بسمہ کی بات سن کر نازیہ کا رنگ ایک دم فق ہوگیا مگر اسے سنبھلنے میں چند ہی سیکنڈ لگے
اس نے آگے بڑھ کر بسمہ کے چہرے پہ تماچہ مارا۔
“تیری ہمت کیسے ہوئی مجھ پہ اتنا گھٹیا الزام لگانے کی بدکردار عورت۔ میں تیرا منہ نوچ لوں گی۔ جیسی خود ہے ویسا ہی دوسروں کو سمجھتی ہے اللہ کرے تجھے موت آجائے تو جہنم کی آگ میں جلے میری جیسی باکردار عورت پہ اتنا گھٹیا الزام لگاتے ہوئے شرم نہیں آئی نیچ عورت۔”
نازیہ کا جیسے ذہنی توازن بگڑ گیا تھا وہ حلق پھاڑ پھاڑ کر بسمہ کو گندی گندی گالیاں اور کوسنے دے رہی تھی۔ سنیہ نے آگے بڑھ کر نازیہ کو مزید مارنے سے روکا۔
“نازیہ بھابھی میں نے بھی وہی بات کی جو کئی دنوں سے آپ میرے لیئے کہہ رہی تھیں مگر آپ کے دل میں چور ہے تبھی آپ کواتنا برا لگا کہ آپ غلیظ زبان استعمال کرنے پہ اتر آئی ہیں۔” بسمہ نے بہت غصے میں انگلی کا اشارہ اس کی طرف کر کے کہا
ایک دم سے کسی نے پیچھے سے بسمہ کے بال پکڑ لیئے۔
“اب بول کیا بول رہی تھی نازی کے لیئے؟ زبان کھینچ کے ہاتھ میں دے دوں گا تیری۔”
بسمہ کو پتا ہی نہیں چلا تھا کہ کب اس سب شور کو سن کر باسط اوپر سے اتر آیا تھا۔
اب تک جو لوگ کمروں میں تھے وہ بھی نکل آئے تھے واحد بھائی اپنے کمرے کے دروازے پہ کھڑے تھے۔ چھوٹی بیٹی ان کے پیچھے کھڑی باہر جھانکنے کی کوشش کر رہی تھی۔ فہد ان سے کچھ آگے آکر کھڑا ہو گیاتھا۔ پیچھے سیڑھیوں پہ رافع بھائی دونوں بچوں کو لیئے کھڑے تھے۔ بس سسر شاید گھر میں نہیں تھے اتوار کو اس وقت وہ چھوٹا موٹا سودا لینے جاتے تو کچھ دیر دوستوں سے بات چیت کرتے ہوئے آتے تھے۔
نازیہ نے ایک دم خود کو سنیہ سے چھڑایا اور باسط کے کندھے سے لگ گئی۔
“دیکھ رہے ہو تمہاری بیوی میرے اور تمہارے لیئے کتنی گندی باتیں کر رہی ہے۔ نکالو اس غلیظ عورت کو اس گھر سے۔”
وہ باسط کے کندھے پہ سر رکھے جھوٹی سسکیاں لینے لگی۔
“باسط! بسمہ نے کوئی الزام نہیں لگایا صرف مثال کے طور پہ حوالہ دیا تھا۔ کہ تھوڑی بہت بات چیت کا مطلب ناجائز تعلقات نہیں ہوتے۔ نازیہ فضول میں بات کا بتنگڑ بنا رہی ہے۔”
رافیعہ بھابھی نے بات واضح کرتے ہوئے موقع کو سنبھالنے کی کوشش کی۔ ساس اور سنیہ نے بھی اثبات میں سر ہلایا۔
“ہاں رافیعہ صحیح کہہ رہی ہے بات ایسی نہیں جیسی نازیہ نے بنا دی۔ یہ خود اتنی دیر سے عجیب عجیب الزام لگا رہی تھی بسمہ پہ، اس بچاری کو تو اب تک کچھ بولنے کا موقع بھی نہیں دیا ٹھیک سے۔”
اب ساس بھی بولیں۔
“امی آپ کو اور بھابھی کو جب ساری بات پتا نہیں تو بیچ میں ٹانگ کیوں اڑا رہی ہیں۔ آپ لوگ جائیں اپنے کمروں میں یہ ہم میاں بیوی کا معاملہ ہے ہم آپس میں نپٹا لیں گے۔”
“میاں بیوی کا معاملہ ہے تو یہ کون ہوتی ہیں اس میں بولنے والی۔”
بسمہ نے روتے روتے ایک دم غصے میں نازیہ کی طرف اشارہ کیا۔
“واہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے بسمہ بیگم یاروں سے میسجنگ خود کرو اور کوئی تمہیں سدھارنے کی کوشش کرے تو اس پہ گندے گندے الزام لگاو۔”
چیخ چیخ کر گندی گالیاں کوسنے دیتی نازیہ ایک دم سے بڑی پرسکون اور معاملے سدھار قسم کی بن گئی تھی۔ اس کا گھر کی عورتوں اور مردوں کے لیئے الگ الگ روپ تھا۔
“اور رافیعہ بھابھی آپ تو کچھ بولنے سے پہلے اپنے بیٹے سے پوچھ لیں پھر ہمت ہو تو مہارانی کی سائیڈ لیجیئے گا۔ آپ کی ہی پسند تھی یہ۔ میں نے تو پہلے بھی دیکھ کے کہا تھا کہ لڑکی ٹھیک نہیں لگ رہی اتنی خوبصورت لڑکیاں گھر بنانے والی نہیں ہوتیں ان کا ایک شوہر سے دل نہیں بھرتا۔”
“یہ میں کہاں سے آگیا بیچ میں؟”
ایک دم فہد بول پڑا
“تم چپ رہو بچے ہو بچے رہو”
“میرا نام آئے گا بیچ میں تو بولوں گا ہی بچہ ہوں تو میرا تذکرہ ایسی باتوں میں کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ اور نازیہ چاچی یہ تو آپ کی بھول ہے کہ ہم ابھی تک بچے ہیں ہمیں بچہ سمجھ کر ہی آپ ہمارے سامنے رات رات کو باسط چاچو کے کمرے میں جاتی تھیں یہ سمجھ کر کہ ہم سمجھ نہیں سکیں گے یا بھول جائیں گے۔” لڑکپن کی دہلیز پہ قدم رکھتا فہد نوجوانی کے جوش میں وہ کچھ بول گیا جو ذرا بڑا ہوتا تو کبھی بھی نا بولتااور اگر کہتا بھی تو کسی اور پیرائے میں۔ اسے شاید بالکل اندازہ نہیں تھا کہ اس کی اس بات کا کیا ردعمل ہوسکتا ہے۔
اب کے غصے میں آنے کی باری رافع بھائی کی تھی وہ بچوں کو چھوڑ کر آگے بڑھے اور نازیہ بھابھی کو بازو سے پکڑ کر باسط سے الگ کھینچا۔
“بدچلن عورت شرم نہیں آئی تجھے میری عزت میرے بھائی کے ساتھ ہی نیلام کردی۔”
انہوں نے نازیہ بھابھی پہ لاتوں گھونسوں کی بارش کردی۔
“مارو مجھے جی بھر کے مارو مگر میں بسمہ نہیں ہوں جو خاموشی سے ہر بات سہہ لونگی تمہارے خاندان کا کچا چٹھا کھول دوں گی سب کے سامنے۔ ساری دنیا کو بتاوں گی کہ خود تم کس قابل ہو۔ اپنی مردانگی پہ حرف نا آئے اسی لیئے خود مجھے اپنے بھائی کے سامنے پیش کیا تھا۔” نازیہ چیخ چیخ کے رو رہی تھی اور پتا نہیں کیا کیا بول رہی تھی۔ رافع بھائی کو جیسے ایک دم سکتہ ہوگیا۔
“یہ۔۔۔۔ یہ جھوٹ بول رہی ہے۔ خود کو بچانے کے لیئے مجھ پہ الزام لگا رہی ہے۔”
رافع بھائی ہکلانے لگے۔ گھر میں ایک دم سناٹا چھا گیا۔ صرف بسمہ اور نازیہ کی سسکیاں گونج رہی تھیں۔
رافع بھائی نے نیچے پڑی روتی نازیہ کو بازو سے پکڑ کے اٹھایا۔
“نکل میرے گھر سے بدکردار عورت مجھے نہیں چاہیے ایسی بیوی جو میری نسل خراب کرے اور خود کو بچانے کے لیئے مجھ پہ اور میرے بھائی پہ الزام لگائے۔ نکل جا میرے گھر سے۔” انہوں نے دروازہ کھول کر نازیہ کو باہر دھکا دیا۔
“اب دوبارہ مجھے شکل مت دکھانا اپنی۔ طلاق کے کاغذ پہنچ جائیں گے تیرے باپ کےگھر ”
نازیہ تڑپ کے اٹھی۔ “میرے بچے تو دے دو”
رافع بھائی نے دروازہ بند کردیا۔
رافع بھائی کے دروازہ بند کرنے تک سب گھر والوں پہ سکتہ سا طاری تھا۔ کسی کی بھی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ سب ہوا کیا۔ اتنا اچانک اور اتنا عجیب۔ کسی نے بھی نہیں سوچا تھا کہ ایک میسج سے شروع ہونے والی بات اتنی بڑھ جائے گی۔ رافع بھائی بہت تیزی سے اوپر چلے گئے۔ سب کی نظریں ان کے پیچھے پیچھے سیڑھیوں تک گئیں۔ باسط نے رافع بھائی سے کچھ کہنے کے لیئے منہ کھولا مگر شاید اس کی بھی سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا بولے۔
“اوپر چلو تم ذرا، دل ٹھنڈا ہوگیا نا شوہر پہ الزام لگوا کے۔ بتاتا ہوں میں تمہیں ٹھیک سے۔”
باسط کے پاس شاید کچھ تھا ہی نہیں بولنے کو تو سارا غصہ دوبارہ بسمہ پہ اترنے لگا۔
“ارے نازیہ کو تو بلا لو اندر۔”
رافیعہ بھابھی دروازہ کھولنے کے لیئے بڑھیں۔
“چھوڑو رافیعہ بھگتنے دو اسے، ہماری ناک کے نیچے کھیل چل رہے تھے مگر ہم بھی کیا بولتے جب ہمارا ہی بیٹا مرد بن کے نا دکھا سکے تو۔ اب غیرت جاگی ہے تو کرنے دو تھوڑا اظہار۔ وقتی ہی سہی۔”
“امی آپ کو اور ابو کو رافع کے مسئلے کا پہلے سے پتا تھا۔ میں نے پہلے بھی روکا تھا کہ یا تو اس کا علاج کرا لیں پہلے، یا شادی ہی نا کرائیں غلط فیصلہ آپ لوگوں کا تھا اور بھگتنا نازیہ اور بچوں کو پڑے گا۔”
“اے بی بی بہو ہو تم اس گھر کی اماں نا بنو۔ خاندان کی عزت بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ اپنی عزت سنبھالنا نازیہ کی ذمہ داری تھی۔ ایسی کیا جوانی ٹوٹی پڑ رہی تھی کہ۔۔۔۔۔ بس اب کیا بولوں۔ جو ہوا ٹھیک ہوا۔ ہمیں بھی پتا ہے کہ رافع میاں دو دن بعد جاکر پاوں پکڑ کے معافی تلافی کر کےلے آئیں گے اپنی جورو کو۔”
یہ سب بسمہ نے سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے سنا۔ چند گھنٹوں میں جوکچھ سامنے آیا وہ اس کے ہوش و حواس چکرا دینے کے لیئے کافی تھا۔
اتنا سب کچھ ہونے کے بعد بسمہ کو لگا اب اس کے پاس تھوڑا اختیار آیا ہے کہ وہ باسط سے پوچھ تاچھ کرسکے۔
وہ کمرے میں داخل ہوئی تو باسط گم سم سا بیڈ پہ بیٹھا تھا۔ بالکل لاشعوری طور پہ وہ اس کو دیکھنے لگی اسے ابھی تک یقین نہیں تھا کہ جو کچھ اس نے ابھی ابھی نیچے سنا وہ سب صحیح بھی ہوسکتا ہے۔ اس کے خیال میں تو یہ سب باتیں ڈراموں اور فلموں میں ہوتی تھیں وہ بھی پڑوسی ملک کے۔
“کیوں گھورے جا رہی ہو۔ نکلوا تو دیا نازیہ بھابھی کو گھر سے اب کیا چاہتی ہو۔ میں بھی چلا جاوں۔”
باسط کے لہجے کا تنتنا اب وہ نہیں تھا۔
“نازی نہیں بولیں گے؟ بہت دوستی اور انڈراسٹینڈنگ ہے نا آپکی۔ آپ نے تو روکا بھی نہیں کم از کم الزام کی تردید ہی کردیتے۔ جب آپ نے پہلی بار نازیہ بھابھی کے لیئے کہا تھا نا کہ کہہ بھی کون رہا ہے جب انہوں نے مجھے ٹوکا تھا۔ پتا نہیں کیوں مجھے تب بھی گڑبڑ کا احساس ہوا تھا۔ مگر میں یہ نہیں سوچ سکتی تھی کہ آپ خود ہی ان کے ساتھ شامل ہوں گے۔”
“عورت کردار کی کمزور ہو تو مرد فائدہ اٹھاتے ہی ہیں”
“کیوں؟ ویسے تو بڑے بہادری اور عقلمندی کے دعوے کیئے جاتے ہیں۔ بھائی کی بیوی کے لیئے یہ عقل کہاں تھی؟ بس یہاں آکر اپنی ذات پہ سارا قابو ختم ہوگیا؟”
“بسمہ اب تم حد سے زیادہ بڑھ رہی ہو۔ تمہیں کیا لگتا ہے کہ جو الزام نیچے مجھ پہ لگے ہیں وہ بھی ایک بچے کے کہنے پہ اس کی بنیاد پہ تم کچھ بھی بول لو گی۔ اور بسمہ بیگم آپ بھول رہی ہیں کہ آپ کا مسئلہ ابھی وہیں کا وہیں ہے۔ آپ کے اور اسلم کے چکر کا تو ابھی مجھے حساب چکتا کرنا ہے۔”
“میرا اور اسلم کا کوئی چکر نہیں تھا۔ وہ صرف ایک سال میری کلاس میں پڑھا تھا اور وہ کس بات کی معافی مانگ رہا ہے مجھے پتا بھی نہیں۔ آپ چاہیں تو اس سے پوچھ لیں۔ ساری بات آپ نے پڑھ ہی لی ہے۔”
“واہ بھئی ابھی صبح تک تو آپ انکار کر رہی تھیں کہ آپ اسے نہیں جانتیں”
“اور کیا کہتی جب آپ کوئی منطقی بات سننے کو تیار ہی نہیں تھے اور ساتھ میں نازیہ بھابھی بات کو بڑھا چڑھا کے بتا رہی تھیں۔”
“اس کا تو نام مت لو میرے سامنے کیسے سانپ کی طرح کینچلی بدلی ہے اس عورت نے۔ دو لاتیں پڑیں اور پتا نہیں کیا اول فول بکنے لگی۔ سچ کہتے ہیں لوگ عورت ذات کا اعتبار نہیں کرنا چاہیئے۔ کیا کچھ نہیں کیا میں نے اس کے لیئے۔”
“ہمم شوہر کی کمی بھی پوری کی۔” بسمہ نے زیر لب کہا۔ اور مڑ گئی
“کہاں جارہی ہو اب”
“دوپہر میں نازیہ کے جانے کا سوگ منانا ہے تو بتا دیں ورنہ کھانا پکالوں کچھ” بسمہ کو خود اپنے طنزیہ لہجے پہ حیرانی تھی شوہر کی ایک کمزوری پتا چلتے ہی اس کے لہجے میں ایک دم اعتماد آگیا تھا۔ باسط چپ ہی رہا وہ نیچے آکر سیدھا کچن میں چلی گئی۔ سارا دن عجیب سا سناٹا طاری رہا گھر پہ رافع بھائی کے کمرے سے وقفے وقفے سے بچوں کے رونے کی آواز اٹھتی پھر رافع بھائی کی ڈانٹ میں دب جاتی۔
سارا دن ایسے ہی گزر گیا۔ مغرب کی اذانیں شروع ہی ہوئی تھیں کہ دروازہ ایک دم زور زور سے پیٹا جانے لگا۔ ایسا لگتا تھا کہ دروازہ توڑ دیا جائے گا۔ باسط نیچے ہال ہی میں تھا وہی دروازہ کھولنے چلا گیا۔ اس نے دروازے کی کنڈی ہٹائی ہی تھی کہ ایک دم دروازہ کھلا اور تین چار پولیس والے گھر میں دندناتے ہوئے داخل ہوگئے۔
“اوئے یہ عبدالباسط رانا ولد محمد شکیل رانا اور عبدالرافع رانا ولد محمد شکیل رانا کون ہیں؟”
آگے والے پولیس والے نے خشونت بھرے لہجے میں کہا۔
“جی میں ہوں باسط، رافع میرے بڑے بھائی ہیں۔ خیریت؟ آپ ایسے گھر میں گھس آئے کم از کم وارنٹ تو دکھائیں۔ ہم عزت دار شہری ہیں۔”
“اوئے تیری عزت کی ایسی کی تیسی گھر کی بہووں کی عزت لوٹتا ہے عزت دار کہیں کا۔”
پولیس والے نے گریبان سے پکڑ کے اسے کھینچا اور منہ پہ زوردار تھپڑ مارا۔
“ہتھکڑیاں لگاو اسے اور دوسرے عزت دار کو بھی ڈھونڈھ کے نکالو۔ نا ملے تو سب عزت دار گھر والوں کو آج میزبانی کا شرف بخشو۔”
پولیس والے دھڑ دھڑ کمروں کے دروازے کھولنے لگے بسمہ کچن میں شام کا کھانا پکا رہی تھی اتنی دیر میں وہ کچن سے ہال میں پہنچ گئی۔
“کیا ہوا آپ نے میرے ہسبنڈ کو کیوں پکڑا ہے”
“او بی بی آپ سائیڈ پہ رہیں ہمیں ہمارا کام کرنے دیں پھر بعد میں ہم پہ نام آتا کہ ہم خواتین کی عزت نہیں کرتے۔”
“مگر آپ کچھ بتائیں تو”
اتنی دیر میں پولیس والے باری باری ابو، رافع بھائی اور واحد بھائی کو پکڑ کر ہال میں لے آئے تھے۔ سب ہی کے چہرے پہ حیرت اور دہشت کے ملے جلے تاثرات تھے۔ اس وقت سب سے باہمت بسمہ ہی لگ رہی تھی جس نے اپنے ہوش و حواس قابو میں رکھے ہوئے تھے۔
“او بی بی یہ مسمات نازیہ رافع نے رپورٹ درج کرائی ہے آپ کے شوہر نامدار اور اپنے میاں کے خلاف زنا بالجبر اور اس میں معاونت کی۔ ساتھ بچوں کو ان کے قبضے سے بازیاب کرانے کی بھی درخواست کی ہے۔”
“جھوٹ بول رہی ہے وہ ہم نے کچھ نہیں کیا وہ خود بد کردار عورت ہے۔”
” ابے اوشریف زادے چپ کر کے بیٹھ مامے کا لڑکا نہیں تو میرے جو میں بکواس سنوں گا تیری۔ لے کے چلو ان دونوں کو رافع کون ہے اس میں سے۔ او باولے ، اس بابے کو تو چھوڑ۔” باسط کو جواب دیتے دیتے اس نے اپنے حوالدار کو بھی جھاڑ دیا۔ حوالدار فورا بسمہ کے سسر کو چھوڑ کر الگ ہوگیا۔ دو لیڈی کانسٹیبل اوپر سے بچوں کو بھی لے آئی تھیں دونوں بچے تڑپ تڑپ کے رو رہے تھے۔
آگے والا پولیس والا بچوں کے پاس گیا۔
“ارے بھئی کیوں رو رہے ہو۔ امی کے پاس جانا ہے اپنی؟”
دونوں بچوں نے روتے روتے سر ہلا دیا۔
“بس تو آنسو صاف کرو۔ فرخندہ بچوں کو جوس پلاو گاڑی میں بیٹھا کے ان کی امی سے بھی ملاو۔”
“ہاں آجاو بیٹا آپ کی امی گاڑی میں بیٹھی ہیں چلو میں ملوا کے لاوں”۔
پولیس والیوں نے بہت پروفیشنل انداز میں بچوں کو بہلانے کے کوشش کی اور تقریبا گھسیٹتی ہوئی باہر لے گئیں۔
پیچھے پیچھے پولیس والے رافع اور باسط کو بھی دھکیلتے ہوئے باہر لے گئے۔ صوفے کے قریب کھڑی ساس ایک دم لڑکھڑائیں۔ رافیعہ پکڑ نا لیتی تو وہ نیچے گر جاتیں۔ رافیعہ نے انہیں سنبھال کر صوفے پہ بٹھایا۔ سنیہ بھی ساتھ بیٹھ کر ہاتھ سہلانے لگی بسمہ کچن میں بھاگی کہ پانی لے کر آئے۔ وہ خود ابھی تک اتنی گھبرائی ہوئی تھی کہ دل کے دھڑکن کانوں میں سنائی دے رہی تھی۔ اسے حیرت تھے کہ پولیس والوں کے سامنے وہ اتنی ہمت سے ان سے سوال جواب کیسے کر رہی تھی۔ اس کے دل کا حال تو اسے ہی پتا تھا۔
فہد بائیک لے کر کہیں گیا ہوا تھا واحد نے فورا کال کرکے اسے بلایا اور ایک جاننے والے وکیل کو بھی کال کر کے بتا دیا کہ وہ ملنے آرہے ہیں۔
“ارے جلدی جاو یہ ظالم پولیس والے مار نا ڈالیں میرے بچوں کو۔ کیسی چلتر عورت ہے ایک دم گھر برباد کردیا میرا۔ کیسے محنت سے پال پوس کے جوان کیا تھا میں نے ارمانوں سے بیاہ کیئے تھے یہ دن دیکھنے کے لیئے؟”
ساس نے ایسے بین کرنے شروع کردیئے جیسے خدا نا خواستہ دونوں بیٹےمر گئے ہوں۔
“امی آپ پریشان نا ہوں میں جا رہا ہوں وکیل کے پاس کوشش کرتا ہوں ابھی بیل ( ضمانت) ہوجائے۔” واحد بھائی بھی ماں کے قریب نیچے بیٹھ گئے اور ہاتھ تھپتھپا کر تسلی دی۔
“تم بھی کردو کوئی رپورٹ، سب مل کر میرے گھر کو کھا جاو۔ بہووں ہیں کہ آستین کے سانپ۔” وہ روتے وہ روتے ایک دم بسمہ سے مخاطب ہوئیں بسمہ نے کچھ کہنے کے لیئے منہ کھولا مگر رافیعہ بھابھی نے اشارے سے چپ رہنے کو کہ دیا۔
کچھ دیر بعد واحد بھائی فہد کے ساتھ وکیل کے پاس چلے گئے سنیہ نے امی کو سکون کی گولی دے کر سلا دیا اور ساتھ ہی بیٹھ گئی۔ رافیعہ بھابھی بسمہ کو لے کر اپنے کمرے میں آگئیں۔ چھوٹے دونوں بچے ابھی ابھی سوئے تھے۔
“بسمہ میرا تو مشورہ ہے تم کچھ دن اپنے میکے چلی جاو۔”
“بھابھی ایسے حالات میں کیسے جاسکتی ہوں۔”
“ایسے حالات کی وجہ ہی سے تو مشورہ دیا ہے۔ دیکھو تمہیں ان لوگوں کو جانے سال بھی نہیں ہوا مجھے سولہ سال ہوگئے ہیں انہیں جھیلتے ہوئے۔ نازیہ اتنی بری نہیں جتنا ان کے رویوں نے اسے بنا دیا۔ تمہیں کیا لگتا ہے باسط ہی بس ایسا ہے ؟ اپنے باپ پہ گیا ہے وہ بھی۔ یہ تو اب سسر صاحب کی ہمت جواب دے گئی ورنہ کیا گھر کیامحلہ ہر جگہ کی عورتیں ان سے کترا کر گزرتی تھیں۔ نازیہ کی شادی کے وقت اس کا کمرہ اوپر رکھوانے کی وجہ بھی یہی تھی۔ تاکہ وہ ان سے کچھ دور دور رہے۔ مگر مجھے یہ نہیں پتا تھا کہ باسط بھی اپنے باپ کے نقش قدم پہ ہی چلے گا۔ ساس کو کیا کہوں ان کا رویہ بھی بس ایک عام روایتی عورت جیسا ہی ہے کہ مرد کچھ بھی کرلے عورت نے اپنے گھر کے مرد کی ہی تعریف کرنی ہے۔ ویسے ان میں کوئی برائی نہیں تمہارے ساتھ کام بھی کروائیں گی اچھے کام پہ تعریف بھی کریں گی۔ میاں کے ساتھ گھومنے پھرنے پہ کوئی اعتراض بھی نہیں، جو چاہے پہنو اوڑھو مگر جب بہو کے حق کی بات آتی ہے تو انہیں یہ باہر سے لائی ہوئی عورت ہی غلطی پہ لگتی ہے اپنا شوہر یا بیٹا نہیں۔ مجھے تو اب فہد سے بھی ڈر لگنے لگا ہے کئی بار میں نے اسے ڈانٹا تمہیں گھورتے دیکھ کر۔ ہے شرمندگی کی بات مگر کیا کروں۔”
انہوں نے رک کے گہرا سانس لیا۔
“میں شکر کرتی ہوں کہ واحد ان سے کچھ الگ ہیں شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ بچپن کے کچھ سال یہ اپنی بڑی پھپھو کے گھر رہے اور ان کے گھر کا ماحول تم نے دیکھا ہی ہے کتنا سلجھا ہوا ہے۔ مگر کچھ جگہ وہ بھی مجبور ہوجاتے ہیں۔”
“بھابھی آپ کی بات بھی ٹھیک ہے۔ مگر میں کیا کہہ کرجاوں۔ پھر سچی بات یہ ہے کہ میرے اپنے گھر والے بھی کوئی اتنے سپورٹ کرنے والے نہیں۔ میرے لیئے اب یہی گھر ہے جیسا بھی ہے۔ انہوں نے تو میری شادی کر کے اپنی ذمہ داری پوری کر دی انہیں اب میری کسی پریشانی کی کوئی پروا نہیں۔”
بسمہ کے اعصاب اتنے تناو کا شکار تھے کہ پہلی بار کسی کے سامنے اپنے گھر والوں کی شکایت کی تھی۔ فائزہ کے بعد پہلا کوئی ملا تھا جس نے اس کی حوالے سے اپنی پریشانی کا اظہار کیا تھا۔ سچا یا جھوٹا کچھ بھی مگر بسمہ کے لیئے یہی ڈھارس بندھانے کو کافی تھا۔
بسمہ اور رافیعہ تھوڑی دیر اسی مسئلے پہ بات کرتے رہیں، پھر بسمہ اوپر کمرے میں آگئی۔ آتے ہی کمرے کی کنڈی لگادی اور لیٹ گئی۔ اسے اتنی تھکن محسوس ہورہی تھی جیسے سارا دن مشقت کی ہو۔ عجیب سا احساس تھا ڈر بھی کہ وہ بالکل اکیلی ہے اور سکون بھی کہ شاید ایک رات تو تکلیف نہیں سہنی پڑے گی۔ اس کے دماغ میں خیالات کی جنگ سی جاری تھی۔ ایک طرف نازیہ تھی جو ہر وقت دوسری عورتوں کی کردار کشی پہ تیار رہتی تھی مگر اپنے ہی دیور سے تعلقات بھی تھے۔ دوسری طرف باسط اور رافع بھائی تھے۔ رافع بھائی والا مسئلہ اسے ٹھیک سے سمجھ میں بھی نہیں آیا تھا۔ اس کا دماغ یہ قبول کرنے کو تیار نہیں تھا کہ رافع بھائی کی رضامندی سے یہ سب ہوا ہوگا۔ پھر باسط تھا جس کا ماننا یہ تھا کہ عورت بےوقوف، کمزور اور بے وفا ہوتی ہے مگر یہی سب خصوصیات کا اظہار اس نے خود بھی کیا۔ بےوقوف نا ہوتا تو اسلم والے معاملے کو اتنا غلط رنگ دے کر مسئلے کو اتنا نا الجھاتا۔ کمزور اتنا کہ اگر کوئی عورت اسے اپنی طرف متوجہ کر رہی تھی تو خود کو روک ہی نہیں پایا۔ بسمہ کو تو خیر اب اس بات میں بھی شک تھا کہ نازیہ بھابھی نے ہی متوجہ کیا یا انہیں مجبور کیا گیا جیسا کہ نازیہ بھابھی کا دعوا تھا۔ صرف نازیہ بھابھی کا رویہ دیکھا ہوتا تو بات الگ تھی مگر سب کے ردعمل کے پس منظر میں بسمہ کو لگ رہا تھا کہ کہیں نا کہیں کسی وجہ سے نازیہ بھابھی کو مجبوری میں یہ سب کرنا پڑا ہوگا۔ آج بسمہ کے سامنے مردانگی کا وہ شاندار محل زمیں بوس ہوگیا جس کا چرچا ہر جگہ ہوتا ہے۔ جس کی بنیاد پہ مرد خود کو عورت سے برتر کہہ کر ہر آسائش پہ اپنا حق جتاتا ہے اور ہر خدمت کی ذمہ داری عورت پہ ڈال دیتا ہے۔ جس وقت پولیس رافع اور باسط کو ہتھکڑیاں لگا رہی تھی دونوں کے چہروں کی دہشت دیکھنے والی تھی۔ یہ تھے وہ جو خود کو بہادر کہتے تھے۔ گھر کی عورتوں کے چھپکلی سے ڈرنے پہ مذاق اڑانے والے مرد خود سے ذرا طاقتور کے سامنے خود چھپکلی اور چوہے بن گئے تھے کہ موقع ملتا تو بل میں جاگھستے۔ بسمہ کو ایک دم احساس ہوا۔ میں اس سے ڈر رہی تھی؟ اس باسط سے جو اپنے حق میں دو لفظ بھی نا بول سکے؟ سارا تنتنا، غصہ صرف خود سے کمزور عورت کے لیئے تھا؟ وہ اپنے اندر ایک طاقت سی محسوس کر رہی تھی۔ باسط کو کنٹرول کرنا کتنا آسان ہے۔ وہ لاشعوری طور پہ طنزیہ ہنسی۔ پھر اپنی ہی ہنسی کی آواز پہ چونک گئی۔ وہ لیٹی لیٹی انہی باتوں پہ سوچتی رہی۔ پتا نہیں کیا کیا سوچتے کافی وقت گزر گیا۔ گھڑی پہ نظر پڑی تو اندازہ ہوا کہ تین گھنٹے سے زیادہ گزر گیا ہے۔ اسے خیال آیا واحد بھائی ابھی تک نہیں آئے؟ وہ اٹھ کر نیچے آئی تو ساس سسر کے کمرے سے سسر کی زور زور سے بولنے کی آواز آرہی تھی۔ اس کے قدم رک گئے۔
“ساری زندگی تو میں خرچہ نہیں اٹھاوں گا نا۔ ابھی وکیل کے پیسے دے دیئے تو اگلی دفعہ پھر میرے سامنے کھڑے ہونگے۔ باسط کی بیوی سے کہو وہ دے، باسط نے گھر میں کچھ پیسے تو رکھے ہونگے نا، نہیں بھی ہیں تو اپنے گھر والوں سے مانگ لے بیٹی کے لیئے اتنا بھی نہیں کرسکتے کیا؟”
“ارے یہ تو بعد کی بات ہے نامسئلہ تو ابھی ضمانت کے پیسوں کاہے۔ بیٹا ہے آپ کا قرض سمجھ کے ہی دے دیں۔ رانا صاحب! کبھی تو اولاد کو اصولوں پہ ترجیح دے دیا کریں۔”
“حاجرہ بس تم ہمیشہ کی بےوقوف ہی رہنا میرے انہی اصولوں کی وجہ سے آج تک یہ اولاد میرے قابو میں ہے ورنہ دیکھو دوسرے گھروں میں ساس سسر کو جوتے کی نوک پہ رکھا ہوتا ہے کاٹھ کباڑ کے کمرے میں کاٹھ کباڑ کی طرح رکھا ہوتا ہے۔ آج کل کی اولاد کو جتنا سر چڑھاو اتنا ہی نقصان ہے۔ بس میں نے کہہ دیا ریٹائرڈ بندہ ہوں جو پینشن آتی ہے اولاد پہ لٹا کے ہاتھ پاوں نہیں کٹا سکتا اپنے۔”
دروازہ کھلا تو بسمہ تیز قدم اٹھا کر کچن میں گھس گئی۔ ساس باہر آئیں تو ہاتھ میں موبائل تھا شاید کسی سے بات کرنی تھی انہوں نے۔
“ہیلو۔ واحد؟ ہیلو ۔۔۔۔ ہاں سنو میں نے تمہارے ابو سے بات کی ہے بیٹا مگر تمہیں ان کی عادت کا پتا تو ہے۔ میری تو سمجھ نہیں آرہا کہ کیا ہوگا۔ مجھے تو اندازہ بھی نہیں تھا وکیل اتنے پیسے مانگ لے گا۔ ۔۔۔۔۔ ہیں۔۔۔۔؟ اچھا پولیس والے کو بھی دینے ہیں۔ لعنت پڑے ان پہ اللہ کی۔ غریبوں کو ستانے کے کوئی راستے نہیں چھوڑتے اب اتنی رات میں کوئی کہاں سے پیسوں کا بندوبست کرے گا؟” وہ کچھ سیکنڈ رکیں۔
“اچھا سنو سنیہ کے جہیز کے لیئے کچھ پیسے پڑے ہیں میرے پاس، پچھلے ہفتے کمیٹی کھلی تھی۔” دوسری طرف سے پتا نہیں کیا کہا گیا
“ارے اللہ بھائیوں کو زندگی دے بھائی ہونگے تو دوبارہ انتظام بھی ہوجائے گا۔ بس تم میرے بچوں کو چھڑا لاو میرا تو دل بیٹھا جا رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں ٹھیک ہے فہد کو بھیج دو میں پیسے دیتی ہوں”
ساس بات ختم کرکے فورا کمرے میں چلی گئیں۔ جیسے وہ بات کر رہی تھیں اس سے پتا چل رہا تھا کہ وہ اپنے میاں سے یہ ساری بات چیت چھپانا چاہتی ہیں۔ کمیٹی والی بات تو بسمہ کو بھی پہلی دفعہ پتا چلی تھی ورنہ جب سے وہ اس گھر میں آئی تھی اس نے یہی دیکھا تھا کہ جب بھی سنیہ کے جہیز کے بندوبست کی کوئی بات نکلتی تھی تو سسر اور بھائی یا تو بات بدل دیتے یا اپنے خرچوں کی تفصیل بتانے لگتے واحد بھائی ہی تھوڑا بہت سنیہ کی فیس وغیرہ کا خرچ دے دیتے جب سے بسمہ یہاں آئی تھی، رافع بھائی اور باسط نے اتنے عرصے میں خاص طور سے سنیہ کے لیئے کچھ نہیں کیا تھا سسر کا کہنا تو یہ ہوتا کہ میں نے جتنا کرنا تھا اولاد کے لیئے کرلیا اب مجھ سے کوئی خرچے کا نا بولے۔۔ ساس اتنا سن کر خاموش ہوجاتیں۔ بسمہ کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ آہستہ آہستہ اپنے طور پہ انتظام کر رہی تھیں۔ مگر ان کے پاس کمیٹی ڈالنے کے پیسے کہاں سے آرہے تھے یہ سوچنے کی بات تھی۔ تھوڑا بہت جو بسمہ کو اندازہ ہوا وہ یہ کہ تینوں بھائی جو ہزار پانچ سو مہینے کا خرچ انہیں دیتے تھے اسی میں سے وہ کمیٹی کے پیسے بھی دیتی ہوں۔ آج اسے اپنی سسرال بہت پراسرار لگ رہی تھی ہر بندے کی شخصیت کی کئی پرتیں تھیں۔ ایک دم کوئی بہت اچھی پرت سامنے آجاتی اور ایک دم کوئی بری۔ اس نے شکر بھی ادا کیا کہ ساس نے اسے میکے سے پیسے منگوانے کا نہیں کہا۔ اتنا تو اسے اندازہ تھا کہ میکے سے اس معاملے میں اسے کوئی مدد نہیں ملے گی۔ مگر اسے یہ بھی اندازہ ہوگیا کہ آگے کبھی بھی اس سے یہ تقاضہ کیا جاسکتا ہے۔ مگر کب؟ اس کا اندازہ نہیں تھا اسے۔
مزید کوئی ڈیڑھ گھنٹے بعد واحد بھائی، رافع بھائی اور باسط کو لے کر آئے۔ تھوڑی سی دیر میں ہی پولیس والوں نے اچھا خاصا حال برا کردیا تھا۔ باسط کی ایک آنکھ سوجی ہوئی تھی اور رافع بھائی کا جبڑا۔ دونوں مسلسل کراہ رہے تھے۔ ساس ان دونوں کو دیکھ دیکھ کر رو رہی تھیں۔ اور وقتا فوقتا نازیہ کو کوسنے بھی دے رہی تھیں۔ آخر سسر چڑ کے بولے
“اففو چپ کر جاو کم عقل عورت نحوست پھیلا رہی ہو مسلسل۔ یہ شکر نہیں کرتی کہ بیٹے ذرا سی دیر میں واپس آگئے۔”
واحد بھائی ہونٹ چبا رہے تھے
“ابو ضمانت تو ہوگئی ہے مگر مسئلہ بھی چھوٹا موٹا نہیں ہے۔ زنا بالجبر کا الزام ایسا ہے ان بیل ایبل چارج( ناقابل ضمانت الزام) لگتا ہے۔ پچیس پچیس ہزار دونوں کے،تھانے کے بڑے منشی کو دیئے پندرہ ہزار وکیل کو۔ اور جب تک کیس چلے گا اتنے ہی کئی بار دینے ہونگے۔”
“پیسوں کا انتظام کہاں سے ہوا۔” سسر کا ماتھا ٹھنکا
“امی نے دیئے کچھ، کچھ میں نے ملا دیئے۔”
“واہ حاجرہ بیگم دولتیں جمع کی ہوئی ہیں ہمیں بتایا ہی نہیں۔” سسر کے الفاظ سے زیادہ لہجے کا شک ساس کو شرمندہ کرنے کے لیئے کافی تھا۔
“رانا صاحب میری کونسی فیکٹریاں چلتی ہیں یہی مہینے پہ تینوں بیٹے اور آپ جو دیتے ہیں وہ خرچ تو ہوتا نہیں بس وہی ہوتا ہے میرے پاس۔”
“مزے ہیں تم عورتوں کے نا کام نا کاج گھر میں بیٹھے بیٹھے ہن برستا ہے تم پہ۔ اس پہ بھی شکر گزار نہیں ہوتیں۔ دیکھ لو نازیہ بیگم کے حال شوہر کی عزت رکھنے کی بجائے سب کے سامنے اپنی بھی عزت اتاری شوہر کی بھی۔ ارے عزت دار عورت مر جاتی ہے مگر گھر کی بات باہر نہیں نکالتی۔” پھر ان کی بات باسط کی طرف مڑ گیا
“ایک یہ احمق ہیں۔ بات بھی سنبھالنی نہیں آتی۔ اور ایک بات میں بتا دوں حاجرہ بیگم یہ جو زنخہ پیدا کیا ہے نا تم نے یہ میری اولاد تو ہو ہی نہیں سکتا۔”
“ابو آپ کے ان طعنوں نے ہی میری زندگی تباہ کردی۔ آپ کی ہی ضد تھی کہ شادی کرو شادی کرو مرد بن کے دکھاو۔ جب پتا تھا کہ آپ کے اس مردانگی کے امتحان میں، میں کبھی پاس ہی نہیں ہوسکتا تو مجھے مجبور کیوں کیا تھا؟”
رافع ایک دم پھٹ پڑا اسے شاید پتا بھی نہیں تھا کہ اس کے آنسو بہہ رہے ہیں۔
*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔******
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...