بمشکل اپنی خفت چھپاتا جاوید سرخ چہرہ لیۓ، افغان سے معذرت کرتا باہر کی جانب بڑھ گیا تھا۔ اگلے چند لمحوں کے لیۓ ، لاؤنج کی فضا کسی بھی قسم کی آواز سے ساکت رہی۔ فاطمہ نے لمحے بھر کو سر ہاتھوں میں تھام لیا تھا۔ پھر وہ بے یقینی سے صوفے پر بیٹھیں۔ گل اور رامین دونوں اپنی جگہ ہی ساکت تھیں۔ پھر وہ اپنا سرخ لچکتا فراک سنبھالتی آگے بڑھ آئ۔۔
“چچا اگر میں وقت پر نہ پہنچ سکی تو کم از کم آپکو تو رُخ کو یہ سب کرنے سے روکنا چاہیۓ تھا۔ وہ تو۔۔ وہ تو صد شکر کے شمیم آنٹی موجود نہیں تھیں۔۔ نہیں تو وہ۔۔ وہ طوفان برپا کرتیں کہ الامان۔۔!”
اس نے چشم تصور میں شمیم بیگم کا غصے سے بگڑا چہرہ دیکھا تو لمحے بھر کو سارا جسم سنسنا اٹھا۔ اسکی ساس کی کڑوی زبان اور بگڑے تیور، اس جیسی معصوم اور نازک دل رکھنے والی لڑکی کے لیۓ بہت بڑی بات تھی۔ گل بھی اب اس کے ساتھ ہی صوفے کی پشت پر آکھڑی ہوئ تھی۔ افغان نے لمحے بھر کو نرم نگاہوں سے اپنی سلونی سی بھتیجی کو دیکھا تھا۔ پھر وہ ہلکا سا مسکراۓ۔۔
“تم کیوں فکر مند ہوتی ہو۔۔؟ جو انہوں نے کیا وہ بالکل غلط تھا۔ غلط اور ناقابلِ قبول۔۔ مجھے تو ان باتوں کا پہلے اندازہ ہی نہیں تھا۔ مگر جب مجھے گل نے بتایا تو بہت تکلیف ہوئ مجھے۔ وہ ہماری بچی کو اسکے رنگ روپ پر اتنی باتیں سنا کر جائیں اور ہم جواباً کوئ حق کی بات بھی نہ کریں۔۔ کہاں کا انصاف ہے بھلا یہ۔۔؟”
انکے نرم لب و لہجے اور بے حد ریشم سے تاثر نے رامین کو پل بھر کے لیۓ خاموش کردیا تھا۔ بے ساختہ ہی اپنی ذات کے ارزاں کیۓ جانے پر اس کی آنکھیں بھیگنے لگی تھیں۔ کیا کرے وہ اپنے اس رنگ روپ کا۔۔ کہاں لے کر جاۓ وہ اپنی اس سانولی رنگت کو۔۔؟
“اچھا ادھر آؤ میرے پاس۔۔”
رامین کو انگلیوں کے پوروں سے آنکھیں رگڑتا دیکھ کر فاطمہ نے گہرا سانس لے کر کہا۔ وہ خاموشی سے انکے پاس چلی آئ۔۔
“دفعہ کرو اپنی ساس کو۔ توجہ مت دیا کرو ان کی باتوں کی جانب۔ خوش رہا کرو ہوں۔۔ ایسے روتی رہوگی تو کیسے مقابلہ کروگی دنیا کا۔۔؟ اور بھائ صاحب بھی تو ہیں پھر۔۔ انہیں کون دیکھے گا اگر یوں تم ہمت ہارجاؤگی تو۔۔؟ جانتی ہو ناں۔۔ بھابھی کے جانے کے بعد کتنے ڈھل گۓ ہیں وہ۔۔ تمہاری خوشی دیکھ کر ہی تو جیتے ہیں۔۔ اب تم ہی یوں کروگی تو ان کا خیال کون رکھے گا۔۔؟”
فربہہ سی فاطمہ نے رامین کو اپنے ساتھ لگایا تو وہ یکدم رو پڑی۔ افغان اور گل نے بے بس سی نگاہوں کا تبادلہ کیا تھا۔ جب سے بڑی تائ کا انتقال ہوا تھا رامین کچھ اور ہی حساس ہوگئ تھی۔ سونے پر سہاگہ اسے ایک ایسی ساس مل گئ تھی جو اس کی حساس طبیعت کے پرخچے اڑانے کے لیۓ کافی تھی۔
نرم سی تھپکی کے باعث وہ کچھ حد تک سنبھل گئ تھی۔ پھر آہستہ سے اٹھ کر اپنے پورشن کی جانب بڑھ گئ۔ اس میں ابھی ہمت نہیں تھی مزید کوئ بات کرنے کی۔
“میری پیاری بچی۔۔ کیسے غلیظ سسرالی مل گۓ ہیں اسے، جو اس کا سونے سا دل نہیں دیکھ رہے اور محض رنگ و روپ پر طنز و حقارت کے تیر برسارہے ہیں۔۔”
فاطمہ نے دکھتے دل سے کہا تھا۔ افغان نے بھی گہرا سانس لیا۔۔ پھر سیدھے ہو بیٹھے۔
“اور آپ افغان۔۔ لالہ رُخ کو منع کرنے کے بجاۓ اس کی باتوں پر ہنس رہے تھے۔۔! حد ہوتی ہے۔۔ بیٹی کے سسرال کا معاملہ ہے۔ یوں تھوڑی منہ بھر کر ہم کچھ بھی بول دیں گے انہیں۔۔ اور پھر۔۔ پھر اسکی بھی تو شادی ہونے والی ہے کچھ ہی دنوں میں۔۔ بھلا اگر یہ کارنامہ رُخ کے سسرالیوں کو پتہ چل گیا تو جانتے ہیں کیسا تاثر پڑے گا ان پر ہماری بچی کا۔؟”
ان کے پچھلے ٹھنڈے سے رویے پر فاطمہ انہیں احساس دلا رہی تھیں۔ مگر مجال ہے کہ وہ ذرا بھی اثر لے لیتے۔ آخر تھے جو رُخ کے والد۔۔! گل بھی اب کے صوفے پر آ بیٹھی تھی۔ پھر پیر اوپر چڑھا کر رازداری سے بولی۔۔
“سوچیں چچا۔۔ اگر جو رُخ کو ارسل بھائ نے کبھی کچھ الٹا سیدھا بول دیا تو وہ ان کا کیا کرے گی۔۔”
اس نے بے اختیار ہی جھرجھری لی تھی۔ اور جھرجھری تو فاطمہ نے بھی لی تھی۔
“پتہ ہے پچھلے دنوں فاخرہ خالہ بھی شکایت کررہی تھیں رُخ کی۔ ان کے بیٹے نے لالہ رُخ کو کہہ دیا تھا کہ وہ ایک منہ پھٹ لڑکی ہے۔۔ ایسی لڑکیاں سسرالوں میں نہیں چلتیں۔۔ پھر کیا تھا جی۔۔”
اس نے آنکھیں پھیلا کر سنتی فاطمہ کے آگے ہاتھ نچایا تھا۔
“رُخ نے ان کی ایسی درگت بنائ کے اگلے کئ مہینوں تک انہیں چین کی نیند نہیں آنی۔۔”
افغان اور فاطمہ نے بے ساختہ ہی سہمی سی نگاہوں کا تبادلہ کیا تھا۔
“کیا کہا تھا اس نے۔۔؟”
بہت ڈری ڈری سی آواز نکلی تھی فاطمہ کی۔
“کہنا کیا تھا۔۔ وہ تو جو ان کے سر کے اڑے بالوں سے شروع ہوئ تو سسر سے لیۓ گۓ بھاری جہیز پر ہی ختم ہوئ۔ ایسے بھگو بھگو کر مارا کہ زاہد بھائ کو کاٹتے تو خون نہ نکلتا۔ میں نے اسکا ہاتھ ہلایا کہ بہن اب بس کرجا لیکن نہ بھئ۔۔ رُخ کی شعلے اگلتی زبان نہ خاموش ہوئ۔ سر سے لے کر پیر تک ہر عیب نہ گنوادیا تب تک جان نہیں چھوڑی زاہد بھائ کی۔ وہ تو اچھا تھا میں وہاں تھی۔۔ اسے وقت پر گھسیٹ کر لے آئ نہیں تو زاہد بھائ کی روح اب تک آسمانِ دنیا میں پرواز کررہی ہوتی۔۔”
یااللہ۔۔ اور اب کہ تو فاطمہ نے اپنا دل ہی تھام لیا تھا۔ افغان نے اپنی ہنسی روکنے کے لیۓ چہرہ موڑ لیا تھا اور گل۔۔ گل اب تک زاہد بھائ کا سفید چہرہ اپنی نگاہوں کے سامنے دیکھ رہی تھی۔
“مجھے لگتا ہے مجھے اب اس سے بات کرنی ہی پڑے گی۔۔”
“ہاں۔۔ اور تمہیں لگتا ہے کہ تم اسکے سامنے بات کرلوگی۔۔ جاؤ۔۔ کرلو اپنا شوق پورا۔۔”
مزے سے پلکیں جھپکا کر بہت پیار سے بولے تھے افغان۔۔ فاطمہ نے ان کے اس قدر بے نیاز انداز پر دانت پیسے تھے۔ کیا کریں وہ ان باپ بیٹی کا۔۔!
“آپ کے اس پیار اور بے جا حمایت نے بگاڑا ہے اسے۔”
“چلو جی۔۔ اب وہ تمہاری بات نہیں سنتی تو اس میں بھی میرا قصور نکل آیا۔ مطلب ہر وہ چیز جو اپنے محور سے ہٹ کر کام کرے اس کا قصور شوہر کے کھاتے میں ہے۔۔ آپ تو ہمارے موجودہ وزیرِ اعظم سے بھی آگے نکل جاتی ہیں کبھی کبھی ۔۔”
ان کے لطیف سے جملے نے جہاں فاطمہ کو جھنجھلایا تھا وہیں گل کو ہنسایا بھی تھا۔ اسے ہنستا دیکھ کر افغان نے بمشکل اپنی ہنسی روکی تھی۔
“آپ سے تو کچھ بولنا ہی بیکار ہے افغان۔ کسی بات کی شکایت کیا کرے انسان آپ سے۔ جانتے بھی ہیں کیسی جنگجو طبیعت پائ ہے آپکی بیٹی نے۔۔ لوگ چھری سے سبزیاں کاٹتے ہیں اور وہ محترمہ اسی چھری کو جنید اور رامش پر تان کر ان سے برتن دھلواتی ہیں۔ اف توبہ۔۔ جانے کیا کرے گی یہ لڑکی سسرال میں جا کر۔۔”
اور اب کہ افغان اور گل بے ساختہ ہی قہقہہ لگا کر ہنس پڑے تھے۔ رامش اور جنید، لالہ رخ کے چھوٹے جڑواں بھائ تھے۔ اور یہ تو اللہ ہی جانتا تھا کہ وہ ان دو معصوم جانوں پر کیسے کیسے ظلم ڈھایا کرتی تھی۔
“اچھا ہے ناں کہ وہ دونوں اسکی صحبت میں رہ کر ذرا شیر بنیں گے۔۔ نہیں تو وہ دونوں بیچارے آپکی طرح صدا ڈرپوک ہی رہیں۔۔”
گل کو دیکھ کر فاطمہ کی ڈری سہمی سی طبیعت پر چوٹ کرتے وہ ایک بار پھر سے ان کی گھوری کا شکار ہورہے تھے۔۔
“افغان۔۔ آپ۔۔ اف ہے آپ سے۔۔ اس میں کوئ شک نہیں کہ وہ سر پھری لڑکی آپ ہی کی بیٹی ہے۔ بس فرق اتنا ہے کہ آپ ذرا ٹھنڈے انداز میں وار کرتے ہیں اور وہ محترمہ تو منہ میں ہی آگ لیۓ پھرتی ہیں۔۔ جلا کر خاکستر کردیتی ہے آگے والے کو۔۔”
وہ اب کانوں کی لو کو چھوتی اٹھ رہی تھیں۔ ان دونوں باپ بیٹی سے بات کرنا ان کے لیۓ ہمیشہ سے ہی بہت مشکل رہا تھا۔ وہ اٹھ کر جا چکیں تو افغان نے معصومیت سے کندھے اچکاۓ۔ گل لمحے بھر کو ان کے ایسے انداز پر کھلکھلائ تھی۔
“جاؤ رامین کو دیکھو جا کر۔۔ روتی ہوئ گئ ہے یہاں سے۔۔ سنبھالو جا کر بہن کو۔۔”
ان کے آہستہ سے کہنے پر وہ سر ہلاتی اٹھی اور دروازے کے اس پار بنے پورشن کی جانب بڑھ گئ۔ افغان اور ارمغان دو بھائ تھے۔ ارمغان لالہ کی بیوی کا انتقال ہوا تو رامین اور گل لالہ کا ان کے گھر آنا جانا بڑھ گیا۔ وہ دونوں فاطمہ میں اپنی ماں کی نرم سی آغوش ڈھونڈنے لگی تھیں۔ اور خدا گواہ تھا کہ فاطمہ نے بھی ماں سے بڑھ کر ان دونوں کو پالا تھا۔ جیسے ان کے لیۓ لالہ رُخ تھی ویسے ہی ان کے لیۓ گل لالہ اور رامین تھیں۔ جبھی تو رامین کے دل دکھ جانے پر وہ سب بھی اتنا ہی متاثر ہوۓ تھے جتنا کوئ گھر والا اس سب سے متاثر ہوسکتا تھا۔
گہرا سانس لیتے افغان لاؤنج سے اٹھ گۓ تو خالی پڑا لاؤنج زرد سے سناٹوں میں ڈوب گیا۔
***
“کیا طریقہ تھا یہ جاوید سے بات کرنے کا۔۔؟”
وہ رامش اور جنید کے ساتھ بیٹھی کسی بات پر ہنس رہی تھی جب امی نے دھاڑ سے دروازہ کھول کر ان تینوں کی ہنسی گُل کردی۔ رامش تو باقائدہ، دروازہ دھاڑ سے کھلنے پر سہم کر پیچھے ہٹا تھا۔
“کیا کیا ہے میں نے۔۔؟”
اس نے انجان سی سیاہ آنکھیں اٹھائیں۔ وہ اس کی معصومیت پر دانت کچکچاتی آگے بڑھ آئ تھیں۔
“ابھی جو تم نے نیچے کیا وہ کیا تھا۔۔؟”
“کیا تھا۔۔ کیا آپکو نہیں پتہ۔۔؟”
اور اب وہ مزاق نہیں کررہی تھی۔ اب وہ بے حد سنجیدہ تھی۔
“نہیں مجھے نہیں پتہ۔۔ ذرا بتانا کیا کیا ہے تم نے نیچے۔۔”
اماں جان نے تو اب کہ ہاتھ باقائدہ سینے پر باندھ لیۓ تھے۔ بالکل اسی کے انداز میں۔ لیکن وہ ایسے کرتے ہوۓ بہت مضحکہ خیز لگ رہی تھیں۔ فربہہ جسم پر چھوٹے اور ذرا موٹے ہاتھ باندھے، انکو اندازہ نہیں تھا کہ وہ غصے کے بجاۓ کیوٹ لگ رہی ہیں۔ انکے ایسے انداز پر رامش اور جنید کی کھی کھی کمرے میں گونجی تھی۔
“لگتا ہے آپی نے پھر سے کسی کو اٹھا اٹھا کر پٹخا ہے۔ کہیں جاوید بھائ کو یہ تو نہیں کہہ دیا کہ وہ عمر شریف میں ملتے ہیں۔۔؟”
“وہ تو چھوڑو۔ بس یہ دعا کرو کہ وہ آپی کے عتاب کے بعد بھی عمر شریف ہی رہے ہوں۔۔ عمر غریب نہ ہوگۓ ہوں۔۔”
جنید کے دماغ سے نکلی دھیمی سی پھلجڑی نے رامش کے اندر گدگدی کردی تھی۔ منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنستے ہوۓ اس نے لمحے بھر کو جو فاطمہ کو دیکھا تو تیر کی طرح سیدھا ہو بیٹھا۔
وہ دونوں سترہ سال کے تھے۔ فرسٹ ایئر کے نو عمر جوان۔۔ رامش بالکل رُخ جیسا تھا۔ سیاہ بال اور خوبصورت سیاہ آنکھوں والا۔۔ جبکہ جنید۔۔ ان کے برعکس فاطمہ جیسا تھا۔۔ کانچ سی سبز رنگ آنکھیں اور اٹھے سے نقوش کا حامل۔۔
انہوں نے اپنی گھوری ان دونوں سے ہٹا کر اب کہ بڑی فرصت سے رُخ کو دیکھا تھا۔
“اماں۔۔ انہوں نے بے عزتی کی تھی رامین کی۔ بے عزتی۔۔!! اور بے عزتی پر کبھی خاموش نہیں رہتے۔ یہ انسان کے اپنے حق میں کمی کرنے کے مترادف ہے۔ یہ انسان کا اپنے ساتھ ظلم ہے۔ میں نے وہ ہی کیا جو رامین کو کرنا چاہیۓ تھا۔۔ مجھے تو غصہ اس پر ہے کہ بُت کی طرح ان کی باتیں سن کر آگئ۔۔ مطلب کچھ بھی نہیں کہا۔۔”
اسکے بہت سنجیدہ سے جواب پر فاطمہ لمحے بھر کو تھمی تھیں۔ پھر ذرا سنبھل کر آگے آئیں۔۔
“بات بیٹھ کر بھی تو کی جاسکتی تھی ناں رُخ۔۔”
“مجھے بیٹھنے اور لیٹنے کا نہیں پتہ۔ مجھے بات کرنی تھی سو میں نے کرلی۔۔ اور ویسے بھی میرا کوئ موڈ نہیں تھا اس گھٹیا آدمی کو اپنے لاؤنج میں بٹھانے کا۔۔”
“یااللہ۔۔ میں کیا کروں تمہارا رُخ۔۔”
“آپ اپنا بلڈ پریشر ہائ نہ کریں۔ میں نے انہیں وہی کہا ہے جو کہا جانا چاہیۓ تھا۔ میرا دماغ خراب نہیں ہے کہ کسی کو بھی جا کر کچھ بھی بول دونگی۔۔”
اس نے ہاتھ جھلا کر اس قدر بے نیازی سے کہا تھا کہ فاطمہ نے ماتھے پر ہاتھ ہی رکھ لیا۔۔
“کچھ غلط نہیں کہا تم نے۔۔ اور وہ جو اسکی ماں کو تم نے بھوت نات کہا ہے۔۔ وہ کس کھاتے میں آۓ گا۔۔”
اب کہ رامش اور جنید کا بہت زوردار قہقہہ ابلا تھا۔ لیکن رخ ویسے ہی بیٹھی رہی۔
“شکر کریں میں نے انہیں عینک والے جن کی چڑیل میں نہیں ملایا۔ ورنہ مزاج اور انداز میں وہ اس کردار پر پورا اترتی ہیں۔۔”
“لالہ رخ یہ بہت بری بات ہے۔۔”
“بری ہے یا اچھی۔۔ میرے نزدیک یہی بات ہے۔۔”
“لڑکیاں ایسے باتیں کرتے ہوۓ اچھی لڑکیاں نہیں لگتی ہیں بیٹا۔۔”
“اچھا۔۔” وہ لمحے بھر کو سیدھی ہو بیٹھی تھی۔ پھر پلکیں جھپکا کر ایک انداز سے فاطمہ کو دیکھا۔
“کیسی ہوتی ہیں پھر اچھی لڑکیاں۔۔؟ رامین جیسی۔۔؟ جن پر کوئ بھی، کہیں سے بھی آکر بکواس کرجاۓ اور وہ انہیں جواب دینے کے بجاۓ، چپ چاپ کمرے کے کسی کونے میں بیٹھ کر روتی رہیں۔ کیا ایسی ہوتی ہیں اماں اچھی لڑکیاں۔۔؟ اگر ایسی ہوتی ہیں تب تو میں بالکل بھی اچھی نہیں ہوں۔۔ کوئ کچھ الٹا سیدھا نکال کر تو دیکھے اپنے منہ سے میرے بارے میں۔ ٹھیک ٹھاک بے عزتی کرنے کے بعد ایسا نظر انداز کرونگی کہ لوگوں سے پوچھتے پھریں گے۔۔ “میں نظر آرہا ہوں۔۔”
اس کی روانی سے ادا ہوۓ مضبوط جملوں نے جہاں رامش اور جنید کو داد دینے پر مجبور کیا تھا وہیں فاطمہ کو ایک پل کے لیۓ خاموش بھی کردیا تھا۔ ان کی بیٹی حق میں کمی برداشت کرنے والوں میں سے نہیں تھی۔ پھر چاہے وہ کمی اسکے حق میں ہو یا کسی دوسرے کے حق میں۔۔ یہ طے تھا کہ وہ غلط بات پر کبھی خاموش نہیں رہے گی۔
“بیٹا صبر و برداشت بھی کسی چیز کا نام ہے۔۔”
“بالکل اماں۔۔ میں رامین کے سسرالیوں کو پہلے دن سے برداشت ہی تو کررہی ہوں۔۔ کیا اس سارے عرصے میں، میں نے کبھی انہیں کچھ کہا۔۔؟ نہیں ناں۔۔ لیکن آج میری برداشت جواب دے گئ تھی۔ شکر میرے سامنے نہیں کہا انہوں نے۔۔ وہیں تین چار عورتوں کے درمیان ذرا آئینہ دکھادیتی ناں میں۔۔ تو پھر کبھی کسی اور کے چہرے پر بات کرنے سے پہلے سو دفعہ سوچتیں۔۔ کسی نے دراصل ان کی کڑوی زبان کا ذائقہ انہیں چکھایا نہیں ہے۔۔”
اسے ایک بار پھر سے غصہ آنے لگا تھا۔ دل کیا شمیم آنٹی کو تو بس اف۔۔ یعنی کے بس اف۔۔ اف ہی اف۔۔
“آگے سسرال میں کوئ ذرا سی بات کردے گا تو کیا تم یوں محاذ کھڑے کرلیا کروگی، رُخ۔۔؟”
وہ واقعتاً اسکے خوفناک خیالات کا پرچار سن کر پریشان ہوگئ تھیں۔ ان کی خوفزدہ سی آواز پر وہ ہنس پڑی۔۔
“نہیں اماں۔۔ کیوں پریشان ہوتی ہیں آپ۔۔؟ آپکو لگتا ہے میں بیوقوف ہوں۔۔؟”
“بیوقوف ہی تو نہیں ہو تم۔۔”
ان کا جواب سمجھ کر اس نے مسکراتے ہوۓ سر ہلایا تھا۔۔
“وہاں تو میرے شوہر مجھ سے بہت محبت کریں گے ناں اماں۔ وہاں تو وہ میرے لیۓ ہر ایک سے بات کریں گے۔۔ پھر مجھے وہاں محاذ کھڑا کرنے کی کیا ضرورت ہوگی۔۔؟”
اسکی اتنی صاف گوئ پر فاطمہ کا چہرہ لمحے بھر کو سرخ ہوا تھا۔ یہ لڑکی۔۔ اللہ کی پناہ اس سے۔۔ دوسری طرف جنید اور رامش کو ہنس ہنس کر پھندا لگ چکا تھا۔
“میرے شوہر۔۔ اتنی عزت آپی۔۔ زبان نہیں دکھے گی آپکی اتنی عزت سے بات کرتے ہوۓ۔۔؟”
رامش کے جملے پر اسے ایک زوردار دھپ پڑی تھی رُخ کی جانب سے۔ پھر وہ ارسل کا خیال آتے ہی مسکرائ۔۔
“پاگل۔ اتنے اچھے ہیں وہ۔ ایسے ہی انہیں کچھ بولونگی میں۔۔ وہ بیچارے تو شکل سے ہی اتنے معصوم لگتے ہیں کہ حد نہیں۔۔ ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے تو کبھی اونچی آواز میں بات نہیں کی ہوگی کسی سے۔۔”
جھانسی کی رانی سے مشرقی دوشیزہ بنتے ذرا وقت نہیں لگتا تھا اسے۔ ابھی بھی میٹھی سی مسکان لبوں پر سجاۓ اس نے خود ہی کچھ سوچ کر نفی میں سر ہلایا تھا۔ فاطمہ تو کمرے سے سر پیٹتی ہوئ نکلی تھیں۔ رامش اور جنید البتہ اسکے بدلتے رنگ روپ کو دیکھ رہے تھے۔
“اور اگر کبھی انہوں نے آپکا یہ چنگیز خان والا روپ دیکھ لیا تو کیا ہوگا۔۔؟”
“کوئ نہیں میں چنگیز خان۔۔ وہ تو بس مجھے کبھی کبھی ذرا سا غصہ۔۔”
وہ جو ارسل کے خیال میں کھوئ ہلکی سی میٹھی آواز میں بول رہی تھی یکدم جنید کے چلانے پر ڈر کر چپ ہوئ۔۔
“ذرا سا۔۔ او مائ گاڈ آپی۔۔ ذرا سا غصہ۔۔”
“ہاں تو بس ذرا سا ہی تو آتا ہے۔۔”
اب کہ اس نے بھی چڑ کر کہا تھا۔ رامش ڈر کر پیچھے ہٹا ، مبادہ ساتھ رکھی کتاب اسکے سر پر آ پڑتی۔ جنید کی تو مانو آنکھوں میں آنسو آگۓ تھے۔۔
“ساری زندگی ہم پر ہٹلر کی طرح حکومت کرتی رہی ہیں آپ اور اب جب وہ ارسل آپکی زندگی میں آنے والے ہیں تو کتنی میٹھی بننے کی تیاری کرلی ہے آپ نے۔۔! ہم نے کونسا بابا سے آپ کی جائیداد کا مطالبہ کرلیا تھا آپی۔۔!”
جنید کو تو اپنے ہی غم لگ گۓ تھے۔ اس نے دونوں کو دیکھا (گھورا) تھا۔
“اب تم لوگ جارہے ہو یا ابھی ہلاکو خان کی آخری بیوی بن کر دکھاؤں۔۔؟”
اور اس سے پہلے کے وہ ہلاکو خان کی آخری بیوی بن جاتی، رامش ناک پر ڈھلکتا نظر کا چشمہ اور جنید اپنی آنکھوں پر گرتے بالوں کو پیچھے جھٹکتے اسکے حجرے سے بھاگ آۓ۔ رُخ کا کیا بھروسہ تھا۔۔ سزا کے طور پر شادی کا لہنگا بھی ان دونوں سے ہی استری کروالیتی۔
***
ارسل نہا کر فریش ہوتا باہر نکلا تو یکلخت ہی ڈر کر پیچھے ہٹا۔ تین چار لڑکیاں اپنے رنگ برنگے سے آنچل سنبھالتی، اسکے ہی سنگھار آئینے کے سامنے کھڑیں اپنی زلفیں سنوار رہی تھیں۔ اس نے لحظہ بھر کو رک کر ان کے کھنکتے سے انداز کو دیکھا۔
“محترمہ۔۔ کہاں آگئ ہیں آپ لوگ۔۔؟”
اس نے کھنکھار کر لڑکیوں کو اپنی جانب متوجہ کیا تو وہ اس سے زیادہ گھبرا کر پیچھے ہٹیں۔
“یہ رمشہ کا کمرہ نہیں ہے۔۔؟”
اچھا تو وہ رمشہ کی دوستیں تھیں۔۔ جو غلطی سے اسکے کمرے میں گھس آئ تھیں۔ اس نے نفی میں سر ہلایا۔
“رمشہ کا کمرہ ساتھ والا ہے۔ آپ لوگ وہاں جائیں۔۔”
اس نے انہیں بتا کر جیسے ہی رخ پھیرا تو وہ جلدی جلدی باہر نکلیں۔۔ اسی اثناء میں کمرے کے دروازے سے کوئ اندر داخل ہوا تھا۔ اس نے چوڑیوں کی کھنکھار پر، ہاتھ پر گھڑی باندھتے ہوۓ کہا۔
“رمشہ کا کمرہ ساتھ والا ہے۔۔”
“لیکن میں تو آپ سے ملنے آئ ہوں۔۔”
اور لمحے کے ہزارویں حصے میں وہ کرنٹ کھا کر دوسری جانب پلٹا تھا۔ اسکے سامنے زرتاج کھڑی تھی۔ وہی زرتاج جس نے پچھلے کئ مہینوں سے اسکی ناک میں دم کر رکھا تھا۔ وہ اس کی امی کی طرف سے دور کی خالہ زاد لگتی تھی۔ لیکن وہ جانتا تھا کہ وہ کیا چاہتی ہے۔ اسکی آنکھوں میں واضح طور پر اپنے لیۓ پسندیدگی وہ دیکھ چکا تھا۔ وہ بچہ ہر گز نہیں تھا کہ اسے اسکا یہ انداز سمجھ نہ آتا۔
“جی فرمائیں۔۔”
اس نے حتی الامکان لہجہ ہموار رکھا تھا۔ اسے جلدی کسی بات پر غصہ نہیں آتا تھا۔ مزاج کے اعتبار سے وہ خاصہ ٹھنڈا اور پرسکون تھا۔ لیکن اس لڑکی کو دیکھتے ہی جانے اسے کیوں ہر دفعہ نۓ سرے سے کوفت ہوتی تھی۔
وہ مسکرا کر بڑی بے باکی سے پاس چلی آئ تو وہ لمحوں ہی میں پیچھے ہوا۔ شہر میں پڑھ کر بڑے ہونے کا مطلب یہ نہیں تھا کہ وہ اپنی پختون روایات کو بھول جاتا۔ اسے یہی سکھایا گیا تھا کہ کبھی کسی عورت کے فاصلے کا خاص دائرہ عبور نہیں کرنا۔ اور اس نے آج تک اس بات کو اپنی ذات کے ساتھ باندھے رکھا تھا۔ یہاں تک کہ وہ آمنہ کے ساتھ بھی آج تک ایک فاصلے سے آگے نہیں بڑھا تھا۔ شاید یہی وہ بات تھی جو اسے عمر کے اس حصے میں بھی معصوم بناتی تھی۔
“ارے۔۔ آپ تو ڈر رہے ہیں مجھ سے۔۔ میں تو صرف بات کرنے آئ ہوں۔۔”
“میں نے کہا میں سن رہا ہوں۔”
اسکے جانے کان کیوں سرخ ہوۓ تھے۔
“کہاں سنتے ہیں آپ۔۔؟”
اسکے نروٹھے سے انداز پر ارسل نے آنکھیں گھمائ تھیں۔ پھر ایک گہرا سانس خارج کرکے اسے دیکھا۔
“جو آپ کررہی ہیں وہ درست نہیں ہے۔ آپ میری شادی میں آئ ہیں۔ شادی ہورہی ہے میری۔۔ مہربانی کریں اپنے طریقہ کار کو بدلیں۔ ایک لڑکی ہو کر آپ کو یہ سب زیب نہیں دیتا۔۔”
اسے اپنی شادی میں کوئ دلچسپی نہیں تھی لیکن فی الحال زرتاج سے پیچھا چھڑانے کا یہی ایک راستہ تھا۔ کہتے کے ساتھ ہی اس نے قدم کمرے سے باہر کی جانب بڑھاۓ اور زرتاج کو اس کمرے میں تنہا چھوڑ دیا۔ زینے اترتے اسے رمشہ مل گئ تھی۔ اسکے چہرے کے بگڑے زاویے دیکھ کر وہ پوچھے بغیر نہیں رہ سکی۔۔
“شادی کل ہے آپکی۔۔ اور بارہ ابھی سے بج رہے ہیں چہرے پر۔۔؟”
اس نے کوفت زدہ سی سانس خارج کی تھی۔
“یار یہ کیا مخلوق پیچھے پڑ گئ ہے میرے۔”
اسکا اشارہ سمجھ کر رمشہ نے ہنستے ہوۓ کندھے اچکاۓ تھے۔ پھر ذرا رازداری سے بولی۔
“بھابھی آ کر خود ٹھیک کردینگی انہیں بھائ۔۔ آپ فکر ہی نہ کریں۔۔”
چلو جی۔۔
“کیا خاک ٹھیک کرے گی۔۔! ماں نے تو کہا ہے کہ وہ انتہائ سوبر، خاموش طبع اور معصوم سی دبّو لڑکی ہے۔ ایسی لڑکیوں کو بات تو کرنے آتی نہیں ہے۔۔ وہ کیا یہاں آکر ان مخلوقات سے میرا پیچھا چھڑاۓ گی۔۔!!”
اسے اب ہر چیز پر غصہ آرہا تھا۔ ان چاہا ہمسفر اور اوپر سے زبردستی کی شادی۔۔! کچھ بھی تو اسکے حق میں نہیں جارہا تھا۔
“ہاں۔۔ سب کہہ تو رہے ہیں کہ وہ اچھی پیاری سی ہیں۔ اور آپ کو بھی تو ایسی ہی لڑکیان پسند ہیں ارسل بھائ۔ اچھی پیاری اور چپ چاپ سی۔۔ پھر مسئلہ کیا ہے۔۔؟”
اسکے پاس رمشہ کی بات کا کوئ جواب نہیں تھا اسی لیۓ خاموشی سے زینے اتر آیا۔ دوسری جانب کھڑکی کے پار اترتی شام کے اندھیرے میں وقت نے اسے دیکھتے اپنی ہنسی دبائ تھی۔ اب یہ تو قدرت ہی جانتی تھی کہ اسکے نصیب میں کتنی اچھی پیاری اور خاموش سی لڑکی لکھی گئ تھی۔۔
***
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...