ارتضی اپنے کمرے میں بیٹھا لیپ ٹاپ میں مصروف تھا جب رابیل دروازے پر بنا دستک دیے ہی اندر داخل ہوئی۔
“بھائی یہ آپ کے لیے آیا ہے۔” اس نے لفافہ اس کی طرف بڑھایا۔
“ہوں ٹھیک ہے، میں دیکھ لیتا ہوں۔” ارتضی نے اس سے لیتے ہوئے ہوئے الٹ پلٹ کر دیکھا۔ اس پر سوائے اس کے نام پتے کے اور کچھ بھی نہیں لکھا تھا یہاں تک کے بھیجنے والے نے بھی اپنا نام نہیں لکھا تھا۔ رابیل کے جانے کے بعد اس نے کھول کر دیکھا تو اس میں علیزہ کی کچھ تصاویر اور ساتھ ہی ایک یو ایس بی تھی۔ وہ ایک ایک کر کے تصویریں دیکھنے لگا۔ سی سی ٹی وی کیمرہ سے لی گئی وہ تصویریں اس کے لیے خاصی حیران کن تھی۔ مختلف تصاویر مختلف زاویوں سے لی گئی تھیں۔ کسی میں وہ ایک غنڈے نما آدمی جو کہ راجہ تھا اس سے پیسے لے رہی تھی تو کسی میں گودام سے مال اٹھا رہی تھی۔ اس کے ساتھ تصاویر میں نظر آنے والے آدمیوں کو دیکھ کر اسے اتنا تو اندازہ ہو ہی گیا تھا کہ وہ لوگ ٹھیک لوگ نہیں ہیں۔ اس نے تصویریں رکھ کر یو ایس بی لیپ ٹاپ کے ساتھ لگائی اور کنییکٹ کرنے کے بعد فولڈر کھولا تو اس میں دو تین وڈیوز تھیں۔ اس نے ان کو پلے کیا تو اس میں علیزہ ایک ہال میں بیٹھی تھی اور اس کے سامنے ہی راجہ اور اس کے آدمی بیٹھے تھے۔ وہ فوٹیج ان کی میٹنگ کی تھی۔ وہ بے یقینی سے لیپ ٹاپ سائیڈ پر رکھتا ایک بار پھر تصویریں اٹھا کر دیکھنے لگا۔ بار بار دیکھنے کے بعد جب یقین ہوگیا کہ یہ جھوٹ نہیں ہے تو اس نے وہ یو ایس بی اور تصاویر لفافے میں ڈالیں اس سے پہلے وہ علیزہ کو فون کرتا اس کے فون کی میسج رنگ ٹیون بجی ۔ اس نے میسج کھولا تو اس میں لکھا تھا کہ “اگر ابھی بھی یقین نہیں آ رہا تو اس پتے پر جا کر تصدیق کر سکتے ہو” ساتھ ہی کسی ریسٹورینٹ کا ایڈریس تھا اس نے میسج پڑھ کر وہ لفافہ اور سائیڈ ٹیبل پر رکھی گاڑی کی چابیاں اٹھائیں اور برق رفتاری سے باہر نکل گیا۔ اپنے کمرے کی کھڑکی سے اس کی گاڑی کو تیزرفتاری سے باہر جاتا دیکھ کر اس نے افشین کو کال کر کے ان کی خبر لینے کو کہا اور کمرے سے باہر آئی۔ وہ رابیل کے کمرے کے سامنے سے گزر ہی رہی تھی کہ پیچھے سے رابیل کی آواز پر ٹھٹکی۔ وہ “وطن کی مٹی گواہ رہنا” گنگناتی ہوئی آ رہی تھی۔ دانین دانت پیستے ہوئے مڑی اور اسے ارسل کے کمرے میں آنے کو کہا۔ اس کے تیور دیکھ کر اور اس دن ان غنڈوں کی دھلائی یاد کر کے ایک پل کو تو وہ لرزی مگر پھر دل مضبوط کر کے اس کے پیچھے بڑھی جو ارسل کے کمرے میں داخل ہو رہی تھی۔ وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی کمرے میں آئی تو وہ بیڈ پر بیٹھے گیم کھیلتے ارسل کے سامنے کرسی پر بیٹھی تھی۔
“میرے کمرے کی تلاشی کیوں لی؟” وہ سیدھا مدعے پر آئی۔
“نن ۔۔۔۔۔۔۔ نہیں تو۔” اس کے ایک دم سے پوچھنے پر وہ گڑبڑائی۔
“جھوٹ مت بولو ۔ میں جانتی ہوں تم نے میرے کمرے کی تلاشی لی ہے ۔” اس نے سختی سے کہا۔ اس کے سرد و سپاٹ انداز پر رابیل نے اپنا حلق تر کیا اور پھر بنا کچھ سوچے سمجھے باہر کی طرف دوڑ لگا دی۔
“رابیل رکو۔ خبردار جو ایک قدم بھی آگے بڑھایا تو۔” اس کی دھاڑ پر وہ جو کمرے سے باہر نکلنے ہی والی تھی قدموں کو بریک لگی۔
“یہاں آ کر بیٹھو۔” اس کو وہیں جمے دیکھ کر اس نے تحکمانہ لہجے میں کہا تو وہ مرے مرے انداز میں واپس آ کر ارسل کے پاس بیٹھی جو آنکھیں پھاڑے سچوئشن سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔
“تم نے میری اجازت کے بنا میرے کمرے کی تلاشی لی ہے۔ تو کیا اس بدتمیزی اور بدتہذیبی کی وجہ جان سکتی ہوں۔”
“ہاں تو اس دن جب میں نے آپ سے پوچھا تھا کہ آپ دانین آپی ہیں تو مکری کیوں تھیں؟ اس دن اگر مان جاتیں تو مجھے یہ حرکت نہیں کرنا پڑتی۔” رابیل نے آنکھیں میچتے ہوئے ایک ہی سانس میں کہا اور دانین گہری سانس لے کر رہ گئی مطلب اس کا شک درست تھا وہ جان چکی تھی۔
“کیا جانتی ہو؟ ابھی تلاشی کے دوران کیا پتہ چلا ہے؟” اس نے سنجیدگی سے پوچھا۔
“یہی کہ آپ ایک سیکورٹی آفیسر ہیں۔ وہ بھی سیکرٹ والی۔” رابیل نے چہک کر جواب دیا۔
“کس کس کے کان تک یہ بات پہنچا چکی ہو؟” اس نے آبرو اچکائے ہوئے سوال کیا۔
“ابھی تک تو کسی کو نہیں پتہ۔ میں نے سوچا تھا ڈنر پر سب کو یہ نیوز دوں گی۔” اس کو کسی حد تک نارمل دیکھ کر رابیل اپنی پرانی ٹون میں آ رہی تھی۔
“کسی کو کچھ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ آنٹی ،بھابھی اور انکل جانتے ہیں ۔” اس نے اس کی ایکسائٹمنٹ پر اسے گھورتے ہوئے ٹوکا۔
“واٹ؟” وہ تقریباً چیخی۔
“تم دونوں میری بات دھیان سے سنو، آنٹی سمیت ہم سب چاہتے ہیں کہ تم بھی اسی فیلڈ میں آؤ مگر انکل چاہتے ہیں کہ تم پہلے کچھ میچور ہوجاؤ ۔ سٹڈی مکمل کر لو اس کے بعد دیکھیں گے مگر میں چاہتی ہوں کہ مرتضی بھائی اور ارتضی نہ سہی ارسل ہمیں جوائن کرے اور مجھے یقین ہے کہ تم دونوں کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ یہ سب بتانے کا مقصد یہ ہے کہ اس شعبے میں کسی بھی چیز کی اگر سب سے زیادہ اہمیت ہوتی ہے تو وہ اعتبار، بھروسہ اور راز رکھنے کی اہلیت کی ہوتی ہے۔ یہاں پر بات ہی ساری بھروسے اور زبان کی ہوتی ہے۔ اگر ایک بار آپ تینوں چیزوں سے نکل جاؤ تو چاہے کچھ بھی کر لو قابل اعتبار نہیں رہتے۔ ایسا ہی ہمارے ادارے میں بھی ہے۔ کسی بھی آفیسر کو منتخب کرنے سے پہلے اس کا بیک گراونڈ دیکھا جاتا ہے۔ اس کی کسی بھی کمزوری پر کمپرومائز کرنے کے دو تین فی صد چانسز ہوتے ہیں مگر دغا باز اور پیٹ کے ہلکے انسان کی کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ ایسا ہی تمہارے معاملے میں بھی ہوگا۔ ہم لوگ جو انڈر کور ہوتے ہیں ان کی دوستیاں کم اور دشمنیاں زیادہ ہوتی ہیں۔ اگر تم لوگوں کی وجہ سے کسی بھی کوپ کو نقصان پہنچا تو کریڈبیلٹی تو خراب ہوگی ہی مگر ساتھ ساتھ سزا بھی ملے گی۔” دانین نے نہایت ہی آرام سے اور گھما پھرا کر اس کا برین واش کرنے کی کوشش کی۔
“آپ ۔۔آپ سچ کہہ رہی ہیں؟ کیا واقعی ہی ماما لوگ مجھے اس فیلڈ میں لانا چاہتے ہیں۔” رابیل سب کچھ چھوڑ کر اسی بات پر اٹکی۔
“آپی آپ ہمیں بھی اپنے ساتھ رکھ لیں ناں، آپ کے ساتھ رہیں گے تو سیکھ جائیں گے۔” ارسل بھی آئی پیڈ پھینک کر اس کے پاس آ بیٹھا۔ مین بات کو پسِ پشت جاتا دیکھ کر دانین سر پیٹ کر رہ گئی۔
“وہ سب بعد کی بات ہے۔ پہلے میں تم دونوں کی کریڈبیلٹی چیک کروں گی اس کے بعد دیکھوں گی کہ کیا کیا جا سکتا ہے ۔”
“ہم لوگ ایسا کچھ نہیں کریں گے اور آپ کا بھی کسی کو نہیں بتائیں گے۔ پرومس۔” ارسل نے شہ رگ پر ہاتھ رکھا۔
ہمم۔ ٹھیک ہے۔ جب مجھے لگا تم لوگ اس قابل ہوگئے ہو تو میں انکل سے بات کروں گی۔” وہ اٹھتے ہوئے بولی.
“آپی ایک بات اور۔” رابیل نے جلدی سے اسے روکا۔
“اس دن آپ کو کیسے پتہ چلا تھا کہ ہم لوگ مشکل میں ہیں۔” جو سوال اسے رہ رہ کر تنگ کر رہا تھا اس نے بلاآخر پوچھ ہی لیا۔
“بھابھی کا میسج آیا تھا۔” اس نے مختصراً کہا۔
“تو کیا بھابھی جانتی ہیں؟” اس نے حیرت سے پوچھا۔
ہاں وہ بھی اسی شعبے سے تعلق رکھتی ہیں مگر وہ فیلڈ کے بجائے ہیکینگ وغیرہ کرتی ہیں۔”
“ڈونٹ ٹیل می کہ مام دیڈ بھی۔۔۔” اس نے آنکھیں پھیلاتے ہوئے جملہ ادھورا چھوڑا تو اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
“اوہ مائی گاڈ! مطلب ہمارے گھر میں ایجنٹس پائے جاتے ہیں اور ہمیں پتہ ہی نہیں۔”
“اچھا بس اب اس بات کو یہیں ختم کرو اور بھول جاؤ کہ تم ایسا کچھ جانتی بھی ہو۔” دانین نےاس کا جوش دیکھ کر اسے ڈپٹا اور باہر نکل گئی۔
“کیا کر رہے تھے تم لوگ۔” اپنے کمرے سے نکلتی فروا بھابھی نے ان کو آگے پیچھے کمرے سے باہر آتا دیکھ کر پوچھا۔
“آئیں میں بتاتی ہوں۔” دانین انہیں لے کر نیچے جاتے ہوئے بولی اور آخری سیڑھی تک جاتے جاتے اس نے ساری تفصیل بتا دی۔
“کیا تمہیں لگتا ہے کہ ابھی ساری بات سے آگاہ کر کے تم نے کوئی رسک نہیں لیا۔” فروا بھابھی نے کچن کی طرف جاتے ہوئے آہستگی سے پوچھا۔
“پہلی بات میں نے نہیں بتایا۔ انہوں نے خود ہی پتہ لگایا ہے اور دوسری بات وہ دونوں جان چکے ہیں اب اگر ان کو سختی سے روکتی یا ڈانٹ ڈپٹ کرتی تو ہو سکتا ہے وہ زیادہ خیال نہ کرتے یا لاپرواہی میں کہیں پر کچھ بول دیتے مگر میں نے انہیں سب کچھ بتا کر ان پر اس کی حفاظت کی زمہ داری ڈال دی ہے۔ انہیں یہ مان دیا ہے کہ مجھے ان پر بھروسہ ہے۔ وہ اس قابل ہیں کہ ان پر اعتبار کرتے ہوئے اس راز سے آگاہ کیا جائے۔ اب اگر ان کی جان بھی جاتی ہوئی تو جائے مگر اس حوالے سے اپنی زبان نہیں کھولیں گے۔
ایک اور بات وہ یہ کہ مجھے ان کے رجحان کا اندازہ ہوگیا ہے کہ وہ اس شعبے میں آنا چاہتے ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان میں یہ شوق اور جذبہ پروان چڑھے گا۔ یہ بات تو آپ بھی اچھے سے جانتی ہیں کہ یہاں پر سخت سے سخت ٹریننگ بھی کسی کام کی نہیں جب تک جذبہ اور جوش و ولولہ نہ ہو۔” دانین ان کے پیچھے کچن میں آتے ہوئے بولی۔
“ہوں، کہہ تو تم ٹھیک رہی ہو۔ خیر یہ بتاؤ کہ ارتضی سی کیا کہا ہے وہ کافی غصے اور جلدی میں باہر نکلا ہے۔” انہوں نے فریج سے سبزی نکالتے ہوئے پوچھا۔
“کچھ نہیں بس اس کی دوست پلس گرل فرینڈ کے کچھ کرتوت اسے بھیجے ہیں تو سمجھو تصدیق کرنے گیا ہے۔” اس نے میز پر رکھی ٹوکری میں سے سیب اٹھاتے ہوئے جواب دیا۔
“تو کیا وہ یقین کر لے گا۔ اگر اس نے انکار کر دیا کہ یہ میری نہیں ہیں تو؟”
“ظاہر ہے وہ تو جھٹلائے گی ہی نہ۔ اب یہ تو آپ کے دیور پر منحصر ہے کہ وہ کتنا عقل مند ثابت ہوتا ہے۔” اس نے سیب ہوا میں اچھال کر کیچ کرتے ہوئے کہا۔
“میری دعا ہے کہ وہ جلد تمہارے پاس واپس لوٹ آئے۔” انہوں نے خلوص دل سے کہا تو اس نے دل ہی دل میں آمین کہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہ گاڑی فل سپیڈ میں چلاتا آدھے گھنٹے کا راستہ صرف پندرہ منٹ میں طے کرتا بتائے ہوئے پتے پر پہنچ چکا تھا۔ گاڑی پارکنگ لاٹ میں روکتے ہی وہ بہت ہی عجلت میں گاڑی سے باہر نکلا اور اسے لاک کرتا لمبے لمبے ڈگ بھرتا ریستوران میں داخل ہوا۔ ادھر ادھر نظر دوڑانے پر اسے علیزہ ایک کونے میں سیٹ ہوئی میز کی جانب بیٹھی نظر آئی۔ اس کی ارتضی کی جانب پشت تھی اور سامنے ہی ایک خوش شکل سا نوجوان بیٹھا تھا۔ وہ لب بھینچتا ہوا ان دونوں کی طرف آیا تو علیزہ کا ہاتھ اس لڑکے کے ہاتھ میں دیکھ کر ششدر ہوا۔اچانک اپنے نزدیک کسی کو کھڑا ہوا محسوس کر کے علیزہ نے جیسے ہی نگاہ اٹھا کر دیکھا تو ارتضیٰ کو دیکھ کر بوکھلا کر رہ گئی۔
“تت تم یہاں۔” وہ ایک جھٹکے سے کرسی سے اٹھی تھی۔
“ہاں! مگر مجھے یہاں دیکھ کر تمہارے ہوش کیوں اڑ گئے؟”
“نن۔۔نہیں میں تو ویسے ہی۔” اس نے چہرے پر آیا پسینہ صاف کرتے ہوئے ہوئے جواب دیا۔
“سنو تم دومنٹ دو ہمیں، مجھے ضروری بات کرنی ہے۔” اس نے پاس بیٹھے لڑکے کو گھورا تو وہ اٹھ کر ایک نظر دونوں کو دیکھتا باہر نکل گیا۔
“تمہیں کچھ دکھانا ہے۔ آئی ہوپ یہ سب دیکھنے کے بعد تم مجھ سے سچ بولو گی۔” وہ سیدھے سبھاؤ مین پوائنٹ پر آیا اور لفافے میں سے تصویریں نکال کر میز پر الٹ دیں۔ تصویریں دیکھ کر علیزہ کی رنگت زرد ہوئی۔
“یہ۔۔۔یہ کیا ہے؟”
“یہی تومیں پوچھ رہا ہوں کہ یہ کیا ہے؟” اس نے طنزیہ کہا۔
میں نہیں جانتی ۔”اس نے فور تردید کی
“ارے واہ!”
“میں۔۔۔۔۔ میں سچ کہہ رہی ہوں ۔یہ میں نہیں ہوں۔ تم جانتے تو ہو آج کل ایڈیٹنگ میں لوگ کیا کچھ نہیں کر لیتے۔” اس نے جلدی سے کہا۔
“اوہ رئیلی؟” ارتضی نے تمسخر سے پوچھا۔
“پہلے مجھے بھی یہی لگا تھا کہ شاید یہ سب جھوٹ ہو مگر تمہارے چہرے کی اڑتی ہوائیاں، لڑکھڑاتی زبان اور کھوکھلا لہجہ چیخ چیخ کر تمہارے مجرم ہونے کی گواہی دے رہا ہے۔” اس نے سرد لہجے میں کہا تو وہ خاموش ہو گئی اور اس کی خاموشی نے ارتضی کے دل میں تھوڑی بہت گنجائش کو بھی ختم کر دیا۔
“تمہاری وجہ سے، صرف اور صرف تمہاری وجہ سے میں نے اپنی ماما سے بدتمیزی کی، ان سے روڈلی بات کی، اپنی فیانسی تک سے الجھا اور تم کیا نکلی۔ ماما نے بالکل ٹھیک کہا تھا وہ مجھ سے بہتر جانتی ہیں کہ میرے لیے کیا اچھا ہے اور کیا نہیں۔”
“میں مانتی ہوں یہ سب مگر میرا یقین کرو ارتضی میں تم سے محبت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
“اوہ شٹ اپ علیزہ، جسٹ شٹ اپ۔” اس نے انگلی اٹھا کر اسے سختی سے ٹوکا۔
“مزید اب ایک لفظ مت بولنا۔ تمہاری اس سو کالڈ جھوٹی محبت کی وجہ سے میرا اب محبت پر سے اعتبار اٹھ چکا ہے اور تم اس قابل نہیں ہو کہ تم سے محبت کی جائے۔” اس نے تلخی سے کہا ۔
“اپنے یہ کرتوت سنبھال لینا۔ میرے پاس رہیں گی تو میں کسی دن پولیس میں دے دوں گا اور دوبارہ مجھ سے رابطہ کرنے کی کوشش مت کرنا ورنہ بہت بری طرح سے پیش آؤں گا۔ ” وہ تصویریں اٹھا کر اس کے ہاتھ میں تھماتا وہاں سے چلا گیا۔ پیچھے وہ گہری سانس لیتے ہوئے کرسی پر ڈھے سی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احتشام افتخار تھانے سے اسماء کا ایڈریس لے کر ان کے گھر پہنچا۔ اس کے تعارف کروانے پر اسماء ڈر و خوف کے باعث کمرے میں جا کر اندر سے کنڈی لگا کر کمرے میں موجود کھڑکی کے پاس کھڑی ہو کر وہاں دیکھنے لگی جہاں احتشام اس کے والدین کے ساتھ بیٹھا تھا۔ احتشام نے اپنے بھائی کے کیے کی اسماء کے والدین سے معافی مانگی۔ جو بھی ہوا اس کا ذمہ دار اپنے بھائی کو ٹھہراتے ہوئے اس نے ان لوگوں سے پوری پوری ہمدردی جتائی۔ کچھ دیر تک وہاں بیٹھے رہنے کے بعد وہ جانے کے لیے اٹھا تو اس نے کچھ پیسے اسماء کے والدین کو اسماء کے لیے دینے چاہے مگر انھوں نے صاف منع کر دیا۔ ان کے تلخ رویے کو برداشت کرتا وہ باہر نکل آیا اور گاڑی سٹارٹ کر کے اس نے مین روڈ پر تھوڑا آگے اور ایک طرف لا کر روکی۔
ان کے جانے کے بعد اسماء نے کانپتے لرزتے ہاتھوں سے دانین کا نمبر ملایا اور اسے ساری بات بتائی۔
“ریلیکس چندا! وہ چلا گیا ہے نہ تو تم کیوں پریشان ہو رہی ہو؟ ” دانین نے اس کی گھبرائی آواز سن کر اسے تسلی دی۔
“آپی! مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔ یہ لوگ بہت ظالم ہیں مجھے مار دیں گے۔ پلیز مجھے بچا لیں۔ “وہ روہانسی آواز میں بولی۔
“کیوں مار دیں گے؟ جان لینی اتنی آسان ہے کیا؟ کچھ نہیں ہوگا تمہیں اور گھر والوں کو، میں ہوں نہ۔” دانین کی نرم آواز پر وہ جو مشکل سے ضبط کیے ہوئے تھی رو دی۔
“نہیں آپی یہ مار دیں گے مجھے اور مجھے ابھی نہیں مرنا۔ آپ پلیز بچا لیں۔ آپ۔۔۔۔ آپ یہاں آجائیں۔ مم۔۔۔۔۔۔مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔ آپ ایک بار یہاں آجائیں نہ۔۔۔ پلیز۔ بس ایک بار۔”
“اچھا اچھا ٹھیک ہے تم رونا بند کرو۔ میں آتی ہوں۔ بس دس منٹ میں تمہارے پاس پہنچ رہی ہوں۔ چلو اب شاباش رونا بند کرو۔ میں آتی ہوں” اس نے اسے پچکارا اور فون بند کرتے ہوئے اٹھی۔
“کیا ہوا؟” نوشین بیگم نے پوچھا۔
“وہی اسماء والا کیس۔”
“اب کیا ہوا؟”
“ہونا کیا ہے یہ لوگ غریب کو کہاں جینے دیتے ہیں۔ عدیل کا بھائی ان کے گھر گیا ہے۔ اب مقصد کیا ہے یہ نہیں پتہ۔ اسماء کافی ڈری ہوئی ہے تو میں کچھ دیر کے لیے وہیں جا رہی ہوں۔” اس نے کہا اور باہر نکل گئی۔
“یہ اسی کی ہی بات ہو رہی ہے نہ جو کچھ دن پہلے اسماء نام کی لڑکی کا ریپ ہوا ہے اور اس لڑکے کو کسی نے مارا بھی ہے۔” ارسل نے نوشین بیگم سے پوچھا تو انہوں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
“پھر آپ لوگوں کو تو پتہ ہوگا نہ کہ اس لڑکے کو کس نے اتنی بے دردی سے مارا ہے۔” راںیل نے دلچسپی سے پوچھا۔
“یہ جو ابھی تمہارے پاس سے اٹھ کر گئی ہے اس نے۔” انہوں نے عام سے انداز میں کہا مگر ان کے اس عام سے انداز سے بھی رابیل کو پھندا لگا۔
“آر یو سیرئیس مام؟”اس نے آنکھیں بڑی کرتے ہوئے پوچھا۔
“یہ بات کوئی مذاق والی ہے؟” انہوں نے اسے گھوری دکھائی۔
“شکر کرو ہم بچ گئے ہیں۔ورنہ جس طرح ہم نے ان کی جاسوسی کی ہے نہ ۔ ہمارا حشر بھی ایسا ہی ہو سکتا تھا” ارسل نے اس کے کان میں سرگوشی کی۔
“مجھے لگتا ہے تھوڑا احتیاط سے رہنا پڑے گا۔ جانے کب ان کو غصہ آ جائے اور ہمارا حال بھی ایسا ہی کر کے رکھ دیں۔” رابیل نے جواباً سرگوشی کی۔ ان کو دیکھ کر نوشین بیگم نفی میں سر ہلا کر رہ گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“آپ کو کیا لگتا ہے سر وہ لڑکی آئے گی؟” احتشام کے ساتھ گاڑی میں بیٹھے اس کی مینجر نے پوچھا۔
“تم نے دیکھا نہیں کیسے وہ بھاگ کر روم میں چلی گئی تھی۔ جتنا وہ ڈری ہوئی تھی لامحالہ اس کو فون کرے گی جس کو سن کر وہ دوڑی چلی آئے گی۔” احتشام نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
وہ لوگ کافی دن سے اس کو ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے تھے مگر ناکام رہے تھے۔ اس لیے اس نے یہ ترکیب سوچی کہ وہ اسماء سے ملے۔ اس کے بارے میں سن کر وہ ہر صورت اس لڑکی کو فون کرے گی۔
ابھی ان لوگوں کو وہاں بیٹھے پندرہ بیس منٹ ہی گزرے تھے کہ سامنے سے ایک گاڑی تیزرفتاری سے آتی دکھائی دی۔ ان کو کراس کرتے ہوئے اس گاڑی نے اسماء کے محلے کی طرف گاڑی کا رخ کیا تو احتشام نے معنی خیزی سے مینجر کو دیکھا اور اسے وہیں رہنے کو بول کر خود آہستہ آہستہ چلتا ہوا اس کے پیچھے آیا۔ دانین بڑی سڑک پر گاڑی روک کر نیچے اتری۔ بار بار کسی خطرے کا الارم بجاتی اپنی چھٹی حس کے زیر اثر اس نے ادھر ادھر دیکھا مگر سوائے کچھ فاصلے پر کھڑی گاڑی اور اپنے سے پیچھے آتے ایک آدمی کے کچھ نہیں تھا۔ گاڑی کو لاک کرتے ہوئے وہ ایک تنگ سی گلی میں داخل ہوئی۔ ہڈ سے اپنا چہرہ مکمل چھپائے وہ اس سے کچھ فاصلے پر رک کر اسے دیکھنے لگا جو اب اسماء کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹا رہی تھی۔ کنفرم ہونے کے بعد اس نے اپنی بیک سے پسٹل نکال کر لوڈ کیا اور اس کا نشانہ لینے لگا۔ کسی احساس کے تحت اس نے گردن موڑ کر دیکھا تو وہ بجلی کی تیزی سے جھکی۔ ایک سنسناتی ہوئی گولی عین اس کے سر کے اوپر سے گزری تھی۔ چند لمحوں کا کھیل تھا اگر جو وہ بروقت نیچے نہ جھکتی تو گولی اس کی کھوپڑی میں سوراخ کر چکی ہوتی۔ وہ چھلانگ لگا کر دروازے کی اوٹ میں ہوئی اور جیکٹ سے اپنی گن نکال کر چیک کی تو اس میں محض تین گولیاں دیکھ کر اس کا سر پیٹنے کو جی چاہا۔ دوسری طرف سے مسلسل ہوتی فائرنگ سے اس نے زرا سا آگے ہو کر جوابی فائر کیا۔ فائرنگ کے شور سے گلی میں بھگدڑ سی مچ گئی تھی۔ آس پاس کے لوگوں نے زرا سا جھانک کر دروازے بند کر لیے تھے اور کچھ کھڑکیوں میں کھڑے انہیں دیکھ رہے تھے۔ چونکہ وہ اسماء کے دروازے کے آگے کھڑی تھی اس لیے اندر سے ان کی ڈری سہمی آوازیں بخوبی سن پا رہی تھی۔ ایک گولی کے بعد وہ بے بسی سے گن کو دیکھنے لگی جس میں اب دو گولیاں بچیں تھیں اور ان کو وہ صرف اپنے دفاع کے طور پر ہی استعمال کر سکتی تھی جبکہ اس وقت اسے اپنے ساتھ ساتھ اسماء اور اس کی فیملی کی بھی فکر تھی۔ وہ خود کو کسی چوہے دان میں پھنسے چوہے کی طرح محسوس کر رہی تھی جو سوائے بےبسی سے تماشا دیکھنے کے اور کچھ نہیں سکتا تھا۔ ابھی وہ سوچ ہی رہی تھی کہ کیا کرے کہ اچانک سے فائرنگ بند ہوگئی ۔ اس نے محتاط انداز میں آگے کو ہو کر دیکھا تو وہ گن لوڈ کر رہا تھا شاید اس کی گولیاں ختم ہوگئیں تھیں۔ دانین نے اللہ کا نام لے کر اپنی گن پر سائیلنسر چڑھایا اور اس کے دائیں بازو کا نشانہ لے کر گولی چلا دی۔ گولی لگتے ہی اس کے منہ سے بے ساختہ چیخ نکلی اور پسٹل اس کے ہاتھ سے نکل کر دور جا گری۔ گولی اس کی کہنی سے تھوڑا نیچے لگی تھی۔ اس نے سر اٹھا کر اسے دیکھا تو وہ اب سامنے کھڑی دوبارہ سے نشانہ لے رہی تھی۔ اپنے بازو سے بہتا خون دیکھ کر وہ لب بھینچتا غصے سے تمتماتے چہرے کے ساتھ بائیں ہاتھ سے اپنی گن اٹھا کر الٹے پاؤں بھاگا۔ اس کو بھاگتا دیکھ کر دانین نےآسمان کی طرف دیکھتے ہوئے خدا کا شکر ادا کیا اور تب تک وہیں کھڑی رہی جب تک وہ مین روڈ پر پہنچ کر نظروں سے اوجھل نہیں ہوگیا تھا۔ وہ طویل سانس لے کر پلٹی اور مڑ کر اسما کے گھر کا درواذہ کھٹکھٹایا۔
“اسماء دروازہ کھولو میں ہوں دانین۔” اس کی آواز پر دروازہ کھلا ۔ اسماء بھاگ کر اس کے پاس آئی اور اس سے لپٹ کر رونے لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...