دلارے چچا جیسے لوگ اقدار کے بحران اور افراطِ زر کی پیدا کردہ اخلاقی پستی کے موجودہ دور میں کم یاب ہیں، پہلے بالخصوص قصبات اور دیہات میں اکثر پائے جاتے تھے۔ نیک سرشت، بے ضرر، رونق محفل، کم نصیب اور ناکارہ۔
دلارے چچا کا تعلق روہیل کھنڈ کمایوں ریلوے سے ہرگز نہ تھا لیکن ہمیشہ ’’چھوٹی لائن‘‘ والے کہلائے کہ اتر پردیش کے قصباتی فیوڈل کنبوں میں اگر کوئی منچلے رئیس زادے کسی مغنیہ، ڈومنی، گھریلو ملازمہ، قحط زدہ کسان لڑکی یا کسی ’’پنج ذات‘‘ عورت سے نکاح کر لیتے تھے یا اسے ’’گھر ڈال‘‘ لیتے تھے اس کی اولاد ’’چھوٹی لائن‘‘ کہلاتی تھی اور کبھی اپنے باپ کے خاندان سے ہمسری کا دعویٰ نہ کر سکتی تھی۔ (ہندو گھرانوں میں ایسی سنتان کو داسی پُتر کہا جاتا تھا) یہ بے چارے اس خاندان کے حاشیہ برداروں کی حیثیت سے زیست کرتے تھے۔ احساس کمتری اور افلاس میں مبتلا ان لڑکوں لڑکیوں کی شادیاں بھی خاندان میں نہ ہو سکتی تھیں۔
دلارے چچا ہمارے ایک قرابت دار گھرانے کی ’’چھوٹی لائن‘‘ تھے لیکن اس لحاظ سے خوش قسمت کہ ان کی ماں (جو ایک پردہ نشین شریف میراثن تھیں) ان کے والد کی واحد اور منکوحہ بیوی تھیں۔
دلارے چا اکلوتے لڑکے اور باپ کی املاک کے تنہا وارث۔ انہوں نے بڑی شائستگی اور سلامت روی سے زندگی گذاری۔ برادری اور قصبے میں مقبول، فن گفتگو کے ماہر جگت چچا، ساری بستی کے دکھ درد میں کام آنا ان کا مشغلہ تھا۔ شادی، غمی ہر موقعے کے انتظامات ان ہی کے سپرد کیے جاتے۔ لڑکیوں کی شادیوں کے سارے بکھیڑے وہ بالخصوص اپنے ذمے لے لیتے اور لڑکی کے باپ کا ہاتھ بٹانا ایک مقدس فریضہ سمجھتے۔ (ان کی اپنی شادی الگ قصہ ہے جو آگے آئے گا۔) لا ولد تھے اور بچّوں کے شیدائی۔ ان کا اپنا مکان بستی کے کنارے پر واقع تھا جس کے بعد سرسبز و شاداب کھیت اور باغات انبہ حد نظر تک پھیلے ہوئے تھے۔
جب کبھی ہم لوگ وطن جاتے گرمیوں میں دلارے چا اپنے آم کے باغ میں (جہاں وہ سیزن میں ایک مرتبہ ساری برادری کی دعوت کرتے تھے۔) یا سردیوں میں چبوترے پر حوالی موالیوں کے ساتھ بیٹھے گپیں ٹھونکتے پائے جاتے۔ دعوتیں کرنے کے علاوہ ان کے دو شوق اور تھے۔ شکار اور سنیما (جسے وہ سنیمہ بر وزن نسیمہ کہتے تھے)۔ ہر نئی انگریزی اور ہندوستانی فلم باضابطہ اپنی فورڈ پر شہر یا دہلی جا کر دیکھتے۔ خاموش فلموں کی باتیں کرتے جو بالکل stone age کا تذکرہ معلوم ہوتا۔ مثلاً یہ کہ ’’صاحب ٹیلیفون گرل ہم نے تین بار دیکھی اور ۲۴ء میں شیراز ہمانسو رائے نے بنائی تھی جرمن تعاون کے ساتھ۔ صاحب جرمنوں کا کیا مقابلہ۔ جنگ ہار گئے مگر سائنس میں سب سے آگے اور ہمانسو رائے ’’لائٹ آف ایشیا‘‘ میں مہاتما بدھ خود بنے تھے۔ ان میں رینی اسمتھ ایک اینگلو انڈین لڑکی ہیروئن تھی اس کا نام سیتا دیوی رکھا تھا۔ سارے یوروپ میں یہ فلم دکھلائی گئی تھی۔ اور لندن میں چار مہینے چلی تھی۔ بادشاہ سلامت نے اور پوری رائل فیملی نے اسے دیکھا تھا۔
جی ہاں۔‘‘ دلارے چا فوراً نیسلز چاکلیٹ البم اٹھا کر لاتے۔ اس میں امریکن اور انگریزی فلم اسٹارز کی تصویریں لگی تھیں۔ جو نیسلز چاکلیٹ میں سے نکلتی تھیں۔ ان میں سیتا دیوی اور اندرا دیوی کی تصویریں بھی شامل تھیں۔ دلارے چا بڑے فخر سے کہتے تھے دیکھئے جناب اس میں بھی دو انڈین فلم اسٹارز کی تصویریں شامل ہیں اور کرما کا کیا بتائیں آپ کو۔۔۔۔ لندن میں بنی تھی۔ دیویکا رانی نے بالکل انگریزی طریقے سے گایا تھا۔۔۔۔ ’’کرما!۔۔۔۔ کرما!‘‘
یہ سیتا دیوی، اندرا دیوی، را یلٹ کوپر، ارملین، سبیتا دیوی، آزوری، زیب النساء کجّن، زبیدہ، سلطانہ، نادیا، انوری، مادھوری، سلوچنا، بڑی ناقابل یقین سی ہستیاں معلوم ہوتیں۔ بالوں کے گپھے سے بنائے، طویل بندے، کلو بند اور عجیب و غریب ساڑیاں جن پر فیتوں کے Bow ٹکے ہوتے تھے۔ عجیب و غریب بلاؤز پہنے بے حد حسین خواتین کے پس منظر ان سے زیادہ پر اسرار تھے۔ کلکتہ اور بمبئی کے اینگلو انڈین اور یہودی محلے، تھیٹر کمپنیاں، لاہور کا شاہی محلہ۔۔۔۔ متعدد مراٹھی اور بنگالی مڈل کلاس تعلیم یافتہ لڑکیاں بھی فلم انڈسٹری میں شامل تھیں مگر جو رومان اور اسرار ’’ارملین‘‘ اور ’’عشرت سلطانہ ببّو‘‘ میں مضمر تھا وہ ’’شانتا آپٹے‘‘ لیلا چٹنس بی۔ اے۔‘‘ اور ’’سادھنا بوس‘‘ میں ہر گز نہ تھا۔ بہر کیف ان خواتین یا ان کی فلموں کا چرچا کرنے والے ہمارے ہاں فردِ واحد دلارے چا تھے۔ لیکن دلارے چا کی یہ گفتگو اتفاقیہ ہی ہمارے کانوں میں پڑتی کیوں کہ سنیما ایک قطعی مخرب الاخلاق شے سمجھی جاتی تھی اور اس کا ذکر بچّوں کے سامنے نہیں کیا جاتا تھا۔
ذاتی طور پر دلارے چا کا سنیما سے ایک مخصوص رابطہ ان کی ایک دکھتی رگ تھی اور ان کا یہ رابطہ کافی عرصے تک ایک ممنون موضوع گفتگو رہ چکا تھا۔ علاوہ ازیں خود ہمارے ہاں نوجوانوں کو سنیما سے کوئی خاص دلچسپی نہ تھی۔ در اصل اس وقت تک نہ فلم انڈسٹری کی اتنی ترقی ہوئی تھی نہ ماس میڈیا کی جس کے ذریعے سنیما قوم کی سائیکی پر حاوی ہو سکے، جیسا آج ہے۔
مختصر یہ کہ فلم، فلم اسٹاروں کا تذکرہ، فلمی پریس اور فلمی موسیقی ابھی لوگوں کا اوڑھنا بچھونا نہ بنے تھے۔ اس زمانے میں دلارے چا کی سنیما سے اتنی شدید دلچسپی بہت انوکھی اور افسوس ناک تصور کی جاتی تھی۔ ہمارے ایک نو عمر کزن نے دلارے چا کی رہبری میں اشوک کمار کی دستخط شدہ تصویر منگوائی۔ اسے بڑے اہتمام سے ایک کمرے کے دروازے بند کر کے ہمیں دکھایا۔ اس شرط پر کہ ’’امّی جان سے ہرگز مت کہنا۔‘‘
لڑکیوں کو تو ہندوستانی سنیما دیکھنے کی اجازت ہی نہ تھی۔ انگریزی پکچر دیکھنا البتہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کی نشانی سمجھا جاتا تھا۔ مثلاً یوں کہ ’’کل میں نے A Tale of cites دیکھی۔ میں تو خیر یہ ناول بھی پڑھ چکی ہوں اس لیے آسانی سے سمجھ میں آ گئی۔‘‘
چھوٹی پود کو لارل اینڈ ہارڈی اور والٹ ڈزرنی کے فلم دیکھنے کی اجازت تھی۔ ایک مرتبہ میری والدہ کی ایک پنجابی سہیلی کا کپورتھلہ سے خط آیا تھا جس میں انہوں نے اپنے شوہر کے متعلق اطلاع دی تھی۔ ’’نجم فلم میں کام کرتا ہے۔‘‘ تو والدہ کو بہت رنج ہوا تھا۔ ’’کرنل اصغر علی کا داماد ایکٹر بن گیا۔ افسوس۔
بمبئی ٹاکیز کے ہیرو نجم الحسن کو اس مختصر جملے کے ساتھ امّاں نے تو Dismiss کر دیا مگر دلارے چا پوری جان کاری رکھتے تھے۔ ارے صاحب نجم الحسن کی کیا بات تھی۔ بس دو خوب صورت ہیرو آئے تھے۔ ایک گل حمید مرحوم اور ایک یہ نجم الحسن۔ وہ گانا کیا خوب تھا۔۔۔۔ اناتھ آشرم ان کی فلم کا۔۔۔۔ سرکار یہ غلام روٹی کھانے جاتا ہے۔۔۔۔ بازار سے یہ حلوہ پوری لانے جاتا ہے۔۔۔۔‘‘
دلارے چاکی معلومات حیرت انگیز تھیں۔ امّاں کبھی کبھی اپنے ایک عزیز کے بارے میں تاسف سے کہتیں۔ ’’امتیاز بھی فلمیں بنا رہا ہے۔‘‘
ایک بار والدہ نے دلارے چچا کے سامنے بطور نصیحت امتیاز بھائی کی اس فلم سہاگ کا دان کا تذکرہ کیا جو انہوں نے لاہور میں بنائی تھی اور نقصان اٹھایا تھا لیکن دلارے چانے نہایت بشاشت سے فرمایا۔ ’’جی ہاں۔ کیا مکالمے لکھے ہیں۔ جب منتری کہتا ہے۔ ’’مہارانی تمہارے سہاگ پر مرتیو کی چھایا کانپ رہی ہے۔۔۔۔ اماں نے ذرا سختی سے ان کی بات کاٹی۔۔۔۔ ’’دلارے اگر تم نے اسی عقیدت کے ساتھ کالج کی پڑھائی کر لی ہوتی۔۔۔۔‘‘ بے چارے دلارے چا سر جھکا کر خاموش ہو گئے۔ امتیاز علی تاج در اصل آج کے اعلیٰ تعلیم یافتہ انٹلکچوئل ڈائرکٹرز کے پیش رو تھے۔
اسی زمانے میں لاہور اور کلکتہ کے دانش وروں نے سب سے پہلے سنیما کے میڈیم میں دلچسپی لینی شروع کی۔ مگر اسی دلچسپی کی وجہ سے ہمارے قصبے میں بے چارے دلارے کو عجوبہ روزگار سمجھا جاتا تھا۔ سالنامہ نیرنگ خیال ۱۹۲۹ء حال ہی میں میں نے دیکھا جس میں پطرس بخاری کا با تصویر مضمون۔۔۔۔ ‘‘انگلستان کا جدید ترین تھیٹر‘‘ اور دیوان آتما نند شرر ملتانی کا مضمون چارلی چپلن پر شامل ہے۔ (دیوان شرر نے دو تین سال بعد ہندوستان کی پہلی انگریزی فلم کرما میں بھی کام کیا)۔ اسی سالنامے میں ایک اشتہار موجود ہے۔۔۔۔ ’’شبستاں۔۔۔۔ اردو زبان میں پہلا با تصویر رسالہ۔ سنیما کے ایکٹروں ایکٹرسوں کے اندرونی حالات، فلموں کے متعلق تازہ ترین معلومات، مشہور ایکٹروں اور مشہور مناظر کی تصویریں غرض جو کچھ آپ رات کو سنیما کے پردے پر دیکھتے ہیں یہاں آپ کو روز روشن میں بے پردہ نظر آئے گا۔ پنجاب کے نامور شاعر، ڈراما ٹسٹ اور فلم آرٹسٹ دیوان آتم آنند شرر بی اے ایم آر اے ایس (لندن) اس کے ایڈیٹر ہوں گے۔ اس رسالے کا نو روز نمبر (پہلا پرچہ) کرسمس کے دن ۲۵ دسمبر کو شائع ہو جائے گا۔ دار الاشاعت پنجاب لاہور۔‘‘
یہ رسالہ بھی غالباً سید امتیاز علی تاج ہی شایع کر رہے تھے کیوں کہ دار الاشاعت لاہور ان کے والد شمس العلماء سید ممتاز علی کا مشہور و معروف اشاعتی ادارہ تھا۔ پھر نیرنگ خیال کے مزید سالناموں میں جہاں آرا کمّن، نلنی ترکھڈ، زیب النساء، سلطانہ، سردار اختر، مختار بیگم وغیرہ کی تصاویر۔ مختار بیگم انگلیوں میں سگریٹ تھامے۔ عورتوں کی سگریٹ نوشی ہمارے ہاں آج تک بے حد معیوب سمجھی جاتی ہے غالباً اس کی ایک وجہ یہ ہو کہ سگریٹ صرف ارباب نشاط پیتی تھیں۔ (مغرب میں بھی پہلی جنگ عظیم کے دوران ہی عورتوں کی سگریٹ نوشی ان کی سماجی آزادی اور مردوں سے ہمسری کی علامت قرار پائی۔) 0
و شنگ پنجابی ایکٹرس ایک انتہائی خوبرو ایکٹر۔ ایکٹرس کا نام غالباً زہرہ بائی فلم کا نام غالباً ہیر رانجھا۔ لاہور میں بھی فلمیں بنتی تھیں جو بڑی رومینٹک بات معلوم ہوتی تھی۔ ایک اور پرانا رسالہ آرٹ پیپر پر نیو تھیٹرز کا ماہنامہ عکاس۔ ایڈیٹر آرزو لکھنوی۔ نیو تھیٹرز نے فلموں کو اچانک بہت با عزت بنا دیا تھا۔ قصّے کے اندر اپنی بیٹھک کے اندر پیچوان کے کش لگاتے ہوئے دلارے چا نیو تھیٹرز پربھات اور بمبئی ٹاکیز اور منروا کے کارناموں پر روشنی ڈالا کرتے۔ سنیما کی پبلسٹی کا طریقہ سرکس والوں جیسا تھا۔ ایک ٹھیلے پر فلم کا بڑا سا اشتہار ساتھ ساتھ ایک دو بینڈ بجانے والے۔ ایک چھوکرا با تصویر پمفلٹ بانٹتا جاتا۔ یہ پمفلٹ دلارے چا اوّلین بولتی فلموں کے وقت سے جمع کر رہے تھے۔ زمین کا چاند، طوفانی ٹولی۔ بھولا شکار، لیدر فیس، غلام ڈاکو‘ بمبئی کی بلّی، پورن بھگت، اندرا ایم اے، رنگیلا راجہ، لعل یمن، طوفان میل امر جیوتی، وہاں، نرملا، طلاق، خان بہادر، جیلر، پکار۔ نسیم بانو اب ان کی پسندیدہ ایکٹرس تھیں۔ ان کی بیٹھک کی وسطی میز پر ایک انگریزی رسالہ رکھا رہتا تھا اورینٹ، کلکتہ اس کے سرورق پر نسیم بانو کی تصویر، کانوں میں بجلیاں، کلائیوں میں بے شمار چوڑیاں، بغیر آستین کا بلاؤز، گلاب کا پھول ملاحظہ کر رہی ہیں۔ اس دن جب میں کھیلتی کودتی ان کے ہاں پہنچی دلارے چا کو کہتے سنا۔۔۔۔ ’’دلّی کے کوئن میری اسکول میں پڑھتی تھی۔ فراک پہن کر اسکول آتی تھی۔‘‘ اس قسم کی معلومات آپ کو صرف دلارے چچا سے حاصل ہو سکتی تھیں۔ ان کے ایک مصاحب نے کہنا شروع کیا ’’صاحب وہ خان بہادر سلیمان ہیں نا۔‘‘
’’ہاں ہاں۔ وہی خان بہادر سلیمان جنہوں نے نئی دلّی بنائی ہے۔‘‘ دلارے چا نے فرمایا۔ میری سمجھ میں نہ آیا کہ خان بہادر سلیمان نے نئی دلّی کس طرح بنائی ہے۔ پوچھنے ہی والی تھی کہ دلارے چا کی نظر مجھ پر پڑ گئی۔ فوراً بولے۔ ’’بی بی جائیے کوٹھی پر واپس جائیے۔ بھابی صاحب سے عرض کیجئے۔ دلارے شام کو قدم بوسی کے لیے حاضر ہو گا۔‘‘ دلارے چا مجھے وہاں سے بھگانا چاہ رہے تھے مگر ایک روز قبل وہ اس چیتے کا قصّہ چھیڑ چکے تھے جو انہوں نے گذشتہ ہفتہ لال ڈانگ? کے جنگل میں مارا تھا جو میں پورا سننا چاہتی تھی۔ جب میں گھر واپس پہنچی( ہم لوگ کرسمس کی چھٹیوں میں قصبے آئے ہوئے تھے ) والدہ نے پوچھا ’’کہاں ماری ماری پھر رہی ہو اوائی توائی۔۔۔۔‘‘
’’دلارے چا۔۔۔۔‘‘ میں نے مختصراً جواب دیا۔ ’’دلارے نگوڑا پھر بیٹھ گیا ہو گا ایکٹرسوں کے شجرے سنانے۔۔۔۔‘‘ ایک پھوپھی نے کہا۔ اچانک سب خاموش ہو گئے۔ سمجھ ہی میں نہ آتا تھا کہ دلارے چا جیسے پیارے انسان کا تذکرہ ہمارے بزرگوں کو کیوں اداس کر دیتا تھا۔
دوسرے روز جب میں دلارے چا کے گھر ان کے خرگوش اور ہرن کے بچے دیکھنے گئی جو انہوں نے اپنے باغ میں پال رکھے تھے وہ آرام کرسی پر بیٹھے بڑے انہماک سے لاہور کے ایک فلمی رسالے چترا ویکلی میں ’’سوال و جواب‘‘ کا مطالعہ کر رہے تھے۔۔۔۔
سوال: نسیم بانو کی لڑکی کا کیا نام ہے؟
جواب: افسوس کہ نسیم بانو نے اپنی لڑکی کے نام کرن سنسکار پر ہمیں نہیں بلایا تھا۔
مجھے آرام کرسی کے پیچھے سے جھانکتے دیکھ کر بولے۔۔۔۔ ’’جائیے باغ میں جا کر کھیلیے۔ یہ رسالہ آپ کے پڑھنے کا نہیں ہے۔‘‘
دلارے چا کے بارہ دروازوں والے طویل دالان کی دیوار پر ایکٹرسوں کی تصاویر ایک قطار میں آویزاں تھیں۔ ارملین، پیشنس کوپر، وائلیٹ کوپر، زبیدہ، سلطانہ، مہتاب، گوہر، دیویکا رانی، رتن بائی، ببّو، پدما دیوی، مس روز، سلوچنا، مادھوری، رمولا، ان کی ساڑیوں پر ابرق لگی تھی اور شام کو جب دالان کے جھاڑ فانوس روشن کیے جاتے تو وہ تصویر جگمگا اٹھتیں۔ اس قطار میں ایک جگہ خالی تھی۔ معلوم ہوتا تھا کہ اس جگہ پر لگی تصویر کو اتار دیا گیا ہے۔ جب سے میں نے ہوش سنبھالا وہ جگہ خالی دیکھی۔ مگر بزرگوں نے ہم سب بچّوں کو سمجھا کر رکھا تھا کہ دلارے چا سے کبھی اس خالی جگہ کے متعلق دریافت نہ کریں کہ وہاں کس کا فوٹو گراف آویزاں تھا۔ دلارے چا کی زندگی کا وہ ایک ایسا المناک گوشہ تھا جس کی پردہ داری مارے وضع داری کے سب مل کر کرتے تھے۔
جیسا کہ میں نے شروع میں عرض کیا نجیب الطرفین نہ ہونے کے کارن ان کا بیاہ خاندان یا برادری میں نہ ہو سکتا تھا۔ جوانی میں وہ خاصے طرح دار رہے ہوں گے مگر عیاش یا آوارہ بالکل نہیں تھے۔ سنیما کا بے حد معصوم سا شوق رکھتے تھے۔ ایک بار دوستوں کے ساتھ شکار کھیلنے بھوپال کی طرف گئے۔ وہاں سے بمبئی پہنچے۔ وہاں ریس کورس پر ایک ایکٹرس ملی۔ وہ ان پر ریجھ گئی۔ وہ اچھی خاصی مشہور اور بے حد حسین اداکارہ تھی اور غالباً شاہی محلہ لاہور سے تعلق رکھتی تھی۔ اور کسی شریف آدمی سے نکاح کر کے شریفانہ زندگی گزارنے کی از حد متمنّی تھی۔
دلارے چا کی نیک دلی اور بھولپن پہلی ملاقات ہی میں لوگوں پر ظاہر ہو جاتا تھا۔ وہ ایکٹرس سنا ہے ان پر عاشق ہو گئی۔ دلارے چا ’’بڑی لائن‘‘ کے چشم و چراغ ہوتے تو ایک ایکٹرس سے بیاہ کرنے کی ہمت نہ کر سکتے۔ بے چارے پہلے ہی سے راندہ درگاہ تھے۔ محض اس وجہ سے کہ ان کی ماں میراثن تھیں ان کو ’’ٹاٹ باہر‘‘ سمجھا جاتا تھا۔ انہوں نے خاموشی سے اسی اداکارہ سے عقد کر لیا اور برقعہ اڑھا کر اسے وطن لے آئے۔
حسب توقع ان کے خاندان اور برادری کی بیگمات نے ان کی بیوی سے پردہ کیا۔ دلارے چا اسے لے کر گرمیاں گزارنے مسوری گئے۔ واپسی پر ہمارے ہاں دہرہ دون آئے۔ راقم الحروف کی والدہ کے متعلق غالباً انہوں نے سوچا ہو گا کہ اتنی روشن خیال مصلح قوم خاتون ان کی منکوحہ کو ضرور شرف باریابی بخشیں گی۔
میں اس سہ پہر پھاٹک کے قریب لگے سلور اوک کے تنے پر گلہریوں کی آمد و رفت ملاحظہ کر رہی تھی۔ کہ ایک تانگہ وارد ہوا۔ دلارے چا سیٹ پر ایک ٹانگ رکھے رئیسانہ انداز سے براجمان، برابر سنہرے ریشمی برقعے میں ملفوف ایک خاتون۔ تانگہ برساتی میں پہنچا۔ میں پیچھے دوڑی۔
دلارے چا نے کہا۔ ’’بی بی جا کر بھابی صاحب سے عرض کیجئے۔ دلارے آیا ہے۔ دلارے اور اس کی اہلیہ قدم بوسی کے لیے حاضر ہوئے ہیں۔ میں نے تیر کی طرح اندر جا کر امّاں سے کہا۔ وہ اپنے دور کی مشہور، ناول نگار اور سوشل ریفارمر خاتون تھیں۔ ستار بجاتی تھیں اور کار چلاتی تھیں لیکن ایکٹرسوں سے ملنے کی وہ بھی روا دار نہ تھیں۔
انہوں نے بے زاری کے ساتھ جواب دیا ’’کہہ دو میری طبیعت خراب ہے، بلڈ پریشر بڑھا ہوا ہے۔ ڈاکٹر نے ملنے جلنے کو منع کر دیا ہے۔‘‘ میں نے باہر جا کر پیغام دہرایا۔ دلارے چا تانگے سے اتر کر برآمدے کے نیچے ٹہل رہے تھے۔ میری بات سن کر ان کا چہرہ اتر گیا۔ یقیناً ان کو میری والدہ سے اس رویّے کی توقع نہ تھی۔ انتہائی مایوس آواز میں بولے۔ ’’بہت خوب۔ ہم دونوں کی تسلیم عرض کر دینا۔‘‘ واپس جا کر سیٹ پر بیٹھ گئے۔
برقعہ پوش خاتون نے اب تک نقاب نہ الٹی تھی۔ اسی طرح نقاب ڈالے ہوئے وہ تانگے سے اتریں۔ برقعے میں سے ہاتھ نکال کر ولایتی گڑیا کا ایک بڑا سا ڈبّہ برآمدے کے فرش پر سرکا دیا۔ شاید سوچا ہو کہ ان کے ’’ناپاک‘‘ ہاتھوں سے گڑیا بھی نہ لوں گی۔ وہ تانگے میں سوار ہوئیں۔ تانگہ برساتی سے باہر نکل گیا۔ اس زمانے میں فلمی پریس، گوسپ کالم، فلمی رپورٹر یہ سب کچھ نہیں تھا۔ اداکاروں کے اسکینڈل، معاشقے، طلاقیں، شادیاں اور آج کی طرح قومی اہمیت کے مسائل نہ بنی تھیں۔ فلم اسٹارز کی معاشرے میں کوئی حیثیت ہی نہیں تھی۔ لہٰذا اس بے چاری کی دلارے چا سے شادی کا بالکل چرچا نہ ہوا۔ حالانکہ وہ گل بکاؤلی اور حاتم طائی قسم کی پکچروں کی خاصی مقبول ہیروئن تھی۔
مسوری سے واپس جا کر دلارے چا اتنے دل برداشتہ ہوئے کہ اس کو اپنے قصبے والی حویلی میں نہیں اتارا۔ سیدھے اپنے علاقے پر لے گئے جہاں ان کا دیہاتی مکان خالی پڑا تھا۔ اس کے بعد دلارے چا ہفتے میں دو تین دن کے لیے قصبے والے مکان پر آتے پھر گاؤں چلے جاتے جہاں ان کی بیوی ان کی خدمت گذاری، نماز روزے اور خانہ داری میں مصروف سات پردوں میں مستور ہیں اور صرف دو سال بعد بعارضہ یرقان راہی ملک عدم ہوئیں۔
سنا ہے مرتے وقت بہت خوش اور احسان مند تھیں کہ ایک باعزت گرہستن کی حیثیت سے دنیا سے جا رہی تھیں۔ سنا ہے ان کی یہ بات سن کر دلارے چا پھوٹ پھوٹ کر روئے۔ ان کے چہلم کے بعد اداس اور دل شکستہ دلارے چا قصبے واپس آ کر رفتہ رفتہ پھر اپنے مشاغل میں لگ گئے۔ ان کے دیوان خانے کی اس پکچر گیلری میں بملا کماری، رتن بائی، مایا بنرجی وغیرہ کی قطار میں اس اداکارہ کی تصویر بھی موجود تھی جو اسے بیاہ لانے کے بعد دلارے چا نے تلف کر دی تھی۔ تب سے اس رنگین فوٹو گراف کی جگہ خالی پڑی تھی، اور اب تو وہ حسینہ دنیا ہی میں اپنی جگہ خالی کر گئی تھی۔
دلارے چا کی اس ذاتی ٹریجڈی کا تذکرہ بالکل نہیں کیا جاتا تھا کیوں کہ سب کو معلوم تھا کہ وہ مرحومہ دلارے چا کی بہت ہی نیک اور اچھی بیوی ثابت ہوئی تھیں اور وہ اس سے بہت محبت کرنے لگے تھے۔
سماجی رویّوں میں بھی تبدیلی آتی جا رہی تھی۔ علی گڑھ گرلز کالج کے بانی شیخ محمد عبد اللہ کی صاحبزادی خورشید آپا رینوکا دیوی بن کر اچانک تہلکہ مچا چکی تھیں۔ جب اس کی بھاوج ’’پُر اسرار نینا‘‘ کے روپ میں پردۂ سیمیں پر آئیں لوگوں کو اتنا ذہنی دھکّا نہ لگا۔ اور اس کے کچھ عرصے بعد علی گڑھ کی زبیدہ حق عرف پارے، بیگم پارہ میں تبدیل ہوئیں۔ اس وقت تک دوسری جنگ عظیم ہندوستان میں خاصے سما جی انقلاب لا چکی تھی۔ دلارے چا اب اپنی بیٹھک کی آرام کرسی یا اپنے آم کے باغ میں بیٹھے بھروسہ کے چندر موہن، جمنا کی زندگی، نسیم بانو کی میں ہاری، کاردار کے پاگل، محبوب کی عورت اور بمبئی ٹاکیز کی فلموں پر روشنی ڈالا کرتے۔۔۔۔
’’میں ہاری میں جب وہ کہتا ہے جو تم کوئلوں کو دھونا چاہتی ہو۔۔۔۔ اور وہ گانا۔۔۔۔ پنگھٹ پہ اک چھبیلی پانی بھرن کو آئی۔۔۔۔ کیا فلم تھی صاحب۔‘‘
اسی زمانے میں ایک نئی ایکٹرس کی دھوم مچی۔ احباب نے تفصیلات کے لیے فوراً دلارے چا سے رجوع کیا۔ فرمایا۔ ’’ارے میاں! وہ اپنے منجھلے میاں ہیں نا، ان کے تایا ابّا، تم جانو ماہر فن گانے بجانے والوں کے بڑے قدر دان تھے اور بڑے دریا دل۔ ان کے دو مصاحب بہترین ستاریئے تھے اور دونوں سید زادے۔ اس لڑکی کی ماں بڑی مشہور گائیکہ ہیں۔ تو وہ منجھلے میاں کے ہاں مجرے کے لیے بلائی گئی تھیں۔ ان کی اپنی فلم کمپنی بھی تھی۔ تو وہ ان دونوں استادوں کو اپنے ساتھ کلکتہ لے گئیں۔ دونوں مشہور میوزک ڈائرکٹر بنے۔‘‘
دلارے چا کی انسائیکلو پیڈیائی معلومات پر سامعین عش عش کرتے۔ لیکن مینا کماری کے دور تک پہنچتے پہنچتے دلارے چا کی دلچسپی سنیما میں مدھم پڑ گئی۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ زمین داری کے خاتمے کے بعد دلارے چا شدید مالی پریشانیوں میں مبتلا ہو چکے تھے۔ ساری زندگی بے فکری اور خوش حالی میں گزاری تھی۔ بیش تر مسلمان زمین داروں کے مانند کھانے کھلانے میں روپیہ اڑایا تھا۔ ان کے دسترخوان پر صبح شام دس دس احباب اور مصاحبین ان کے ساتھ بیٹھے تھے۔ اب اچانک ان کو افلاس اور تنہائی کا سامنا کرنا پڑا۔
ان کے ’’بڑی لائن‘‘ والے سارے رشتے دار کراچی سدھارے، قصبے کا نقشہ بدل گیا، ایک وقت تھا کہ دلارے چا کی بیٹھک میں بھانت بھانت کے دلچسپ لوگوں کا جمگھٹا رہتا۔ محلے کے ایک بزرگ ہر لحاظ سے صحیح الدماغ تھے۔ محض ایک خبط لاحق تھا کہ شہزادی ایلزبتھ سے بیاہ کریں گے۔ شہزادی کی تصویریں ساتھ لیے گھومتے۔ نہایت سنجیدگی سے کہتے، بکھنگم پیلیس میں بادشاہ سلامت نے میرے لیے کمرے ٹھیک کروا دیئے ہیں مگر میں تو اسے رخصت کرا کے یہیں لاؤں گا اور پردے میں رکھوں گا۔ دلارے چا بے حد متانت کے ساتھ ان بزرگ سے شہزادی ایلزبتھ کے متعلق گفتگو کرتے۔
ایک خستہ حال مغل شہزادے جو قصبے میں حکمت کرتے تھے شام کے وقت اپنا مطب بند کر کے جھکے جھکے عصا ٹیکتے آ کر دلارے چا کے پاس بیٹھ جاتے اور ان کو اپنے وہ کرم خوردہ قانونی کاغذات دکھایا کرتے جن کے ذریعے وہ دلارے چا کی مدد سے گورنمنٹ آف انڈیا پر قلعہ آگرہ کی ملکیت کا دعویٰ دائر کرنا چاہتے تھے۔ دلارے چا بڑی درد مندی سے ان کی گفتگو سنا کرتے۔ ایک اور صاحب کا ارشاد تھا کہ عالم برزخ میں ریڈیو اسٹیشن کھل گیا ہے۔ آدھی رات کے بعد وہ اپنے ریڈیو سیٹ پر مختلف آنجہانی مشاہیر عالم کی تقاریر اور دوسرے پروگرام سنا کرتے ہیں۔ مثلاً کل رات جان کی بائی نے غضب کی کجری گائی یا یہ کہ بسمارک کل اپنی تقریر میں کہہ رہا تھا۔۔۔۔ وغیرہ۔ بعد میں دلارے چا کہتے۔
’’میاں یہ بے چارے ان تصورات میں مگن ہیں۔ اختلاف رائے کر کے ان کے دل کیوں توڑو۔‘‘ طرزِ تپاک اہل دنیا نے خود دلارے کا دل بہت جلایا تھا مگر وہ ہمیشہ مسکرایا کیے۔ حال میں مدت مدید کے بعد دلارے چا سے ملاقات ہوئی۔ اپنی اجاڑ بیٹھک میں آرام کرسی پر لیٹے پیچوان کے کش لگا رہے تھے۔ عمر پچھتّر برس کے قریب ہو چکی تھی۔
بوڑھے کمزور اور تنہا، میں نے چاروں طرف نظر ڈالی۔ چھت خالی پڑی تھی۔ جھاڑ فانوس بک چکے۔ فرش پر سے قالین غائب، دیوار پر پرانی ایکٹرسوں کی تصاویر البتہ موجود تھیں۔ اور بالکل زمانہ قبل از مسیح کی یادگار معلوم ہو رہی تھیں۔ بملا کماری، لیلا ڈیسائی اور سلطانہ کی تصاویر کے پیچھے چڑیوں نے گھونسلے بنا لیے تھے۔ ویرانی اور اداسی در و دیوار سے ٹپک رہی تھی۔ میں نے سوچا دلارے چا کو ان کے محبوب تذکروں سے ذرا چیر اپ کرنا چاہئے۔
’’دلارے چا۔۔۔۔‘‘ میں نے سلطانہ کی تصویر کی طرف اشارہ کر کے کہا ’’واقعی بڑی خوب صورت خاتون ہے۔ میں نے کراچی میں جب دیکھا اس وقت تک بے حد حسین تھی۔‘‘
’’ہاں بی بی۔۔۔۔‘‘ دلارے چا سنبھل کر بیٹھ گئے۔ ’’کیؤں نے اس کے عشق میں مبتلا ہو کر خود کشی کر لی تھی۔‘‘
’’اس سے ایک انڈسٹریلسٹ رزاق باؤلا نے شادی کر لی۔ اس کی لڑکی جمیلہ سے پاکستان کے ایک مشہور کرکٹ کھلاڑی نے بیاہ کر لیا ہے۔‘‘
دلارے چا فارم میں آ گئے۔ بولے۔۔۔۔ ’’رزاق باؤلا کے بڑے بھائی کو ایک مہاراجہ نے قتل کروا دیا تھا ممتاز بیگم کے چکّر میں۔ پھر وہ ہالی وڈ چلی گئی۔‘‘
’’اس زمانے میں بھی لوگ یہاں سے ہالی وڈ چلے جاتے تھے؟‘‘ میں نے تعجب سے پوچھا۔
’’کیوں نہیں۔ کیا صرف تمہارا زمانہ ہی سب کچھ ہے پچھلا زمانہ کچھ نہیں تھا۔۔۔۔؟‘‘ وہ ذرا رنجیدہ ہو کر پھر پیچوان کی طرف متوجہ ہوئے۔
میں نے تصاویر کی نچلی قطار پر نظر دوڑائی۔ گل حمید۔ راجہ سینڈو، ای بلی موریہ۔ ماسٹر وٹھل، موتی لال، ماسٹر نثار۔
میں نے کہا ’’دلارے چا چند سال ہوئے سپلا والے ڈاکٹر حمید کے لڑکے کی شادی میں ایک قوال پارٹی گا رہی تھی۔ قوالوں کی پچھلی صف میں بیٹھا ایک منجی اور خستہ حال آدمی نحیف سی آواز میں ساتھ دے رہا تھا۔۔۔۔ کسی نے بتایا کہ وہ ماسٹر نثار تھے۔‘‘
’’افسوس۔‘‘ دلارے چانے کہا۔ ’’وہ شخص جب ہم بمبئی گئے تھے اپنی رولز رائس رکھتا تھا۔‘‘
’’جی۔۔۔۔ اور کوئی ایکٹرس لکھنؤ کی دلوچنا تھی؟‘‘
’’ ہاں۔۔۔۔ ہاں۔۔۔۔ تھی۔۔۔۔ کہو۔۔۔۔ وہ اب بال سرخ رنگے ایک ڈرائیونگ اسکول میں عورتوں کو موٹر چلانا سکھاتی ہے۔‘‘
دلارے چا نے ایک آہ بھری۔ دفعتاً مجھے خیال آیا کہ بجائے چیر اپ کرنے کے دلارے چا کو اور اداس کر رہی ہوں۔ لہٰذا میں بشاش لہجے میں بات شروع کی۔ ’’دلارے چا معلوم ہے ان دنوں بولتے فلموں کی گولڈن جوبلی منائی جا رہی ہے؟‘‘
’’اچھا‘‘۔۔۔۔ انہوں نے چونک کر پوچھا۔۔۔۔ ’’کل کی تو بات ہے ہم عالم آرا دیکھنے گئے تھے دلّی۔۔۔۔‘‘
دلارے چا مزید دل گرفتہ نظر آئے۔ میں ان کے لیے انگریزی اور اردو کے تازہ فلمی رسالے ساتھ لیتی گئی تھی، پیش کیے۔
’’بی بی! موتیا بند کی وجہ سے صاف سمجھائی نہیں دیتا۔ یہاں اس قصبے میں بڑے بڑے سنیما ہال کھل گئے۔ گھر گھر ٹیلی ویژن لگ گیا اور تو اور ایک خان صاحب ہیں گے۔ نیپال کے راستے غیر قانونی کاروبار کرتے ہیں۔ ان کے نو دولتیے لڑکوں نے اپنے نئے مکان میں ایک ڈسکو روم بنایا ہے۔ پڑوس میں رات بھر شور مچتا ہے۔ نیند نہیں آتی۔‘‘
’’دلارے چا۔۔۔۔‘‘ میں نے ایک انگریزی فلمی رسالہ ان کے سامنے رکھا اور پھر ان کو بشاش کرنے کی سعی کی۔۔۔۔
’’یہ دیکھئے یہ ایک اور پاکستانی لڑکی لندن سے بمبئی آئی ہے فلموں میں کام کرنے۔ لکھا ہے اس کی ماں نے شاہجہاں فلم میں کام کیا تھا۔ ذرا پہچانیے تو سہی۔۔۔۔‘‘ دلارے چا نے تصویر کو غور سے دیکھا۔ آنکھوں میں پرانی چمک واپس سی آ گئی۔ اپنے پرانے جانکاری والے انداز سے سر ہلا کر بولے۔
’’سمجھ گیا۔ ایک انور بائی آف امرتسر ہوا کرتی تھی۔ ریڈیو والے جُگل کشور مہرہ نے اسلام قبول کر کے اس سے عقد کر لیا تھا اور شیخ احمد سلمان اپنا نام رکھا تھا۔ پاکستان چلے گئے تھے۔ انور بائی کی لڑکی تھی نسرین شاہجہاں فلم کی ہیروئن۔‘‘ چند لمحوں کے لیے پرانے دلارے چا واپس آ گئے تھے۔
مجھے یاد آیا شیخ احمد سلمان ریڈیو پاکستان کے ڈائرکٹر جنرل تھے اور سید امتیاز علی تاج اور ان کے بڑے بھائی سید حمیدہ علی مرحوم کے گہرے دوست۔ لاہور سے کراچی آ کر حمید بھائی ان کے ہاں ٹھہرتے تھے۔ ایک مرتبہ نسرین نے میری والدہ کو فون کر کے پوچھا تھا کہ حمید علی صاحب کب تک آ رہے ہیں اور اپنا تعارف کرایا تھا کہ وہ شیخ احمد سلمان کی بیٹی ہیں (اس طرح کی قطعی غیر ضروری باتیں میرے دماغ میں خوب محفوظ رہتی ہیں)
میں نے کہا۔ ’’جی ہاں دلارے چا شاید یہ۔۔۔۔‘‘ لیکن دلارے چا پر غنودگی طاری ہو چکی تھی۔
میں اٹھ کر طویل ڈھنڈار دالان میں ٹہلنے لگی۔ سارا فرنیچر فروخت کیا جا چکا تھا۔ ایک گوشے میں دقیانوسی گراموفون اور ریکارڈ ابھی موجود تھے۔ میں نے وہ قدیم ریکارڈ الٹے پلٹے۔ ایک ریکارڈ مختار بیگم کا نکلا۔ جن بولو تارا تارا۔۔۔۔ تب مجھے ایک اور بات یاد آئی۔
لکھنؤ میں ایک صاحب تھے جن کے چھوٹے بھائی فلم ڈائرکٹر بن گئے تھے۔ ایک فلم ’کاروانِ حسن‘ ڈائریکٹ کی تھی اور اس کی ہیروئن سے شادی کر لی تھی۔ بچپن میں جب میں ان صاحب کی سالی کے ساتھ کھیلنے ان کے ہاں جاتی تو سابق ہیروئن تارا ماتھے تک دوپٹّے سے سر ڈھانپے تخت پر بیٹھی نماز پڑھتی نظر آتی تھیں۔ پیاری سی شکل تھی۔ میری ہمجولی نے یہ بھی بتایا تھا کہ مختار بیگم کا مشہور گیت ’’جن بولو تارا تارا‘‘۔۔۔۔ ان ہی کے لیے کمپوز کیا گیا تھا۔
میں نے پلٹ کر دریافت کیا۔۔۔۔ ’’یہ فریدہ خانم مختار بیگم کی بہن ہے یا بیٹی۔۔۔۔؟‘‘ لیکن دلارے چا بڑھاپے کی پریشان نیند میں ڈوب چکے تھے۔ ایک پرندہ رتن بائی کی تصویر کے پیچھے سے پر پھڑپھڑاتا نکلا۔ میں نے اس کے برابر والی خالی جگہ کو دیکھا۔ آج تک دلارے چا سے پوچھنے کی ہمت نہیں پڑی کہ ان کی گمنام اور نادیدہ پردہ نشین اہلیہ کون تھیں جن کی تصویر دلارے چا نے اس دیوار پر سے اس امید میں اتار دی تھی کہ شاید معاشرے میں ان کو جگہ مل جائے۔ لیکن وہ جگہ ان کو نہ ملی تھی۔
میں نے مختار بیگم کا ریکارڈ لگایا۔ گھسی ہوئی آواز نکلی۔۔۔۔ جن بولو تارا تارا جن بولو تارا تارا، جن بولو تارا۔۔۔۔
دلارے چا مضمحل سے خرّاٹے لے رہے تھے۔ میں بیٹھک سے باہر آ گئی۔
پس نوشت: ۔ چند روز قبل دلارے چا اس جہان سے گزر گئے۔ گاؤں میں اپنی گمنام اہلیہ کے نزدیک سپرد خاک کیے گئے۔ دوسری طرف ان کی والدہ کی قبر ہے۔ ان کو بھی معاشرے نے قبول نہیں کیا تھا۔ قصبے میں دلارے چا کا مکان ان کی ’’بڑی لائن‘‘ کے ایک رشتے دار کو مل گیا۔ بیٹھک کی تمام تصاویر نکال کر پھینک دی گئیں۔ اس میں ایک سیاسی پارٹی کا دفتر کھل گیا ہے۔
٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...