اس کا مسکرانا، چال میں لوچ، چہرے کے رنگ!
بات ملکانی سے پہلے براہ راست پیر صاحب تک پہنچ گئی۔
پیر صاحب نے فورا سے پیشتر معاملے کی تحقیق کی اور سچ ثابت ہونے پر زبیر اور اس کی ماں کو ذلیل کرکے گھر سے بےدخل کردیا۔
اور عائشہ کےلیے خاندان کے دوسرے معزز گھرانوں میں رشتہ تلاش کرناشروع کردیا۔
عائشہ پر تو گویا قیامت ٹوٹ پڑی۔
ادھر حویلی سے ذلت اٹھانے کے بعد انتقام زبیر کے اندر پھن پھیلا کر بیٹھ گیا۔ وہ موقع کی تاک میں تھا، کہ قسمت نے ایک لمحہ اسے دان کردیا۔
************
پیر صاحب کی حویلی میں غیر معمولی چہل پہل تھی۔ حویلی کی شان وشوکت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ انتظامات سے ایسا لگتا تھا گویا کسی شاندار تقریب کا اہتمام کیا جارہا ہے۔ پیر صاحب کے حلقہءاحباب میں سے کچھ لوگ عائشہ کو انگوٹھی پہنانے آرہے تھے۔
جبکہ دوسری طرف عائشہ کا وجود زبیر کی محبت میں پھنک رہا تھا۔
ملکانی نے ایک بار پھر کپڑا پانی میں بھگو کر اس کے ماتھے پر رکھالیکن وہ ہنوز جل رہی تھی۔
ملکانی!
کمرے کے باہر پیر نواز لعل کی آواز گونجی تھی۔
ملکانی صاحبہ فورا ہی کمرے سے برآمد ہوئی تھیں۔
جی پیر صاحب!
عائشہ کو جلدی تیار کرو، وہ لوگ بس پہنچتے ہی ہوں گے۔
پیر نواز کا لہجہ سردو سپاٹ سا تھا۔
دیکھ لیں پیر صاحب! مجھے عائشہ کی حالت ٹھیک نہیں لگ رہی۔ یہ نہ ہومہمانوں کے سامنے کچھ اونچ نیچ نہ ہوجائے؟
یہ تیرا مسئلہ ہے۔
اگر ذرا بھی اونچ نیچ ہوئی تو تم دونوں کو زندہ گاڑ دوں گا۔
پیر صاحب کے چہرے کے تاثرات یکلخت ہی بدلے تھے۔
اسے۔۔۔۔ ڈاکٹر۔۔۔۔
تیرے پاس پندرہ منٹ ہیں، عائشہ کو تیار کرنے کےلیے۔
پیر صاحب نے سخت لہجے میں ملکانی صاحبہ کی بات کاٹ دی تھی۔ مجبورا وہ خاموشی سے پلٹ گیئیں۔
**************
عائشہ کانپتے، دہکتے وجود کے ساتھ ان کے سامنے بیٹھی تھی۔ بخار کی حدت سے میک اپ میں بھی اس کاچہرہ سرخ پڑتا دیکھا جاسکتا تھا۔ بھاری زیورات جو اس کی گردن اور کانوں میں جھول رہے تھے، ان کے بوجھ سے اس کی گردن مزید جھکی چلی جارہی تھی۔
آنکھ سے آنسو ٹپک ٹپک کر اس کی بند مٹھی کی پشت کو بھگو رہے تھے۔
مہمان خواتین نے اس کو شرم قرار دیا اور اس کی بلائیں لیتے ہوئے انگلی میں انگوٹھی پہنادی گئی۔
عائشہ نہیں جانتی تھی، اسے جس کے ساتھ منسوب کیا گیا ہے، وہ کیسا ہے؟ کون ہے؟ کیا کرتا ہے؟ نہ ہی اسے جاننے کی خواہش تھی۔
وہ بت بنی سارے تماشے سے بےنیاز دکھائی دیتی تھی۔ لیکن پیر صاحب کی نظریں اس پر ہی جمی تھیں۔خلاف توقع عائشہ کی طرف سے مزاحمت نہیں ہوئی تھی۔ اور اس وقت تک وہ مطمئن ہی تھے۔
************
مم۔۔۔میں یہ شادی نہیں کرسکتی اماں!
عائشہ ملکانی کے قدموں میں گری فریاد کررہی تھی۔
نہ کر عائشہ! کیوں اپنی اور میری جان کی دشمن ہوئی ہے؟
تو نہیں جانتی مرجانی! کتنے جتنوں سے میں نے پیر صاحب کو راضی کیا ہے! تیری جان بخشی کے لیے۔
کیوں ہماری عزت کے پیچھے پڑگئی ہے۔۔۔۔؟ بختاں ماری!
ملکانی نے ایک بار پھر اسے ہوش دلانا چاہا تھا۔
اماں میں یہ نہیں کرسکتی! بھلے میری جان لے لو! پر میرے ساتھ ایسا نہ کرو۔۔۔۔ میں یہ نکاح نہیں کرسکتی!!!
کیوں۔۔۔؟ کیوں نہیں کرسکتی؟ اس بے غیرت کی وجہ سے؟
ملکانی نے سلگ کر اس سے پیر چھڑوایا تھا۔
کیونکہ نکاح پر نکاح نہیں ہوسکتا اماں۔۔۔!!
عائشہ منہ ہی منہ میں بڑبڑائی تھی۔
کیا۔۔۔؟ کیا کہا تونے؟
ملکانی پر جیسے بجلی گری تھی۔ اسے بازوؤں سے پکڑ کر اٹھایا اور جھنجھوڑ کر سوال دہرایا۔
کیا بکواس کررہی ہے؟ بول؟
عائشہ کو ایکدم سے چپ لگ گئی تھی۔
ادھر میری آنکھوں میں دیکھ کر بول! کیا کہا تونے؟
نکاح پر نکاح۔۔۔؟ کیا مطلب ہے اس بات کا؟
مکانی نے قیامت کی آہٹ سنی تھی گویا۔
ام۔۔۔اماں۔۔۔وہ!
چٹاخ!
عائشہ کی بات مکمل ہونے سے پہلے ملکانی کا ہاتھ اس کے گال پر پڑا تھا۔ وہ بری طرح لڑکھڑا کر گری تھی۔
اس نے کوئی مزاحمت نہیں کی تھی۔ لیکن اس کے آنسوؤں نے ساری داستان سناڈالی تھی۔
***********
وہ ایک گرم سہ پہر تھی۔
عائشہ درگاہ پر فاتحہ خوانی کے لیے آئی تھی۔ ایک ملازمہ گاڑی کے پاس ہی رک گئی تھی۔ دوسری عائشہ کے ساتھ چلنے لگی تو اس نے گھرک دیا۔
تو کیا میری دم بنی چلی آرہی ہے، بھاگی نہیں جارہی، منت چڑھانی ہے۔
اور پھولوں کے ہار آگے کیے۔
وہ جی۔۔۔ ملکانی جی کا حکم ہے۔
ملازمہ نے گھبرا کر عذر دینا چاہا۔
میری بات ہوگئی ہے، اماں جی سے۔۔۔!
خبردار جو اب میرے پیچھے آئی۔۔۔ پچھل پیری نہ ہو تو!
عائشہ کے بے لچک لہجے کے سامنے ملازمہ کی نہ چل سکی۔
وہ پھولوں کے ہار اور منت کی چادر ہاتھ میں لیے زنانہ حصے میں آکر مزار کے سامنے کھڑی ہوگئی۔ اور فاتحہ پڑھنے لگی۔ اسی وقت ایک برقعہ پوش عورت اس کے برابر آن کھڑی ہوئی۔ ہلکا سا ٹہوکا مار کر عائشہ کو متوجہ کیا۔
عائشہ نے چونک کر دیکھا تو اس نے آدھا نقاب الٹ کر ذرا سا اپنا چہرا کرایا، عائشہ کے جسم میں سنسنی کی لہر دوڑگئی۔
ززز۔۔ب۔۔۔
ششش!
اس نے ایک دم ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔
پھر وہ دونوں احاطے میں چلے آئے۔ زبیر اسے لیے نسبتا تنہا گوشے میں ایک گھنے پیڑ کی اوٹ میں لے آیا۔ عائشہ کا دل بری طرح دھڑک رہا تھا۔
یہ کیا پاگل پن ہے؟ زبیر!
کسی نے تمہیں دیکھ لیا تو؟
مجھے کوئی پرواہ نہیں۔ اگر تم میرے ساتھ ہوتو؟
زبیر نے بنا تمہید کے مدعا بیان کیا۔
تمہارے ساتھ نہ ہوتی تو تمہارے ایک پیغام پر یہاں نہ چلی آتی۔ سچ زبیر میں نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگادیا ہے، صرف تمہاری محبت میں۔
عائشہ بے حد جذباتی ہورہی تھی۔
میں نے بھی تم سے وعدہ کیا تھا تمہیں اپنانے کا۔ اور دیکھ لو، میں پیچھے نہیں ہٹا۔ غلطی ہم دونوں سے ہوئی تھی۔ تو حالات کا مقابلہ بھی ہم مل کر کریں گے۔ دیکھ لو تمہاری خاطر میں نے جان کی بازی لگادی ہے۔
ایک لمحے کو عائشہ کا احساس گناہ جاتا رہا اور اسے زبیر پر فخر ہوا۔ حویلی سے نکالے جانے سے پہلے، وہ کئی بار عائشہ سےتنہائی میں ملاقاتیں کرچکا تھا۔ اور اس تنہائی کا فائدہ بھی اٹھا چکا تھا۔ سب کچھ زبیر کے پلان کے مطابق چل رہا تھا کہ درمیان میں پیر صاحب آگئے۔ لیکن زبیر کی جیب میں ترپ کا جو پتہ تھا، وہ عائشہ تھی۔
تم نے کیا سوچا ہے؟ زبیر! ابا جی تو بالکل نہیں مانیں گے؟ وہ مجھے جان سے تو مار سکتے ہیں لیکن تمہارے ساتھ رخصت نہیں کریں گے۔
عائشہ نے بے بسی سے پوچھا۔
عائشہ! ہم نکاح کررہے ہیں، آج اور ابھی!
زبیر نے ایکدم سے اس پر بم پھوڑا تھا۔
کک۔۔کیا؟
عائشہ نے تھوک نگلا۔
ہمارے پاس یہی ایک راستہ ہے، عائشہ!
اور تمہیں فیصلہ ابھی کرنا ہے۔
عائشہ گومگو کی کیفیت میں کھڑی رہی۔ تمام حقائق سامنے ہونے کے باوجود وہ اس کےلیے وہ تیار نہیں تھی۔
کیا سوچ رہی ہو؟ میرے پاس وقت کم ہے۔ آج تم لوٹ گئیں تو پھر کبھی مجھے نہیں پاسکو گی۔ زیادہ سوچو گی تو وقت ہاتھ سے پھسل جائے گا۔ بولو عائشہ کیا تمہیں میرا ساتھ قبول ہے؟
وہ اب بھی خاموش تھی۔
عائشہ!
زبیر نے اسے پکارا۔
قبول ہے۔۔۔۔۔ مجھے تمہارا ہی ساتھ قبول ہے، میں مر تو سکتی ہوں لیکن تمہارے علاوہ کسی کے ساتھ زندگی نہیں گذار سکتی۔
عائشہ نے دوقدم کا فاصلہ سمیٹتے ہوئے اپناآپ زبیر کے حوالے کردیا تھا۔
اسی درخت کے پاس، کھلے آسمان تلے، حبس زدہ دوپہر میں عائشہ کی شناخت بدل گئی تھی۔
***********
بےغیرت، بے حیا!
پیر نواز لعل جانے کس کام سے اس طرف آئے تھے کہ عائشہ کے لفظوں نے ان کے قدم زنجیر کرلیے، صدماتی کیفیت میں فوری طور پر تو وہ بت بن کر رہ گئے لیکن چند ثانیوں بعد ہی انھیں نقصان کی شدت نے سرخ کرڈالا۔ وہ بپھرے ہوئے طوفان کی طرح عائشہ پر پل پڑے تھے۔
ملکانی کو اندازہ ہی نہ ہوسکا کہ کب پیر صاحب آئے اور کب انھوں نے عائشہ کو دبوچا۔ وہ بس اتنا ہی دیکھ پائیں کہ پیر صاحب کے ہاتھ میں عائشہ کی گردن ہے۔
میں تجھے زندہ زمین میں گاڑ دوں گا۔۔۔۔ بدبخت!!!
نجانے کیا کیا مغلظات اس وقت پیر نواز لعل کے منہ سے نکل رہے تھے۔ ملکانی نے جو عائشہ کا زردپڑتا چہرہ دیکھا تو تیزی سے آگے بڑھ کر پیر صاحب کو روکنا چاہا۔ لیکن پیر نوازلعل اس وقت اپنے ہوش میں نہیں تھے۔
عائشہ کے بے جان پڑتے ہاتھوں میں اتنا دم نہیں تھا کہ باپ کے ہاتھ ہی تھام لیتی۔ پیر صاحب نے گردن تو عائشہ کی دبوچ رکھی تھی لیکن لمحہ بہ لمحہ جان ان کی نکل رہی تھی۔ ملکانی کو صورتحال کا اس وقت اندازہ ہوا جب پیر صاحب کا جسم بے جان ہوکر دبیز قالین پر گر گیا۔
عائشہ بے سدھ ہوکر مسہری کے پائنتی گر پڑی تھی۔
***********
پیر صاحب کو شدید دل کا دورہ پڑا تھا۔ ان کا دل یہ صدمہ جھیل نہیں پایا تھا۔ اب یہ عائشہ کے حق میں اچھا ہوا تھا یا برا، لیکن وہ جانبر نہ ہوسکے۔
اس تمام عرصے میں ملکانی اور عائشہ کے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے پیر صاحب کے ساتھ دونوں ماں بیٹی کی قوت گویائی بھی چلی گئی ہو۔
پیر صاحب کی وفات کے نویں دن ملکانی خود عائشہ کے پاس آئی تھیں۔
آج شام کو تیرا نکاح ہے۔
عائشہ جو سر نیہوڑائے بستر پر بیٹھی تھی، ماں کے الفاظ پر چونک گئی۔ پورے نو دن بعد اس نے عائشہ کو مخاطب کیا تھا۔
ایسے کیا دیکھ رہی ہے؟ یہی تو چاہتی تھی ناں تو؟
ملکانی کے لہجے میں اس کےلیے رتی بھر مامتا نہیں تھی۔
پر اماں جی! میرا یقین کرو۔۔۔
باس۔۔۔!
ملکانی نے ہاتھ اٹھا کر اسے روک دیا۔
مجھے تیری بکواس میں ذرا بھی دلچسپی نہیں۔ تونے جو کارنامہ کرنا تھا کرلیا۔ اب میری سن!
اولاد جب ماں باپ کے قد سے اونچی ہوجائے تو خود کو ان سے زیادہ عقلمند سمجھنے لگتی ہے۔
لیکن ماں باپ کبھی احمق نہیں ہوتے۔ یہ آدمی تجھے خون کے آنسو رلائے گا۔ تو کبھی خوش نہیں رہے گی۔ عائشہ!! یاد رکھنا میری بات۔
جی تو چاہتا ہے، تجھے اپنے ہاتھوں سے مار ڈالوں، لیکن کیا کروں؟ مجبور ہوں!!
عائشہ کچھ نہ بول سکی۔ جانتی تھی اس سے جرم سرزد ہوا ہے۔ سو خاموشی سے آنکھوں سے آنسو بہاتی رہی۔ اسے اپنے آنسوؤں کی وجہ بھی سمجھ نہیں آئی تھی۔
میں جانتی ہوں تو اب کسی شریف آدمی کے قابل نہیں ہے۔ اس لیے میرے پاس ایک ہی راستہ ہے تجھے چار لوگوں کی موجودگی میں رخصت کردوں۔ زبیر سے میں نے بات کرلی ہے۔ جگ دکھاوے کو تیرا اس سے نکاح بھی ہوجائے گا۔ اس کے بعد تو اپنی منحوس شکل لےکر یہاں سے دفع ہوجانا۔ اور دوبارہ کبھی مت دکھانا۔ اپنی بات کہہ کر ملکانی وہاں رکی نہیں تھیں۔
عجیب بات تھی، اس کی خواہش پوری ہورہی تھی۔ لیکن خوشی کی کوئی رمق اسے محسوس نہیں ہوئی تھی۔
************
ابشام اس کی زندگی میں شادی کے پانچویں مہینے میں ہی آگیا تھا۔ مگر وہ عائشہ کےلیے ایسی کسک تھا جس سے وہ ہمیشہ نظریں چراتی رہی۔ اس کی شدید خواہش کے باوجود وہ دوبارہ ماں نہیں بن سکی۔ ڈاکٹرز کا کہنا تھا۔ آپ دونوں نارمل ہیں، بندش قدرت کی طرف سے ہے۔ لیکن عائشہ جانتی تھی، یہ بندش ان بدعاؤں کی ہے، جن میں وہ رخصت ہوئی تھی۔
بادل ایک بار پھر گھر آئے تھے۔ عائشہ اپنے وسیع ولا کی طرف پلٹ گئی تھی۔
باریک باریک سی کن من اور تیز ہوا کے جھونکوں نے ڈیپارٹمنٹ سے پارکنگ تک عشال کا چلنا دوبھر کردیا تھا۔ اسی وجہ سے اس کی رفتار تیز تھی، نورین اس سے چند قدم پیچھے تھی۔ اور اس فاصلے کو تیز قدموں سے پاٹنے کی کوشش میں تھی۔
شامی ڈیپارٹمنٹ کی سیڑھیوں پر بیٹھا اپنی فائل پر جھکا ہوا تھا۔ اس کی چار کول پینسل تیزی سے نقش ابھارنے میں مصروف تھی۔ اس کی اسٹک قریب ہی پڑی تھی۔ شازمین اور اس کی فیملی کے درمیان معاملات سارٹ آؤٹ ہوچکے تھے۔
ہوا سے پھڑپھڑاتے کاغذ کو اس نے بازو کے نیچے مضبوطی سے دبا رکھا تھا۔ وہ اردگرد سے بیگانہ اپنے آپ میں مگن تھا کہ۔۔۔۔
ہاؤ ڈیر یو؟
کسی نے بہت زور سے وہ کاغذ کھینچا تھا۔ اور دہکتے چہرے کے ساتھ وہ خشمناک لہجے میں اس سے مخاطب تھی۔
ابشام کے لیے اس کا یہ نیا روپ تھا۔
پاس سے گذرتے اسٹوڈنٹس رک کر انھیں دیکھنے لگے تھے۔
ایکسکیوز می؟
ابشام نے ناسمجھی سے عشال کو دیکھا تھا۔
کس حق سے تم نے میرا اسکیچ بنایا؟
عشال نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کاغذ اس کی آنکھوں کے سامنے لہرایا تھا۔
اوہ یہ؟ I have explanation۔۔۔
اس نے عذر دینا چاہا تھا۔
تم سے تو اب ایچ آر کے آفس میں بات ہوگی۔۔۔۔!!
تم جیسوں کو تمہاری اوقات میں رکھنا آتا ہے مجھے۔
عشال نے اس کی بات کاٹ کر رخ واپس موڑ لیا تھا۔ عشال۔۔۔! شامی نے تیزی سے آگے بڑھ کر اس کی کلائی تھام لی تھی۔ وہ عشال کو روکنا چاہتا تھا۔
جوابا عشال نے مڑکر ایک زبردست تھپڑ سے اسے نواز دیا۔ یکلخت راہداری میں سناٹا چھا گیا، ہر شخص کی سوالیہ نظریں ابشام کی طرف اٹھیں۔
عشال۔۔۔!
نورین نے سرگوشی میں اسے باز رکھنا چاہا، مگر اس نے جیسے کچھ سنا ہی نہیں تھا۔
مجھے چھونے کا تم نے سوچا بھی کیسے؟
عشال کی آواز معمول سے بلند ہوگئی تھی۔ ابشام سن کھڑا اپنی جگہ ساکت رہ گیا۔ اس کی یہ حرکت بالکل غیر ارادی تھی۔ لیکن عشال کاردعمل بھی اتنا ہی غیر متوقع تھا۔
عشال۔۔۔! چلویہاں سے؟ اردگرد اکٹھے ہوتے ہجوم کو دیکھ کر نورین اسے زبردستی وہاں سے لے جانا چاہتی تھی۔ جبکہ عشال ابشام کو قتل کردینے کے ارادے سے اپنی جگہ جمی کھڑی تھی۔
بہت ہوچکا۔۔۔۔ اب چلو یہاں سے۔۔۔
نورین بمشکل دھکیلتی ہوئی اسے دور لے گئی تھی۔
پیچھے چہ مہ گوئیاں کرتا ہجوم رہ گیا تھا اور درمیان میں کھڑا ابشام۔
**********
چھوڑو مجھے۔۔۔!
عشال نے خود کو جھٹک کر نورین سے چھڑوایا تھا۔ کیوں روکا مجھے؟ اسے سبق تو سکھانے دیا ہوتا۔۔۔۔؟
عشال کے ہاتھ میں اب بھی اسکیچ والا ادھ پھٹا کاغذ تھا۔ اسے اپنے چہرے پر شامی کی نظروں کی موجودگی کھولائے دے رہی تھی۔
جو کرچکی ہو وہ کافی نہیں؟ مزید کیا کرنا چاہتی تھیں تم؟ نورین نے اسے بازو سے روک کر پوچھا۔
میں اسے۔۔۔ میں اسے۔۔۔۔؟ اندھا کردیتی!
عشال نے غصے میں الجھ کر کہا تھا۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا، کیسے ابشام کے لمس کو اپنے وجود سے نوچ پھینکے۔
اور تمہاری اس حرکت کے نتیجے میں جو قصے کہانیاں ہمارے گھر تک پہنچیں گے؟ ان کا کیا سوچا ہے؟
نورین نے اس کی عقل جگانے کی ایک کوشش کی۔
دیکھ لوں گی وہ سب بھی!
اور نورین کے کندھے کو کراس کرتی ہوئی آگے بڑھ گئی تھی۔
عشال کی عقل کے ساتھ بینائی بھی غصے نے چھین لی تھی، لیکن نورین کو ٹھیک ٹھاک بہت کچھ نظر آرہا تھا۔ خاص طور پر شامی کی آنکھیں!
************
اسی وقت اشعر نے اینٹری دی تھی۔ بہت سوں کی طرح وہ بھی عشال کو، شامی کو تھپڑ جڑتے دیکھ چکا تھا۔ اور جس طرح شامی وہاں کھڑا تھا، اشعر کو اس کی چھٹی حس نے خبردار کیا تھا۔ وہ چپس کا ریپر مڑوتے ہوئے تیزی سے آگے بڑھا تھا اور شامی کی کلائی تھامتا اسے وہاں سے لے گیا تھا۔
شامی کسی روبوٹ کی طرح اس کے ساتھ کھینچتا چلا گیا تھا۔ اسٹوڈنٹس اس کے پیچھے اب بھی تبصرے کررہے تھے۔ کچھ نے عشال کو اس سے فائل پیپر جھپٹتے دیکھا تھا، لیکن زیادہ تر کو تجسس تھا کہ ابشام زبیر کو تھپڑ کیوں پڑا۔
وہ کوئی عام اسٹوڈنٹ نہیں تھا۔ سارا ڈیپارٹمنٹ اسے جانتا تھا۔ کچھ اس کے گریڈز کی وجہ سے، کچھ اسکیچنگ کی وجہ سے تو کچھ اس کے مغرور اور روڈ اسٹائل کی وجہ سے۔ اور اس وقت وہ ایک اور وجہ سے موضوع گفتگو بن چکا تھا۔
ریلیکس پلیز! میں سمجھاؤں گا عشال کو۔۔۔۔ وہ اس نیچر کی لڑکی نہیں ہے۔ شاید غصے کی وجہ سے اوور ری ایکٹ کرگئی۔
اشعر نے منرل واٹر کی بوتل شامی کی طرف بڑھائی تھی۔ وہ اسے سیدھا کینٹین لے آیا تھا۔ اور اب ایک خاموش گوشے میں وہ اس واقعے کے اثر کو زائل کرنا چاہتا تھا۔
لیکن شامی کا چہرہ خالی تھا۔ اس پر کوئی تحریر نہیں تھی۔ مگر تھوڑا اسمارٹ تو اشعر بھی تھا۔
چلو باہر چلتے ہیں، تھوڑی دیر چل کرکے واپس آجائیں گے۔
شامی نے اس کی طرف ایسے دیکھا گویا اشعر کادماغ چل گیا ہو۔ پانی کی بوتل جھپٹ کر دیوار پر دے ماری۔
میرا پکنک کا کوئی موڈ نہیں ہے۔
اور وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا۔ کپڑے جھاڑے بغیر اشعر کو نظرانداز کرتا ہوا وہ اسٹک کے سہارے بھی اس سے کافی دور جاچکا تھا۔
یہ ٹھیک نہیں ہوا۔ بالکل بھی نہیں۔ عشال بی بی تمہیں اللہ سمجھے۔
وہ باآواز بلند بڑبڑایا تھا۔
**********
السلام علیکم آغا جان!
سطوت آراء لینڈ لائن فون رکھ کر مڑی تھیں۔ ان کے چہرے پر مسکراہٹ اور آنکھوں میں سر خوشی تھی۔
وعلیکم السلام بیٹا!
خیریت؟ آج صبح صبخ اتنی مسکراہٹ؟
أغا جان کے ساتھ ضیاءالدین صاحب نے بھی ان کی کیفیت نوٹ کی تھی۔
جی!
انھوں نے دونوں کو مشترکہ جواب دیا۔
وقار کی والدہ آج شام کو ہی آنا چاہ رہی ہیں۔
یہ کیا معاملہ ہے بھئی؟ ہمیں بھی کچھ پتہ چلے؟
آغا جان نے نشست سنبھالنے کے بعد ضیاءالدین صاحب سے پوچھا۔
ہم آج آپ سے بات کرنے ہی والے تھے۔ لیکن معلوم ہوتا ہے، انھیں زیادہ ہی جلدی ہے۔
لمحے بھر کو انھوں نے توقف کیا۔
دراصل آغاجان ایک رشتہ ہے،عشال کےلیے۔ انھی کی بات ہورہی ہے۔
سطوت کا خیال ہے۔ لڑکا اور خاندان دونوں مناسب ہیں۔ باقی باتیں ان کے آنے کے بعد ہی دیکھی جاسکتی ہیں۔
أغا جان نے چند لمحے خاموشی اجتیار کی اور پھر بولے۔
رشتے ناتے رحمت خداوندی ہوتے ہیں۔ ان کا راستہ نہیں روکنا چاہیے۔ یہ قسمت کا دروازہ ہے جو اللہ نے عشال پر کھولا ہے۔ آنے دو انھیں۔ دیکھ لیتے ہیں۔ اللہ ہماری بچی کا مقدر اچھا کرے۔
آمین۔
تینوں نفوس نے دل سے اس دعا پر آمین کہا تھا۔
مگر کاتب تقدیر اک اورہی داستان لکھ رہا تھا۔
***********
آئی ایم سوری سر!
میں نے کچھ بھی ارادے سے نہیں کیا۔ بس ہاتھ میں پینسل تھی تو، بنا سوچے سمجھے میرے ہاتھ چلتے چلے گئے۔ ہوش آیا تو وہ ان کا چہرہ تھا۔۔۔۔
عشال اور شامی اس وقت ایچ آر کے آفس میں تھے۔ عشال کی کمپلین کے جواب میں شامی اس کے چہرے پر نظریں جمائے کہتا چلا جارہا تھا۔ جیسے اس کے حواس اب بھی کسی نے سلب کررکھے ہوں۔
ایچ آر نے دانستہ کھنکھارا تھا۔ لیکن اسے کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔
عشال نے بیزاری اور غصے سے منہ موڑا تھا۔ ایک عجیب آگ تھی جو اسے اپنی لپٹوں میں لے رہی تھی اور وہ دہک رہی تھی۔ جبکہ شامی سلگ رہاتھا۔ دھیما دھیما۔۔۔۔ آہستہ آہستہ۔۔۔۔
بٹ! میں ان سے ایکسکیوز کرنے کےلیے تیار ہوں۔
شامی نے بات ختم کی تھی اور رخ ایچ آر کی جانب موڑ لیا تھا۔
آپ کیا کہنا چاہیں گی عشال؟
ایچ آر نے عشال کی طرف دیکھا تھا۔
مجھے ان کی ایکسکیوزز نہیں چاہیئیں سر۔ میری ذہنی اذیت کا ازالہ ان کی ایکسکیوزز سے نہیں ہوسکتا۔
عشال نے سخت لہجے میں ایچ آر کو واصخ کردیا تھا۔
پھر کس طرح یہ کار خیر انجام دے سکتا ہوں میں؟
شامی نے ہلکے پھلکے لہجے میں عوال کیا تھا۔
ایچ آر نے تنبیہی نظروں سے اسے نوازا۔
سزا! انھیں پوری سزا ملنی چاہیے سر۔ آپ انھیں سسپنشن لیٹر جاری کریں ابھی۔
عشال نے اس کی طرف دیکھے بغیر کہا۔ ویسے بھی اسے شامی کی نظروں اور انداز سے مسلسل کوفت ہورہی تھی۔
ہوم۔۔۔۔
ایچ آر نے ہنکارا بھرا اور دونوں پر سرسری نظر ڈالتے ہوئے کہا۔
ابشام زبیر! آپ کو وارن کیا جاتا ہے، یہ دوبارہ نہیں ہونا چاہیے۔ اور معافی نامے کا پیپر اس کی طرف بڑھا دیا۔
ابشام نے پیپر نظرانداز کیا اور عشال سے مخاطب ہوا۔ سوری مس! آئندہ خیال رکھوں گا۔
آپ اسے رکھ سکتی ہیں۔
اور آفس سے باہر نکل گیا۔
عشال اس کی ڈھٹائی کو دیکھتی رہ گئی۔
سسپنشن لیٹر بات بات پر ایشو نہیں کیا جاسکتا۔ بٹ ڈونٹ وری ہم اس کو وارننگ لیٹر ضرور ایشو کریں گے۔
ایچ آر نے عشال کو تسلی دی تھی۔ لیکن عشال کھولتی بھڑکتی آفس سے باہر نکل گئی تھی۔
*************************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...