” جھوٹ نا بول ۔۔۔”
زین کو ابھی تک یقین نہیں آ رہآ تھا ۔۔۔
” ابے گدھے ۔۔
میں خود سولی پر لٹکا ہوا ہوں تمھے پتا نہیں کیوں مزاق کی۔ پڑی ہوی ۔۔۔”
ابتسام نے غصے سے کہا ۔۔۔
” تامی !
مجھے تو دال میں کچھ کالا لگ رہا ۔۔۔
تو خود ہی انٹی کو لے کر جا رہا ۔۔
اور مجھے کہانی ڈال رہا ۔۔
اتنا پاگل سمجھا ہوا 😏۔”
زین کے ابتسام کو لتاڑتے ہوے کہا ۔۔۔
اور بیچارہ ابتسام کا دل کر رہا تھا کہ وہ اپنا سر دیوار میں مار۔ لے ۔۔۔
” تم جیسے دوست ہوں تو مجھ جیسوں کو دشمن کی کیا ضرورت بھلا ۔۔۔”
ابتسام نے بے بسی سے کہا ۔۔۔
” ہاہا !
میرے جل ککڑے !!
کچھ نہیں ہوتا ۔۔۔
پریشان کیوں ہو رہا ۔۔
کیا پتا وہاں کوئی پری مل جاے ۔۔”
زین نے آنکھ مار کر ابتسام کو کہا ۔۔
پری کے نام پر ایک معصوم سی لڑکی کا سراپا اس کی نظر سے گزرا ۔۔۔
پر ابتسام نے نظرانداز کر دیا ۔۔
اگر زین کو اس بات کی ذرا سی بھی بھنک بھی پڑ جاتی تو ابتسام کی خیر نہیں تھی ۔۔۔
سنتے ہی تامی نے زین کی کمر میں ایک جڑ دی ۔۔۔
” کمینے !
میں ادھر اپنا خون جلا رہا ۔۔
اور تجھے مستی سوجھ رہی ۔۔۔
شرم کر لے کچھ تو ۔۔۔
میں چلا جاؤں گا تو پھر تجھے میری قدر ہو گئی ۔۔۔
ترسے گا ملنے کو بھی ۔۔۔”
ابتسام نے زین کو اموشنل کرنے کی۔ ناکام کوشش کی ۔۔
پر زین سدا کا ڈھیٹ انسان 😂😍✌۔۔
” ہاں تو اچھا ہے ۔۔
تجھ سے ملنے کے بہآنے ہی سہی ۔۔
پاکستان تو اوں گا ۔۔۔
ویسے تو۔ موم اور ڈیڈی جانے نہیں دیتے ۔۔۔”
زین نے ہنس کر کہا ۔۔۔
” تمہارا کچھ نہیں ہو سکتا ۔۔۔”
ابتسام اپنا سا منہ لے کر رہ گیا ۔۔۔
#########
” مانو !
تمہاری فیملی میں کون کون ہے ۔۔؟ ”
رامے نے جوس کا سپ لیتے ہوئے پوچھا ۔۔۔
” میری چھوٹی سی فیملی ہے ۔۔
میں ماما ۔۔بابا بسس
تم اپنا بتاؤ ”
مانو نو مسکرا کر بتایا ۔۔
” ہم لوگ جائنٹ فیملی میں رہتے ہیں ۔۔۔
ماما بابا اور ایک بھآئ ہے ۔۔
باقی چاچو ، پھوپھو بھی ساتھ ہی رہتے ہیں ۔۔۔”
رامے نے بتایا ۔۔
” واہ ! رامے ۔۔😍
پھر تو کافی بڑی فیملی ہے تمہاری ۔۔
بہت مزہ اتا ہو گا ناں ۔۔؟؟”
مانو نے دلچسپی سے پوچھا ۔۔۔
” ہاہاہا !
میں جس کو بھی بتاؤ اپنے جائنٹ فیملی سسٹم کا وہ یہی کہتا ۔۔۔”
رامے نے ہنس کر کہا ۔۔۔
” ظاہر ہے ۔۔
اتنے بڑے خاندان میں رہنا تو مزہ تو اتا ہو گا ناں ۔۔
اتنے سارے کزن ۔۔ خوب ہلا گلا ۔۔۔😍👏”
مانو نے مزے سے کہا ۔۔
رامے بس مانو کی طرف دیکھ کر مسکرا دی ۔۔
اس پل رامے کا دل کیا کاش وہ مانو کی جگہ ہوتی اور وہ بھی یہی سب کچھ سوچتی ۔۔۔
” رامے !
کہاں گم ہو ۔۔
کب سے آواز دی رہی ۔۔
طبعیت تو ٹھیک ہے ۔۔؟ ”
مانو نے رامے کے سامنے ہاتھ ہلا کر بولا ۔۔
رامے اپنے خیالوں میں زیادہ ہی دور نکل گئی تھی ۔۔۔
تبھی مانو کی آواز سنائی نا دی ۔۔۔
” ہاں !
کیا بول رہی تھی تم ۔۔۔”
رامے نے سمبھلتے ہوے کہا ۔۔۔
” کہاں کهو گئی تھی ۔۔”
مانو نے تشو یش سے پوچھآ ۔۔۔
” بسس گھر والے یاد آ گے تھے ۔۔۔”
رامے نے بات گھما کر کہا ۔۔
” تم یہاں لاہور کی نہیں هو کیا ؟؟”
مانو نے حیرت سے پوچھا ۔۔
” نہیں !
میں پشاور سے ہوں ۔۔”
رامے نے مختصرا کہا ۔۔۔
” مطلب پٹھان هو ؟؟”
مانو نے خوشی سے پوچھا ۔۔
” ہاں ! ”
رامے نے جواب دیا ۔۔۔
” اف رامے !
تبھی میں کہوں تم اتنی پیاری کیوں ہے ۔۔
میں نے سنا تھا ۔۔پٹھان بہت پیارے ہوتے ۔۔۔”
مانو نے خوش ہوتے ہوے کہا ۔۔۔
کیونکہ مانو کو شروع سے هی پٹھان بہت پسند تھے ۔۔۔
مانو کا تعلق بھی کوئٹہ سے تھا ۔۔۔
لیکن اس کے بابا نے کبھی وہاں کے بارے میں کچھ نہیں۔ بتایا تھا ۔۔۔
” اور سخت دل بھی پتھر کی طرح ”
رامے نے دل میں مانو سے کہا ۔۔۔
” تم یہاں پھر کہاں رہتی هو ؟ ”
مانو۔ نے۔ پوچھا ۔۔
” ہاسٹل میں رهنے کا انتظام کیا ہوا خان بابا نے ۔۔۔”
رامے بولی ۔۔
” میرے ہوتے ہوئے ہاسٹل میں کیسے رہو گئی تم ؟؟
اپنے ماما بابا سے بات کر لو اور کل سے تم میرے ساتھ میرے گھر رہو گی ۔۔”
مانو نے پیار محبت سے رامے کو کہا ۔۔
مانو شروع سے ہی دل کی بہت صاف ہے ۔۔
جلد ہی گھل مل جانا اس کی عادت ہے ۔۔
تبھی ہاسٹل میں رامے کا رهنے کا سوچتے ہی اس کے دل کو کچھ ہوا ۔۔
اور فورا اپنے گھر رهنے کی دعوت دی ۔۔۔
” نہیں مانو !
تم نے کہہ دیا یہی بہت ہے ۔۔۔
خان بابا کبھی نہیں مانیں گے ۔۔۔”
رامے نے مانو کو منع کرتے ہوے کہا ۔۔۔
” مجھے کچھ بھی نہیں سننا بسس ۔۔
میں نے کہہ دیا تو بسس اب تم میرے گھر ہی رہو گی ۔۔۔
اگر مگر کچھ بھی نہیں ۔”
مانو نے ڈانٹ کر رامے کو چپ کروا دیا ۔۔
رامے سوچ میں پڑ گئی ۔۔
کیوں کہ اس نے کبھی خود سے خان بابا ساتھ کوئی بات نا کی تھی ۔۔۔
ہمیشہ بی بی خانم کو هی بولتی تھی ۔۔۔
باتوں ہی باتوں میں دونوں نے نمبر بھی ایک دوسرے کو۔ دی دے ۔۔۔
پھر مانو نے بابا کو کال کی کہ وو اسے پک کر لیں ۔۔۔
اور رامے کو تیاری کرنے کا حکم دی کر اللہ حافظ بول کر چلی گئی ۔۔۔
اس طرح دونوں کی دوستی کا آغاز ہوا ۔۔۔
جو کہ اگے چل کر دونوں کے لیے امتحان لینے والی تھی ۔۔۔۔
##########
” بھیآ !
کیسے ہیں آپ ؟؟
اور باقی گھر۔ میں سب کیسے ہیں ؟؟ ”
راحیلہ نے۔ اپنے گھر فون کر کے حال چال پوچھا ۔۔۔
کافی دیر اِدھر ُادھر کی باتیں کر کے فون رکھ دیا ۔۔۔
” السلام عليكم مومی !😘”
ابتسام گھر اتے ہی ماں کو گلے لگا کر سلام کیا ۔۔۔
” تم کب اے ؟ ”
راحیلہ نے پوچھا ۔۔۔
” ابھی ۔۔
جب آپ اپنے پیارے بھیا جی کو اپنے دکھ اور ان کے دکھ سن رہی تھی ۔۔”
ابتسام نے منہ بنا کر کہا ۔۔۔
” اچھا ۔۔
فضول باتیں نا کرو ۔۔
ماموں ہیں تمھرے 😡”
راحیلہ نے ڈانٹ کر کہا ۔۔۔
” ماموں ہیں تبھی تو بول رہا ”
ابتسام نے ہنس کر کہا ۔۔۔
” تامی !
مار کھاؤ گے اب ۔۔۔”
راحیلہ نے غصے سے کہا ۔۔۔
” نہیں موم !
مجھے آپ بس اچھا سا لنچ کروا دیں بس ۔۔”
ابتسام نے اپنے روم میں جاتے ہوے کہا ۔۔۔
اور راحیلہ بیگم کچن کی طرف چل دی ۔۔۔
###########
” پری !
کون ہے وہ آخر ؟
مجھے خواب میں کیوں اسی کی شکل نظر آتی ہے ۔۔۔
جبکہ میں نے کبھی دیکھا تک نہیں اسے!!! ”
ابتسام نے بیڈ پر بیٹھ کر پھر سے سوچا ۔۔۔۔۔
بچپن سے ہی ابتسام نے خواب میں ایک ہی چہرہ دیکھا تھا ۔۔۔
ذھن پر زور ڈالنے پڑ بھی اسے یاد نا آیا وو چہرہ کس کا ہے ۔۔۔۔
” کیا پتا پاک سے کوئی تعلق هو اس کا ۔۔
میں جاؤ وہاں ۔ اور وو مل جاے ۔۔۔”
ابتسام نے فیصلہ کن انداز میں خود سے کہا ۔۔۔۔
اور چینج کرنے چل دیا ۔۔۔۔۔