میرے دماغ میں کھدبد سی ہونے لگی کہ یہ آواز تو میں نے کئی بار سنی ہے لیکن یہ شکل و صورت پہلی بار دیکھ رہا ہوں۔ میں نیاز لے کر کونے میں بیٹھ گیا۔ بابا تیلے شاہ تو مزار کے اندر چلے گئے تھے لیکن بھوک کی وجہ سے میں چاول کھانے لگ گیا۔ اصولی طور پر تو یہ بداخلاقی تھی لیکن بھوک کی ننگی تلوار میرے سر پر ضربیں لگا رہی تھی اس لئے میں ”شوہدا اور ندیدا“ بن کر نیاز کے چاول کھاتا رہا۔ میری نظریں ابھی تک سفید باریش بزرگ پر تھیں۔ ان کا ہاتھ دیگ کے اندر جاتا تھا اور بھری پلیٹ باہر آ جاتی تھی مگر دیگ تھی کہ ختم ہی نہیں ہو رہی تھی۔ میں اس عجیب اسرار پر حیران تھا اور شاید میری حیرانی کبھی ختم نہ ہوتی کہ ایک مجہول سا نوجوان لڑھکتا ہوا میرے پاس آ بیٹھا۔ اس کی ناک بہہ رہی تھی۔ بال گندے تھے۔ تن پر صرف ایک چیتھڑا تھا اس سے تعفن اٹھ رہا تھا۔ مجھے ناگوار تو لگا لیکن کراہت کے باوجود میں کچھ نہ کہہ سکا۔ مزار کی روشنیاں جل اٹھیں۔ وہ لڑکا میری جھولی میں ہاتھ ڈال کر چاول کھانے لگا۔ میرے اندر ناگواری کی لہر اٹھی لیکن میں نے ضبط کیا اور سارے چاول اس کے سامنے کر دئیے۔ لڑکا بھوکوں کی طرح چاولوں پر ٹوٹ پڑا۔ اس نے چاول کا ایک دانا بھی نہیں چھوڑا تھا۔ جب کھا چکا تو میری طرف دیکھ کر ہنس دیا۔ میرے چہرے پر اندر کی ناگواری رینگ کر باہر نکلتی نظر آ رہی تھی۔ وہ بولا
”بھیا …. سواد آیا ہے“
اس کی بات سنتے ہی میرے چودہ طبق روشن ہو گئے۔
”غازی تم“
”ہاں میں …. اور وہ …. بابا جی سرکار“ اس نے دیگ والے باریش بزرگ کی طرف اشارہ کیا تو اس لمحہ انہوں نے نگاہ اٹھا کر میری طرف دیکھا۔ میں اس عجیب اتفاق پر ابھی حیران ہو ہی رہا تھا کہ بابا جی سرکار نے مجہول لڑکے کے روپ میں غازی کو آواز دی تو وہ پھدکتا ہوا ان کی طرف بڑھ گیا اور ان کے اشارے پر دیگ کو یوں اٹھا کر ایک طرف کو چل دیا جیسے وہ دیگ نہ ہو پیالی ہو۔ میں جھولی جھاڑتا ہوا بابا جی کی طرف بڑھا تو انہوں نے ہاتھ سے ادھر ہی مجھے رک جانے کا اشارہ کیا۔
بابا جی کا یہ روپ مجھے اچھا لگا تھا۔ لیکن میں حیران تھا کہ انہوں نے مجھے قریب آنے سے کیوں روکا ہے۔ میں گومگو کی کیفیت میں مبتلا تھا کہ کیا کروں۔ بابا جی کے قریب نہیں جا سکتا تھا۔ اس اثنا میں غازی دیگ رکھ کر آ گیا۔
”بابا جی نے مجھے پاس آنے سے منع کر دیا ہے“ میں نے شکوہ کے انداز میں غازی سے کہا۔
”اس کی وجہ ہے“ غازی نے کہا
”کیا وجہ ہو سکتی ہے“ میں نے دریافت کیا۔
”آج سرکار کے ساتھ ایک اور مہمان ہستی آئی ہے۔ اس لئے وہ نہیں چاہتے کہ تم ان کے قریب جاﺅ اور کوئی بات کرو“
”کون سی ہستی ان کے ساتھ آئی ہے“ میں نے پراشتیاق لہجے میں پوچھا۔
”بتا دوں گا …. لیکن پہلے ایک وعدہ کرو“
”وعدہ“ میں نے سوچے سمجھے بغیر کہہ دیا۔
”ادھر تمہارے شہر میں قلفیوں کی ایک بڑی مشہور دکان ہے۔ مجھے قلفیاں لا دو پھر تمہیں بتاﺅں گا“
غازی کی فرمائش سن کر میں نے بے اختیار قہقہہ لگایا
”بس …. اتنی سی بات تھی“ یہ کہہ کر میں نے جیب سے پیسے نکال کر اسے تھما دئیے۔ ”یہ لو اور موج اڑاﺅ“
”بھیا میں فقیر تو نہیں ہوں خود لا کر دو ناں“
”چھوڑ یار …. شکل سے تو آج فقیر ہی لگ رہا ہے“ میں نے اسے چھیڑا اور کہا ”ویسے غازی تمہیں یہ عجیب و غریب روپ بھرنے کا خیال کیسے آتا ہے“
”مجھے مزہ آتا ہے ایسے سوانگ بھرنے سے۔ لوگ مجھے پاگل مجہول سمجھ کر مجھ سے بھاگتے ہیں اور میں اندر ہی اندر انجوائے کرتا ہوں“
”غازی تمہیں معلوم ہے ہمارے ہاں بہت سے ایسے مجہول ملنگ ٹائپ بچے جوان اور بوڑھے لوگ موجود ہیں جنہیں لوگ بزرگ ہستی مان کر ان سے دعائیں کراتے ہیں“
”جانتا ہوں میں …. میں خود بھی یہ کام کرتا ہوں۔ کبھی کبھار دوستوں کے ساتھ مل کر کسی علاقے میں چلا جاتا ہوں کسی کو گالی دیتا ہوں‘ کسی کو جوتے مارتا ہوں۔ کسی پر پتھر اٹھا مارتا ہوں مجذوب بن کر۔ اپنے پاگل پن سے لوگوں کو ڈراتا ہوں۔ پھر ایسے شعبدے بھی دکھاتا ہوں جنہیں لوگ ایک مجنوں کی کرامت سمجھ کر اس کا احترام کرنے لگ جاتے ہیں۔ مجھے بڑا مزہ آتا ہے۔ تمہیں ایک بات بتاﺅں“
”ہوں۔۔ کہو“ میں نے کہا
”ہو سکتا ہے تم غصہ کرو۔ لیکن ایک بات ہے ہمارے جد امجد ابلیس نے اپنے چیلے چانٹوں کو یہ سبق پڑھایا ہے کہ لوگوں کا اعتقاد کمزور کرنے کے لئے انہیں ایسے شعبدے دکھایا کرو جنہیں دیکھ کر لوگ کرامت سمجھنے لگ جائیں اور لوگ ۔۔۔۔ میرا مطلب ہے مسلمان ، ایسے لوگوں کو اپنا نجات دہندہ سمجھ کر اللہ کی حقیقی عبادت سے دور ہو جاتے ہیں۔ شریعت کے احکامات کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ بھیا …. میں سوچتا ہوں کہ اللہ نے ہر مسلمان کو اس کے کردار اور اس کی عبادات کی وجہ سے معاف کرنا ہے لیکن ہم یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ دوسرے لوگ ہماری نجات کا باعث ہوں گے۔اگرچہ اخلاقیات اور حقوق کے حوالے سے ہمارے اعمال دوسروں سے منسلک ہوتے ہیں مگر یہ اعمال نیکی پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ہم مسلمان نیکی کے اسباب اور طریقہ کار کو بھول جاتے ہیں۔ ظلم تو یہ ہے بھیا کہ مسلمان اب شیطان سے بھی نیکی کرنے لگے ہیں۔ اس پر بھی رحم کھاتے ہیں۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ نیکی کے لباس میں چھپا ہوا شیطان ہماری ہمدردی کا مستحق نہیں ہے جیسا کہ میں اعتراف کر رہا ہوں کہ مجھ جیسے شرارتی جنات اور شیاطین بھی ایسے کراماتی روپ دھار کر لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو چاہئے کہ وہ یہ دیکھیں کہ جس شخص کی کرامات سے وہ متاثر ہو رہے ہیں کیا وہ شریعت کا پابند ہے۔ شریعت کے دائرہ عمل سے باہر نکل جانے والا کبھی بھی اللہ کا ولی نہیں ہو سکتا۔ البتہ یہ مجذوب قسم کے لوگ جو ہوش و حواس سے بیگانہ ہوں ان کا معاملہ مختلف ہوتا ہے۔“
”غازی …. تم نے بڑے کام کی بات بتائی ہے لیکن کیا تم مجھے کوئی ایسا نکتہ بتا سکتے ہو جس سے جنات یا شیاطین کی پہچان ہو جائے“
”یہ بڑا مشکل کا م ہے۔ انہیں پہچاننے کا ایک طریقہ تو شریعت کا آئینہ ہے جس میں ہر کسی کے ا صلی چہرے کو پہچانا جا سکتا ہے۔ دوسرا طریقہ وظائف کا ہے۔ اگر آپ کے پاس کوئی ایسا وظیفہ ہے جسے آپ پڑھ کر اس شخص کی طرف پھونک ماریں گے تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ وہ شخص خاکی ہے یا آتشی۔ ہم جنات اور شیاطین آتشی مخلوق ہیں۔ یہ نورانی آیات ان کے بدن کی کھال ادھیڑ دیتی ہیں“
غازی کی بات سن کر میرے ذہن میں بہت سے سوالات سر ابھارنے لگے۔ میں نے غازی کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور ہم دونوں مزار سے چند قدم دور پتھروں سے بنی قبور کے پاس جا بیٹھے۔ میں نے اس سے پوچھا ”غازی …. تم مجھے بہت کارآمد باتیں بتا رہے ہو لیکن ایک سوال مجھے تنگ کر رہا ہے“
”وہ کیا“ اس نے پوچھا
”سچی بات تو یہ ہے میں سوچ رہا ہوں کہ مجھے بہت سے وظائف یاد ہیں لیکن میں نے جب بھی یہ وظائف پڑھے ہیں میں اپنے سامنے حاضر ہونے والے جنات کی پہچان نہیں کر پایا“
”میں تمہاری بات نہیں سمجھا“ غازی نے الجھے لہجے میں سوال کیا۔
”مثلاً یہ کہ …. جب بابا جی اور آپ لوگوں کی حاضری ہوا کرتی تھی تو میں اس شک میں مبتلا رہتا تھا کہ آپ لوگ شیطان ہیں۔ حقیقی جنات نہیں ہو سکتے۔ میں دل ہی دل میں بہت کچھ پڑھتا تھا مگر آپ لوگ پھر بھی میرے سامنے سے غائب نہیں ہوتے تھے۔ اب تم کہہ رہے ہو کہ وظائف کی نورانی طاقت سے جنات و شیاطین کا اصلی چہرہ سامنے آ جاتا ہے اور وہ غائب ہو جاتے ہیں“
میری بات سن کر غازی نے قہقہہ لگایا اور پھر دیر تک ہنستا رہا۔
”ہنس کیوں رہے ہو“
”بابا …. وہ میں …. تمہاری سادگی پر ہنس رہا ہوں“
غازی ہنستا ہی چلا جا رہا تھا۔ اس اثنا میں ایک شخص ہمارے پاس سے گزرنے لگا تو غازی اسی طرح قہقہے لگاتا اس سے لپٹ گیا۔ وہ شخص پریشان ہو گیا۔ غازی نے ہنستے ہوئے ایسا پنیترا بدلا کہ میں حیران ہو کر رہ گیا۔ وہ اس کے گلے میں بازو ڈال کر جھولا جھولنے کے انداز میں لٹک گیا اور منمناتے ہوئے گنگنانے لگا۔
ترے من کی مراد
بابا شاہ کرے پوری
رکھ لاج فقیر کی
بابا شاہ کرے پوری
وہ شخص خاصی عمر کا تھا۔ اس کے چہرے پر حزن و ملال ڈیرے ڈالے نظر آ رہا تھا۔ اس نے جب ایک مجہول لڑکے کو یوں اپنے ساتھ لپٹے دیکھا اور پھر اس کے نعرہ مستانہ کو سنا تو وہ اس سے گھبرانے کی بجائے خود اس سے لپٹ گیا۔
”میں مر جاﺅں گا سرکار …. میرے لئے کچھ کریں“ وہ شخص بلک بلک کر رونے لگ گیا۔ میں حیرت میں گم سم غازی کی اس حرکت کو دیکھ رہا تھا اس نے اپنی بات کو سچ ثابت کر دکھایا تھا۔
غازی نے کن اکھیوں سے میری طرف دیکھا۔ اس کے چہرے پر معصوم مسکراہٹ تیر رہی تھی۔ مجھے ایسے لگا جیسے کہہ رہا ہو دیکھا بھیا میں نے اس کو پھانس لیا ہے۔
غازی اب اس کو دلاسہ دینے کے انداز میں زور زور سے پیٹھ پر تھپکیاں دینے لگا۔
”بابا شاہ تری مراد پوری کرے گا“ غازی مجہول سے لہجے میں اسے کہنے لگا یہ بات کرتے ہوئے اس کا ڈھیر سارا لعاب دہن اس شخص کے چہرے پر گرا۔ میں نے اس وقت کراہت سے آنکھیں میچ لیں۔ اس شخص نے بڑی عقیدت سے سارا لعاب دہن دونوں ہاتھوں سے اپنے چہرے پر یوں مل لیا جیسے لوشن لگا رہا ہو۔ مجھے ابکائی آتے آتے رہ گئی۔
”شاہ بابا …. شاہ بابا ۔۔دھم دھما دھم…. شاہ بابا …. دھم دھما دھم…. شاہ بابا“ غازی اب لہک لہک کر دھمال کے انداز میں نام لیتا جا رہا تھا۔ وہ شخص بھی دیوانہ وار اس کا ساتھ دینے لگا۔ اس لمحہ ایک ڈھولچی کہیں سے ادھر آ نکلا۔ اس نے ڈھول کو ایسی تھاپ دی کہ کچھ ہی دیر بعد ایک پرکیف‘ وجدانی اور سرفروشانہ ماحول پروان چڑھ گیا۔ مزار کی نکڑوں سے‘ قبروں کے آس پاس لیٹے بھنگ کے نشہ میں غرق ملنگ اور عقیدت مند ادھر آ نکلے اور ایسے سرمست ہو کر دھمال ڈالنے لگے کہ میرا انگ انگ بھی ڈھول کی تھاپ پر مچلنے لگا۔پہلے ایک ڈھولچی‘ پھر دوسرا اور اس کے بعد تیسرا میدان میں اتر آیا۔ ایک طرف دھمال ڈالنے والے اور دوسری طرف ڈھول کو تھاپ کے نئے نئے آہنگ دینے والے۔ میرے لئے اب بیٹھنا دوبھر ہو گیا تھا مجھے لگا جیسے یہ تھاپ مجھے مدہوش کئے جا رہی ہے۔ ایک سرور ہے جو میرے ذہن پر تسلط جما رہا ہے۔ میرے پیر مچلنے لگے،،، پورا بدن پھڑکنے لگا اور پھر میں ڈھول کی تھاپ کے سمندر میں غرق ہو گیا۔ میں دیوانہ وار دھمال ڈالنے لگا۔ مجھے نہیں معلوم کب تک میں دھمال ڈالتا رہا تھا اور پھر میں تھک کر جیسے گر گیا۔ شاید بے ہوش ہو گیا تھا۔ میری آنکھ کھلی تو میرے گرد بہت سارے لوگ اکٹھے تھے۔ میرا سر غازی کی گود میں تھا ۔ قریب ہی وہ شخص بھی بیٹھا میرے چہرے پر پانی چھڑک رہا تھا
”غغ …. غاز“ میں غازی کو پکارنے ہی لگا تھا کہ اس نے میرے لبوں پر ہاتھ رکھ دیا ”شاہ بابا …. شاہ بابا شاہ بابا“ مجھے ہوش میں آتے دیکھتے ہی اس نے خفیف انداز میں مجھے اپنا اصلی نام لینے سے روک دیا تھا۔ لیکن اس کی حرکت سے اس کا ڈھیروں تھوک میرے چہرے پر گر گیا اور میں یکدم ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ اپنی قمیض کے پلو سے فوراً چہرہ صاف کیا اور غصے سے اس کی طرف دیکھنے لگا لیکن غازی سرمست ہو کر شاہ بابا ، شاہ بابا کی گردان کئے جا رہا تھا۔ مگر وہ شخص میرے پاس آ گیا اور بولا ”بیٹے غصہ نہ کرو یہ سائیں بچہ ہے۔ میں نے بزرگوں سے سن رکھا ہے کہ ایسے بچے کی بددعائیں نہیں لینی چاہئے یہ کسی پر تھوک دیں تو اس کے غم دھل جاتے ہیں ، تم غصہ نہ کرنا مجھے تو لگتا ہے اس سائیں کو تم سے کوئی خاص نسبت ہے“
”مم …. میری کوئی نسبت نہیں ہے اس سے“ میں ناراض ہو کر اپنے گرد کھڑے لوگوں کو دیکھنے لگا تو اس شخص نے ملنگوں اور عقیدت مندوں کو وہاں سے جانے کے لئے درخواست کی۔ لوگ تتر بتر ہو گئے۔ اب صرف وہ شخص اور غازی ہی میرے پاس تھے۔
”اگر تمہاری نسبت نہیں ہے تو دھمال کے بعد جب تم نیچے گرنے لگے تھے تو اس نے تمہیں نیچے کیوں نہیں گرنے دیا۔ اس نے تمہیں یوں اٹھا لیا تھا جیسے نومولود بچے کو اس کی ماں سینے سے لگا کر چارپائی پر لٹاتی ہے۔ میں ہی نہیں ان سب لوگوں نے یہ منظر دیکھا تھا۔ اس نے بڑی چاہت سے تمہیں اٹھایا تھا۔ خود سوچو یہ اللہ والا ہے۔ کیا تمہارا وزن اس سے زیادہ ہے۔ اس نے بغیر کسی تردد کے تمہیں اٹھا لیا تھا۔ اس کا مطلب ہے اس کے اندر اتنی روحانی قوت ہے کہ تمہیں اٹھاتے ہوئے اسے کوئی دقت پیش نہیں آئی۔ جس انداز میں تم گرنے لگے تھے تمہیں چوٹ لگ سکتی تھی مگر اللہ کے اس سائیں نے تمہارا بال بیکا نہیں ہونے دیا“
”آپ کون ہیں“ وہ خاموش ہوا تو میں نے دریافت کیا۔ غازی اب اٹھ کر اس قبر کے پاس جا بیٹھا تھا جہاں کچھ دیر پہلے ہم باتیں کر رہے تھے۔
”میں تو اس مزار پر آتا رہتا ہوں مجھے بڑا سکون ملتا ہے یہاں برسوں سے ادھر آتا ہوں اور سکون بھر کر لے جاتا ہوں“ اس نے عقیدت سے مزار کے گنبد پر روشن رنگین ٹیوب لائٹس کی طرف دیکھا اور پھر حسرت بھرے لہجے میں بولا ”سکون تو مل جاتا ہے لیکن من کی مراد پوری نہیں ہو رہی۔ میرے دکھوں کی چادر ابھی تک میلی ہے۔یہ نہیںدھلے ۔ اصل مراد پوری نہیں ہو رہی“
”آپ کا نام کیا ہے“
”بیٹے …. میرا نام اصغر شیخ ہے۔ میں ایک معلم ہوں۔ یہاں کالج میں اردو پڑھاتا ہوں۔ بیٹا ایک وقت تھا جب میں مزاروں پر نہیں آتا تھا۔ پھر مجھے ایک بزرگ ملے۔ وہ بھی اس صاحب مزار کے عقیدت مند تھے۔ ان کے وصال کے بعد میں بھی یہاں آنے لگا۔ ان کے ساتھ آتا تھا‘ تو یہاں بزرگوں کی کرامات سنتا۔ نذر نیاز کرتا۔ میری اولاد نہیں ہوتی تھی۔ پانچ سال بعد اللہ نے ایک بیٹی دی۔ میں نے منت یہاں چڑھائی۔ اب دس سال ہو گئے ہیں۔ اس کے بعد کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ میرے دل میں اولاد نرینہ کی خواہش جڑ پکڑ چکی ہے۔ میں ہر جمعرات کو خاص طور پر یہاں آتا ہوں اور جو بھی اللہ والا ملتا ہے اس سے دعا کراتا ہوں۔ ڈاکٹروں نے تو جواب دے دیا تھا کہ اب میری بیوی کے ہاں اولاد نہیں ہو سکتی۔ عزیز رشتہ داروں نے کہا دوسری شادی کر لو۔ میں نے دو سال پہلے دوسری شادی کی تھی لیکن اس سے اولاد نہیں ہوئی۔ اب احساس جرم بھی رہتا ہے کہ میں نے پہلی بیوی کی بے قدری کی اور اولاد نرینہ کے لئے دوسری بیوی کر لی لیکن ہری بھری شاخ بھی سوکھ گئی۔ میں اب اس امید پر دئیے جلاتا ہوں کہ ایک دن میری شاخ مراد پھر سے ہری ہو جائے گیِِِ“۔ اصغر شیخ کے لہجے میں امید بھی تھی اور احساس جرم بھی۔ دونوں ہاتھ تھام کر بولا ”بیٹے اگر تمہارا اس سائیں سے کوئی تعلق واسطہ ہے تو اسے کہو میرے لئے دعا کرے“
”محترم! میں اس سائیں کو نہیں جانتا“ میں نے جان بوجھ کر جھوٹ بولا اور کہا ”میں بھی آپ کی طرح عقیدت مند ہوں میں ادھر بیٹھا ہوا تھا کہ یہ بچہ بھی ادھر آ گیا“
”تمہیں معلوم ہے اس صاحب مزار کی کرامات اور تصوف میں پہنچ کا یہ عالم ہے کہ جنات بھی ان کے مزار پر حاضری دیتے اور جاروب کشی کرتے ہیں۔ ان کے خدمت گاروں میں بھی جنات ہوا کرتے تھے۔ صاحب مزار جب درس تصوف دیتے تھے تو جنات قطار باندھ کر کھڑے رہتے تھے“
”کیا آپ نے صاحب مزار کو دیکھا ہے“ میں نے پوچھا
”نہیں بیٹے وہ تو ایک صدی پہلے وصال فرما گئے تھے۔ مجھے یہ باتیں میرے بزرگ سنایا کرتے تھے‘ ‘ اصغر شیخ نہایت ادب سے کہنے لگے ”حق مغفرت کرے میرے بزرگ دوست آغا حامدی خود بھی صاحب کرامت تھے تہجد اور شب گزار تھے۔ شریعت کے پابند ایسے ولی اللہ تھے کہ ہر وقت ان کے چہرے پر بشاشت کا نور چمکتا نظر آتا۔ جودوسخا کے مالک تھے“
اس دوران غازی دوبارہ بابا شاہ کی گردان کرنے لگا۔ میں اور اصغر شیخ اس کے پاس چلے گئے۔ نہ جانے میرے دل میں کیا آیا میں نے غازی سے کہا ”بابا شاہ۔ یہ ہمارے استاد ہیں ان کے لئے دعا کرو اللہ انہیں بیٹا عطا کرے“
غازی نے مجذوبانہ نظروں سے اصغر شیخ کو دیکھا پھر ایک شان سے سر ہلا کر بولا ”جا …. جا …. وہ دے گا“
اصغر شیخ یہ سن کر خوشی سے پاگل ہو گیا آگے بڑھا اور والہانہ انداز میں غازی کے میلے کچیلے ہاتھوں پر بوسے دینے لگا۔ غازی نے اس کی پیٹھ تھپتھپائی اور ایک بار پھر میری طرف دیکھ کر ہنسنے لگا ”اب جا …. دفع دور ہو جا“ غازی نے اسے ایک طرح سے دھتکار کر اٹھایا …. اصغر شیخ بڑا خوش تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے اسے قارون کا خزانہ مل گیا ہو
”ہاں بھیا اب سناﺅ ۔ دیکھا ایک پروفیسر بھی شرع و شریعت کو بھول گیا۔ تم ایک عام سیدھے سادھے مسلمان کو کیا کہو گے“
”غازی اس میں اس بیچارے کا زیادہ قصور نہیں ہے۔ تم نے بہروپ بھر کر اسے اکسایا“
”میں نے اکسایا ۔ ارے بھیا یہ لوگ تو اکسنے پر ہر وقت تیار ہوتے ہیں۔ انسان کی مجبوریاں‘ خواہشیں‘ بے قراریاں اور مایوسیاں اس کو قبروں پر ماتھے ٹیکنے پر مجبور کر دیتی ہیں“ غازی بولا
”یہ تو اندھیروں کے مارے لوگ ہیں۔ جہاں روشنی ملے گی یہ اس سراب کی طرف چل دیں گے۔ تم انہیں روشنی بن کر اپنی طرف نہ بلایا کرو۔ وہ ذات کبریا …. جو مشعل راہ ہے انہیں اس طرف ہی جھکنا چاہئے۔ ہاں بزرگوں کی مغفرت اور ان کی دعاﺅں کے لئے حاضریاں ہو جائیں تو غلط نہیں“ یہ کہتے کہتے مجھے ایک گھن آلود خیال آ گیا ”کمبخت تو نے میرے چہرے پر بھی تھوک دیا تھا“ یہ سن کر غازی ایک بار پھر ہنسنے لگا اور بولا ”بھیا میں مجذوب جو ٹھہرا …. مجھے تو معلوم ہی نہیں ہوتا“
”تو باز آ جا غازی …. تری انہی شرارتوں کی وجہ سے یہاں کے بزرگ خفا ہیں“ میں نے اسے بتایا ”سرکار تیلے شاہ اس وقت مزار کے اندر عبادات میں مصروف ہیں“
”میں جانتا ہوں لیکن آج وہ مجھے کچھ نہیں کہیں گے۔ کیونکہ آج جنات اپنے بزرگوں کے ساتھ یہاں حاضری دے رہے ہیں۔ ان کی بیبیاں بھی ساتھ آئی ہیں“
”کن کی بیبیاں ….“ میں نے اشتیاق بھرے لہجے میں پوچھا۔اس کے چہرے پر عجیب سی چمک پیدا ہوئی۔
”جنات کی …. ہماری بیبیاں“ وہ بولا
”یعنی جن زادیاں“ میں نے استفسار کیا
”جی ہاں …. لیکن وہ ظاہر نہیں ہو سکتیں۔ البتہ ایک دو بزرگ جن زادیاں ملنگنیوں کے روپ میں ہوں گی“
”باقی انسانوں کے روپ میں کیوں نہیں ظاہر ہوتیں“
”نہیں …. انہیں اس کی اجازت نہیں ملی“
”اجازت …. کیوں نہیں ملی“ میں نے حیرت سے سوال کیا
”بابا جی سرکار نے منع کیا تھا۔ میں تو برسوں سے یہاں اسی روپ میں آ رہا ہوں اس لئے بابا جی سرکار نے مجھے کچھ نہیں کیا۔ بابا جی سرکار کے علاوہ دوسرا کوئی بھی جن انسانی روپ میں نہیں ہے۔ اس وقت ہمارا پورا گروہ اس درخت اور مزار کے اردگرد موجود ہے“ میں نے غازی کے اشارہ کرنے پر چند قدم دور بیری کے ایک بوڑھے درخت کی طرف دیکھا جس کی شاخوں پر رنگ برنگے دھاگے اور کپڑوں کے چیتھڑے لٹکے ہوئے تھے۔
”بھیا یہ بیری کا درخت بھی کراماتی درخت ہے“ غازی نے کہا ”جو اس کا بیر کھاتا ہے اس کی مراد پوری ہو جاتی ہے۔ اس لئے زیادہ تر عورتیں ہی اس بیری پر آ کر دھاگے اور کپڑے باندھتی ہیں۔ کچھ تو اس کی جڑوں میں چاول اور چینی ڈال جاتی ہیں۔ ان کے خیال میں درخت پر چڑھنے والے کیڑے مکوڑے یہ خوراک کھائیں گے تو ان کی شجر مراد کی لاج بڑھ جائے گی اس لئے تو صاحب مزار کو بیری والا پیر بھی کہا جاتا ہے“
”بیری والا پیر“ میں زیر لب بڑبڑایا۔ یہ نام پہلی بار سن رہا تھا۔
”ہاں …. صاحب مزار بڑے روشن ضمیر ولی اللہ تھے۔ وہ اس کے نیچے بیٹھ کر عبادت اور تبلیغ کرتے تھے جس کی وجہ سے یہ درخت بھی معتبر بن گیا۔ اس درخت پر پھل بہت کم لگتا ہے۔ یہ بھی ایک کرامت ہے کہ اگر اسے پھل لگ بھی جائے تو ہر کسی کو نظر نہیں آتا۔ صرف وہ انسان ہی اس پھل کو دیکھ سکتا ہے جس کی مراد پوری ہونے کا وقت آ پہنچا ہو“
”اللہ تیری شان“ میں غازی کی بات سن کر بیری والے درخت کی طرف جانے کے لئے اٹھنے لگا کہ ایک ادھورا سوال پھر میرے ذہن میں کلبلانے لگا۔
”غازی تم نے میرے پہلے سوال کا جواب نہیں دیا تھا“
”اچھا …. ہاں …. وہی سوال …. ہاں میں تمہیں بتا دیتا ہوں“ غازی اب کی بار سنجیدہ ہو کر بتانے لگا ”بھیا آپ نے پوچھا تھا کہ وظائف پڑھنے کے باوجود جنات اور شیطان دفع دور کیوں نہیں ہوتے۔ اس کا ایک جواب تو آپ کو مل چکا ہے۔ دوسرا سوال ہماری ذات سے متعلقہ تھا۔ آپ کا کہنا ہے کہ جب ہماری حاضری ہوتی تھی تو آپ وظائف پڑھتے تھے اس پر میں ہنس پڑا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم مسلمان جنات ہیں۔ ہمارے من میں ابلیس کی گندگی نہیں اس لئے ایک سچا مسلمان جن بشرطیکہ کوئی غلط حرکت نہ کر رہا ہو تو اسے ان وظائف سے نقصان نہیں پہنچتا لیکن میں تمہیں ایک وظیفہ بتاتا ہوں۔ اگر تم یہ پڑھ کر مسلمان جنات پر بھی پھونک مارو گے تو تمہیں اس کا ثبوت مل جائے گا کہ تمہیں جس شخص پر جن ہونے کا شبہ ہے وہ اپنی اصلیت ظاہر کر دے گا“ غازی نے مجھے وظیفہ بتایا یہ قرآن پاک کی آیت تھی جسے میں بچپن سے پڑھتا آ رہا تھا لیکن اس کے ساتھ غازی نے مجھے ایک اور آیت مبارکہ پڑھنے کے لئے کہا۔
”اب میں یہ وظیفہ پڑھ کر تم پر پھونک ماروں گا“ میں نے غازی کو چھیڑا ”تاکہ تم اپنی شکل میں ظاہر ہو جاﺅ“
”ارے بھیا یہ حرکت نہ کرنا ورنہ بابا جی سرکار اتنے جوتے ماریں گے کہ پھر ترستے ہی رہ جاﺅ گے اور میں تمہارے سامنے نہ آﺅ ں گا“ غازی نے میرے ہاتھ پکڑ لئے۔
”کیوں ایسی بھی کیا بات ہے“ میں نے کہا
”ہے ناں مسئلہ“ وہ زور دے کر بولا ”بابا جی سرکار کا کہنا ہے کہ انسان وعدہ کرکے مکر جاتا ہے اور وظائف کا غلط استعمال شروع کر دیتا ہے۔ اس لئے وہ کسی کو ایسا وظیفہ پڑھنے کے لئے نہیں دیتے۔ جب تک کوئی انسان ریاضت کی بھٹی میں پک کر کندن نہیں ہو جاتا تب تک اسے وظائف کی حقیقی معراج نہیں ملتی“ غازی کی بات میں واقعی بڑی دلیل تھی۔ میں نے اس کی بات مان لی اور پھر ہم دونوں مزار کے اندر جانے کے لئے اٹھ پڑے۔ میرے ذہن میں ان لوگوں کو دیکھنے کی خواہش مچل رہی تھی جو بیری والا پیر کے عقیدت مندوں کے روپ میں مزار کے احاطے میں محو عبادت تھے۔
مزار کے احاطے میں اگربتیوں کی سحرانگیز مہک نے ہمارا استقبال کیا۔ کالی شیشم کے منقش دروازے سے اندر داخل ہونے کے لئے تقریباً سر اور کاندھے جھکا کر اندر داخل ہونا پڑتا تھا۔ دروازے پر مغلائی خطاطی سے بیری والے پیرر کا نام اور القابات لکھے ہوئے تھے۔ میں اندر داخل ہونے لگا تو ایک مجاور کہیں سے نکل کر ادھر آ گیا۔ اس نے غازی کو قیمض کے کالر سے پکڑ لیا اور درشت لہجے میں بولا۔
”تو کدھر جاتا ہے سائیں۔ چل ادھر دیگوں کے پاس“
غازی نے غیر محسوس انداز میں مجھے آنکھ ماری اور منہ کھول کر مجاور کی طرف دیکھنے لگا۔ اس کے ہونٹوں کے کناروں سے رالیں ٹپکنے لگیں۔ آنکھیں کھچ گئیں۔ بدن پر تشنج کے آثار نظر آنے لگے۔ وہ ہمک ہمک کر مجاور سے غیر مانوس زبان میں کچھ کہنے لگا۔ مجاور کو اس کی باتوں کی سمجھ نہ آئی تو اس نے پاس سے گزرنے والے دربار کے ایک ملنگ کو بلایا اور کہا ”سائیں کو لنگرخانے میں لے جاﺅ۔ ناپاک حالت میں مزار کے اندر جانا چاہتا ہے“
مجھے مجاور کا یہ انداز پسند نہ آیا۔ میں کچھ کہنے ہی لگا تھا کہ غازی خاموشی سے ملنگ کے ساتھ لنگرخانے کی طرف چل دیا۔ اس اثنا میں ایک عقیدت مند مزار کے اندر جانے کے لئے مجھ سے راستہ مانگنے لگا۔ میں نے اسے اندر جانے کے لئے راستہ دیا اور خود ایک طرف ہو گیا۔ اس نے مزار کے دروازے کو عقیدت و احترام سے دونوں ہاتھوں سے چھوا۔ انہیں چوما اور آنکھوں سے لگایا۔ پھر زیر لب بولا ’’یا پیر دستگیر اس گناہگار کی حاضری قبول فرما‘‘
میں بغور اسے دیکھتا رہا۔ اندر داخل ہوتے ہی وہ صاحب مزار کی قبر کے قدموں کی طرف جھکتا چلا گیا۔ قبر سنگ مرمر کے پتھروں سے بنی تھی اور زمین سے تین فٹ اونچی تھی۔ سبز رنگ کی چاندی کے تاروں سے کشیدہ آیات و عربی القابات سے سجی ایک چادر قبر کے اوپر رکھی تھی۔ اطراف میں گلاب کے پھولوں کی پتیاں بکھری ہوئی تھیں۔ قبر کے سرہانے بابا تیلے شاہ سر گھٹنوں میں دے کر ہولے ہولے ہل رہے تھے۔ دائیں طرف بابا جی سرکار انسانی روپ میں کھڑے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں مورچھل تھا اور وہ دھیرے دھیرے قبر کے اوپر اس سے ہوا دے رہے تھے۔ مزار کے اندر سرہانے سے کوئی ایک دو فٹ پرے ایک کھڑکی کھلی تھی جس کی دوسری طرف بہت سی خواتین نظر آ رہی تھیں۔ کالی قباؤں میں ملبوس اجلے چہرے‘ غزالی اور سرمگیں آنکھوں والی خواتین مقامی ہرگز نہیں تھیں۔ لگتا تھا زمیں پر حوریں اتر آئی ہیں۔ میں نے باہر دیکھ لیا تھا یہاں آنے والے متوسط نچلے طبقہ کے لوگ تھے۔ لیکن ان خواتین کے شاداب پرسکون اور امارت کی چمک سے خیرہ کرنے والے چہرے دیکھ کر احساس ہوتا تھا کہ یہ پوش علاقے کی خواتین ہیں۔ ایک لمحہ میں مجھے ان پر عربی و ایرانی خواتین ہونے کا شبہ ہوا۔ قامت قیامت خیز اور حسن آتش نوا تھا۔ گلابوں کی سرخیاں شہد اور دودھ سے دھلے ان کے چہرے انہیں مقامی عورتوں سے ممتاز کرتے تھے۔ اس سمے مجھے خیال آیا کہیں یہ جنات کی بیبیاں تو نہیں ہیں۔ یہ خیال آتے ہی میں جسارت کرکے انہیں دوبارہ دیکھنے لگا۔ ان کی آنکھوں میں ایسی جاوداں برق اور کشش تھی کہ انسان کے دل کا آبگینہ اس حسن آتش نوا کی ایک جھلک سے پگھل جاتا۔ اس سمے مجھے یہ احساس بھی ہوا کہ مجھے مزار پر کھڑے ہو کر ایسی تاک جھانک نہیں کرنی چاہئے لیکن میرے سامنے ایک ایسی مخلوق کھڑی تھی جسے دیکھے بغیر رہا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ من چاہتا تھا بس انہیں دیکھتا رہوں۔ ان کی عمروں کا یقین نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ہر ایک اس قدر جاذبیت اور نسوانیت سے گوندھی ہوئی تھی کہ یہ طے کرنا مشکل ہو رہا تھا کون دوشیزگی کے پہروں میں ہے اور کون عمر کی سیڑھیاں چڑھ چکی ہے، کس کی جوانی کا سورج ڈھل چکا ہے گویاہر ایک جوانی کے ماہتاب کی بھرپور کرن تھی۔
شاید میں یونہی بے حس و حرکت کھڑا رہتا لیکن اس عقیدت مند کی ایک حرکت سے میں چونک پڑا۔ وہ اونچی اونچی آواز میں آیات قرآنی کی تلاوت کرنے کے بعدہاتھ اٹھا کر مناجات کرنے لگا۔ چند ثانئے بعد ہی وہ قبر کے قدموں میں اپنا سر رکھ کر رونے لگا۔ زاروقطار اس کی ہچکیاں سن کر بابا جی سرکار نے اس کی طرف دیکھا اور پھر ان کی نظریں مجھ پر مرکوز ہو گئیں۔ ان کے لبوں پر خفیف سی مسکان نمودار ہوئی۔ انہوں نے مورچھل اس عقیدت مند کے سر پر مارا تو وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ اس کا رونا دھونا عجز و انکساری یکدم کافور ہو گئی۔ اس کی آنکھوں میں ایک بھی آنسو نظر نہیں آ رہا تھا لیکن اس کی آہ و فغاں سے لگتا تھا جیسے اس کے دل پر کرب و اذیت کے آرے چل رہے ہیں اور آنکھوں سے ساون بھادوں جاری ہو گی۔ عقیدت مند فوراً بابا جی سرکار کی طرف بڑھا ،جھک کر ان کے قدم چھونے لگا تھا کہ بابا جی پرے ہٹ گئے اور مورچھل اس کے کاندھے پر مار کر بھاری بھرکم آواز میں بولے
’’جاؤ بیٹا ۔۔۔ اللہ تمہاری مراد پوری کرے گا‘‘
عقیدت مند الٹے قدموں سے پیچھے ہٹا۔ قبر کو ہاتھ لگا کر ہاتھوں کو چوما اور آنکھوں سے لگایا اور اسی عقیدت و احترام سے مزار سے باہر نکل گیا۔
میں بھی اندرداخل ہو گیا اور کھسکتا ہوا اس بغلی کھڑکی کے پاس چلا گیا۔ میرے ذہن پر ان حوروں کا عکس لہرا رہا تھا۔ لیکن عقیدت و احترام کا تقاضا تھا کہ میں کوئی اوچھی حرکت نہ کروں۔ پس میں نے اپنے بے لگام دل کو قابو کیا اس کی سرکشی کی لگام کھینچی اور زور سے آنکھیں میچ کر صاحب مزار کے لئے دعا کرنے لگا۔
’’بیٹھ جاؤ‘‘ اس دوران بابا تیلے شاہ کی آواز میری سماعت سے ٹکرائی۔ میں نے آنکھیں کھول کر ان کی طرف دیکھنا چاہا لیکن غیرارادی طور پر نظریں کھڑکی کی طرف اٹھ گئیں۔
کھڑکی بند ہو چکی تھی دوسری طرف ایک بھی چہرہ نظر نہیں آ رہا تھا۔ میرا دل انتظار کی سوئی پر اٹک گیا۔ بابا تیلے شاہ نے میرے من کی کمزوری کو بھانپ لیا اور سرزنش کرنے کے انداز میں بولے ’’میں نے کہا ہے بیٹھ جاؤ ۔۔۔ لوگ دنیا کو چھوڑ کر یہاں آتے ہیں لیکن تیری نظریں یہاں بھی بھٹک رہی ہیں‘‘
’’سرکار ۔۔۔ میں تو‘‘ میں نے کسی عذر کا سہارا لے کر شرمندگی سے بچنے کی ناکام کوشش کی مگر پھر میں نے سوچا کہ بصیرت رکھنے والے بزرگ کے سامنے جھوٹ بولنا دوہری شرمندگی ہو گی۔ ان سے چھپانا بے سود ہے۔ وہ تو دل کی ہر دھڑکن کے اندر دھڑکتے احساس کو پا لیتے ہیں‘‘ سرکار ۔۔۔ میں دراصل‘‘
’’میں جانتا ہوں تو کیا کہنا چاہتا ہے‘‘ بابا تیلے شاہ میری بات مکمل ہونے سے پہلے ہی بول پڑے۔ ’’جو تو نے دیکھا ہے کسی اور نے نہیں دیکھا‘‘
’’کک ۔۔۔ کیا مطلب‘‘ میں نے چونک کر ۔۔۔ مگر احتیاط سے پوچھا
’’یہ جلوہ صرف تمہاری نظروں کو دکھایا گیا ہے ورنہ وہ بیبیاں تو اسرار کے پردوں میں ملفوف ہو کر آتی ہیں۔ کوئی دوسری عورت ان جن زادیوں کو نہیں دیکھ سکتی۔ یہ دربار کی خادمائیں ہیں۔ صاحب مزار کا فیض ہے کہ انسانوں سے بڑھ کر مسلمان جنات ان کی خدمت بجا لاتے تھے اور آج بھی وہ یہاں آتے ہیں‘‘
درباروں مزاروں پر جنات کی حاضریوں کے حوالے سے ہمارے ہاں بہت سی حکایات مشہور ہیں۔ شاید ہی کوئی انسان ایسا ہو جس نے اللہ کے کسی ولی سے متعلق ایسی انہونی حکایات نہ سنی ہوں کہ ان کے پاس جنات بھی تعلیم حاصل کرنے آتے تھے۔ جنات کے وجود کی حقیقت کو تسلیم کرنے اور جھٹلانے والے دو گروپوں میں تقسیم ہیں جو جنات پر یقین رکھتے ہیں ان کے ہاں اولیا سے وابستہ جنات کی کہانیاں بہت معروف ہیں۔ ہمارے ہاں اہل سنت کا ایک بڑا مکتبہ فکر دیوبندی کہلاتا ہے۔ اس کے اسلاف سے متعلق بھی ایسی کہانیاں میں نے سن رکھی تھی۔ میں نے جن قاری صاحب سے قرآن پاک کی تعلیم حاصل کی تھی وہ بھی دیوبندی تھے۔ وہ اکثر بتایا کرتے تھے کہ دیوبند کے مدرسہ میں جنات بھی تعلیم حاصل کرتے تھے۔ مولانا قاسم ناناتوی جنہوں نے چھتہ مسجد دیوبند کی بنیاد رکھی، اسلامی علوم یکتا تھے۔ جنات بھی ان سے فقہی مسائل دریافت کرنے آتے تھے۔ ایک بار ایسا ہوا کہ جنات انہیں اٹھا کر ایک ایسی مجلس میں لے گئے جہاں بہت سے جنات پہلے سے موجود تھے۔ انہیں ایک فقہی مسئلہ درپیش تھا۔ جنات نے مولانا قاسم ناناتوی سے مسئلہ دریافت کیا تو انہوں نے بیان کر دیا۔ جنات کی مجلس میں ایک سن رسیدہ جن بھی تھے۔ ان کے بارے کہا جاتا تھا کہ وہ صحابی رسولؐ ہیں۔ مولانا قاسم ناناتوی نے جب مسئلہ بیان کیا تو اس صحابی رسولؐ نے ان کے شرعی مسئلہ کی تصدیق کر دی کہ ہاں یہ مسئلہ جو بیان کیا گیا ہے درست ہے۔
میں جب سے بابا جی سرکار اور ریاض شاہ کے ساتھ وابستہ ہوا تھا مجھے ایسے واقعات سنائے جا رہے تھے کہ جنات اللہ کے بزرگوں کی بے حد تکریم کرتے اور ان سے شرعی فقہی مسائل بھی دریافت کرتے ہیں۔ اگرچہ جنات علم و فضل میں یکتا ہوتے ہیں لیکن ایک عالم دین جنات کے علما پر فوقیت رکھتا ہے۔ میرے مشاہدے اور تجربے میں بھی یہ بات آ رہی تھی کہ جنات اولیاء اللہ کے مزارات پر خدمات انجام دیتے ہیں۔ بیری والے پیر کے مزار پر بابا جی سرکار ،غازی اور جنات کی بیبیوں کی موجودگی بھی ان حقائق کی تصدیق کرتی تھی۔
بابا تیلے شاہ ساری رات مزار پر عبادت و ریاضت میں مصروف رہنا چاہتے تھے۔ دل تو چاہتا تھا کہ میں بھی ان کے ساتھ ہی شب گزاری کروں لیکن اپنے امتحان کی فکر تھی مجھے۔ عشا کی نماز ادا کرنے کے بعد میں نے بابا تیلے شاہ سے گزارش کی کہ مجھے واپس جانے کی اجازت دی جائے۔
’’میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ تم واپس چلے جاؤ۔ لیکن جانے سے پہلے میں تمہیں ایک تحفہ دینا چاہتا ہوں‘‘ یہ کہہ کر انہوں نے اپنے سلوکے میں سے ایک مڑا تڑا کاغذ نکالا اور مجھ سے قلم مانگ کر اس پر کچھ لکھنے لگے۔ پھر میرے سینے پر انگشت شہادت سے کچھ لکھنے کے بعد کاغذ مجھے دے کر بولے۔
’’بیٹے یہ تعویذ اپنے بازو پر باندھ لیا۔ اللہ ہی تمہارا کفیل وکیل اور محافظ ہے۔ بس میں یہ چاہتا ہوں تم جنات کے کسی بہکاوے میں نہ آنا اور انہیں یہ درس دیتے رہنا کہ وہ انسانی آبادیوں میں نکل کر شرارتیں نہ کیا کریں۔ خاص طور پر اس غازی کے بچے کو سمجھا دینا۔ بنیادی طور پر وہ نیک جنات میں سے ہے لیکن ہے تو آتشی مخلوق۔ بچہ ہے۔ شرارت کرنے سے باز نہیں آتا۔ اس نے تم سے آج جو کچھ کہا ہے وہ صحیح کہتا ہے۔ لیکن اسے سمجھا دو کہ انسانوں کے اعتماد کو مجروح نہ کیا کرے‘‘
’’سرکار اب آپ سے ملاقات کہاں ہو گی‘‘ میں نے ان کے ہاتھ چوم کر سوال کیا
’’اللہ نے چاہا تو بہت جلد ملاقات ہو گی اور ۔۔۔ اچانک وہ گفتگو کرتے ہوئے رک گئے اور وعلیکم السلام۔ مرحبا یا سیدی ۔۔۔ وعلیکم السلام کہنے لگے۔ اس لمحہ مجھے سرسراتی ہوا کے گزرنے کا احساس ہوا۔ ٹھنڈی ہوا کا وہ جھونکا میرے چہرے سے ٹکرایا اور صندل کی خوشبو جیسی مہک نتھنوں سے ٹکرائی۔ کچھ ہی دیر بعد پورے ماحول میں صندل اور اگر کے جلنے سے خوشگوار مہک پھیل گئی۔ میں نے پھیپھڑوں تک مسحور کن مہک کو اندر کھینچ لیا۔
’’سرکار لگتا ہے جنات خوشبویات لے کر آئے ہیں‘‘
’’ہاں آج ساری رات وہ یہاں محفل جمائیں گے۔ اس لئے میں نے تمہیں جانے دیا ہے۔ صرف میں یہاں رہ سکتا ہوں چند اور بزرگ بھی آنے والے ہیں کوئی عام انسان آج کی رات یہاں نہیں ٹھہرے گا۔ ہر مہینے میں ایک رات ایسی ہوتی ہے جب ہم سب لوگ اسرار کے پردوں میں ملفوف ہو جاتے ہیں یہ دنیا اس دنیا سے بڑی مختلف ہوتی ہے۔ بڑی سہانی مجالس سجتی ہیں۔ واللہ تمہیں کیا بتاؤں اس روح پرور وجد والی محافل کی خواہش میں ہی تو ہم نے اس دنیا کا ذائقہ چھوڑ دیا‘‘
یہ سن کر میری نیت بدل گئی۔ میں نے کہا ’’سرکار ۔۔۔ وہ کیا ہے ناں ۔۔۔ میں کسی طرح یہاں رہ سکتا ہوں اب میں چاہتا ہوں کہ اس رات کے روحانی مناظر دیکھ سکوں‘‘
’’بڑا مشکل ہے یہ ۔۔۔ اللہ نے چاہا تو کبھی ایسا موقع بھی آئے گا۔ میں تمہیں خود بلواؤں گا لیکن یہ موقع تمہیں اس وقت ملے گا جب تم لاہور چلے جاؤ گے‘‘
’’لاہور ۔۔۔ مگر کہاں؟‘‘
’’وہ وقت بہت جلد آنے والا ہے۔ جب تم راوی سے اس پار ایک صاحب کرامت کی نگری میں چلے جاؤ گے۔ جب تو بے یارومددگار ہو کر اس آستانے کی چوکھٹ پر خالی دامن بیٹھا کرو گے ۔۔۔ وہیں سے تمہیں یہ فیض ملے گا۔ وہ وقت دور نہیں ہے۔ میرے اللہ نے چاہا تو ہو سکتا ہے میری تم سے اب ملاقات لاہور میں ہی ہو۔ یہ ملاقات کب ہو گی۔ فی الحال اس کا تعین نہیں ہو سکتا۔ ہو سکتا ہے سال‘ دو سال‘ دس سال‘ بیس سال بعد ۔۔۔ شاید اس وقت جب تمہارا تیلے شاہ تیلا تیلا ہو کر بکھر جائے گا۔ اس کی یہ سوکھی مڑی تڑی ہڈیاں خاک میں مل جائیں۔ شاید تب تم سے ملاقات ہو‘‘
’’اللہ نہ کرے بابا آپ سلامت رہیں۔ ایسی باتیں نہ کریں‘‘ ان کی بات سن کر میں روہانسا ہو گیا ’’بابا اگر یہ بات ہے آج کے بعد ہماری ملاقات طے نہیں ہے تو میں یہاں سے نہیں جاؤں گا۔ میں آپ کے پاس ہی رہوں گا۔ میں برسوں ہجر و وصل کے عذاب نہیں سہہ سکوں گا۔ مجھے اپنے سے جدا نہ کریں‘‘
’’بیٹے تمہیں جانا ہی ہو گا۔ میں تمہیں ا س لئے یہاں نہیں رکھ سکتا کہ تم یہ سب برداشت نہیں کر پاؤ گے۔ تمہارے دماغ کی طنابیں ٹوٹ جائیں گی۔ تم نے روحانی نشہ چکھ لیا تو غرق ہو جاؤ گے۔ خرد سے بیگانہ ہو جاؤ گے۔ دنیا تمہیں پاگل سمجھے گی۔ دنیاوی شعور ختم ہو جائے گا اور تم اللہ کے سائیں بن کر رہ جاؤ گے۔ بیٹے تمہیں اپنے ہم جنسوں کے درمیان رہ کر ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔ رہا سوال ملاقات کا تو ۔۔۔ میں نے تمہیں اپنے وجود کا احساس دے دیا ہے۔ یہ تعویذ تمہارے پاس رہے گا تو سمجھو میرا تعلق تم سے جڑا رہے گا۔ اس لئے اب تم واپس جاؤ‘‘ یہ کہہ کر بابا تیلے شاہ نے میرا ماتھا چوما اور نصیحت کرتے ہوئے بولے ’’میرے بچے تم دنیاداری میں پڑ جاؤ گے۔ جاہ و حشم کے طلبگار ہو جاؤ گے۔ اللہ تمہیں کامرانیاں دے گا لیکن میرے بچے ۔۔۔ اگر تم نے بزرگوں کے عطا کردہ وظائف اور اللہ کی عبادت سے رخ نہ موڑا تو تمہیں فیض ملتا رہے گا اب جاؤ کوئی تمہارا انتظار کر رہا ہے‘‘
’’بابا‘‘ ان سے جدا ہونے کے تصور سے میرا کلیجہ پھٹنے لگا۔ میری مرادوں کا گوہر چھلکنے لگا۔ میں ان سے لپٹ گیا ’’بابا آپ سے جدا ہو کر میں مر جاؤں گا‘‘
میری یہ حرکت دیکھ کر وہ ہنس دئیے اور میری پیٹھ تھتھپا کر بولے ’’حوصلہ کرو اب واپس سیدھے حویلی چلے جانا۔ تمہارے ملک صاحب بری امام سے ہو کر آ گئے ہیں‘‘
’’جی بابا‘‘ میں یہ خبر سن کر ان کا منہ دیکھنے لگا ’’ہمیں ابھی ابھی اطلاع ملی ہے اس لئے تم حویلی جاؤ اور اپنے ملک صاحب کے ساتھ مل کر شیطان کے خلاف جہاد کرو‘‘
’’شیطان ۔۔۔ کک کون شیطان‘‘ میں نے ہڑبڑا کر پوچھا
’’مکھن سائیں ۔۔۔ پورے کا پورا شیطان ہے۔ اس خبیث نے صاحب مزار پر آ کر ڈیرہ جمانے کی کوشش کی تھی لیکن ایک ہی چوٹ کھا کر بھاگ گیا۔ ریاض شاہ پورے کا پورا شیطان تو نہیں ہے لیکن کبھی کبھی اس کے زیر اثر آ جاتا ہے۔ وہ حد سے گرا ہوا برا شخص نہیں ہے چونکہ ابھی اس کے پاس تازہ تازہ طاقت آئی ہے اسے برسوں کشٹ نہیں جھیلنے پڑے۔ بلکہ تھالی میں رکھ کر اسے یہ طاقت عطا کر دی گئی تھی اس لئے وہ گھمنڈی ہو گیا ہے۔ یاد رکھنا یہ گھمنڈ شیطان کا سب سے طاقتور ہتھیار ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ انسانوں کو ان کے اعلیٰ و ا رفع مقام سے نیچے اتارتا ہے۔ اچھا اب جاؤ ہمارا بلاوا آ رہا ہے۔ اب ہم چلتے ہیں۔ ہاں ایک اور بات یاد رکھنا ہر مہینے کی پہلی جمعرات کو ایک دیا جلانے یہاں آنا اور نوافل بھی ادا کرتے رہنا‘‘
’’ٹھیک ہے بابا‘‘ میں چلنے لگا تو ایک دم ایک خیال ذہن میں آ گیا ’’بابا کیا میں اس بیری کا بیر کھا سکتا ہوں‘‘
یہ سن کر وہ ہنس دئیے ’’تمہیں بیر کھانے کی ضرورت نہیں ہے‘‘
’’کیوں بابا‘‘
’’بیٹے ۔۔۔ تم اپنا اعتقاد کبھی کمزور نہیں ہونے دیتے۔ اس لئے تمہیں بیر کھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ لوگ شارٹ کٹ کی تلاش میں آتے ہیں۔ جیسی نیت ہوتی ہے ویسا پھل مل جاتا ہے انہیں‘‘ یہ کہہ کر بابا تیلے شاہ مزار کے اندر چلے گئے۔ میں انہیں حسرت و یاسیت سے دیکھتا رہا۔
میں مزار سے نکل کر باہر سڑک پر آ گیا۔ مزار کی نسبت سڑک پر کم روشنی تھی۔ ایک کوچوان اپنے گھوڑے کو گھاس کھلا رہا تھا۔ میں نے اسے اشارہ کرکے پاس بلایا تو اس نے گھاس کی بوری گھوڑے کے منہ سے ہٹا کر تانگے میں رکھی اور میرے پاس آ کر بولا ’’بابو کہاں جانا ہے‘‘
’’لاری اڈے جانا ہے‘‘
’’سالم چلو گے‘‘
’’ظاہر ہے اب سواری تو ہے نہیں کوئی ،سالم ہی چلو‘‘ میں نے اس سے پیسے پوچھے تو بولا ’’بابو جی تیس روپے لوں گا‘‘
’’تیس روپے ۔۔۔ کیا بات کرتے ہو۔ اڈہ دور ہی کتنا ہے۔ دو روپے سواری بنتی ہے۔ تین پیچھے تین آگے۔ کل ملا کر چھ سواریوں کے بارہ روپے بنتے ہیں‘‘ میں نے سخت انداز میں حساب کتاب کرکے بتایا۔
’’بابو رات کا وقت ہے واپس بھی خالی آنا پڑے گا اور اوپر سے گھوڑا بھی تھک چکا ہے۔ جانا ہے تو پچیس روپے ہوں گے۔ بابو جی مہنگائی بہت ہو چکی ہے گھا دس کلو سبزہ خریدنے کے لئے بیس روپے دینے پڑتے ہیں۔ دال دانہ الگ سے خریدنا پڑتا ہے۔ یہ گھوڑا پچاس روپے کھا جاتا ہے۔ مجھے کیا بچتا ہے صرف چالیس پچاس۔ سارا دن سڑکوں پر گھوڑوں کی لید‘ گاڑیوں کا دھواں پھانک کر صرف چالیس پچاس۔ مجھ سے اچھا تو گھوڑا ہے ۔
پچاس روپے صرف ایک ہی کام کے لیتا ہے۔ تانگے میں جوتا اور پھر ٹھک ٹھک ۔۔۔ نہ بال نہ بچہ۔ نہ بیوی کی تڑتڑ۔نہ بجلی پانی کا بل۔۔۔‘‘
’’اچھا ۔۔۔ اچھا ۔۔۔ یار پچیس طے‘‘ اس کی باتیں سن کر میں بے اختیار ہنس دیا۔ حالانکہ اس ستم ظریف کی حالت پر مجھے ہنسنا نہیں چاہئے تھا۔ حالات کا ستایا سماجی بدگمانیوں کا شکار یہ شخص ہمارے پورے معاشرے کی عکاسی کر رہا تھا۔ مجھے تو رونا چاہئے تھا لیکن میں اس کی غربت پر کیوں روتا۔ صرف ہنس دیا۔ بے حسی پرکبھی کبھار ہنس دینا بھی ہزاروں آنسوؤں سے افضل ہوتا ہے۔
**
رات کافی گہری ہو چکی تھی۔ میں اس وقت ملکوال نہیں جانا چاہتا تھا لیکن بابا تیلے شاہ نے مجھے اشارہ دے دیا تھا کہ حویلی میں میرا انتظار کیا جا رہا ہے۔ ایک ولی کامل کی رہنمائی کو اشاروں کی زبان سے سمجھ لینا دانائی کی بات ہوتی ہے۔ میں دانا تو تھا نہیں مگر میں نے جب غور کیا تو دل نے یہی فیصلہ کیا کہ مجھے اس وقت ہی ملکوال چلے جانا چاہئے۔ نہر کی پٹری پر لٹ جانے کا خدشہ بہرحال رہتا تھا۔ گھپ اندھیرے میں راستوں کی پہچان‘ بھوت پربت کا خوف ایک فطری سی بات تھی مگر اب مجھے بھوت پریتوں سے خوف کی بجائے زیادہ خطرہ انسانی روپ میں رات کی سیاہی میں لوٹ مچاتے ہوئے ان درندوں سے تھا جو خنجر کی اور گولی سے بات کرتے تھے۔ اگر مجھے درندوں میں سے کسی ایک کا بھی سامنا کرنا پڑ جاتا تو میں اپنے بچاؤ کے لئے کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا۔ میرے پاس بارہ بور کی بندوق تھی جس کا باقاعدہ لائسنس بھی میرے پاس تھا۔ بندوق لینے کے لئے مجھے گھر جانا پڑتا اور میں گھر جانے کا رسک نہیں لے سکتا تھا۔ والدین مجھے اس وقت ملکوال جانے نہ دیتے لہٰذا اس کے سوا میرے پاس کوئی چارہ نہیں تھا کہ میں خالی ہاتھ ہی ملکوال چلا جاؤں۔
لاری اڈے سے پشاور اور راولپنڈی کو جانے والی بسیں رات گئے تک چلتی تھیں لیکن ان میں سے کوئی بھی بس تھوڑے فاصلے کی سواری نہیں بٹھاتی تھی۔ گجرات وزیرآباد کی طرف جانے والی بسیں بھی جا چکی تھیں۔ لاری اڈے سے نہر کا فاصلہ کم و بیش دس پندرہ کلومیٹر پر محیط تھا۔ اگر میں پیدل بھی چل پڑتا تو صبح ہونے سے پہلے نہر تک نہیں پہنچ سکتا تھا۔ ویسے بھی اتنا فاصلہ پیدل نہیں طے کیا جا سکتا تھا۔ اس سمے مجھے بابا تیلے شاہ کا خیال آیا۔ وہ ہزاروں لاکھوں میل پیدل چل کر ریاضتوں کی اس منزل تک جا پہنچے تھے جہاں سے بندہ اپنے خالق کی قربت کو گہرے سکون سے محسوس کرتا ہے۔ مجھ میں ہمت نہیں تھی کہ میں پیدل چل کر نہر کے کناروں کو چھو لیتا۔ ویسے بھی یہ میلوں کا سفر پیدل طے کرنے کا معاملہ ایک دن پر تھوڑا ماقوف ہوتا ہے۔ یہ تو مسلسل چلتے رہنے کا کام ہے۔ اور اس وقت تک میں نے یہ طے نہیں کیا تھا کہ مجھے پیدل سڑکوں کے کناروں‘ بیابانوں‘ قبرستانوں‘ صحراؤں‘ نالوں‘ کوہساروں کو طے کرنا ہے۔ سلوک کی یہ سبھی مسافتیں ایک آدھ دن میں تھوڑی طے ہوتی ہیں۔ اس کے لئے بھی من میں پختگی ضروری ہوتی ہے اور ایسی پختگی سے فی الحال میں محروم تھا۔ روحانیت کی لذت سے آشنائی تو ہو رہی تھی۔لیکن میں دنیا سے کنارہ بھی نہیں کرنا چاہتا تھا،سمندر میں غرق نہیں ہونا چاہتا تھا۔ میں تو ساحلوں کے کنارے چلتے چلتے سمندروں کی ہواؤں اور ان کے جوار بھاٹا کو دیکھنا چاہتا تھا۔ پس یہی میری سوچ اور یہی میرا عمل تھا۔
ان دنوں گندم کی کٹوائی ہو رہی تھی۔ مجھے یاد آیا کہ رات کے اس پہر ٹریکٹر ٹرالی والے عموماً شہر سے واپس جاتے ہیں۔ ملکوال اور دوسرے دیہاتوں سے بھی ٹریکٹر ٹرالیاں گندم کی بوریاں لاد کر لاتی تھیں۔ میں اس امید پر لاری اڈے سے نکل کر باہر بڑی سڑک پر آ گیا کہ کسی ٹریکٹر والے سے لفٹ لیکر نہر تک چلاجاؤں گا۔ میرے بائیں طرف کوٹلی بہرام اور گلستان سنیما، دائیں جانب صدر کینٹ۔ میں صدر سے آنے والے راستے پر نظریں لگائے کھڑا رہا۔ آدھ گھنٹہ گزر گیا لیکن ایک بھی ٹریکٹر ٹرالی نہ آئی۔ اس دوران میں نے لانگ روٹ کی گاڑیوں میں لفٹ لینے کی بے سود کوشش کی۔ اس انتظار کے بعد میں نے سوچا کہ میرا یہاں ٹھہرنا فضول ہے۔ میں ڈیڑھ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے کوٹلی بہرام کے سٹاپ پر پہنچ گیا۔ ادھر سے ایک سڑک سبزی منڈی کی طرف جاتی تھی۔ عموماً گندم منڈی سے آنے والے ٹریکٹر ٹرالیاں بھی یہی راستہ اختیار کرتی تھیں۔ میرے عقب میں گلستان سینما تھا۔ اس وقت ایک بجے کا شو ٹوٹا تھا۔ شائقین باہر آ رہے تھے۔ اس وقت مجھے امید ہوئی کہ ممکن ہے اس وقت کوئی لوکل بس آ جائے کیونکہ سیالکوٹ کے نواحی علاقوں کے علاوہ سمبڑیال تک سے یہاں فلمیں دیکھنے آنے والے آتے تھے لیکن میری یہ امیدیں بھی دم توڑ گئیں۔ اس وقت نہ تو کوئی تماشائی بس سٹاپ پر ٹھہرا تھا اور نہ ہی کوئی بس اورویگن آئی تھی۔ غالباً کوئی فلاپ قسم کی فلم چل رہی تھی جس کی وجہ سے شو میں رش نہیں تھا۔ دوسرے علاقوں کا ایک بھی شخص فلم دیکھنے نہیں آیا تھا۔
میں یونہی ایک گھنٹہ وہاں کھڑا رہا۔ میری ٹانگیں پتھر ہو گئی تھیں۔ اس وقت مجھے تھکن کا شدید احساس ہوا۔ صبح سے رات گئے تک میں مسلسل حرکت میں تھا اور اب تھکان سے ٹوٹ کر گر جانا میرے لئے عجیب نہ تھا۔ میں ایک بند کھوکھے کے پاس رکھے لکڑی کے ایک ٹوٹے بنچ پر بیٹھ گیا۔ بنچ کے پائے کو کھوکھے والے نے سنگل سے باندھا ہوا تھا۔ اسے خدشہ ہو گا کہ کوئی چور یہ بنچ نہ اٹھا کر لے جائے۔شاید بنچ کی کیلیں ابھری ہوئی تھیں جونہی میں نے پہلو بدلا ایک بے رحم کیل میری ران میں چبھ گیا۔ تڑپ کر اٹھا اور ران دبانے لگا۔ شدید درد کا احساس ہونے لگا۔ ہاتھ لگانے پر احساس ہوا کہ ران سے خون نکلنے لگا ہے۔ میں نے چلنے کی کوشش کی تو دقت محسوس ہونے لگی۔
’’یا الہٰی میری مدد فرما‘‘ میرے دل سے فغاں نکلی اور احساس کی سوئی نے میری آنکھوں میں چھید کر دئیے۔ نہ جانے کیوں میں اس وقت خود کو تنہا اور بے بس محسوس کرنے لگا تھا۔
’’اللہ میاں جی آج ہی یہ سب کچھ ہونا تھا‘‘ میں شکوہ کے انداز میں سوچنے لگا۔ سوچوں پر پہرے نہیں بٹھائے جا سکتے۔ وہم و خیال کے یہ سوتے ذہن سے پھوٹتے رہتے ہیں۔ سوچوں کو روکنا کسی بھی عام انسان کے اختیار میں نہیں ہوتا۔ ٹاہلی والی سرکار نے ایک بار فرمایا تھا کہ صرف وہی لوگ اپنی سوچوں کو روک سکتے ہیں جو ظاہر باطن میں اللہ کے قرب کے متمنی ہوتے ہیں۔ ان کی فکر کا محور صرف ایک ذات ہوتی ہے۔ عشق محمدؐ اور عشق الہٰی پر قلب و نظر کی قوتیں مرکوز کرکے ایک نقطہ میں سمٹ جاتے ہیں اور وہ نقطہ بظاہر بہت خفیف نظر آتا ہے لیکن اس کے اندر داخل ہونے والے کو احساس ہوتا ہے کہ ساری کائناتیں اور اسرار اس نقطہ کے اندر بس رہے ہیں۔ جو لوگ اس ارتکاز فکر کو حاصل کر لیتے ہیں وہ دنیاوی وہم و خیال کے جال توڑ کر نکل جاتے ہیں۔ انہیں کسی قسم کے گزند کا احساس نہیں ہوتا۔ ان کے پیروں میں چھالے اور ان چھالوں سے رستا ہوا لہو ۔۔۔ انہیں قطعی درد کا احساس نہیں دلاتا۔ ان کی تمام حسیات صرف ایک مرکز پر ٹھہری ہوتی ہیں ۔ اس لمحے میں جب مجھے ٹاہلی والی سرکار کی بات یاد آئی تو مجھے اپنی کتابوں میں پڑھا ہوا ایک سبق بھی یاد آ گیا۔ حضرت علیؓ کو ایک بار تیر لگا تو آپؓ نے فرمایا ’’ٹھہرو ۔۔۔ مجھے نماز میں کھڑے ہو لینے دو پھر تیر نکال لینا‘‘ حضرت علیؓ نماز پر کھڑے ہوئے تو آپؓ کے شانے سے تیر نکال لیا گیا۔ تیر گہرا پیوست ہوا تھا لیکن باب الاعلم حضرت علیؓ کے چہرہ مبارک پر ایک لمحہ کے لاکھویں حصہ میں بھی تیر کے کھینچے جانے کا احساس نہ ہوا۔ میں سمجھ گیا اور جان گیا۔ یہ وہ احساس ہے۔ یہی وہ ارتکاز ہے جو اللہ کے ایک برگزیدہ انسان کو حاصل ہوتا ہے۔ اس کا انہماک اپنے رب کی طرف اتنا گہرا اور مضبوط ہوتا ہے کہ اسے اردگرد کا کوئی ہوش ہی نہیں ہوتا۔ یہی احساس اولیا میں منتقل ہوا۔ چلے‘ شب و روز کی ریاضتیں‘ عبادتیں دراصل اس ارتکاز کی طرف منزل پانے کے لئے کئے جاتے ہیں ۔جب کوئی انسان اپنے ذہن کو یکسوئی پر مائل کر لیتا ہے تو اس پر اندر باہر کی دنیا کے بھید آشکار ہونے لگتے ہیں۔ یہ ذہن بھی کیا بلا ہے کیسا سپر کمپیوٹر ہے۔ یہ ارتکاز اور یکسوئی اس سپر کمپیوٹر کی ٹیکنالوجی کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ جو سمجھ گیا اس نے پا لیا۔ یہ وظائف بھی تو یہی چیز ہیں۔ آپ پڑھتے رہیں گے مگر شاید ہی کوئی رزلٹ نکلے۔ لاکھوں لوگ کہتے ہیں وظائف پڑھتے ہیں مگر اثر نہیں ہوتا۔ لیکن وہ یہ نہیں سمجھتے۔ ادھر مال پر نظریں اور انگلیاں تسبیح پر۔ لبوں پر وظائف مگر دل اور گمان سڑکوں کے کنارے چلتے لوگوں کی طرف مائل۔ حساب کتاب میں مستغرق۔ نہیں۔ منزل اور گوہر مراد یوں حاصل نہیں ہوتا۔ اس کے لئے انہماک چاہئے اور یہ انہماک رات کے سناٹے میں خلوت نماز پر بیٹھ کر۔ جائے نماز بچھا کر۔ پانچوں پہر کی نمازوں میں حاصل ہوتا ہے۔ ذہن کو قابو کیجئے۔ یکسوئی سے وظائف پڑھئے۔ آپ کا روحانی کمپیوٹر چل پڑے گا اور مشکلات دھیرے دھیرے ختم ہوتی جائیں گی۔۔۔۔۔۔۔کیل چبھا، ران میں درد اٹھا اور میرے ذہن میں فکر اور سلوک کے نئے معنی وارد ہونے شروع ہو گئے۔ اس احساس کو پانے کے بعد میں نے اپنے درد سے سمجھوتہ کر لیا۔ اسے بھولنا تو دوبھر تھا لیکن دل کو سمجھا لیا۔ ’’شاہد میاں یہ درد ایک آزمائش ہے بلکہ نعمت ہے۔ کیل تمہاری ران میں چبھا اور درد نے تمہارے ذہن کے مقفل دریچے کھول دئیے۔ اپنے رب کا شکر ادا کرو۔ وہ شافع مطلق ہے۔ علم یوں بھی عطا کرتا ہے۔ اس کا شکر ادا کرو‘‘
حقیقت یہ ہے کہ میں اس قدر صابر و شاکر کبھی نہ تھا۔ لیکن اللہ پاک کا ناشکرا کہلوانا مجھے کبھی بھی پسند نہیں آتا تھا۔ میرا ہاتھ ران سے بہتے خون پر تھا اور ذہن علم و آگہی کے اس نئے معنی پر اس علیم اور خبیر ذات کا شکر ادا کرنے لگا تھا۔
مجھے یاد آیا کہ یہاں سے کچھ دور ہی ایک مسجد ہے۔ میں لنگڑاتا ہوا مسجد میں چلا گیا لیکن باہر دروازے پر تالا پڑا دیکھ کر رک گیا۔
’’اللہ میاں جی ۔۔۔ آپ کے گھر پر تالے پڑے ہیں۔ آپ نے دیکھ لیا میری نیت کیا تھی۔ میں ساری رات حمد و ثنا کرتا۔ سجدے میں گرا پڑا رہتا۔ اللہ میاں جی آپ کے گھر پر تو تالے ہیں‘‘
میں خودکلامی کے انداز میں مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھ گیا۔ سنگ مرمر کی بڑی بڑی ٹائیلوں سے بنی یہ سیڑھیاں بڑا ہی ٹھنڈا احساس دلا رہی تھیں۔ بیٹھتے ہی ران میں اٹھنے والا درد آہستہ آہستہ دب گیا۔ ٹھنڈی ٹائیلوں نے درد کی آگ کو سرد کر دیا تھا لیکن اکڑاؤ بہرحال محسوس ہو رہا تھا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...