سعد فون کان سے لگائے لان میں ٹہلتا سعدیہ بیگم سے کال پر بات کررہا تھا۔ سعدیہ بیگم اسے موئذ کے گھر ہونے والی سادی گفت و شنید بتارہی تھی۔ انگوٹی پہنانے کا انہوں نے سعد کو بھی نہیں بتایا تھا۔
” اور ہاں۔ تمھارے لئے ایک سرپرائز ہے۔ ہم نے انگوٹی پہنا دی تمھاری دلہن کو” ان کی مسکراتی ہوئی آواز سنائی دی۔ وہ بھی مدھم سا مسکرا دیا۔
” میرے بغیر ہی اور مجھے بتایا بھی نہیں۔ That’s not fair mama” سعد نے بچوں کی سی ناراضی لئےکہا تو وہ ہنس دی۔
” چلو بہت باتیں ہوگئی۔ اور سنو اب بس جلد سے جلد آنے کی کوشش کرو۔ ڈیٹ بھی فکس کرنی ہے اس حساب سے پھر۔ پھر جلد ہم بھی اپنے فرض پورا کرے۔ چلو شاباش اب سو جاؤ۔ تمھارے ہاں تو رات ہورہی ہوگی۔” سعدیہ بیگم نے کہا تو سعد نے الواداعی کلمات کہہ کر فون بند کردیا۔
فون بند کرکے وہ وہاں دروازے کے ساتھ آگےتک بیٹھنے کی غرض سے لکڑی کا تختہ آگے تک بنایا گیا تھا۔ وہ وہاں اس تختے پر بیٹھنے کی بجائے اس سے ٹیکگلا کر بیٹھ گیا تھا۔ تھوڑی دیر پہلے کی مسکراہٹ چہرے سے غائب تھی۔
غیر مرائی نقطے پر نظریں جمائے وہ پچھلے ایک عرصے کی طرح ایک بار پھر سوچوں کے جہان میں گم ہوگیا۔
سب کے سامنے ہنسنے والا زندہ دل وہ شخص اندر سے کب کا ویران ہو چکا تھا۔ لندن وہ سب سےدور ایسے ہی بھاگ کر نہیں آیا تھا۔ وہ وہاں سب کو یہ یقین دلاتے دلاتے تھک گیا تھا کہ وہ ٹھیک ہے۔ دھوکہ ہی ہوا ہے نہ کوئی بات نہیں کوئی اور مل جائے گی۔ وہ تھک گیا تھا اس سب سے۔
انسان تھا وہ۔ اس کے پاس بھی دل تھا۔ اس کے بھی جذبات تھے۔
ہنستا کھیلتا تھا تو کیا ہوا۔
سب سے زیادہ دکھ بھی تو لوگ ہنستے کھلتے انسان کو ہی دیتے ہے ۔
ایک خوش باش انسان کو ہی تو نظر لگتی ہے۔
وہ جانتا تھا وہ ایک نامحرم اور کسی کی ہو چکی محرم کو سوچ رہا تھا۔ تصور میں اسے دیکھ رہا تھا۔سب جانتے ہوئے بھی وہ خود کو اس گناہ سے بچا نہیں پا رہا تھا۔
وہ انسان تھا۔
ایک جیتا جاگتا انسان۔
جس کے دل میں بھی کوئی جذبات تھے۔
جس کے اندر بھی ٹوٹے دل کی کرچیاں تھی۔
انسان تو کبھی اپنے دشمن کے ساتھ گزارے اچھے لمحوں کو نہیں بھول پاتا۔۔
یہ تو پھر محبت کا معاملہ تھا۔
وہ اس ٹوٹی محبت کی کرچیوں کو سمیت کر اپنے دل کے سب سے نچلے تہہ خانے میں چھپا دینا چاہتا تھا۔
” کب پیچھا چھوڑو گی تم میرا۔۔۔ خدا کے لئے بخش دو مجھے۔ جینے دو مجھے بھی۔ اتنی محبت کیوں دی مجھے۔ بلکہ اتنا جھوٹی محبت کیسے کرلی تم نے کہ تمھاری سچائی اور بے حسی دیکھ کر بھی میں تم سے محبت کرتا ہوں۔ تمھیں سوچتا ہوں۔ کیوں آخر کیوں۔ کیوں تم سب دھوکے باز ہمیں۔۔ محبت میں ہارے لوگوں کو جینے نہیں دیتے۔ کیا ہمارا زندگی جینے کا کوئی حق نہیں ہوتا۔ کیا ہمارا ہمارے دل پر کوئی حق نہیں ہوتا۔ کیا ہماری اتنی مرضی بھی نہیں چل سکتی کہ ہم تمھیں اپنے دل سے نکال سکے۔ کیوں۔۔ کیوں۔۔ یار۔۔ جینے دو نہ مجھے بھی۔۔ مجھے بھی جینا ہے۔۔ زندہ دلی سے ہنسنا ہے۔ مجھے بھی ںے حس بنادے اے رب۔ کیوں کرتے ہیں لوگ ایسا۔ کیا بگاڑا ہوتا ہے ہم نے ان کا۔ کس بات کا انتقام لیتے ہے یہ ہم سے۔ کیسے اپنے مقصد کے لئے ہمارے جذبات روند دیتے ہیں۔ کیوں ہوتا ہے ایسے۔ بتا مجھے اللّٰہ کیوں ہوتا پے ایسا” سعد پہلے ہذیانی انداز میں چیختا رہا۔ اور پھر جیسے جیسے بولتا گیا ویسے ویسے آواز کم ہوتی گئی۔
دور کہیں چاند نے اس ترحم لڑکے کی چیخوں کے ساتھ ایک اور شام تمام ہوتے دیکھی تھی۔
فہیم اس وقت اپنے بیڈ پر تکیے سے ٹیک لگائے بیٹھا ہوا تھا۔ وہ پورے پندرہ دن بعد گھر واپس آیا تھا۔ سٹیچس کھلنے تک اسے وہی رکھا گیا تھا۔ صبح میں وہ واپس آگیا تھا۔ صبح سے اب رات ہوگئی تھی مگر اب تک ندا نے اس سے کوئی بات نہیں کی تھی۔ ہسپتال میں بھی وہ یوں ہی خاموش رہی تھی۔ نہ کچھ کر رہی تھی نہ کچھ کہہ رہی تھی اور نہ ہی کچھ کہنے کا موقع دے رہی تھی۔ فہیم کے سر اور ہاتھ پر ابھی بھی پٹی بندھی ہوئی تھی جو کل کھلنی تھی۔ فریکچر چونکہ معمولی ہی تھا اس لئے پلستر بھی اتر چکا تھا۔ باقی نچلے حصے میں ہلکی پلکی چوٹیں ہی آئی تھی۔
وہ ایسے ہی بیٹھ کر ندا کا انتظار کرنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد وہ اندر داخل ہوئی۔
اس کے ہاتھ میں پانی کا جگ تھا جو اس نے آ کر فہیم کی طرف کی ٹیبل پر رکھ دیا۔
جگ رکھ کر وہ جانے ہی لگی تھی کہ فہیم نے ندا کا ہاتھ پکڑکر اسے اپنی طرف کھینچا۔ وہ اس حملے کے لئے تیار نہیں تھی اس لئے توازن برقرار نہ رکھ سکی اور گرنے والے انداز میں فہیم کے پاس جا بیٹھی۔ فہیم نے ایک اور بار اسے اپنے طرف کھینچا تو وہ اس کے چہرے پر جھک گئی۔ ندا کا چہرہ فہیم کے چہرے سے بہت نزدیک تھا۔ اسے اپنی ڈھرکنیں تیز ہوتی محسوس ہوئی۔
” کیا تم نے مجھے اب تک معاف نہیں کی؟” فہیم نے گہری سنجیدگی سے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا۔
جوابا ندا کچھ بول نہ پائی۔ وہ بس آنکھیں پھاڑے اسے دیکھتی رہی۔
” بتاؤ ندا۔۔ ایسی کیا بات ہے جو تم مجھے نظرانداز کررہی ہو۔ کیا مجھے معاف نہیں کیا” فہیم نے ایک بار پھر اسے اپنی طرف کھینچ کر سخت لہجے میں پوچھا۔
” نن۔۔ نہیں۔۔۔ ایسی بات۔۔ نہیں۔۔ ہے۔۔ وہ ۔۔ وہ” ندا نے اٹکتے اٹکتے کہا مگر فہیم نے بیچ میں ہی اس کی بات کاٹ لی۔
” وہ وہ نہیں کرو۔۔ سیدھی طرح بتاؤ کیا بات ہے” وہی سختی بھرے لہجے میں اس نے پوچھا۔
” پتہ نہیں ۔۔ چھوڑے تو سہی” ندا نے اب کی بار جھنجھلا کر سیدھا ہوتے ہوئے ہاتھ چھڑانا چاہا مگر اب کی بار فہیم نے زور سے کھینچ کر اسے اپنے سینے پر گرایا۔ ندا کے بال فہیم کے چہرے پر بکھرے تھے۔ فہیم نے دوسرے ہاتھ سے اسکے بال سمیٹے اور پر وہی ہاتھ اس کے گرد لپیٹ کر وہ اس کے کان میں جھکا۔
” آئیندہ میرا کھانا پینا ہر چیز تم رکھو گی ملازم یا کوئی اور نہیں۔ اور اگر دوبارہ مجھے اگنور کیا تو اس سے بھی برا کروں گا۔ سمجھی” سرگوشی میں اس کے کان میں یہ کہہ فہیم نے اس کے گرد سے اپنا بازو ہٹا لیا اور ہاتھ بھی چھوڑ دیا تو وہ جھٹکے سے اٹھ کر واشروم کی طرف بھاگ گئی۔
اس کے جانے کے بعد فہیم کے منہ سے دبی دبی سی ہنسی نکلی۔ اسے ندا کے اس ریکشن کی امید نہیں تھی۔ وہ سمجھا تھا کہ شاید وہ لڑے گی۔ مگر خیر اب اس کے ہاتھ ندا کی کمزوری آچکی تھی۔
دوسری طرف ندا دروازے کے ساتھ لگی گہری گہری سانس لے رہی تھی۔ ڈھرکنیں تھی کہ قابو میں ہی نہیں آرہی تھی۔ چہرے پر لالی سی جھلک مار رہی تھی۔
وہ فہیم سے یہ بلکل بھی ایسپیکٹ نہیں کررہی تھی۔
ہسپتال تک تو وہ واقعی فہیم پر دھیان نہ دے سکی تھی۔ کیونکہ وہ اس پر بھی گناہ کا بوجھ تھا۔ اسے بھی معافی مانگ کر اپنے گناہوں کو ٹھکانے لگانا تھا۔ آج وہ باقی سب سے تو معافی مانگ چکی تھی مگر سعد۔ سب سے بڑی گناہگار تو وہ اس کی تھی۔ مگر آج وہ اسے تنگ کرنے کے لیے ایسا کررہی تھی مگر یہ کیا ہوگیا۔
اسے سوچ کر ایک بار پھر گھبراہٹ ہوئی۔ اس نے نلکا کھول کر پانی کی چھینٹیں اپنے چہرے پر ماری۔ اور پھر اپنا عکس شیشے میں دیکھ کر خود ہی ایک مسکراہٹ چہرے پر بکھر گئی۔
مایا عنایہ سے فون پر بات کررہی تھی۔ وہ اسے سعد کے بارے میں بتا رہی تھی۔ اس سے پہلے اس نے سعد سے متعلق کوئی بات نہیں تھی جس پر عنایہ غصہ تھی۔
” ماہی کمینی۔ تو نے میرے بغیر منگنی کرلی۔ تیری اتنی ہمت۔ مجھے بتانا تک ضروری نکیں سمجھا۔ دھوکے باز۔ بے وفا۔ بے مروت۔ اللّٰہ تجھ جیسا دوست کسی کو نہ دے۔ نہیں مطلب تجھے زرا شرم نہیں آئی میرے بعیر منگنی کرتے ہوئے اور پھر منگنی کے بعد مجھے اطلاع دیتے ہوئے کہ مبارک ہو میری منگنی ہوگئی۔ شکر ہے اتنی توفیق یوگئی کہ منگنی کا بتادیا۔ ورنہ رخصتی کروا کر اپنے ولیمے کا کھانا بھیج کر یہ نہیں کہا کہ “سرپرائز۔ میری شادی ہوگئی” حد ہوتی ہے یار” عنایہ غصے میں جو بولنا شروع ہوئی تو مایا کو واقعی لگنے لگا کہ ساری غلطی اسی کی ہے۔
” چپ کیوں ہوگئی۔۔ اور بولو نہ” مایا نے اسی کے انداز میں جواب دیا۔
” نہیں فکر نہ کر۔۔ پہلے تو ان باتوں کا ھواب دیں پھر میں اور بولو گی” اس نے بجی ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئےکہا۔
” نہیں نہیں۔۔ تو ایسا کر۔۔ پہلے تو اچھی طرح بول لجں اتنا میں کھانا بنا لو پھر تجھے نواب دوں گی” مایا نے طنزیہ کہا۔
” نہیں۔۔ بس پہلے جواب دے مجھے۔”
” تو محترمہ پہلے تو میرا مشورہ ہے کہ اپنے کان صاف کروایئے کیونکہ آپ کی اسی بکواس سے بچنے کے لئے نیں الریڈی بتا چکی تھی کہ منگنی کا مجھے تو کیا انکل اور آنٹی کے علاوہ اور کسی کو نہیں پتہ تھا۔ اور رشتے آنے کا میں نے اس لئے نہیں بتایا کیونکہ تم نے مجھے خود بتایا تھا کہ فہیم بھائی اس دن گھر واپس آرہے ہے تو ایسے میں تم نے میرے پاس تو آنا نہیں تھا اسی لئے میں نے سوچا کہ تمھیں سرپرائز دوں گی۔ لیکن تم کچھ سنو تو نہ۔ دماغ گھما کر رکھ دیتی ہو” مایا نے غصے سے کہا۔
” اچھاا۔۔ بس بسس۔۔ اب مجھے بتاؤ آگے کیا ڈیسائیڈ ہوا ہے۔ کب ہورہی ہے شادی” عنایہ نے اب کی بار دلچسپی سے پوچھا تو مایا نے گہری سانس لی۔
” شادی وغیرہ کا ابھی نہیں پتہ۔ باقی تم گھر آنا۔۔ باتیں کرنی ہے مجھے بہت ساری۔ تفصیل بھی بتاؤ گی پھر” مایا نے کہا تو عنایہ نے حامی بھرلی۔ اور پھر وہ دونوں اپنی باتوں کے جہاں میں گھم ہوگئ۔
فہیم کے کمرے میں اس وقت وہ سب دوست اکھٹے تھے۔
فہیم کا سب کے ساتھ ہی رابطہ گیا تھا۔
وہ سب موئذ کے سمجھانے پر یہاں موجود تھے۔ وہ سب مسلسل سعد سے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کررہے تھے مگر وہ اٹھا نہیں رہا تھا۔
فہیم سب سےمعافی مانگ مانگ کر تھک چکا تھا مگت کوئی بھی اسے تنگ کرنے سے ںاز نہیں آرہا تھا نہ ہی بخشنے کے لئے تیار تھا۔
” اچھا ایک بات تو ابھی تک نہیں بتائی تو نے۔ تجھے تکلیف کیا ہوئی تھی۔ نہیں مطلب تجھے ندا کا ہاتھ مانگنے میں شرم آرہی تھی یا ڈر لگ رہا تھا جو تو نے اتناااااااااااااااااا بڑا ڈراما سٹیج کیا” حازق نے سوچنے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے کہا تو فہیم نے اپنے سر پر ہاتھ مارا۔
” ہاں۔ بسس۔۔۔ مجھے شرم بھی آرہی تھی۔۔۔ مجھے ڈر بھی لگ رہا تھا۔ مجھے سب کچھ ہورہا تھا اور اس سے پہلے کہ مجھے اور کچھ ہو خدا کے لئے میری سعد سے بات کروادو میں اس سے معافی مانگے بغیر مرنا نہیں چاہتا” فہیم نے جھنجھلا کر کہا۔
” ہاں مر ہی نہ جانا کہیں۔ ڈھیٹ ہدی۔ مرنا ہوتا نہ تو یہ ایکسیڈنٹ اور یہ جو ہیمرج پال کر بیٹھا ہوا ہے نہ اس میں ہی مر جاتا” شارق کی زبان میں کجلی ہوئی تھی۔ فہیم نے سر دونوں ہاتھوں میں پکڑ لیا۔ اس کے سر پکڑنے پر سب کا حلق پھاڑ قہقہ کمرے میں گونجا۔ اور اس سے پہلے کے کوئی اس کی بات کا جواب دیتا کمرے کا دروازہ کھلا۔
سعد اس وقت جوکنگ ٹریک پر جوکنگ کررہا تھا۔
وہ کافی دیر سے جوکنگ کررہا تھا اور اب تھک چکا تھا۔ اسی لئے قریبی بینچ پر بیٹھ گیا۔ اس کا سانس دھونکی کی مانند چل رہا تھا۔ اس نے بنچ کی پشت سے سر ٹکا کر آنکھیں بند کرلی۔ مگر پھر سوچوں کے حملے سے گھبرا کر فورا ہی سیدھا ہو کر اس نے جیب سے موبائل نک کر اس میں گیلری کھول لی۔ وہاں اس نے مایا کی وہ پک کھول لی جس میں وہ اپنی انگلی پر پہنی گئی انگوٹی کو دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔ جس دن اسے یہ تصویریں سعدیہ بیگم نے بھیجی تھی اس نے سرسری سا دیکھ کر بند کردی تھی اور اب آج وہ یہ تصویریں دیکھ دہا تھا۔
وہ پہلی بار مایا کو بغیر نقاب کے اتنے غور سے دیکھ رہا تھا۔ اس نے چہرے پر زوم کیا۔ بڑی بڑی سیاہ آنکھیں، ہلکیں بھنویں، کھڑی ناک اور نازک ہونٹ۔ اس کا چہرہ میک اپ سے عاری تھا۔ بس نیچرل کلرکی لپسٹک لگی تھی۔ آنکھوں میں انجانی سی خوشی کی چمک تھی۔ جیسے اسے وہ مل گیا ہو جو اس کی خواہش ہو۔۔ بہت پرانی خواہش۔ ہونٹوں پر خوبصورت مسکراہٹ تھی۔ بہت خوبصورت۔ جسے دیکھ کر اس کے چہرے پر بھی چوشی اور مسکراہٹ آئی تھی جس سے وہ بھی ابھی انجان تھا۔ اور پھر وہ ایک فیصلہ کرتا اتھ کھڑا ہوا. وہ فیصلہ جو ایک سال میں وہ نہ کر سکا تھا۔ آن وہ فیصلہ کر کے اس پر عمل کرنے کے لئے وہ آج تیار ہوگیا تھا۔ بلکل اچانک۔!!
ندا اور مہک ڈرائینگ روم میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ہوسپٹل کی پریشانی میں کسی کو بتانے کا خیال ہی نہیں آیا تھا۔ آپریشن کے بعد بھی بس مایا کو بتایا تھا تاکہ ہوسپٹل میں رش نہ ہو۔ تو اب سب اس کا پوچھنے گھر آرہے تھے۔
ندا اور مہک کی دوستی میں بھی کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ ہاں وہ اس سے ناراض رہی تھی تھوڑا عرصہ مگر پھر اب ٹھیک ہوگیا تھا مگر فہیم سے ابھی تک وہ بات نہیں کررہی تھی۔ پھر موئذ نے سب کو اکٹھا کر کے سمجھانے پر وہ کافی سمجھ گئی تھی۔ اور پھر کافی دیر سوچتے رہنے کے بعد وہ یہاں آ ہی گئی تھی۔ مگر آتے ہی ندا کے ساتھ لگ گئی تھی۔ جو گھنٹے سے اس کا سر کھا رہی تھی۔
” تو اب مسئلہ کیا ہے بھئی۔ چاہتی کیا ہو تم۔ چھوڑ چکی نہ بس۔۔ ختم کرو اب بات۔ جب چھوڑتے ہوئے احساس نہیں ہوا تھا تو اب کیا مصیبت ہورہی ہے تمھیں” مہک نے پوچھا۔
” یاااااااااااااااااارررررر۔۔۔۔ ہوگئی نہ غلطی۔ احساس ہوگیا نہ۔ میں سمجھی تھی بہت آسان ہوگا یہ سب کرنا۔ میں جو چاہتی تھی سب وہی ہوا۔ بہت خوش تھی میں۔ کہ جو چاہتی تھی وہ سب ہوگیا۔ مگر یہ سب اتنا آسان نہیں تھا۔ خوشی تو تھی مگر اس سے بڑھ کر بےچینی تھی۔ اور اب۔۔ اب ضمیر بھی مجھے ملامت کرنے لگا ہے۔ کسی پل چین نہیں آتا۔ یار ایسے میں جی نہیں پاؤ گی۔ پلیز یاد کچھ کرو۔پلیز”
” ہننہہ۔ تو آئے گا نہ اپنی شادی ہر تب مانگ لینا تم اور فہیم اس سے معافی یا اتنی ہی مصیبت ہے تو کال کر لو اسے” مہک نے لاپراہی سے جواب دیا۔
” مہک پلیز یار۔۔۔ کس منہ سے فون کرو میں اس سے۔ اور شادی اب پتہ نہیں کب ہو۔ مجھے نہیں پتہ تم کچھ کرو” ندا نے بچوں جیسی ضد کرتے کہا۔
” تو میں کیا کروں یار۔ مجھے کچھ کرنے کا تو ایسے کہہ رہی ہو جیسے میرا اس کے ساتھ کوئی افئیر چل رہا ہے نہ جو میں اس سے کہو گی کہ ‘سعد بےبی۔ میلی ایک بات مانو دے’ اور وہ کہےگا ‘ ہاں نہ میلی جان آپ تا حکم سر آنکھوں پر’ اور پھر میں کہوں گی ‘ جان میلی دنیا جہان کی ویلی اور۔نکمی دوشت تو معاف تل دے کیونکہ اب اش نے آپ شے معافی نہیں معافی نہیں مان دی تو خود ملے نہ ملے مجھے تو ضلول مال دے دی۔ اش لئے اشے معاف تل دو’ اور پھر وہ کہے گا ‘ الے میلی جان ایشے نہیں بولتے ندا کو تو میں بھی ڈانتا بھی نہیں۔ آپ کے صدقے اشے معاف تیا’.. یہ ٹھیک۔۔۔۔ اگر یہ چاہتی ہو تو یہ یاد رکھو کہ میرا اس کے ساتھ ایسا کوئی تعلق نہیں ہے جو میں اسے کہوں گی اور معاف کردے گا” مہک اب کی بار جھنجھلا کر منہ بنا بنا کر کہنے لگی تو ندا نے کھا جانے والی نظروں سے اسے گھورا۔
” ہاں۔ اور اگر ایسا ہوتی بھی تب بھی میں تمھیں فون کرنے کا کہتی اور تم مان جاتی۔ ہنہ۔۔” ندا نے جواب دینا ضروری سمجھا۔
” ہاں۔ اور تم جیسے فون کروائے بغیر میری جان چھوڑدیتی۔ چھوڑو تم یہ سب۔۔۔ فلحال میں یہاں موئذ کےکہنے ہر فہیم کا ہوچھنے آئی تھی۔ اسگ نہیں پتہ کہمیں بھی آئی ہوں۔ چلو چل کر سرپرائز دیتے ہیں” مہک کہتی اٹھ کھڑی ہوئی۔ اور پھر وہ دونوں دروازے کی طرف بڑھ گئی۔