پچھلے دنوں جب گھر گئی ہوئی تھی۔
تب ایک دن ارحم کمرے میں آیا تھا۔
وہ دن کبھی نہیں بھولا سکتی۔
اسکے الفاظ یارب!
اسلام علیکم! پری
آپ کی ہمت کیسے ہوئی!میرے کمرے میں آنے کی۔
پری نے سخت لہجہ میں ارحم کی جانب دیکھ کر کہا۔
وہ پری!
پری نہیں پارسا کہیں۔
ہممم سہی۔
ارحم آہستہ سے جواب میں کہا۔
پارسا مجھے کچھہ کہنا ہے۔
جو کہنا ہے جلدی کہیے اور چلتے بنیے۔
پری نے بنا دیکھے ہٹ دھرمی سے جواب دیا۔
پری کے الفاظ ارحم کے دل پر اثر انداز ہو رہے تھے۔
لیکن ارحم اسکی باتوں کو خاموشی سے پی گیا۔
اسے کیا خبر تھی اسکے الفاظ نے کیا وار کیے تھے۔
اور دل پر کہا گزر رہی تھی۔
ارحم کی آنکھیں بھیگ گئی تھی۔
پری نے ایک لمحہ کے لئے بھی ارحم کی طرف نہیں دیکھا تھا۔
اگر وہ دیکھ لیتی تو شاید ایسا نہ کہتی۔۔۔۔۔۔
پارسا ،احتشام اچھا لڑکا نہیں ہے۔
تم کون ہوتے ہو اسکےبارے میں کہنے والے.
پارسا یقین کرو میرا!
تم سے لاکھ درجے بہتر ہے بہت خوبصورت ہے بہت اچھا ہے۔
کبھی خود کو دیکھا ہے آئینہ میں۔
تم سے بات تو بہت دور دیکھنا بھی پسند نہیں کرتی۔۔۔
اپنی اچھائی کہیں اور جا کر جھاڑنا۔
یہاں کوئی اثر نہیں ہونے والا۔
ارحم روہانسا ہو گیا تھا۔
مگر پری بولتی گئی اسکے الفاظ پتھر کی طرح برس رہے تھے۔
پارسا،احتشام آپ کے قابل نہیں ہے۔
اچھا اب تم بتاؤ گے مجھے کون میرے قابل ہے کون نہیں۔
ارحم نے ضبط کرکے کہا!
پارسا جو جیسا نظر آتا ہے۔
ضروری نہیں وہ ایسا ہو۔
آجکل لوگوں کا کوئی بھروسہ نہیں ہوتا۔۔
معصوم لوگوں کے ساتھ کھیل جاتے ہیں۔
لوگ جھوٹی محبت کا دعویٰ کرتے ہیں۔
ارحم میری پسند کبھی بری نہیں ہو سکتی۔
مجھے مان ہے اپنی محبت پر۔
پارسا محبت دھوکا بھی دے سکتی ہے۔
مان ٹوٹ بھی سکتا ہے جب مان ٹوٹتا ہے انسان بھی ٹوٹ جاتا ہے۔
محبت تو بس اللہ کی ہوتی ہے۔
ایسا کچھہ نہیں ہے تمہیں غلط فہمی ہوگی پری نے دو ٹوک جواب دیا۔
پارسا اسکی صحبت اچھی نہیں ہے۔
اسکی دوستی اچھے لڑکوں سے نہیں ہے۔
اور وہ سگریٹ نوشی بھی کرتا ہے۔
اسے چھوڑ دو۔
بس کرو ارحم””
بہت ہوا اب میں مزید احتشام کے بارے میں ایک لفظ سننا برداشت نہیں کروں گی۔
اپنی اچھائیوں کی ٹوکڑی اٹھاؤ اور چلتے بنو۔
میں بہت خوش ہوں میں بہت خوش نصیب احتشام میری زندگی میں ہے۔
اب جاؤ یہاں سے تمہاری بات ختم ہوئی۔
ارحم فوراً چلا گیا۔
پری کو آج بھی سب باتیں یاد آرہی تھی۔
یا اللہ میری محبت کی لاج رکھنا۔
ابھی انھی باتوں میں گم تھی پاس بیٹھی اجالا نے مخاطب کیا۔
کدھر گم ہوگئی ہو لڑکی۔
ہممم کچھ کہا کیا! پری نے اچانک اجالا کے مخاطب کرنے پر جواب دیا۔
نہیں نہیں میرا دماغ خراب ہے جو خود سے باتیں کر رہی۔
کہیں نہیں بس ایسے ہی بس مختصر سا جواب دیا۔
وہ اجالا کو کیا بتاتی اس پر کیا گزر رہی تھی۔
محمد جنید نے اپنی تقریر میں لوگوں کو اپنی ویلفیئر سوسائٹی کے بارے میں آگاہ کیا۔
اور لوگوں کو بتایا۔
اور کہا کہ وہ بھی اس نیک کام میں اپنی خدمات سر انجام دیں۔
پھر تحائف تقسیم کرتے ہوئے احتشام مرتضیٰ کو بھی دعوت دی گئی۔
کیونکہ احتشام مرتضیٰ کے والد مرتضیٰ احمد لاہور ہائی کورٹ میں جج کے عہدے پر فائز تھے۔
انکا شمار ایک نامور ہستی کے طور پر ہوتا تھا۔
اسلئے انھیں بھی دعوت دی گئی تھی۔
لیکن انہوں نے ذاتی مصروفیات کی وجہ سے اپنے بیٹے کو بھیج دیا تھا۔
احتشام،پری کو بھی اپنے ساتھ سٹیج پر لے آیا تھا۔
ارحم کی نظر پری پر اچانک سے پڑی وہ حیران رہ گیا۔
پری نے بھی ارحم کو دیکھ لیا تھا۔
ارحم بھی پری کو پسند کرتا کرتا تھا۔
لیکن اسکی حقیقی محبت،مجازی محبت پر حاوی تھی۔
کیونکہ وہ جانتا ہے جو اللّہ کی ماننے لگ جاتے ہیں اللّہ کے ہر فیصلہ پر لبیک کہتے ہیں۔
اللّہ بھی انکے ساتھ ہمیشہ رہتا ہے۔
پری بہت پیاری لگ رہی تھی ارحم نے دل میں ہی اسکی تعریف کی۔
بلیک فراک پہنے اور ہلکا سا میک اپ،اسکودلکش بنا رہے تھے۔
جو چیز سب سے زیادہ اسے پسند تھی وہ تل تھا جو پری کی خوبصورتی کو عیاں کررہا تھا۔
لیکن جیسے ہی ارحم کی نظر احتشام پر پڑی اسکے چہرے پر ناگواری آگئ۔
اللّہ یہ لڑکا!
میں نے اس لڑکی کو روکا بھی تھا کہ اس سے دور رہے۔
وہ خود سے کہنے لگا۔
اس لڑکے کو برے لوگوں کی صحبت میں دیکھا تھا تو پری کو جا کر کہا تھا۔
پری نے اسکی کی ایک نہ مانی تھی۔
وہ بےبس تھا کسی کو بھی کچھ نہیں کہہ سکتا تھا۔
کیونکہ وہ جانتا تھا پری احتشام کو پسند کرتی ہے۔
وہ پری کو!لیکن پری اس بات سے بے خبر تھی۔
لیکن ایک بات وہ بہت اچھے سے سمجھتا تھا۔
جنسے محبت کی جاتی ہے انکا مان رکھا جاتا ہے۔
انکی خوشی میں خوش ہوا جاتا ہے انکا احترام کیا جاتا ہے۔
وہ پری کے لئے دل سے ہی دعا گو تھا۔
جیسے ہی دونوں کو سامنے سٹیج پر ساتھ دیکھا ارحم وہاں سے اٹھ کر چلا گیا۔
پری نے جیسے ہی دیکھا ارحم وہاں سے جا چکا تھا۔
اللّہ نکھرہ دیکھو اس لڑکے کا پری خود سے بڑبڑانے لگی۔
بھاڑ میں جائے میری طرف سے یہ کہہ کر وہ بچوں کی جانب متوجہ ہوگئی۔
تقریب کے اختتام پر تینوں ہاسٹل کی جانب چل پڑے۔
ہفتہ کو جیسے ہی پری گھر پہنچی گھر میں چہل پہل تھی۔
وہ سب سے پہلے بیگم فریال کے پاس گئ۔
ماما خیریت تو ہے نا!
آگئی میری بیٹی۔
جی ماما! گھر میں تیاریاں کیسی؟؟
وہ سبیحہ کی شادی کی تاریخ آج طے ہونی ہے اسلئے ساری تیاریاں چل رہی ہیں۔
اوہ اچھا میں ابھی اپیا سی ملکر آئی۔
اسلام علیکم! اپیا۔
پری نے کمرے میں داخل ہوتے ہی کہا۔
آگئی میڈم آفت۔
تمیز سے بات کرئیے مس عریشہ آپ
Now you are talking with a doctor” پری نے جواب دیا
اوہ اچھا اچھا آپ نے بتا دیا ورنہ میرے تو علم میں یہ بات ہی نہیں تھی۔ ہاہاہا
پٹنے والی ہرکتیں مت کیا کرو پری نے یہ کہتے ہوئے کشن عریشہ کو مارا۔
اپیا دیکھ لیں مجھے تنگ کر رہی ہے عریشہ
پری نے سبیحہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
عریشہ میری گڑیا کو مت تنگ کرو
سبیحہ نے پری کی سائیڈ لیتے ہوئے کہا۔
یہ ہوئی نہ بات پری نے سبیحہ کے گلے میں اپنی بانہیں ڈالے کہا۔
اچھا بابا تم لوگ بیٹھو میں کچھہ کھانے کو لاتی ہوں یہ کہہ کر عریشہ کچن میں چلی گئی۔
اور سنائیے اپیا!
آپکے چہرے کی مسکراہٹ تو آپ کی خوشی کو واضح بیان کر رہی ہے۔
دل میں تو لڈو پھوٹ رہے ہونگے۔
ایسی کوئی بات نہیں ہے سبیحہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
چلو جاکر فریش ہو کر آؤ
پھر کھانا کھاتے ہیں۔
پری اٹھ کر فریش ہونے چلی گئی اور کمرے کی صفائی میں مصروف ہوگئ۔
شام کے وقت سب مہمان آ چکے تھے۔
چاچو کی فیملی اور پھوپھو کی فیملی بھی تھی۔
پری نے بھی نارنجی رنگ کی ٹخنوں تک کرتی،سبز جارجٹ کا پاجامہ ،جامنی سلک کا دوپٹہ،کانوں میں سفید جھمکے جو سائیڈ پر ڈالا ہوا تھا۔
اس میں بھی پری دلکش لگ رہی تھی۔
سبیحہ بھی سفید فراک میں ملبوس،سفید چوڑی دار پاجامہ اور سفید رنگ کے دوپٹے میں ساری تقریب میں توجہ نظر تھی۔
ارحم نے بھی آسمانی رنگ کی قمیص اور سفید شلوار پہنی ہوئی تھی۔
ارحم بہت باوقار لگ رہا تھا۔
ماما کدھر ہو آپ سیڑھیوں سے اترتے پوچھا۔
اسے پتا نہیں چلا سامنے ارحم ہے۔
آ خری سیڑھی سے اترتے ہی وہ ارحم سے ٹکرا گئی۔