“نورین! عشال کہاں ہے؟”
سطوت آراء نے سانس روکے نورین کو جھنجھوڑ ڈالا۔
نورین منہ سے کچھ کہہ ہی نہ سکی البتہ اس کی بہتی آنکھوں کی راونی میں تیزی آگئی۔
وہ کچھ بھی کہنے سے قاصر تھی۔
“خدا کے لیے نورین! بولو، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے!”
سطوت آراء کے لہجے میں سراسیمگی تھی۔ پھر جیسے انھیں کچھ خیال آیا تو وہ تیزی سے اٹھیں اور دروازہ بند کر کے لاک کر دیا۔
“مجھے ٹھیک ٹھیک بتاؤ! عشال کے ساتھ کیا ہوا ہے؟ تم نے کیا دیکھا؟”
“نورین ان کا چہرہ دیکھ کر رہ گئی۔ پھر ایکدم سے ان کے گلے لگ کر پھوٹ کر رو دی۔
“وہ عشال کو لے گیا خالہ جان! وہ لے گیا۔۔۔!”
“کک۔۔۔کون؟”
سطوت آراء نے لڑکھڑتے لہجے میں اسے کندھوں سے تھام کر اپنے مقابل کیا تھا۔
نورین کی نظریں جھک گیئیں۔
“ششش۔۔۔شامی!”
گھبراہٹ میں نورین کے منہ سے برآمد ہوا تھا۔
سطوت آراء کی دھڑکنیں ڈوبنے لگیں۔
***************
صارم دمکتے چہرے کے ساتھ گیندے کے پھولوں سے سجے سیٹ پر بیٹھا تھا۔ اس کے سامنے زرق برق ملبوس لہرا رہے تھے۔ مگر اس کی منتظر نگاہیں عشال کی متلاشی تھیں۔
انھیں آئے ہوئے تو کافی وقت ہو چکا تھا۔ مگر ابھی تک دلہن کی کچھ خبر نہیں تھی۔
کچھ دیر پہلے اس نے خواتین میں دلہن کی آمد کا غوغا سنا تھا لیکن اس واقعے کو بھی آدھے گھنٹے سے زیادہ وقت گذر چکا تھا۔ صارم نے انتظار کی ساری کلفت اور بیزاری ایک طرف رکھ کر گہری نظر سے دوبارہ ماحول کا جائزہ لینا شروع کیا۔
مہندی کا اسٹیج اس انداز سے لگایا گیا تھا کہ پارٹیشن کے باوجود صارم دونوں طرف نظر دوڑا سکتا تھا۔
خواتین میں اسے سطوت آراء اور نورین کہیں دکھائی نہیں دیں۔ شافعہ کے چہرے پر زمانے بھر کی بیزاری چھائی ہوئی تھی۔ جبکہ مردانے میں ضیاءالدین صاحب بھی گھڑی کی سوئیاں ناپتے دکھائی دیے۔
آغا جان کا چہرہ معمول کے مطابق دکھائی دے رہا تھا مگر اس کے باوجود صارم کو کچھ سنجیدہ قسم کی گڑبڑ کا احساس ہورہا تھا۔ اس کی چھٹی حس انگڑائی لے کر بیدار ہوگئی تھی۔ مگر مشکل یہ تھی۔ وہ اس وقت مرکز نگاہ تھا۔
اس موقع پر شافعہ سے کوئی بات کرنا خود اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنا تھا۔ وہ کن جتنوں سے انھیں یہاں تک لایا تھا۔ یہ اس کا دل ہی جانتا تھا۔
اس نے کچھ سوچ کر وقار کا نمبر پنچ کیا اور میسیج ٹائپ کرنے لگا۔
*****************
“مسئلہ کیا ہے؟ مہمانوں کو چھوڑ کر آپ یہاں کیا کررہی ہیں سطوت؟ وہ انتظار سے اکتا چکے ہیں۔”
ضیاءالدین صاحب بیزاری سے سطوت آراء پر ہی برس پڑے اور پریشانی میں سطوت آراء کے چہرے پر چھائی زردی بھی نہ دیکھ سکے۔
وہ یہاں سطوت آراء کے بلاوے پر ہی آئے تھے۔
“ضیاءالدین!”
سطوت آراء ان کا کف تھام کر بمشکل کھڑی رہ پائیں۔
“جلدی کہیے، کیا مسئلہ ہے؟ آپ خواتین کے مسائل تو کبھی ختم ہی نہیں ہوتے۔ مہمان پریشان ہورہے ہیں۔ آخر رسم کب شروع کریں گی؟”
ضیاءالدین صاحب نے غور ہی نہیں کیا تھا۔ انھیں مہمانوں کی فکر ستارہی تھی۔
“عشال نہیں ہے، ضیاءالدین!”
سطوت آراء نے بالآخر دھماکہ کیا۔
ضیاءالدین صاحب اچانک ساکت ہوئے۔ چہرے کے عضلات تن گئے۔
“کیا مطلب؟ عشال نہیں ہے؟”
وہ سطوت آراء کا مصداق سمجھ ہی نہ سکے۔
چند ثانیے لگے انھیں سطوت آراء کی بات سمجھنے میں، دوسرے لمحے ان کے قدم عشال کے بیڈروم کی طرف تھے۔
دہلیز پر پہنچ کر وہ بھی ایسے ہی جم کر رہ گئے تھے جیسے کچھ دیر پہلے سطوت آراء۔
نورین اب بھی بیڈ پر بیٹھی آنسو بہارہی تھی اس کے ہاتھ میں عشال کا زرتار دوپٹہ تھا اور کمرے میں موتیے کی کلیاں بکھر چکی تھیں۔
“عشال! کیسے ہوا یہ؟ آپ کہاں تھیں؟”
ضیاءالدین صاحب نے پہلی بار لہو رنگ آنکھوں سے سطوت آراء کو دیکھا تھا۔
“میں کچھ نہیں جانتی ضیاء! اچھی بھلی میں اسے یہاں چھوڑ کر گئی تھی۔ مہمانوں کے استقبال کے لیے۔۔۔”
لفظ سطوت آراء کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔
“وہ امانت تھی ہمارے پاس! بتائیے اب کیا جواب دوں میں آغا جان کو؟”
وہ سر تھامے کرسی پر بیٹھ گئے تھے۔ پھر ایکدم سے سر اٹھا کر پوچھا۔
“سب سے پہلے اس واقعے کی خبر کس کو ہوئی تھی؟”
سطوت آراء نے نورین کی طرف دیکھا۔ وہ اب قدرے سنبھل چکی تھی۔جھینپ کر بولی۔
“مم میں کچھ نہیں جانتی! میں عشال کو لینے کمرے میں آئی تھی خالو جان، مگر۔۔۔۔!
اس سے زیادہ کہنے کو اس کے پاس کچھ نہیں تھا۔
“ہمیں سب سے پہلے مہمانوں کو سنبھالنا ہوگا۔ پھر اس مسئلے کو بھی دیکھ لیں گے۔”
ضیاءالدین صاحب ایک فیصلہ کر کے اٹھے تھے۔
سطوت آراء کی سوچیں گویا مفلوج ہوچکی تھیں۔
****************
“ان مسٹنڈوں کو فورا چلتا کرو اور میرے پاس آؤ!”
وقار نے قدرے حیران ہوکر صارم کا میسیج پڑھا تھا۔
“بگ برادر بھی ناں! آج کے دن بھی رعب جھاڑنے سے باز نہیں آئیں گے۔ چلو دیکھتے ہیں، صاحب بہادر کے مزاج کو کیا ہوا ہے؟”
وقار نے بڑبڑاتے ہوئے سیل جیب میں رکھا اور دوستوں کو غیر محسوس انداز میں صارم سے دور لے گیا۔
“جی فرمائیے؟ کیا خدمت کرسکتا ہوں آپ کی؟ بھابھی سے بات نہیں کرواسکتا بڑا سخت پہرہ ہے۔ ویسے بھی وہ آتی ہی ہوں گی۔”
وقار نے ہلکے پھلکے انداز میں صارم کو چھیڑا۔
“بی سیریس! مجھے لگتا ہے اندر کچھ مسئلہ ہے، ذرا ایک راؤنڈ تو لگا کر آؤ!”
صارم نے دھیمی سی سرگوشی کی، لیکن چہرہ سامنے کی طرف ہی رکھا۔
“خدا کا خوف کریں بھائی! یہ ایک غیر اخلاقی حرکت ہے۔ اگر ان کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے بھی تو ہمیں یہ تانک جھانک زیب نہیں دیتی۔”
وقار نے بھی اسی کے انداز میں صارم کو اخلاقیات پر پرزور لیکچر پلا ڈالا۔
مگر آگے بھی صارم تھا۔
“بہت شکریہ! میں تو جیسے جانتا ہی نہیں اخلاقیات کس چڑیا کا نام ہے؟
مجھے لگتا ہے، انکل کسی بڑی مشکل میں ہیں۔۔۔، ہوسکتا ہے انھیں ہماری مدد کی ضرورت ہو! لیکن ہونے والے داماد سے وہ مدد کہاں لینا چاہیں گے؟ ہمیں خود ہی آگے بڑھ کر مداخلت کرنی پڑے گی۔”
صارم نے اس کی عقل کو جھاڑا۔
“اوکے! پتہ کرتا ہوں، مگر کسی نے مجھے چور اچکا سمجھ کر کچھ کہا تو میں سیدھا آپ کا نام لے دوں گا، سمجھے؟ مجھے اپنی ریپوٹیشن بہت پیاری ہے۔”
وقار صارم کو وارن کرتا ہوا اس کے پاس سے اٹھ گیا تھا۔
جبکہ صارم سر جھلا کر رہ گیا۔
****************
وقار محتاط قدم اٹھاتا لاؤنج سے اندر داخل ہوگیا۔ سامنے کچن تھا جبکہ داہنی طرف سیڑھیاں اوپر کی طرف جارہی تھیں۔
وقار نے نظروں سے اطراف کا جائزہ لیا مگر کوئی دکھائی نہ دیا۔
وہ پہلی سیڑھی کے قریب کھڑا سوچ ہی رہا تھا کہ آگے بڑھے یا نہ بڑھے کہ اسے روشنیوں میں کچھ سائے نیچے اترتے دکھائی دیے۔
وہ سنبھل کر پیچھے ہٹ گیا۔
زرد دوپٹے سے نیچے تک گھونگھٹ ڈالے سطوت آراء دلہن کو تھامے آرہی تھیں۔ ان کے آگے ضیاءالدین صاحب تھے۔
“سنبھل کر!”
پھر وہ وقار کو دیکھ کر ٹھٹک گئے۔
‘میاں تم یہاں؟”
ان کا لہجہ استفہامیہ تھا۔
“جی میں واش روم ڈھونڈ رہا تھا۔”
وقار نے خواہ مخواہ ہی مسکرانے کی کوشش کی۔
“اس طرف!”
ضیاءالدین صاحب نے ڈائننگ ٹیبل کی پشت پر بائیں طرف کاریڈور کی جانب اشارہ کیا تھا۔
“جی! شکریہ!”
وقار تیزی سے ادھر کو مڑگیا تھا۔
جبکہ ضیاءالدین صاحب دلہن کو اپنی معیت میں لے کر آگے بڑھ گئے۔
“انتہا درجے کے شکی مزاج واقع ہوئے ہیں، یہ صارم بھائی! بلاوجہ مجھے خوار کروادیا۔”
وقار بڑبڑاتا ہوا باہر کی سمت چل دیا۔
دلہن سہج سہج قدم اٹھاتی صارم کے پہلو میں بٹھا دی گئی۔
صارم نے ایک نظر دلہن پر ڈالی مگر وہ اس سے کافی کھنچی ہوئی بیٹھی رہی۔
ایکدم سے صارم بھی بے نیاز سا دکھائی دینے لگا۔
پھر رسم کا آغاز کردیا گیا۔
صارم سے کسی نے بھی چھیڑ چھاڑ نہیں کی۔ حالانکہ وہ آبریش اور خاص طور سے نورین سے خاصی توقعات لگائے بیٹھا تھا۔ مگر حیرت انگیز طور پر وہ اب بھی کہیں دکھائی نہیں دے رہی تھی۔
صارم کا چہرہ گہری سنجیدگی میں ڈھل چکا تھا۔
شافعہ رسم کے لیے آگے بڑھیں۔ دلہن کی ہتھیلی پر پان کا پتہ رکھا گیا۔ مگر دلہن کا ہاتھ دیکھ کر وہ چونک گیئیں۔
“ارے سطوت بہن! عشال کے ہاتھ بالکل خالی؟ مہندی نہیں لگوائی آپ نے؟”
سطوت آراء کے ہاتھ ٹھنڈے پڑے مگر سنبھل کر بولیں۔
“شگن کے لیے خالی چھوڑے ہیں، خیر سے آج رسم ہوجائے پھر لگوالیں گے۔”
سطوت آراء نے بات بنائی۔
“اچھا میں ذرا دلہن کا منہ میٹھا کروادوں۔”
شافعہ نے جیسے ہی گھونگھٹ کو ہاتھ لگایا سطوت آراء کا دل دھڑ دھڑ کرنے لگا۔
مگر خیریت گذری شافعہ نے بہت تھوڑا سا گھونگٹ اٹھایا تھا۔ اور دلہن کا چہرہ بددستور گھونگھٹ میں چھپا رہا۔
رسم کا مرحلہ ختم ہوتے ہی سطوت آراء دلہن کو لیجانے لگیں۔
“ارے اتنی جلدی؟ کچھ دیر تو بچی کو بیٹھنے دیں!”
شافعہ نے اعتراض کیا۔
“دراصل عشال کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی صبح سے، تیز بخار ہے اسے۔۔۔۔ میں چاہ رہی تھی رسم تو ویسے بھی ہوچکی ہے۔ تو بچی کچھ دیر آرام کر لے۔”
سطوت آراء کے لیے ایک ایک پل بھاری ہورہا تھا۔
“ٹھیک ہے۔ جیسے آپ کی مرضی!”
شافعہ نے زیادہ زور نہیں دیا۔ لیکن صارم کے چہرے کو دیکھ کر ٹھٹک گیئیں۔ اس کا چہرہ حد درجہ پتھریلا ہورہا تھا۔
***************
اس کا چہرہ آنچل کے مہاگنی کناروں کی طرح انوکھے نور سے جگمگا رہا تھا۔ اس کے بالوں کی بکھری لٹ ہوا کے زور سے ہولے ہولے لرز رہی تھی، دفعتا دور کہیں سے کسی ساز اور آواز نے اسے کسمسانے پر مجبور کردیا۔
اس کے نیم وا شعور میں کوئی صدا گونجنے لگی۔۔۔۔
“تمہارے ہیں کہو اک دن
کہو اک دن
کہ جو کچھ بھی ہمارے پاس ہے سب کچھ تمہارا ہے
کہو اک دن
جسے تم چاند سا کہتے ہو وہ چہرہ تمہارا ہے
ستارہ سی جنھیں کہتے ہو وہ آنکھیں تمہاری ہیں
جنھیں تم شاخ سی کہتے ہو وہ بانہیں تمہاری ہیں
کبوتر تولتے ہیں پر تو پروازیں تمہاری ہیں
جنھیں تم پھول سی کہتے ہو وہ بانہیں تمہاری ہیں
قیامت سی جنھیں کہتے ہو رفتاریں تمہاری ہیں
کہو اک دن
کہو اک دن
کہ جو کچھ بھی ہمارے پاس ہے سب کچھ تمہارا ہے
اگر سب کچھ یہ میرا ہے تو سب کچھ بخش دو اک دن
وجود اپنا مجھے دے دو محبت بخش دو اک دن
مرے ہونٹوں پہ اپنے ہونٹ رکھ کر روح میری کھینچ لو اک دن”
(عبیداللہ علیم)
آخری دو سطریں گنگناتا ہوا وہ آرام کرسی پر جھول رہا تھا۔ اس کے ہاتھ گٹار کے تار چھیڑ رہے تھے۔ کھڑکی سے تیرہویں کا روشن چاند اس کے چہرے پر نیلاہٹ بکھیر رہا تھا۔
وہ ایک بار پھر گنگناتا ہوا اس کے قریب جھکا، اس کی شریر لٹ کو ہاتھ سے چھیڑنا چاہا لیکن پھر ارادہ ترک کرتے ہوئے، ہونٹ اس کے نزدیک لے گیا، اس کے ہونٹ سیٹی کے انداز میں سکڑے اور ایک ہلکی سی پھونک سے اس کی لٹ کو بکھیر دیا۔
اسی لمحے عشال کے وجود میں جنبش ہوئی، اسے خود پر جھکا دیکھ کر وہ ہڑبڑا کر اٹھی اور ایکدم سے پیچھے ہٹی۔
“شش۔ شامی!”
عشال کے ہونٹوں پر بے ربط سا اس کا نام پھڑپھڑایا تھا۔ اور پھرعشال نے جلدی سے اپنا جائزہ لیا۔ وہ اس وقت جس کھلے ڈھلے حلیے میں شامی کےسامنے تھی، ایسے تو کبھی گھر کے درودیوار نے بھی اسے نہیں دیکھا تھا۔ عشال کو پہلی فکر خود کو ڈھانپنے کی تھی۔ اس نے بیڈشیٹ کا کنارا کھینچ کر اپنا وجود شامی کی نظروں سے چھپانا چاہا۔
اس عرصے میں وہ بت بنا اسے دیکھتا رہا۔
عشال نے بیڈشیٹ اچھی طرح اپنے گرد لپیٹتے ہوئے کڑے تیوروں سے پوچھا،
“مجھے اس طرح یہاں لانے کا مقصد؟”
وہ بمشکل خود کو سنبھالے ہوئے تھی۔
وہ آہستہ سے عشال کے مقابل کھڑا ہوا اور بے نیازی سے بولا۔
“اتنی ناسمجھ تو نہیں ہو تم! میں اپنا حال دل تم سے کہہ چکا ہوں، لیکن کوئی مسئلہ نہیں میں ایک بار پھر کہہ دیتا ہوں۔
محبت ہے تم سے۔۔۔۔۔! کسی اور کا تمہیں کیسے ہو جانے دوں؟”
شامی نے پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ دیے عشال کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔
“ہونہہ محبت! یہ ہے تمہاری اور تمہاری محبت کی حقیقت!”
عشال نے کارنر ٹیبل پر رکھے پستول کی طرف انگلی اٹھا کر کہا۔
شامی کے اندر جیسے کسی نے بھڑکتا لاوا بھر دیا۔ اچانک سے عشال کو سختی سے شانوں سے تھام کر اپنے مقابل کیا۔
“بس۔۔۔! تم مجھ سے اچھی طرح تعارف کرواچکی ہو، اپنا بھی اور میرا بھی، لیکن اب میری محبت کو گالی دینے کی اجازت نہیں ہے تمہیں۔”
عشال کی آنکھوں میں نمی لہرائی، مٹا مٹا سا سنگھار، کچھ ادھورا سا، کچھ نامکمل سا غازہ۔۔۔، گہری کتھئی آنکھیں شامی کے اندر تک گڑنے لگیں۔
“تم خوبصورت ہو! میرے تصور سے بھی زیادہ۔۔۔۔! میں کیسے تمہیں چھوڑ سکتا تھا؟ کیسے دستبرادر ہوسکتا ہوں میں تم سے۔۔۔؟
میں تو یہ زمین یہ شہر سب کچھ چھوڑ رہا تھا، لیکن۔۔۔۔!
تمہارے وجود نے مجھے جکڑ لیا۔
تم نے ہمیشہ کے لیے مجھے اپنا اسیر بنا لیا ہے، تو پھر بتاؤ کیسے۔۔۔۔؟”
وہ مبہوت سا عشال کی نم آنکھوں میں جھانک کر کہہ رہا تھا۔
عشال نے ایک جھٹکے سے اسے بیڈ پر دھکیلا تھا۔
“دور رہو مجھ سے! مجھے چھونے کی غلطی مت کرنا، کیا سمجھتے ہو تم؟ مجھے اس طرح یہاں لا کر، میرے ساتھ زبردستی کرکے۔۔۔مجھے بے بس کردیا؟ ہرگز نہیں، ابشام زبیر! میں کبھی بھی تمہارے لیے تر نوالہ ثابت نہیں ہوں گی۔”
شامی اٹھ کر بیڈ پر اطمینان سے بیٹھ گیا۔اور سر جھٹک کر تالی بجاتے ہوئے بولا۔
“داد دیتا ہوں تمہارے حوصلہ کی۔ یہ سرد رات۔۔۔، تنہائی، اور تم۔۔۔!
جانتی ہو، تم اس وقت ٹوٹلی مجھ پہ dependent ہو، میں چاہوں تو۔۔۔۔
اس نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا پھر بات بدل کر بولا،
“تمہاری وارننگ میرے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی۔۔۔!”
“صاف صاف کہو، کیا چاہتے ہو، کیونکہ جیتے جی تو تم مجھے حاصل نہیں کرسکو گے۔۔۔!”
عشال نے اس کی بات قطع کی تھی۔
“تو تم میرے ساتھ ڈیل کرنا چاہتی ہو؟ اوکے، I like it!”
شامی نے ایک بار پھر تالی پیٹی تھی۔
“لیکن ڈئیر! ایسا ہے کہ۔۔۔۔
مجھے ابھی تمہارے ساتھ بہت سا ٹائم اسپینڈ کرنا ہے، سو اس ٹاپک کو کسی اور مومنٹ کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔
فی الحال تمہاری مہمان نوازی ہوجائے، بولو کیا لوگی۔۔۔؟ آج کی پوری رات تم میری مہمان ہو!”
شامی اس کے پہلو سے نکل کر دروازے میں غائب ہوگیا تھا۔
عشال بیڈشیٹ کو سمیٹتی ہوئی تیزی سے دروازے کی طرف بڑھی تھی مگر وہ باہر سے لاک تھا۔
پھر وہ اسی تیزی سے کھڑکی طرف لپکی مگر عشال کے قفس کا ہر روزن شامی کی طرف کھلتا تھا۔
وہ ریزہ ریزہ ہوکر بکھر گئی۔
**************
صارم کی پر سوچ نگاہیں ابھی تک کسی غیر مرئی نقطے کے گرد گھوم رہی تھیں۔ انھیں واپس گھر آئے ہوئے بھی کافی وقت گذر چکا تھا۔
گھر آتے ہی اس نے اپنے کمرے کا رخ کیا تھا۔ اس کی آنکھوں میں پرسوچ لہریں آسانی سے پڑھی جاسکتی تھیں۔ وقار نے بغور اسے دیکھا تھا۔
“تمہارے بھائی کا موڈ کیوں خراب ہے؟ میں دیکھ رہی ہوں صارم وہاں بھی سارا وقت اکھڑا اکھڑا سا رہا ہے۔
آخر سب کچھ تو اس کی مرضی سے ہوا ہے، پھر کیوں منہ بنائے ہوئے ہے؟”
شافعہ نے سارا غصہ وقار پر انڈیل دیا تھا۔
“ماما! ان کا موڈ خراب نہیں ہے ایکچولی، وہ بہت زیادہ ایکسائیٹڈ ہیں، بھابھی سے بات کرنے کے لیے کمرے کی طرف دوڑ لگائی ہے انھوں نے۔”
وقار نے پیار سے شافعہ کے کندھے پر سوار ہوکر کہا تھا۔ شافعہ کی پر سوچ نگاہیں صارم کی راہ پر ہی لگی تھیں۔ وہ فکرمند تو تھیں لیکن وقار کی بات نے انھیں کنفیوز بھی کردیا تھا۔
“آپ کیا سوچنے لگیں، چھوڑیں صارم بھائی کو، وہ خیر سے ابھی سے پرائے ہوچکے ہیں، آپ اس غریب کی طرف بھی کچھ نظر عنایت کردیں،
پلیز میرے لیے اچھی سی چائے تو بنوا دیں۔”
وقار نے منت سے کہا تو شافعہ اسے تھپکی دیتی کچن کی طرف چل دی تھیں۔
وقار نے محض شافعہ کی توجہ بٹانے اور انھیں پرسکون کرنے کے لیے کہا تھا، جبکہ صارم کے انداز اسے بھی پریشان کررہے تھے۔
صارم نے کمرے میں قدم رکھتے ہی عشال کا نمبر ملانا شروع کردیا تھا۔ دوسری طرف مسلسل بیل جاتی رہی پھر ایک دم سے آف ہوگیا۔
یہ ایک غیر معمولی بات تھی۔ نکاح کے بعد صارم نے چند ایک بار عشال سے فون پر بات کی تھی۔ اور جب بھی صارم نے اسے کال کی تھی، عشال نے جواب ضرور دیا تھا۔ اگرچہ ان کے درمیان تکلف کی دیوار حائل رہی تھی، جسے صارم نے بھی گرانے کی کبھی کوشش نہیں کی، لیکن اتنا اندازہ تو اسے ہوچکا تھا کہ عشال کے نزدیک اس رشتے کی اتنی اہمیت ضرور تھی کہ وہ صارم کی کال کبھی ڈراپ نہیں کرتی تھی۔
یہ ناممکن تھا کہ عشال صارم کی کال کاٹ دے۔
صارم کی بے چینی میں اضافہ ہوگیا۔ اس کی چھٹی حس مسلسل کسی حادثے کی طرف اشارے کررہی تھی۔
پھر اس نے کچھ سوچ کر سیل بیڈ پر اچھال دیا اور نسبتا سادہ لباس منتخب کرکے باتھ روم میں داخل ہوگیا۔
***************
رات قہر بن کر شہیر ولا پر ٹوٹی تھی۔ ستارے فضا میں پھیلی کہر میں مانند پڑ چکے تھے۔ رنگین قمقموں کی روشنیاں شہر خموشاں کے ٹمٹماتے دیے محسوس ہورہی تھیں۔
“آغا جان! اس وقت یہی مناسب تھا، اگر نورین ہماری بات نہ رکھتی تو بہت بڑا مسئلہ کھڑا ہوجاتا، آپ ہی بتائے ہم کس کس سوال کا جواب دیتے۔ کس قدر جگ ہنسائی ہوجاتی، اور پھر عشال۔۔۔۔؟”
“عشال کا نام مت لو، ضیاءالدین!
اس کی ذات پر تو سوالیہ نشان لگ چکا، مگر تم نے ہماری ایک بیٹی کی خاطر دوسری بیٹی کو ایک غیر شخص کے پہلو میں بٹھا دیا؟
یہ تم نے ٹھیک نہیں کیا!”
آغا جان نے جھکا سر اٹھایا۔ وہ اس قدر برہم تھے کہ یہ بھی بھول گئے وہ سب کے درمیان ضیاءالدین صاحب سے سوال کررہے ہیں، جو ان کا مزاج نہیں تھا۔
“ضیاء! تم سے ہمیں اس حرکت کی توقع نہیں تھی۔”
“مجبوری۔۔۔۔۔”
ضیاءالدین صاحب نے کہنا چاہا۔
“مجبوری اگر تمہاری عقل کو ڈھانپ چکی تھی تو ہم سے بات کی ہوتی، تمہیں نورین کو صارم کے پہلو میں بٹھانے کی اجازت کس نے دی تھی۔۔۔!”
آغا جان اپنی نشست سے اٹھ کھڑے ہوئے تھے جبکہ ضیاءالدین صاحب کی مزید کچھ کہنے کی ہمت نہیں ہوئی تھی۔
سطوت آراء بھی آنسوؤں کو گھونٹے ہوئے مجرموں کی طرح کھڑی تھیں۔
کسی کے بھی کچھ کہنے کی ہمت نہیں تھی۔ کہ نورین کے ہاتھ میں سیل فون کی رنگ ٹون نے ساری توجہ یکلخت کھینچی تھی۔
“کس کا فون ہے؟”
آغا جان نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں براہ راست نورین سے پوچھا تھا۔
“ووو۔۔۔وہ صارم کی کال آرہی ہے بار بار آغا جان!”
نورین نے اٹک اٹک کر کہا تھا۔ اس نے زندگی میں پہلی بار آغا جان کو غصے میں دیکھا تھا۔ اور یہ پہلی بار دیکھنا ہی غضب ہوگیا تھا۔
“یہ عشال کا فون ہے؟”
آغا جان نے دوسرا سوال بھی اسی لہجے میں پوچھا تھا۔
جی۔
نورین نے فقط سر ہلایا تھا۔
“بند کردو اسے۔”
آغا جان نے قدرے درشت انداز میں کہا۔
اور دوسرے ہی لمحے وہ آغا جان کے حکم پر عمل کر چکی تھی۔
“السلام علیکم!”
کی آواز پر سب کو ہی سانپ سونگھا تھا۔
***********************
“السلام علیکم!
آپ لوگ میری کال کیوں ریسیو نہیں کررہے، میں کب سے ٹرائی کررہا ہوں۔۔۔!”
آغا سمیع الدین سمیت سب اس آواز پر چونک کر مڑے تھے۔ اور اپنے سامنے نوجوان کو کھڑا دیکھ کر سب کو سانپ سونگھ گیا تھا۔
شہیر ضیاء ان کے سامنے کھڑا سوال کررہا تھا۔ لیکن دوسرے لمحے ہی وہ سب کے چہروں پر رقم پریشانی دیکھ کر ٹھٹکا تھا۔
“بابا، آغا جان؟ کیا ہوا ہے؟”
وہ ایک ایک چہرہ دیکھ رہا تھا۔
نورین سمیت وہاں سب ہی موجود تھے۔ سوائے عشال کے۔
“عشال کہاں ہے آغا جان؟”
“وہ کھو گئی ہیں، شہیر بھیا!”
شہیر نے براہ راست آغا جان سے سوال کیا تھا مگر جواب آبریش نے دیا تھا۔
شہیر نے اچھنبے سے ضیاءالدین صاحب کو دیکھا تھا۔
“نورین تم آبریش کو لے جاؤ!”۔
سطوت آراء نے ناگواری سے کہا تھا۔ مگر دیر ہوچکی تھی۔
نورین اسے لے کر خاموشی سے پلٹ گئی تھی۔
“عشال کو کیا ہوا ہے، آغا جان؟”
شہیر کا دل کسی کھائی میں اترا تھا۔ اسے اپنی ہی آواز اجنبی لگی تھی۔
“آؤ! بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔”
آغا جان نے صوفے کی طرف اشارہ کیا تھا۔
شہیر من من بھر قدم اٹھاتا اندر داخل ہوا تھا۔ ہینڈ کیری اس نے صوفے کے پاس قالین پر ہی چھوڑ دیا تھا۔ وہ باہم ہاتھ پھنسائے صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کررہا تھا۔
****************
صارم تیز قدموں سے سیڑھیاں اترتا نیچے آیا، ہلکے پھلکے لباس میں وہ باہر جانے کے لیے تیار تھا۔ گاڑی کی چابیاں ہاتھ میں تھامے وہ پورٹیکو کی طرف بڑھا ہی تھا کہ،
“صارم!”
شافعہ نے پشت اسے پکار لیا تھا۔
“ماما پلیز! میں بہت ضروری کام سے جا رہا ہوں۔”
اس نے بطور حفظ ماتقدم کہا کہ مبادا وہ اسے روک لیں۔
“کتنا بھی اہم کام کیوں نہ ہو، اس وقت میں تمہیں باہر جانے کی اجازت نہیں دے سکتی۔”
شافعہ نے اسے کڑے تیوروں سے دیکھا تھا۔
“ماما! میں جلدی آجاؤں گا۔”
صارم نے قدم آگے بڑھانے چاہے۔
“آفیشل کام سے جارہے ہو؟”
شافعہ نے اس کا چہرہ کھوجا۔
“نن۔۔۔نہیں!”
وہ چاہ کر بھی جھوٹ نہ بول سکا۔
“پھر تمہارے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ کیوں بن گیا ہے؟”
شافعہ نے اسے آڑے ہاتھوں لیا تھا۔
“یہی سمجھ لیں ماما! اس وقت میری زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔”
صارم نے بے بسی سے کہا تھا۔
“پوچھ سکتی ہوں، اس وقت کہاں جارہے ہو تم؟”
آغا جان سے ملنے!”
اس نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا۔ جانتا تھا شافعہ کا اگلا ردعمل کیا ہوگا؟
“کیا؟ مگر کیوں؟ ابھی چند گھنٹے ہی ہوئے ہیں ان سے ملے ہوئے، ایسا کون سا کام ہے جو پھر سے تمہیں ان کی یاد ستانے لگی؟”
شافعہ کو اس پر جی بھر کے تاؤ آیا۔
“ماما! مجھے ان سے بہت ضروری میٹر ڈسکس کرنا ہے، پلیز مجھے جانے دیں۔”
صارم نے ان کی منت کر ڈالی مگر شافعہ پر اثر نہیں ہوا۔
“تم نے ہر مرحلے پر ضرور ہی میری عزت کا تماشا بنانا ہے، صارم؟”
“چند گھنٹوں بعد تمہاری بارات ہے، اور تم اس وقت ان کے ساتھ میٹنگ کرنے جارہے ہو؟
کیا سوچیں گے وہ لوگ؟ کیوں اتنے بے صبرے پن کا مظاہرہ کررہے ہو؟”
شافعہ کچھ اور ہی بات سمجھ رہی تھیں۔
“ماما آپ سمجھ نہیں رہیں، پلیز مجھے جانے دیں۔”
اس نے منت کی کہ شاید معجزہ ہوجائے۔ اس کے پاس اپنے اقدام کا کوئی معقول جواز نہیں تھا، نہ کوئی دلیل جو وہ خود کو دیتا، تو شافعہ کو کیا جواب دیتا۔
اس وقت صارم کا اپنا یقین متزلزل تھا۔ وہ شافعہ کو کیا مطمئن کرتا۔ وہ نہیں جانتا تھا وہ کیا کررہا ہے، کیوں کررہا ہے؟
مگر شافعہ کی حسیات ابھی کام کررہی تھیں۔
“اپنے کمرے میں جاؤ صارم!”
شافعہ نے سختی سے اسے تنبیہہ کی۔
“ماما۔۔۔۔ میں بچہ نہیں ہوں۔”
اس نے کمزور سا احتجاج کیا۔
“صارم!”
شافعہ کا لہجہ حتمی تھا۔
اور صارم کمزور سے قدم اٹھاتا راستے سے ہی مڑگیا تھا۔
******************
عشال نے سر اٹھایا تو وہ چونک کر رہ گئی، سادہ وال پیپر سے ڈھکی وہ دیواریں عشال کے چہرے سے سجی تھیں، بڑی بڑی اور دیوار گیر فریموں میں سجے جابجا اس کے اسکیچز تھے، جن میں خدوخال تو اس کے تھے لیکن تخیل کسی اور کا تھا۔ اسے مختلف رنگ و انداز اور آہنگ کے ساتھ تراشا گیا تھا۔
شامی اسے کس کس نظر سے دیکھتا رہا تھا وہ سب ان تصویروں میں دیکھا جاسکتا تھا۔
کہیں اس نے ہیل کے ساتھ ٹاپ اور پینٹ پہن رکھی تھی۔ کہیں اس کے بال کھلے ہوئے اور سر پر ہیٹ تھا، تو کہیں اس کے بازو ہوا کے دوش پر لہرا رہے تھے، تو کہیں وہ کسی شاخ کی مانند جھوم رہی تھی۔ غرض اپنے تخیل کے ہر رنگ میں عشال کو اس نے سینچا تھا۔
کچھ تصویریں موبائل سے کھنچی گئی تھیں، وہ عشال کی غفلت کے لمحے تھے۔
وہ ششدر آنکھوں کے ساتھ سب دیکھتی رہی، مدھم روشنی کی وجہ سے پہلے اس کا دھیان دیواروں کی طرف جا ہی نہ سکا، وہ تو جب اسے راہ نجات کی تلاش ہوئی تو آنکھیں دیکھنے قابل ہوئیں۔
عشال کے اندر الاؤ دہک اٹھا، وہ چادر کی پرواہ کیے بغیر ان تصویروں پر جھپٹی اور ایک ایک نقش کے ٹکڑے ٹکڑے کرنا شروع کردیے۔وہ اپنا سارا غیظ کاغذ کے ان پرزوں پر نکال دینا چاہتی تھی۔ اسے اب معلوم ہوا تھا، وہ جو اپنے وجود کو شامی کی نظروں سے چھپارہی تھی، اس کا تصور تو عشال کو کب کا بے پردہ کرچکا تھا۔
اس نے پوری قوت سے ایک ایک فریم اکھاڑ ڈالی تھی۔
اور جب وہ تھک کر چور ہوگئی تو گھٹنوں میں چہرہ دے کر رودی تھی۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا، اپنا اس طرح استحصال کیے جانے پر وہ کس طرح احتجاج کرے۔
شامی نے بہت زیادتی کی تھی اس کے ساتھ۔ اور ستم ظریفی تو یہ تھی، دنیا کی کسی عدالت میں اس کے جرم کی سزا نہیں تھی۔
دنیا کی عدالتوں میں تصوراتی زنا کی کوئی دفع نہیں تھی۔
وہ رو رہی تھی، پوری شدت کے ساتھ! اسے بہت ناز تھا کہ وہ صارم کو اپنا شفاف وجود حوالے کرنے والی تھی، جس پر اس نے کبھی کسی غیر کی نظر کا میل تک نہیں پڑنے دیا تھا، لیکن۔۔۔۔! یہاں تو وہ پوری ہی گدلی ہوچکی تھی۔
یکلخت دروازے کی ناب گھومنے کی آواز نے سناٹے کو چاک کیا۔
عشال نے گھٹنوں سے سر نہیں اٹھایا تھا۔ نہ ہی اپنے ریشمی بالوں کو سمیٹنے کی کوشش کی جو بکھر کر اس کے چہرے کو چھپا گئے تھے۔
شامی چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا اس کے پاس آکر رک گیا۔
“اچھا ہوا تمہارا شاک ختم ہوگیا۔ اب ہم آرام سے بات کرسکیں گے، لیکن پہلے یہ سینڈوچز اور کافی لے لو،”
عشال نے سر اٹھایا۔
شامی کے ہاتھ میں ٹرے تھی۔
“انسان رئیلٹی کو جتنے جلدی accept کر لے، اتنا ہی اس کے لیے اچھا ہوتا ہے۔ مان لو کہ اب تمہارا ہر راستہ مجھ تک آکر ختم ہوتا ہے، میں ہی تمہاری منزل ہوں عشال!”
وہ لطف لینے والے انداز میں ٹرے لیے اس کے نزدیک بیٹھ گیا تھا۔
عشال نے ایک جھٹکے سے سر اٹھایا تھا اور ہاتھ مار کر ٹرے الٹ دی تھی گرم گرم کافی دبیز قالین میں جذب ہوگئی۔
“بہت خوش ہو ناں مجھے اس حال میں دیکھ کر؟ کیا سمجھتے ہو تم نے مجھے بے بس کر دیا؟”
شامی چونک کر پیچھے ہٹا تھا۔ عشال کے اس ردعمل پر ایک بار پھر اس نے عشال کا بازو بری طرح جکڑا تھا۔
“ہرگز نہیں! تمہارا یہ ایٹیٹیوڈ ہی تو مجھے فیسینیٹ کرتا ہے!
گندگی تو مجھے کہہ ہی چکی ہو، چاہوں تو اپنے وجود کی ساری غلاظت تم پر انڈیل دوں، لیکن نہیں، میرے وجود کی ایک چھینٹ ہی تمہاری پاکیزگی کو نابود کرنے کے لیے کافی ہے۔ عشال زبرجرد!”
اتنا کہہ کر عشال کے بازو پر شامی کی انگلی رینگ گئی تھی۔
وہ کرنٹ کھا کر پیچھے ہٹی تھی۔
“سو جو میں کہتا ہوں وہ مان لو۔”
عشال نے کپکپاتے وجود کے ساتھ نفی میں سر ہلایا تھا۔
نیچے پڑا ہوا کافی کا مگ ٹیبل سے ٹکرا کر اسے توڑا اور شامی پر تان لیا۔
“دوبارہ میرے قریب مت آنا۔”
عشال کی آنکھوں میں وحشت ناچ رہی تھی۔
“ریلیکس! میں repist نہیں ہوں۔ جو کچھ کروں گا، تمہاری مرضی سے کروں گا۔”
اور آگے بڑھ کر عشال کی کلائی مروڑ کر اس سے ٹوٹا ہوا کانچ کا ٹکڑا چھین لیا تھا۔ شامی کی گرفت میں عشال کی سسکی نکل گئی تھی۔
****************