کئی دنوں کے بعد آج اس نے پوری لگن اور شوق سے کھانا پکایا تھا۔کیونکہ اسے معلوم تھا کہ یہ بے ضابطگی جبران مزید برداشت نہیں کرنے والا نہیں تھا ۔قبل اس کے کہ وہ اپنی زبان سے کچھ کہتا وہ نارمل ہو جانا چاہتی تھی۔اپنے سارے درد کو دل کی قبر میں دفن کر کے وہ نا چاہتے ہوئے بھی نارمل ہو رہی تھی ۔
آج اسنے انڈین کھانا پکایا تھا ۔کم مرچ اور ہلکے مصالحے کی بریانی اور چکن قورمہ جبران کو بہت پسند تھا۔بریانی اور چکن کو ہاٹ پاٹ میں منتقل کر کے اس نے انہیں میز پر لگا دیا ۔پلیٹ الٹ کر رکھنے کے بعد اس نے اسکے دائیں بائیں نائف اور فورک رکھا۔ہر چیز مکمل تھی پھر بھی تشنگی کا احساس ذہن میں کانٹے کی طرح چبھتا تھا۔کچن کاؤنٹر پر رکھا احنف کا فیڈر اسکی آنکھوں میں پانی بھر گیا ۔سر جھٹک کر اسنے فیڈر کو کیبنٹ میں ڈال دیا۔اسے اسکی چیزیں گھر سے ہٹا دینی چاہئے ۔ورنہ اسکے لئے اپنی زندگی کے لمحے گزارنا بہت مشکل ہو جائیگا۔
دروازے کی بیل بجی۔آنکھوں کے گوشے پونچھتی وہ دروازے تک آئی اور دروازہ کھولا۔
جبران کے ساتھ کسی اجنبی کو دیکھ کر اسنے اپنے شانوں پر پڑا دوپٹہ سر پر ڈالا۔
“انہیں کیا ہوا ہے؟” اسکے لہجے میں حیرانی تھی۔جبران بالکل اپنے ہوش میں نہیں لگ رہا تھا ۔اُس دوسرے شخص کے کندھوں کا سہارا لئے اسے اپنے پیروں پر کھڑا ہونا بھی مشکل لگ رہا تھا ۔
“آپ پلیز میری مدد کریں ۔آج اس نے بہت زیادہ ڈرنک کر لی ہے ۔”
زنیرہ کے قدم تو وہیں جم سے گئے تھے۔اسکے لئے یہ یقین کرنا مشکل تھا کہ جبران ڈرنک کر کے گھر آیا ہے ۔
وہ دو قدم پیچھے ہوئی۔اسے اس وقت جبران سے بہت کراہت آئی تھی۔
“آپ انہیں یہیں صوفے پر لٹا دیں ۔” اسنے ناگوار انداز میں کہا ۔
وہ شخص جبران کو صوفے پر لٹا کر اسکی طرف متوجہ ہوا۔
“میں جبران کا دوست اور اسکی کمپنی کا انویسٹر پارکر ہوں ۔اور آپ۔۔۔” اسنے اسکی طرف بے حد گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا ۔
“میں انکی وائف ہوں ۔انہیں گھر لانے کے لئے آپکا بہت شکریہ۔اور اب یہاں سے تشریف لے جا کر مزید شکریہ کا موقع دیں ۔” اسنے بہت بد اخلاقی سے کہا ۔وہ اس شخص کو ایک سکنڈ کے لئے بھی اپنے سامنے برداشت نہیں کر پارہی تھی۔اسکی نظریں اسے مشتعل کرنے کے لئے کافی تھیں ۔
“ایک کپ گرم کافی مل جاتی تو۔۔۔”پارکر نے ڈھٹائی سے کہا۔
“میں اجنبیوں کو سرو نہیں کرتی۔آپ جا رہے ہیں یا میں گارڈ کو بلاؤں۔” اسنے تیز لہجے میں کہا ۔
وہ اسکی طرف ایک مسکراہٹ اچھالتا چلا گیا تھا ۔اسکے جانے کے بعد اس نے جبران کو دیکھا۔وہ آنکھیں بند کیے صوفے پر پڑا تھا۔اسنے اپنے اندر نفرت کی شدید لہر اٹھتی محسوس کی۔وہ اسے وہیں چھوڑ کر کمرے میں چلی آئی تھی۔
بستر پر لیٹنے کے بعد بھی اسے نیند نہیں آئی۔وہ کافی دیر تک سونے کی کوشش کرتی رہی ۔اسے غیر ارادی طور پر جبران کی فکر ہو رہی تھی۔وہ سردی میں یونہی سو رہا تھا ۔پتہ نہیں اسنے کھانا بھی کھایا ہوگا یا نہیں ۔جھلا کر اسنے اپنے سر پر ہاتھ مارا اور اٹھ کر بیٹھ گئی۔وہ کیوں اسکی پروا کونا نہیں چھوڑ پاتی تھی؟
بیڈ سے پیر لٹکا کر اسنے سلیپر پہنا اور باہر آئی۔وہ صوفے پر آڑا ترچھا لیٹا ہوا تھا اور ایک بازو فرش پر نیچے لٹک رہا تھا۔اسکے قریب آ کر فرش پر بیٹھتے ہوئے اسنے اسکے دونوں پیروں سے جوتے اتارے۔اسکے گلے سے ٹائی نکال کر میز پر رکھی۔وہ اسکے سر کے نیچے تکیہ لگا رہی تھی جب جبران نے اپنی آنکھیں کھولیں۔اسکی سرخ آنکھوں اور منہ سے اٹھتی ہوئی بو نے اسے ایک بار پھر کراہیت کا احساس کرایا۔
“مجھے بھوک لگی ہے ۔” وہ نشے میں ڈوبی آواز میں کہہ رہا تھا ۔
وہ پلیٹ میں اسکے لئے بریانی نکال کر اسکے پاس لے آئی۔
وہ اٹھ کر بیٹھ گیا ۔چمچ میں بریانی بھر کر وہ اسے اپنے منہ تک لے گیا تھا ۔مگر آدھا لقمہ نیچے گرا اور آدھا اسکے کپڑوں پر۔وہ دوسری بار چمچ پلیٹ تک لے گیا تھا ۔اور بریانی کی تلاش میں چمچ کو وہ ادھر اُدھر میز پر مار رہا تھا ۔
“خالی پلیٹ لا کر رکھ دی ہے تم نے ۔” وہ غصے سے بولا۔
زنیرہ نے کوئی جواب دئیے بغیر اسکے ہاتھ سے چمچ لیا اور چھوٹے چھوٹے نوالے اسکے منہ میں ڈالنے لگی ۔پوری پلیٹ ختم کرا کر اسکے لبوں سے پانی کا گلاس لگا دیا۔
“جبران کمرے میں چلوگے۔” اسنے اسکے منہ کو نیپکن سے صاف کرتے ہوئے کہا ۔
” یہ کمرہ نہیں ہے تو کیا ہے۔کیا میں کسی سڑک پر بیٹھا ہوں ۔” وہ جیسے برا مان کر بولا۔
“میرا مطلب ہے بیڈروم میں ۔” اسنے نرمی سے جواب دیا ۔”چلو میں تمہیں لے چلتی ہوں ۔تم وہاں آرام سے سو سکتے ہو ۔”
” تمہیں میری فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔” وہ برہمی سے کہتا لیٹ گیا تھا۔
ایک گہری سانس لیتی وہ کھڑی ہو گئی ۔اسکے اوپر کمبل ڈال کر ہیٹر کا سوئچ آن کرنے کے بعد وہ کمرے میں چلی آئی۔اسکا شوہر شرابی تھا۔اس بات نے اسے بہت تکلیف دی تھی۔حالانکہ اس معاشرے میں ان سب چیزوں سے بچنا مشکل تھا۔مگر پھر بھی جبران کے ساتھ گزرے ان ڈیڑھ سالوں میں اس نے کم از کم یہ برائی اس سے دور دیکھی تھی ۔اور اسے اس بات کا فخر بھی تھا۔مگر آج وہ سارا فخر اور مان کچھ لمحوں میں ہی زائل ہو چکا تھا ۔
________
اوون میں گرم کرنے کے لئے ہیم برگر ڈالتا پیٹر دروازے پر مسلسل بجتی بیل سے چونکا۔کچن ٹاول سے ہاتھ صاف کرتا وہ دروازہ تک گیا۔ڈور ناب گھما کر دروازہ کھولنے پر اسے سیاہ ڈنر سوٹ میں ملبوس ایلن دکھائی دیا تھا۔
“بیل بجانے کی کیا ضرورت تھی ۔تمہیں تو میرا پاسورڈ معلوم ہے یونہی آ جاتے۔” اسے اندر آنے کا اشارہ کر کے وہ پلٹ گیا۔کچن ایریا میں آ کر اسنے کافی کا پانی چڑھا دیا ۔ایلن بھی اسکے پیچھے وہیں آ گیا تھا ۔کچن کاؤنٹر سے ٹیک لگائے وہ خالی نظروں سے خلا میں گھور رہا تھا ۔
” تمہیں کیا ہوا ہے؟ “پیٹر نے اوون سے ہیم برگر نکالتے ہوئے پوچھا۔
“کچھ نہیں ۔” اسنے سپاٹ لہجے میں کہتے ہوئے اپنی نظریں کافی کے لئے ابلتے پانی کی طرف مرکوز کر لیں ۔
پیٹر نے گہری سانس لیکر برگر کو پلیٹ میں منتقل کیا اور اسکی طرف بڑھایا۔
“میرا موڈ نہیں ہے ۔” اسنے ہاتھ ہلا کر انکار کیا ۔
“تھوڑا تو کھاؤ۔کل رات ہی میں نے بڑی محنت سے بنایا ہے ۔”
“کافی۔۔۔مجھے بلیک کافی چاہیے ۔” اسنے بھرائی آواز میں کہا ۔
لاپروائی سے شانے اچکاتے ہوئے پیٹر نے اسکے لئے بلیک کافی اور اپنے لئے کریم والی کافی بنائی۔وہ دونوں اپنے ہاتھ میں مگ پکڑے ہوئے لاؤنج میں آ گئے۔
صوفے پر بیٹھتے ہوئے ایلن نے تلخ کافی کا ایک بڑا گھونٹ حلق میں انڈیلا۔
” میرے خیال میں تم اپنی مام کی شادی سے واپس آ رہے ہو کسی جنازے سے نہیں ۔تو اپنی شکل پر بارہ کیوں بجایا ہوا ہے ۔” پیٹر رموٹ اٹھا کر ٹی وی آن کرتا ہوا بولا۔
“مام جوزف کے ساتھ ہمیشہ کے لئے پیرس جا رہی ہیں ۔میں اب ان سے کبھی نہیں مل سکتا۔” کافی مگ میز پر رکھتے ہوئے اسنے بے بسی سے کہا۔
پیٹر نے اپنی کافی میز پر رکھی اور اپنے بائیں ہاتھ سے اسکا بازو تھپکا۔
“ایلن! اٹس اوکے۔انہیں اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارنے کا پورا حق ہے ۔”
“” مجھے کچھ اور تلخ دو پیٹر! بے حد تلخ چیز ۔تاکہ میرے اندر کی کڑواہٹ اسکی تلخی سے ماند پڑ جائے ۔”اسکی بات نظر انداز کر کے وہ کہہ رہا تھا ۔
“ایلن! تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ “پیٹر نے پریشان کن انداز میں کہا ۔
” تم رہنے دو۔میں خود ہی لے لیتا ہوں ۔”وہ صوفے سے اٹھ کر الماری تک آیا ۔وہاں سے اس نے فرنچ وائن کی بوتل نکالی اور واپس صوفے تک آیا۔
پیٹر نے جھک کر میز کے نچلے خانے سے دو گلاس نکالا مگر تب تک وہ بوتل کی کاگ کھول کر اسے منہ سے لگا چکا تھا ۔
“یہ گلاس۔۔۔ہم ساتھ میں پیتے۔۔۔یار پانی تو ملا لو۔۔۔”وہ اسکی کیفیت سے بہت پریشان ہو رہا تھا ۔
ایلن نے آدھی بوتل یونہی ختم کر دی تھی۔جب پیٹر نے دیکھا کہ وہ دوبارہ بوتل لبوں سے لگانے جا رہا ہے تو اس نے ہاتھ بڑھا کر بوتل اسکے ہاتھ سے لے لی۔
“کیا کر رہے ہو؟ مجھے اور پینے دو۔”وہ لڑکھڑاتی آواز میں بولا۔اسکی نیلی آنکھوں میں سرخی چھانے لگی تھی ۔
“اب تم مزید نہیں پیوگے۔” اسنے سخت لہجے میں کہتے ہوئے بوتل پرے رکھ دی۔
“میں تمہیں اس پوری بوتل کے دوگنے پیسے دونگا۔”
“یہ ہمارے بیچ پیسے کہاں سے آ گئے۔” وہ خفا ہوا۔” تمہارے لئے ایک بوتل کیا پوری بیرل بھی معنی نہیں رکھتی ۔مگر تمہیں مزید پینے کی اجازت نہیں دونگا۔”
” سوری پیٹر! میرا دماغ خراب ہو گیا ہے ۔کیا کروں یہ درد دل سے نکلتا ہی نہیں ۔”اسکی آواز بھرانے لگی تھی ۔
” میں ہوں نا تمہارے ساتھ ۔کیوں خود کو اتنی تکلیف دے رہے ہو۔”وہ اسکے دونوں کندھوں پر ہاتھ رکھتا بولا۔
” تم تو مجھے تنہا چھوڑ کر نہیں جاؤگے ۔ہمیشہ میرے ساتھ رہنا۔تمہارے بغیر میں بہت اکیلا ہو جاؤنگا پیٹر! “اسکے کندھے پر سر رکھے وہ بچوں کی طرح روتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔
” اوہو! “پیٹر نے برا سا منہ بنایا۔” یہ سارے روژا والے سین تم میرے ساتھ کیوں کرتے ہو ۔” اسنے ہلکے پھلکے انداز میں کہتے ہوئے اسے خود سے الگ کیا۔
” اب تمہیں اپنے گھر جانا چاہئے ۔تمہارے ڈیڈ پریشان ہو رہے ہونگے ۔” اسنے کھڑے ہوتے ہوئے کہا ۔
پھر اسنے ایلن کو اوور کوٹ پہنا کر اسکی گردن کے گرد مفلر لپیٹا اور اسے سہارا دیتے ہوئے باہر لایا تھا۔
” تم جاؤ میں خود ڈرائیو کر لونگا۔” وہ اسکے ہاتھ سے چابی لینے کی کوشش کرتا ہوا بولا۔
” تمہیں کیا لگتا ہے کہ ایسی حالت میں میں تمہیں ڈرائیو کرنے دونگا ۔چلو خاموشی سے بیٹھو۔” فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھول کر وہ اسے سیٹ کی طرف دھکیلتا ہوا بولا۔
پھر وہ گھوم کر ڈرائیونگ سیٹ پر آ کر بیٹھ گیا۔
کار نے تھوڑا ہی فاصلہ طے کیا تھا کہ ایلن نے ڈرائیو کرتے پیٹر کا کندھا ہلایا۔
” مجھے پیاس لگی ہے ۔”وہ آنکھیں بند کیے کہہ رہا تھا ۔
پیٹر نے اسکی جانب بوتل بڑھائی۔وہ آنکھیں بند کیے بغیر ڈھکن کھولے پانی پینے کی ناکام کوشش کرنے لگا۔پیٹر نے گردن موڑ کر اسے دیکھا اور اسکے ہاتھ سے بوتل لے کر اسکا ڈھکن کھولا۔اسکے لبوں سے بوتل لگائے ہوئے ایک ہاتھ سے اسٹیرنگ سنبھالے پیٹر کا دھیان مخالف سمت سے آتے ٹرک کی طرف نہیں جا پایا تھا۔بس دو پلوں کی لاپروائی تھی اور دیو قامت ٹرک سے کار ٹکرا کر بالکل کسی کھلونے کی طرح ہوا میں قلابازی کھاتی الٹ گئی تھی۔
ارد گرد بجتے ہارن کی تیز آواز اور لوگوں کے بولنے کا مبہم شور وہ آخری چیز تھی جو ایلن نے بیہوش ہونے سے پہلے سنی تھی۔
__________
پانی سے بھرے جگ اور دو گلاس کو میز پر الٹ کر رکھنے کے بعد وہ دروازے کی طرف متوجہ ہوئی جسکی بیل بج رہی تھی ۔دوپٹے کو سر پر اچھی طرح لپیٹ کر اسنے دروازہ کھولا۔جبران کے پیچھے اسکا اسپینی دوست پارکر بھی داخل ہو رہا تھا۔اسکے پورے وجود میں ناگواری کی شدید لہر اٹھی۔پچھلے پانچ مہینوں میں جبران نے پارکر سے اپنا تعلق بہت زیادہ بڑھا لیا تھا اور یہ چیز زنیرہ کے لئے بہت پریشان کن تھی۔کیونکہ جبران اور پارکر کی دوستی محض کاروباری نوعیت کی نہیں تھی بلکہ وہ اکثر اسے گھر تک لے آتا تھا ۔اور زنیرہ کو پارکر کی نظروں اور انداز سے بہت خوف آتا تھا ۔اسنے اسکی شکایت جبران سے بھی کی مگر اسنے الٹا اسے ہی بہت سنایا تھا۔
جبران اور پارکر میز کے گرد لگی کرسیوں پر بیٹھ چکے تھے ۔
“آئیں زنیرہ! آپ بھی ہمارا ساتھ دیں ۔” وہ کچن کی طرف جا رہی تھی جب پارکر نے اسے ٹوکا۔
“نو تھینکس۔” اسنے بہت تلخ لہجے میں کہا اور کچن کے اندر چلی گئی۔
پارکر کا چہرہ متغیر ہوا تھا۔”یار تمہاری بیوی میں تو کوئی مینرز ہی نہیں ہیں ۔”
“تم کھانا شروع کرو۔میں اسے ذرا مینرز سکھا دوں۔ “جبران نے سرد لہجے میں کہا اور کرسی دھکیلتا ہوا کھڑا ہو گیا ۔
کچن سلیب کو وائپ کرتی زنیرہ کا کندھا جبران نے عقب سے سختی سے دبوچا۔وہ مڑی۔
“تمہارے اندر اخلاق نام کی چیز پائی جاتی ہے یا نہیں۔”وہ غرایا۔
” میں تمہارے دوست کے ساتھ کس قسم کا اخلاق نبھا سکتی ہوں؟ ”
” باہر چل کر ہمارے ساتھ کھانے پر بیٹھو۔”
“سوری جبران! میں نہیں آ سکتی۔” اسنے نفی میں سر ہلایا۔
“تم مجھے انکار کر رہی ہو۔” اسکے لہجے میں حیرت ابھری۔
” میں نے ہمیشہ تمہاری بات مانی ہے۔مگر اسکے لئے مجھے معاف کر دو۔”اسکا لہجہ کپکپایا۔اسے جبران کی آنکھوں میں شدت پسندی نظر آ رہی تھی ۔
” وہ اگر کہہ رہا ہے کہ تم میز پر آؤ تو تمہیں آنا ہوگا۔”اسکے لہجے سے زیادہ چہرے پر سختی تھی۔”وہ میری ڈوبتی ہوئی کمپنی میں کروڑوں ڈالرز انویسٹ کر رہا ہے ۔میں اسے ناراض نہیں کر سکتا ۔”
” جبران یہ تم غلط کر رہے ہو ۔میں تمہاری بیوی ہوں ۔تم مجھے اس طرح استعمال نہیں کر سکتے ۔”اسنے اسے احساس دلانے کی کوشش کی ۔
” بیوی ہو تو بیوی بن کر رہو۔” اسنے بے حس انداز میں کہا۔
” اُس شخص کی نظروں سے مجھے کراہت محسوس ہوتی ہے ۔میں اسکے سامنے نہیں جانا چاہتی۔”وہ دونوں ہاتھ جوڑے اسکے سامنے گڑگڑائی۔
” آئی ڈونٹ کئیر ۔”اسنے کہا۔اور اسکا ہاتھ پکڑ کر کھینچتا ہوا اسے باہر لایا ۔وہ تقریباً گھسٹتی ہوئی اسکے ساتھ میز تک آئی۔
پارکر کی نظریں اپنے چہرے پر محسوس کرتی وہ اپنی پلیٹ میں سر جھکائے اس میں چمچ ہلاتی رہی تھی۔
کھانا کھانے کے بعد وہ لوگ صوفے پر بیٹھ گئے تھے اور وہ خاموشی سے برتن سمیٹ کر کچن میں رکھنے لگی۔
جھوٹے برتنوں کو سنک میں ڈال کر اسنے کافی بنائی اور دو مگ ٹرے میں رکھ کر باہر لے آئی۔صوفے تک آکر اسنے پہلے جبران کو کافی پکڑائی اور دوسرا مگ پارکر کی طرف بڑھایا۔
مگ پکڑتے ہوئے اسنے زنیرہ کا ہاتھ بھی پکڑ لیا تھا۔
“آپ بہت خوبصورت ہیں ۔آپ سامنے ہوتی ہیں تو کچھ اور دیکھنے کا دل ہی نہیں چاہتا۔” اسکا ہاتھ مضبوطی سے پکڑے وہ بیباکی سے کہہ رہا تھا ۔
زنیرہ کی سیاہ آنکھوں میں غضب اترا۔وہ کس طرح اسکا ہاتھ پکڑنے کی جرات کر سکتا تھا جبکہ اسکا شوہر اسکے سامنے موجود تھا۔
اسنے اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی ۔اسکی جدوجہد سے محفوظ ہوتے ہوئے اسنے بائیں ہاتھ سے کافی پکڑ کر میز پر رکھی اور دائیں ہاتھ سے اسکا ہاتھ یونہی پکڑے رکھا ۔زنیرہ نے مدد طلب نظروں سے جبران کو دیکھا ۔وہ بغیر شکر کی کافی میں نہ جانے کیوں سر نیچے کئے چمچ چلا رہا تھا۔
“مشرقی حسن مجھے ہمیشہ یونہی مسحور کرتا ہے اور تم اسکا مجسم نمونہ ہو۔” اسنے کہتے ہوئے اسکا ہاتھ کھینچ کر صوفے پر بٹھانے کی کوشش کی ۔
زنیرہ نے ایک دفعہ پھر جبران کی جانب دیکھا ۔اسے اپنے محافظ سے اپنی محافظت کی توقع تھی۔اسے امید تھی کہ ابھی جبران اٹھ کر پارکر کا گریبان پکڑیگا اسے گھر سے باہر نکال دیگا۔مگر وہ یونہی بیٹھا رہا۔بے حسی اور بے غیرتی کی عملی تصویر ۔اور اسی پل زنیرہ ادیب کے دل سے جبران علی ہمیشہ کے لئے اتر گیا تھا ۔اسکی بے غیرتی اور بے حمیتی نے اسے زنیرہ کی نظروں سے ہمیشہ کے لئے گرا دیا جیسے وہ کبھی اسکے لئے اونچے مقام پر تھا ہی نہیں۔
خود کو پارکر کی گرفت سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے اسنے میز پر رکھی گرم کافی کا مگ اٹھا کر اسکے چہرے پر پھینکا۔اسکا ہاتھ چھوڑ کر وہ اپنے چہرے پر ہاتھ رکھے کھڑا ہو گیا۔ کافی بیحد گرم تھی اور وہ اپنے جلتے ہوئے چہرے پر پانی ڈال رہا تھا ۔ششدر سے جبران کی نظریں الٹے قدموں کمرے کی طرف بھاگتی زنیرہ کی طرف تھیں ۔پھر وہ پارکر کی طرف متوجہ ہوا۔
“تم ٹھیک ہو۔” اسنے ٹشو پیپر سے اسکے کپڑے پر گری کافی صاف کرتے ہوئے کہا ۔
“دور ہٹو۔” پارکر نے غصے سے اسے پیچھے دھکیلا۔
“تم فکر مت کرو۔میں اس سے بات کرتا ہوں۔” وہ اسکے غصے کو کم کرنے کی کوشش کر رہا تھا ۔
“میں اب مزید ایک لمحہ یہاں نہیں رکونگا ۔میری جتنی بے عزتی تمہاری بیوی نے کی ہے اسکے بعد اب ہمارے درمیان کوئی بزنس رلیشن نہیں رہ سکتا ہے۔” اسنے اپنے پیر کے پاس رکھا بریف کیس اٹھاتے ہوئے کہا۔
” میں اسکی طرف سے تم سے معافی مانگتا ہوں ۔” جبران اسکے جانے کا سوچ کر ہی پاگل ہوا جا رہا تھا ۔
” مجھے تمہاری معافی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔”پھر وہ بغیر رکے چلا گیا ۔
اپنی بھنچی ہوئی مٹھیوں اور سرخ چہرے کے ساتھ جبران کمرے میں آیا۔بیڈ پر بیٹھی زنیرہ اسے دیکھ کر کھڑی ہو گئی تھی۔اسکے چہرے کے تاثرات سے یہی لگتا تھا کہ وہ خود کو آنے والے پلوں کے لئے ذہنی طور پر تیار کر چکی ہے۔
” تم جانتی ہو کہ تمہاری وجہ سے آج میرا کتنا نقصان ہو گیا ہے۔” وہ غصہ سے چلاتے ہوئے اسکی طرف بڑھا۔
آج زنیرہ کے چہرے پر نا ہی خوف کا سایہ لہرایا اور نا ہی وہ پیچھے ہٹی۔وہ اپنا سر اٹھائے بے خوفی سے اسکی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی۔
“اپنی آنکھیں نیچی کرو۔” اسنے اسکے بالوں کو اپنی مٹھی میں جکڑتے ہوئے کہا ۔
وہ بغیر کچھ کہے ہنوز اسے دیکھ رہی تھی ۔
“آئی سیڈ لوور یور آئیز!” وہ چیخا۔
سیاہ آنکھوں میں بھرتے ہوئے نمکین پانی ابلنے کو تھے۔
“تمہاری ہمت اتنی زیادہ بڑھ گئی ہے کہ غلطی کرنے کے بعد بھی اس طرح سر اٹھانے کی جرات کرو۔” اسکے بالوں کو جھٹکا دیتے ہوئے اسنے بلند آواز میں کہا ۔
“مجھ پر چلاؤ مت جبران!” اسکا لہجہ نڈر تھا۔آواز میں ہلکی کی سی لرزش بھی تھی۔”میں تم سے بھی اونچی آواز میں چیخ سکتی ہوں ۔”
جبران کی آنکھوں میں حیرت آئی۔وہ تو اُس زنیرہ کو جانتا تھا جو اسکی ہر زیادتی، ہر سختی کو سر جھا کر برداشت کرتی تھی۔وہ چاہے اس پر کتنا چیخ لیتا یا غصہ کر لیتا وہ اسے کبھی پلٹ کر جواب نہیں دیتی تھی۔اور آج جو زنیرہ اسکے سامنے کھڑی تھی وہ یکسر مختلف تھی۔اسکی آنکھوں میں موجود رہنے والے جس خوف و دہشت سے اسکی انا کی تسکین ہوتی تھی وہ تو اسے کہیں نظر ہی نہیں آ رہا تھا ۔وہ جس لہجے کا عادی تھا وہ اسکی قوامیت میں رہنے والی زنیرہ کا لہجہ تھا۔اس پُر اعتماد اور بے خوف زنیرہ کے لہجے سے وہ بالکل انجان تھا۔
اسنے اسے تھپڑ مارنے کے لئے ہاتھ اٹھایا مگر اسکے رخسار تک پہنچنے سے پہلے ہی زنیرہ نے اسکی کلائی پکڑ لی تھی۔اسکی مزاحمت نے اسکی انا و مردانگی کو ٹھیس پہنچائی۔غصے سے بے قابو ہو کر اسنے پاس پڑی بیلٹ اٹھا لی تھی۔
جب وہ خاموشی سے بغیر کوئی مزاحمت کئے اسکی زیادتیاں برداشت کیا کرتی تھی تب تو اسے مارتے ہوئے جبران کو کوئی رحم نہیں آتا تھا۔اور آج جب وہ اسکا مقابلہ کرنے اٹھی تھی تو اسے اسکو جانوروں کی طرح پیٹنے میں کیا احساس مانع آ سکتا تھا ۔
وہ اسے وحشیوں کی طرح بغیر رکے چمڑے کی بیلٹ سے مارتا رہا تھا ۔زنیرہ اپنے لبوں پر ہاتھ رکھے اپنی چیخیں روکنے کی ناکام کوشش کے ساتھ فرش پر پڑی خود کو بچانے کے لئے کچھ نہیں کر سکتی تھی۔جب وہ اسے مارتے مارتے تھک گیا تو بیلٹ پھینکتا ہوا دور ہٹ گیا تھا ۔
اپنے ادھڑے ہوئے جسم کو سمیٹتے ہوئے وہ بدقت اٹھی۔ہونٹوں سے رستے خون اور سوجے ہوئے چہرے نے اسکی شکل ہی تبدیل کر دی تھی۔سائڈ ٹیبل پر ہاتھ مار کر اسنے اپنا موبائل اٹھایا اور لڑکھڑاتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی۔اسے اب یہاں نہیں رکنا تھا۔اب وہ مزید پہلے کی طرح صبر و شکر کے ساتھ اس گھر میں اپنی زندگی نہیں گزار سکتی تھی۔اسکے پاس اب اس رشتے کو دینے کے لئے کچھ بچا ہی نہیں تھا ۔اسکا لہو پی کر بھی اب یہ رشتہ مزید زندہ نہیں رہ سکتا تھا ۔گھر کے باہر نکلتے ہوئے اسے جبران نے بھی دیکھا۔مگر اسنے اسے روکنے کی کوشش نہیں کی ۔کیونکہ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ پوری دنیا میں اس گھر کے علاوہ زنیرہ کی کوئی جائے پناہ نہیں تھی۔اسے بہرحال لوٹ کر یہیں آنا تھا۔
__________
اسٹریٹ لائٹ کے کھمبے سے ٹیک لگائے برفیلی سڑک پر بیٹھی زنیرہ کے تو اب آنسو بھی خشک ہو گئے تھے۔ ٹھنڈ سے اسکے سوجے ہونٹ نیلے پڑ چکے تھے ۔برف سی یخ ہوا اسکے چوٹوں کی سوزش کو بڑھا رہی تھی ۔
سیاہ آسمان کی طرف نظریں اٹھائے زنیرہ کے لبوں پر پہلی دفعہ شکوہ تھا۔آج اسنے بہت کچھ کھویا تھا ۔اور اِن کھونے والی قیمتی چیزوں میں صبر و شکر کے ساتھ اسنے اللہ پر توکل بھی گنوا دیا تھا ۔زندگی میں پہلی بار اسے لگا کہ اسکی دعائیں، ریاضت، عبادت سب رائیگاں تھیں ۔ساری عمر وہ یونہی اللہ پر توکل کرتی رہی اور اسے کبھی اپنے توکل اور صبر کا انعام نہیں ملا۔اس نے تو اس وقت بھی رضائے الٰہی میں اپنا سر جھکا دیا تھا جب اپنے ماں باپ کی موت کے بعد وہ پوری دنیا کے سامنے اجنبی بن گئی تھی۔اس وقت بھی اسکا سر رب کے سامنے جھکا رہا جب جبران جیسا شخص اسکی زندگی میں آ گیا تھا ۔وہ اسکی ہر زیادتیاں، ہر مظالم کو آزمائش سمجھ کر برداشت کرتی تھی۔جبران کو اسکے رب نے اسکا کفیل اور قوام بنایا تھا۔ایک فرمانبردار اور اطاعت شعار بیوی بننے کے لئے اس سے جو کچھ ہو پایا اسنے کیا۔اسلئے کہ یہ اسکے خدا کا حکم تھا۔اور آخر میں اسکی زندگی کی واحد خوشی احنف کے دور جانے پر بھی اسنے اللہ سے شکوہ نہیں کیا ۔اسنے صبر کیا کیونکہ اسکے رب کو صابرین پسند ہیں ۔مگر ان سب کے عوض اسے کیا ملا؟ اسنے دانستہ کبھی کوئی گناہ نہیں کیا ۔ہر اس چیز سے خود کو بچایا جو غلط تھیں ۔اسکے اس گریز اور تقویٰ نے اسے کیا دیا؟ اپنی چھبیس سالہ زندگی میں مسلسل پریشانیاں، مصائب، دکھ، اذیت اور ذلت کے علاوہ کیا اسے کچھ اور ملا؟ کیا وہ یہ سب ڈیزرو کرتی تھی؟ ایک ایسے شخص کو ڈیزرو کرتی تھی جو اسکی عزت کی حفاظت نہیں کر سکتا تھا؟ نیک عورتوں کے لئے تو نیک مرد ہوتے ہیں نا؟ تو اسکی کن غلطیوں کی پاداش میں جبران جیسا برا شخص اسکی تقدیر میں لکھا گیا تھا؟ کیا اسکے کسی عمل، کسی فعل کا اجر اللہ نے نہیں دینا تھا؟
کالونی کے پاس کی مسجد سے فجر کی اذان کی آواز ابھری تھی۔آج اسکے لبوں نے اذان کا جواب دینے کے لئے جنبش نہیں کی ۔
“آؤ فلاح کی طرف ۔۔آؤ فلاح کی طرف ۔۔آؤ نماز کی طرف ۔۔آؤ نماز کی طرف ۔۔۔” موذن نے پکارا۔
کیا یہی ہے فلاح؟ کیا یہ ہے کامیابی؟ اسکا یقین اور ایمان مکمل طور پر ڈگمگایا۔اپنے ہاتھوں پر پڑے بیلٹ کے بے شمار نشانات نے اسکے سوال کا جواب نفی میں دیا تھا ۔ایمان کی منزل زمیں بوس ہو گئی تھی ۔آج زنیرہ ادیب نے اپنا ایمان بھی کھو دیا تھا۔
اپنے سر کے گرد لپٹے دوپٹے کو اتار کر اسنے کنارے رکھ دیا ۔ہلکی برفباری شروع ہو گئی تھی ۔کرسمس ہونے کی وجہ سے کہیں دور فضا میں گونجتے کرسمس کیرول کی آواز مدھم ہو رہی تھی ۔اپنی آنکھیں بند کیے اسنے برفباری سے بچنے کے لئے کسی پناہ گاہ میں جانے کی کوشش نہیں کی ۔وہ برف کی قبر میں دفن ہو جانا چاہتی تھی ۔
اسکا جسم بیحد ٹھنڈا ہو چکا تھا ۔اپنے حواس مفلوج ہونے سے قبل اسنے اپنے پاس ایک گاڑی کا بجتا ہارن محسوس کیا تھا ۔
________
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...