بیس برس کی لڑکی پہ اس کے اپنے ہی گھرب میں زمین تنگ کر دی گئی تھی۔ وہ بے چاری کیوں نہ یہں سے جاتی اور مامون بیٹا تم نے بھی اسے اکیلا چھوڑ دیا یہاں تمہارا اپنا گھر ہے تم اسے وہاں لے جاتے، ہر کوئی اسے الزام دے رہا تھا ۔ اب تمہاری ماں نے بھی کم باتیں تو نہیں سنائیں تھیں اسے ، مجھے لگتا ہے کہ رانیہ انہی کی انہی باتوں سے دل برداشتہ ہو کر یہاں چلی گئی ہے۔
رخسانہ مجید نے ہمدردانہ اور تاسف زدہ لہجے میں کہا تو مامون نے حیرت اور بے چینی سے پوچھا۔
ممی نے رانیہ سے کیا کہا تھا۔
بیٹا میں اپنی کانوں سے ان کا فون سنا تھا، مجھے تو کہتے ہوئے بھی شرم آتی ہے، چھوڑ بیٹا ! ناحق میری سچی بات سے تمہارے گھر میں بدمزگی ہو گی اور ہمارے تعلقات خراب ہو نگے۔
رخسانہ مجید نے چالاکی سے بات گول کر دی تا کہ وہ اصرار کر کے پوچھے۔
آنٹی ! آپ کا نام نہیں لوں گا میں کسی سے ، پلیز مجھے بتائیے ممی نے رانیہ سے کیا کہا تھا؟؟؟۔ وہ بے چینی سے پوچھ رہا تھا۔
بیٹا! سلمٰی بیگم نے تو حد کر دی تھی کہہ رہی تھیں کہ میرے بیٹے کا پیچھا چھوڑ دو ، میں تم جیسی بدنام اور بدکردار لڑکی کو کبھی اپنی بہو نہیں بناؤں گی۔ تم نے مامون کو اپنی محبت کے جال میں پھنسایا ہے اسے آزاد کر دو اس کی زندگی سے دور چلی جاؤ ورنہ پچھتاؤ گی۔ رخسانہ مجید نے کچھ باتیں اپنے پاس سے بھی لگا کر اسے بتا دی تھیں ۔
میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ممی اس قدر فضول باتیں کہہ بھی سکتیں ہیں ۔ مامون نے دوہرے صدمے سے دوچار ہوتے ہوئے کہا۔
بیٹا ! کیا تم نے انہیں اپنے اور رانیہ کے نکاح کے متعلق کچھ بتایا ؟ مجید ماموں نے پوچھا۔
میں نے ڈیڈی کو نکاح سے پہلے اعتماد میں لے لیا تھا، انہیں کوئی اعتراض نہیں میرے رانیہ سے نکاح پر وہ تو میری خوشی میں خوش تھے۔ انہوں مجھے منع کیا تھا کہ ممی کو فیلحال اس نکاح کے متعلق نہ بتاؤں وہ خود ہی انہیں موقع دیکھ کر بتائیں گے۔ پتہ نہیں انوں نے ممی کو اب تک بتایا بھی ہے کہ نہیں ۔ رانیہ ممی کی وجہ سے گھر چھوڑ گئی ہے مائی گاڈ مامون نے دکھ سے کہتے ہوئے اپناسر پکڑ لیا۔
کیا خبر بیٹا ! وہ واقعی کسی اور میں انٹرسٹڈ ہو جبھی تمہیں اتنی آسانی سے چھوڑ گئی ورنہ اتنی بدنامی کے بعد بھی اسے ایک معزز اور شریف شخص کی بیوی بننے پر خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرنا چاہئیے تھا اور تمہارے ساتھ بخوشی رہنا چاہئیے تھا۔ رخسانہ مجید نے سنجیدگی سے کہا تو شبانہ نے بھی اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہوئے کہا۔
اور امی ! رانیہ کے ہمسائے بتا رہے تھے کہ وہ کسی نوجوان کے ساتھ لمبی سی گاڑی میں بیٹھ کر گئی ہےپتہ نہیں وہ کون تھا، اب تو محلے والے رانیہ کو اور زیادہ برا کہہ رہے ہیں۔ کہ ماں باپ کے مرتے ہی اسے اپنی آوارگیوں کے لیے عیاشیوں کے لیے آزادی مل گئی تھے جبھی تو اپنے کسےی آشنا کے ساتھ چلی گئی توبہ توبہ۔۔۔۔۔۔۔۔
میں چلتا ہوں ۔ مامون سے مزید برداشت نہ ہوا تو اٹھ کھڑا ہوااور پھر ان کے لاکھ روکنے سے بھی نہ رکا۔
تین دن بعد مامون کو ایک لفافہ ڈاک کے زریعے موصول ہوا اس نے لفافہ کھول کر دیکھا تو اس میں رانیہ کی تین تصویریں بھی موجود تھیں اس کے ساتھ نجانے کون لڑکے تھے۔ بہت ہی بے ہودہ پوز میں کھینچی گئی تھیں یہ تصاویر ، مامون کا پورا بدن آگ کی طرح سلگنے لگا تھا۔ وہ بہت غور سے چاروں تصویروں کو دیکھ رہاتھا کہ اچانک چونک گیا اور پھر ایک ایک کر کے ساری تصویریں دیکھنے کے بعد اسے بے اختیار ہنسی آئی ۔ رخسانہ مجید نے رانیہ کی کالج کے فینسی ڈریس شو میں دلہن کا روپ دھارنے والی جو تصویر بیگم صغیر کو دکھائی تھی وہی تصویرمامون رانیہ کے کمرے میں اس کے البم میں بھی دیکھ چکا تھا اور تصویر کے پیچھے لکھی تحریر بھی اس نے پڑھی تھی وہی تصویر ان تصویروں میں موجود تھی۔ جس سے مامون کو یقین ہو گیا تھا کہ یہ ضرور کسی کی شرارت ہے اور باقی تصویریں بھی جعلی ہیں اس نے وہ تصویریں چولہے پر رکھ کر جلا دیں ۔
رانیہ کہاں چلی گئی ہو تم میری محبت سازشوں کی زد میں ہے کون کر رہا ہے یہ میرے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے تم سے بدگمان کرنے کی پلاننگ کس کی ہو سکتی ہے ؟ کیا ممی ؟ وہ تو یہ سب نہیں کر رہیں ! وہ بے چین و بے قراری سے خود سے سوال کر رہا تھا۔
رخسانہ آنٹی ! نہیں ، پھر کون ہو سکتا ہے ؟؟ مجھے ممی سے بات کرنی چاہئیے ۔ وہ سوچ رہا تھا کہ سلمٰی بیگم کا فون آگیا۔آلسلام و علیکم ممی! مامون نے اپنا موبائل آن کر کے کان سے لگایا۔
وعلیکم السلام کہاں ہوتم؟
گھر پر ہی ہوں ۔
رانیہ کے گھر پر؟ سلمٰی بیگم کا لہجہ چبھتا ہو تھا۔
جی نہیں اپنی گھر پر ہوں ۔ آپ کی طبیعت کیسی ہے ممی ؟
ٹھیک ہے میری طبیعت اور یہ تم نے کیا حرکت کی ہے چوری چھپے رانیہ سے نکاح کر لیا اور مجھے اب تمہارے ڈیڈی نے بتایا ہے۔ وہ آغصے سے بولیں ۔
کیونکہ اس وقت ہمیں معلوم تھا کہ آپ انکار کر دیں گی نہیں مانیں گی۔ وہ افسردگی سے بولا تو انہوں نے غصیلے لہجے میں کہا
مانوں گی تو میں اب بھی نہیں ، میں اس آوارہ لڑکی کو اپنے گھر میں قدم بھی نہیں رکھنے دونگی ۔ سنا تم نے فورًا سے پہلے اسے طلاق دے دو۔
سوری ممی میں آپ کی یہ خواہش پوری نہیں کر سکتا اور آپ نے رانیہ کو فون کیا تھا ناں ممی ۔
اس نے شکائت کی ہو گی ۔ سلمٰی بیگم نے کہا۔
اس نے تو کچھ بھی نہیں کہا اور اپنا گھر اور شہر چھوڑ کر نجانے کہاں چلی گئی ہے آپ خوش ہو جائیے ممی ، رانیہ مجھے چھوڑ کر چلی گئی ہے یہی چاہتی تھیں ناں آپ ؟ مامون نے دکھی لہجے میں کہا۔
وہ ایسے کیسے جا سکتی ہے ؟ سلمٰی بیگم نے سکون کا سانس لے کر پوچھا۔
وہ چلی گئی ہے اور کسی کو کچھ معلوم نہیں ہے کہ کہاں گئی ہے؟
تو اب تم اسی بات سے اندازہ لگا لو کہ وہ کس کردار کی مالک ہے ، اس کا ضرور کسی سے معاشقی چل رہا ہو گا ماں باپ کے مرتے ہی اسے کھلی آزادی مل گئی اور وہ بھاگ گئی اپنے آشنا کے ساتھ ۔ اسے تو یہ بھی خیال نہیں آیا ہو گا کہ اس کا نکاح ہو چکا ہے اور وہ اب کسی کی امانت ہے تم تو اس کی محبت میںاندھے ہو گئے ہو سارا شہر جو کہہ رہا ہے وہ کیا پاگل ہے ۔ اگر رانیہ کو تم سے محبت ہوتی ، اسے رشتے کی قدر ہوتی لحاظ ہوتا تو وہ یوں تم سے چوری چھپے گھر اور شہر چھوڑ کر کبھی نہیں جاتی ، صاف ظاہر ہے کہ وہ کسی کو پسند کرتی تھی تم سے جھوٹی محبت کا کھیل کھیلا تھا اس نے ۔ سلمٰی بیگم نے سپاٹ لہجے میں کہا۔
اس نے مجھ سے کوئی محبت کا کھیل نہیں کھیلا بلکہ وہ مجھ سے نفرت کرتی ہے ممی
نفرت؟
جی ہاں ممی ! رانیہ آپ کے اس شاندار اور ڈیشنگ بیٹے سے شدید نفرت کرتی تھی۔ وہ کانپتی آواز میں بولا۔
اور تم پھر بھی اس کے لیے مرے جا رہے ہو۔
ہاں میں رانیہ رانیہ کے لیے مر سکتا ہوں۔ لیکن کسی اور لڑکی کے لیے ہاں کبھی نہیں کر سکتا ۔ وہ بدکردار نہیں۔ ہے ممی وہ بہت باکردار ہے بہت باحیا لڑکی ہے وہ ، بس میرے متعلق غلط فہمی اور بدگمانی میں مبتلا ہے ۔ مامون نے بے بسی اور دکھ سے بھیگتی آواز میں کہا۔
رانیہ تم سے نفرت کرتی ہے اس کا مطلب وہ کسی اور سے محبت کرتی ہے تم سے چھٹکارا چاہتی ہے اور تم۔۔۔۔۔۔۔
پلیز ممی ، بس کیجئیے ۔ وہ تڑپ کر بولا اپنی محبت کی نفرت اس کی روح تک کو گھائل کر رہی تھی ۔
مون میرے چاند ، بیٹا بھول جاؤ اسے تمہارے لیے ایک سے ایک اچھی لڑکی مل جائے گی ۔ سلمٰی بیگم نے قدرے نرمی اور محبت سے کہا۔
مگر مجھے تو صرف ایک ہی اچھی لڑکی چاہئیے اور وہ ہے رانیہ ۔۔
وہ اچھی لڑکی نہیں۔ ہے ۔ سلمٰئ بیگم نے کہا لہجہ غصلہ اور تیز تھا ۔ مامون نے تڑپ کر موبائل آف کر دیا۔
کیا یہ سب لوگ صححیح کہہ رہے ہیں ؟ کیا رانیہ واقعی بری لڑکی ہے ، کیا وہ کسی اور کو چاہتی ہے اور اسی کے ساتھ گئی ہے ، مجھ سے نکاح کے باوجود کسی اور سے کے داتھ چلی گئی ۔۔۔۔۔۔۔نہیں ۔۔۔۔نہیں ۔۔۔۔میری محبت اتنی بری نہیں ہو سکتی ، نہیں ہے وہ بدکردار ۔۔۔۔۔ نہیں
مامون خود سے سوال جواب کرتا بچوں۔ کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔
________________
وقت کا پنچھی اپنے پروں میں تین سال سمیٹ کر لے گیا تھا۔ مامون ضیاء کی زندگی کے قیمتی تین برس ، رانیہ کی یادوں سے آباد گزرے تھے ۔ ایک لمحہ بھی اس دوران ایسا نہ آیا کہ وہ رانیہ کو اس کی معصوم اور من موہنی صورت بھول پایا ہو۔ سب گھر والے اسے شادی کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کر کے تھک گئے تھے مگر اس کا ایک ہی جواب تھا کہ شادی تو میری رانیہ سے ہو چکی ہے ۔
اکثر راتوں کو تنہائی کے گھپ اندھیرے میں رانیہ کی جدائی کا درد بڑھ جاتا تو بے اختیار اشکبار ہو جاتا ، دعاؤں میں رب سے اس کی واپسی کی اس کے ملن کی اس کے پیار و اعتبار بھرے ساتھ کی فریاد اور درخواست کیا کرتا تھا اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رانیہ۔۔۔۔۔۔۔!!!
______________
رانیہ شہر چھوڑ کر اپنی پرنسپل فرحت نسیم کی بہن مدحت نسیم کے پاس اسلام آباد آ گئی تھی ۔
وہیں وہ ان کی انیکسی میں پے انگ گیسٹ کی حیثیت سے رہنے لگی اور ساتھ ہی ان کے سکول میں جاب بھی شروع کر دی تھی ۔ فرحت نسیم نے مدحت نسیم کو رانیہ کی دکھ بھری کہانی سنا دی تھی ۔ اس کے لیے انہیں ، رانیہ سے دلی ہمدردی تھی وہ اسے چھوٹی بہنوں کی طرح سمجھتی تھیں ۔ رانیہ نے زندگی کے سکھوں اور غموں۔ کو بھلانے کے لیے اپنی تعلیم بھی ساتھ ساتھ جاری رکھتے ہوئے بی ایڈ اور ایم اے کا امتحان پاس کر لیا تھا ۔ اس کی تنخوا میں اضافہ بھی ہو گیا تھا۔ دو ماہ پہلے اسے مدحت نسیم کی انیکسی سے فلیٹ میں شفٹ ہونا پڑا تھا ۔ کیونکہ مدحت نسیم کے دیور اپنی بیوی بچوں کے ساتھ وہاں رہنے کے لیے آگئے تھے ۔ فلیٹ کا چھ ماہ کا کرایا ، رانیہ نے ایڈوانس دے دیا تھا ۔ امجد ہاؤس کا کرایا بھی وہ اب فلیٹ کے کرائے میں دینے کے لیے استعمال کر رہی تھی ورنہ اب تک وہ رقم بینک اکاؤنٹ میں جمع تھی ۔ آس پاس کے فلیٹوں میں رہنے والوں۔ سے رانیہ کی بس سکول آتے جاتے ہی راستے میں سلام دعا ہوتی تھی ۔ اسی لیے اسے ان لوگوں کے مزاج علم نہیں ہو سکا تھا کہ وہ لوگ کیسے ہیں ؟ البتہ ان لوگوں کو تجسس ضرور رہتا تھا کہ یہ حسین و جمیل لڑکی کون ہے اور یہاں اکیلی کیوں رہتی ہے ؟ کہاں سے آئی ہے ؟ کیوں آئی ہے ؟ وغیرہ وغیرہ
رانیہ خود کو لاکھ مصروف کر لیا تھا لیکن مامون ضیاء اسے بھولا نہیں تھا ۔ جس طرح مامون کو اس کے ساتھ بیتا ہر لمحہ یاد تھا اسی طرح وہ ان لمحوں کو فراموش نہیں کر پائی تھی ۔ رات کو جب سونے کے لیے لیٹتی مامونآنکھوں۔ میں نیند کی جگہ آ بستا اور اسے حیرت ہوتی تھی اپنے آپ پر کہ اب اسے مامون سے پہلے کی طرح کی نفرت نہیں ہوتی تھی شائد گزرے وقت نے اس کا غصہ ٹھنڈا کر دیا تھا ۔ وہ اکثر سوچا کرتی تھی کہ نجانے اس کے وہاں۔ سے چلے آنے کے بعد مامون نے کیا سوچا ہو گا اس کے بارے میں ؟ اس کے دل پر کیا بیتی ہو گی ؟ کیا آس نے اسے تلاش کیا ہو گا ؟ کیا مامون اب تک اس کی محبت میں تنہائی کا عذاب جھیل رہا ہو گ یا اس نے گھر بسا لیا ہو گا۔
مامون نے اسے نکاح کی جو تصاویر دی تھیں رانیہ اپنے ساتھ ہی لے آئی تھی اور تقریباٌہر روز وہ البم دیکھتی اور حیران ہوا کرتی کہ مامون کے مقابلے میں وہ تو کچھ نہیں تھی وہ اس سے زیادہ ڈیشنگ اور اسمارٹ اور گڈ لکنگ تھا پھر اسی سے محبت کیوں کی ؟ مامون نے نکاح کی رات جو کنگن اسے پہنائے تھے وہ آج بھی اس کی کلائی کی شان بڑھا رہے تھے اسے ایک لمحے کو بھی یہ کنگن خود سے دور کرنے کا خیال نہیں آیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ جب بھی یہ کنگن اپنی کلائی میں گھماتی اسے سرگوشی سنائی دیتی تھی ۔
کاش ! میں تیرے حسین ہاتھ کا کنگن ہوتا۔!
____________________
مامون کی پیار بھری شریر اور شوخ جسارتیں اسے یاد آتیں تو جانے کیوں اس کے اندر اداسیوں کے قافلے اترنے لگتے۔
کیوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مامون ضیاء کیوں یاد آتے ہو مجھے ؟ رانیہ خود سے الجھتی اور اسے ایسے مخاتب کرتی جیسے وہ سامنے کھڑا سن رہا ہے۔
__________
مدحت نسیم اسے بار ہا مامون سے رابطے کے لیے کہہ چکی تھیں ۔ اسے سمجھ اچکی تھیں کہ مامون اس سے سچی محبت کرتا ہے مگر وہ اسے خود چھوڑ کر آئی تھی اب خود سے رابطہ کرنا اسے گوارہ نہ تھا اور وہ اس کو مجرم سمجھتی تھی اپنی سیرت و کردار کا ، وہ بھلا اسے کیسے معاف کر دیتی ۔ تئیس برس کی ہوئی تھی اور پوری عمر کاٹنا اکیلی لڑکی کے بس کی بات نہیں تھی۔ مدحت نسیم اسے سمجھاتی تھین جب سے وہ فلیٹ میں شفٹ ہوئی تھی تب سے ان کی نصیحتیں زور پکڑتی جا رہی ٹھیں ، انہیں رانیہ کے اکیلے رہنے کی وجہ سے ہر وقت اس کی فکر لگی رہتی تھی ۔ ایک دن رانیہ اسکول کے لیے فلیٹ سے باہر نکلی تو
ایک آوارہ مزاج لڑکے نے اس کا راستہ روک لیا۔
یہ صبح سویرے بن ٹھن کر کہاں جاتی ہو؟ لڑکے نے حباثت سے پوچھا۔
تم سے مطلب! رانیہ نے اپنی گھبراہٹ پر قابو پا کر سختی سے کہا
مطلب پورا کرو تو ابھی بتا دوں سنا ہے اکیلی رہتی ہو۔۔۔ تنہا ہو۔۔۔۔۔کہو تو میں آ جایا کروں رات کو تمہاری تنہائی دور ہو جائے گی اور میری بے قراری بولو منظور ہے ۔ اس لڑکے نے کمنگی سے کہا اس کی آنکھوں میں شیطانیت ٹپک رہی تھی ۔ رانیہ کو پہلی بار ایسی صورت حال کا واسطہ پڑا تھا اس کے تو رونگٹے کھڑے ہو گئے تھے۔
اپنے لئے اپنی جیسی آوارہ اور بے حیا لڑکی تلاش کرو ، ہٹو میرے راستے سے ۔ وہ غصے سے بولتی اسے دھکا دے کر تیزی سے آگے بڑھ گئی وہ لڑکا کمنگی سے قہقہ لگا کر ہنس پڑا۔
رانیہ کو اس رونا آ رہا تھا مگر ضبط کرتی ہوئی جیسے تیسے اسکول پہنچ گئی ۔ مدحت نسیم نے اسے وائس پرنسپل بنا دیا تھا۔ وہ سیدھی مدحت نسیم کے آفس میں آ گئی تھی ۔ مدحت نسیم ابھی ابھی پہنچی تھیں ۔ اس کے حواس باختہ صورت دیکھ کر فکر مندی سے اس کی طرف بڑھیں ۔
کیا ہوا رانیہ ؟؟ رانیہ نے روتے ہوئے ساری بات بتا دی۔ انہیں بہت افسوس ہوا تھا سن کر ۔
کتنی بار سمجھا چکی ہوں تمہیں کہ عورت کو اس معاشرے میں مرد کے بغیر تحفظ حاصل نہیں ہے اکیلی لڑکی یا عورت کا جینا حرام کر دیتے ہیں یہ لوگ تم انیکسی میں رہ کر رہی تھیں میرے ساتھ باہر آتی جاتی تھی۔ اس لئے کبھی عدم تحفظ کا احساس نہیں ہوا ۔ اب تم اکیلی رہ رہی ہو ، اکیلے باہر آتی جاتی ہو تو دیکھ لیا تم نے اس معاشرے کے مردوں کا رویہ ۔۔۔۔ تم تو ایک جھٹکے میں ڈھیر ہونے لگیں اور لڑکا بھلا اتنی آسانی تمہارا پیچھا چھوڑ دے گا۔۔؟اسے پتا ہے کہ تم اکیلی ہو لہذا وہ تمہیں پریشان ضرور کرے گا ۔ مدحت نسیم نے سنجیدگی سے کہا۔
آپی میں کیا کروں اب ؟؟
اپنے شوہر سے رابطہ کرو
یہ مجھ سے نہیں ہو گا اور وہ تو جیسے ان تین برسوں کی بے رخی اور لا تعلقی بھلا دیں گے ناں ۔۔۔۔ وہ بھی مجھے اوروں کی طرح برا ہی کہتے اور سمجھتے ہونگے اور انہوں نے مجھے حاصل کرنے کے لیے جو کچھ کیا ۔ وہ بھیگتے لہجے میں بولی ۔
اس کے لیے مامون ضیا ء کو معف کر دو۔ کیونکہ محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہوتا ہے ۔اول تو مجھے نہیں لگتا کہ مامون ضیاء نے اپنی محبت کو بدنام کیا ہو تم واپس چلی جاؤ رانیہ اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے ۔ مدحت نسیم نے اسے نرمی سے سمجھایا ۔
آپی ! میں اس شخص سے تحفظ اور ساتھ کی بھیگ نہیں مانگ سکتی ۔ رانیہ یہ کہہ کر اپنے آنسو پونچھتی ہوئی اٹھ کر آفس سے باہر چلی گئی ۔
اب مجھے ہی کچھ کرنا پڑے گا ورنہ یہ لڑکی سچمچ اس معاشرے کا کھلونا بن جائے گی ۔تنہا ہو جائگی ہمیشہ کے لیے ۔مدحت نسیم نے خود کلامی کرتے ہوئے کہا اور پرس کھول کر ڈائری میں۔ کچھ تلاش کرنے لگیں ۔
اگلے روز رانیہ اسکول میں اپنی کلاس کو پڑھا تہی تھی جب چپڑاسی نے اسے اطلاع دی کہ پرنسپل صاحبہ اسے آفس میں بلا رہی ہیں ۔ بریک ٹائم ہونے والا تھا وہ کلاس کو پڑھنے کی تاکید کر کے پرنسپل مدحت نسیم کے آفس کی طرف چل ی آئی وہ اسے آفس کے باہر ٹہلتی مل گئیں ۔
خیریت آپی ! آپ نے پہلے تو کبھی مجھے اس طرح نہیں بلوایا ؟ رانیہ نے ان کے قریب پہنچ کر فکر مندی سے استفسار کیا۔
رانیہ ! تمہارے مہمان میرے آف میں بیٹھے ہیں ان سے جا کر مل لو میں ذرا اسکول کا راؤنڈ لگا آوں اور سنو رانیہ دوبارہ کوئی نادانی مت کرنا بیسٹ آف لک جاؤ شاباش ۔ مدحت نسیم نے نرمی سے کہا اور اس کے شانے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے آفس میں جانے کا اشارہ کیا وہ نا سمجھی کے عالم میں۔ دیکھتی ہوئی حیران حیران سی آفس میں داخل ہو گئی۔ دائیں جانب مہمان کو بٹھانے کا اہتمامتھا صوفہ سیٹ رکھا ہوا تھا ۔ نرانیہ ںے دیکھا ایک شخص اخبار اپنے سامنے پھیلائے بیٹھا تھا ۔
کون ہے یہ ؟ رانیہ نے خود سے سوال کیا ۔ السلام و علیکم ! رانیہ نے آگے بڑھتے ہوئے سلام کیا تو اس شخص نے فورٌا اخبار اپنے چہرے کے سامنے سے ہٹا دیا ۔ رانیہ کی نگاہوں کے سامنے جو چاند چہرہ تھا وہ اس کے وجود میں اپنی چاندنی یکا یک پھیلاتا چلا گیا ۔
وعلیکم اسلام ورحمتہ الله وبرکاتہ! وہ خوشگوار لہجے میں جواب دیتا اٹھ کر اس کے سامنے آ کھڑا ہوا۔
مامون ! رانیہ کے یا قوتی لب وا ہوئے ۔
جی مسسز مامون ! شہر کی خاک چھانی تھی ، آج کل یہاں بسیرا تھا ۔ فضا میں تمہاری سانسوں کی خوشبو محسوس ہو رہی تھی اور بالآخر ایک مہربان کے وسیلے سے تم تک پہنچ ہی گیا ناں ۔
ڈھونڈ لیا ناں۔ میں نے تمہیں ۔ مامون ضیاء مجسم آنکھ بنا اسے دیکھتے ہوئے بہت نرم اور مسرور لہجے میں کہہ رہا تھا ۔ رانیہ کی آنکھوں میں حیرت تھی زبان گنگ تھی ، وہ بس اسے دیکھے جا رہی تھی جو آج بھی یوسف ثانی تھا ، ہاں البتہ پہلے سے کچھ کمزور دکھائی دے رہا تھا ۔ اس کا لہجہ آج بھی نرم اور محبت سے پُر تھا جبکہ رانیہ سوچ رہی تھی کہ مامون ضیاء کو تین سال کی جدائی پر غصہ ہونا چاہئیے تھا اور وہ اس کے خاموشی سے چھوڑ کر چلے جانے پر اتنے پیار سے مخاطب کر رہا تھا ۔ یکا یک مامون کا ہاتھ اٹھا اور رانیہ سمجھی کہ وہ تپھڑ مارنے لگا ہے ، اس خوف سے آنکھیں میچ لیں اور اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب مامون۔ کا ہاتھ اس کے دائیں رخسار پر نرمی سے آکر ٹھہر گیا۔رانیہ نے ایک عجیب سی تازگی اپنے اندر اترتی محسوس کی اور آنکھیں کھول کر اس کے چہرے کو دیکھا وہ محبت بھری شکائت کر رہا تھا۔
کیوں کیا تم نے مجھ پر یہ ظلم؟
ہم تو مجبور وفا ہیں مگر اے جان جہاں
اپنے عشاق سے ایسے بھی کوئی کرتا ہے ؟
رانیہ کے پاس کہنے کو کچھ بھی نہیں تھا حتٰی کہ وہ شدید نفرت اور بدگمانی جس کے سبب وہ اسے خاموشی سے چھوڑ آئی تھی وہ بھی کہیں نہیں تھی۔ وہ جانے کے لیے مڑی تو مامون نے اس کا بازو پکڑ لیا ۔
اب کہاں جا رہی ہو؟
میں اپنی کلاس لینے جا رہی ہ وں ۔ مری مری سی آواز اس کے حلق سے نکلی ۔
حالانکہ کلاس تو مجھے تمہاری لینی چاہئیے ۔ مامون۔ کا معنی خیز جملہ اسے شرمندہ سا کر گیا وہ رو برو ہو کر سنجیدہ اور سپاٹ لہجے میں بولی
ٹھیک ہے ، تو لیں میری کلاس ۔
جواب میں مامون نے اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں کے ہالے میں لے کر اس کی پیشانی پر اپنی محبت کی مہر ثبت کر دی ۔
مامون ! وہ تڑپ کر بولی اور اس کے ہاتھوں کو پکڑ کر ہٹیا ۔ وہ اس کی محبتوں پر حیران تھی جو اس کی شدید نفرت اور تین سال کی بے رخی اور لاتعلقی کے باوجود اس پر یوں اپنی محبت کے پھول نچھاور کر رہا تھا ۔ جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو ۔ وہ تین برس بیچ میں آئے ہی جہ ہوں اور وہ رانیہ کی نفرت سے آگاہ ہی نہ ہو ۔ یہ کیسی محبت تھی اسے رانیہ سے ؟؟
میں تو تمہاری زبان سے اپنا نام سننے کو ترس گیا تھا ۔ آج تم نے میرا نام لیا ہے تو مجھے احساس ہوا ہے کہ میں ابھی زندہ ہوں ۔ مامون نے خوشی سے مسگراتے ہوئے کہا اور اس کے ہونٹوں کو نرمی سے چھوا
پلیز آپ جائیں یہاں سے یہ اسکول ہے آپ کا بیڈ روم نہیں ہے۔ وہ سٹپٹا کر بولی تو اس نے اس کی کیفیت و حالت سے محفوظ ہوتے ہوئے کہا۔
ٹھیک ہے پھر میں تم سے بیڈروم میں ہی ملوں گا شام چار بجے تم سے تمہارے گھر پی ملاقات ہو گی۔
گھر پہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
ہاں تمہارا گھر میں دیکھ چکا ہوں ٹھیک چار بجے آؤں گا اوکے بائے ۔ مامون نے اس کی حیرانگی دور کرتے ہوئے مسکراتے ہوئے جواب دیا اور اس کا گال تھپتھپا کر وہاں سے چلا گیا اور وہ اپنا دل تھام کر وہیں صوفے پر ڈھے سی گئی ۔ اس کا رواں رواں مامون کے محبت بھرے لمس کی حدت و حرارت سے جل رہا تھا ۔ دل کی کیفیت بہت عجیب ہو رہی تھی ۔ وہ اس سے کچھ کہنے سننے کی حالت میں نہیں تھی سو اس سے بچنے کے لیے اسکول کے بعد پہلے اپنی کولیگ اور دوست فرخندہ کے ساتھ مارکیٹ چلی گئی تا کہ ہفتے بھر کی سبزی بیکری کا سامان۔ اور دیگر اشیاء خرید سکے وہ گھر آکر کچن میں رکھنے کے بعد نہا کر تیار ہوئی نماز ادا کی اور تین بجے وہ نمائش دیکھنے چلی گئی ۔ وہاں سے فارغ ہوئی تو مدحت نسیم کے گھر آگئی ، وہ مامون سے فرار اختیار کرنے کے لیے گھر جانے سے کترا رہی تھی لیکن دل و دماغ میں مامون ہی گھوم رہا تھا ۔ مدحت نسیم نے ہی بہت پہلے مامون کا وزیٹنگ کارڈ رانیہ کے پرس میں۔ دیکھا تھا اور جانے کس خیال کے تحت انہوں نے مامون کے موبائل نمرز ، ای میل ایڈریس اور گھر کے فون نمبرز اپنے ڈائریمیں نوٹ کر لیے تھے اہوں نے ہی مامون سے فون۔ پر رابطہ کر کے رانیہ کے متعلق بتایا تھا ۔ مامون جو ہفتے بھر سے اسلام آباد میں ہی تھا ۔ کمپنی آفس سیٹ کرنے اور رانیہ کو تلاش کرنے کا خیال لے کر ہی وہ یہاں آیا تھا اور اسے ہر راستیے میں ڈھونڈ رہا تھا ۔ مدحت نسیم کی فون کال نے اسے زیست افروز خبر سنا کر پھر سے زندہ کر دیا تھا اس کی لگن سچی تھی شائد اسی لئے اب۔ قدرت اس کواس کی حالت پر رحم آ گیا تھا اور اس نے مدحت نسیم کو رانیہ سے مامون۔ کی ملاقات کا وسیلہ بنا دیا تھا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...