اچانک آفتاب کی تیز شعاعیں مانند پیکاں اس کی نگاہوں سے اتر کر پورے جسم میں پھیل گئیں اور اس کا بدن مثلِ بدر منیر پُر نور آئینہ خانہ بن گیا۔ اس کے اعضائے بدن سے کرنیں پھوٹنے لگیں۔ اسے لگا جیسے وہ برسوں کی نیند سے بیدار ہوا ہے۔ لیکن یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا تھا۔ لمحوں کا ایک طویل سلسلہ اس کی عمر میں قید تھا۔ کئی برس تک مسلسل قطرہ قطرہ آفتاب اس کے بدن میں اُترا تھا، جس نے اس کے قلب تاریک کو کوہِ نور میں بدل دیا۔ اور اب وہ خوش تھا کہ امروزو فردا وہ اپنی عمرِ گذشتہ کے سچّے خوابوں کی دنیا میں پھر پہنچ جائے گا کہ جن سے رخصت ہو کر وہ چند برس پہلے ایک سفر سخت کے لئے حاکمِ وقت کے ہمراہ روانہ ہوا تھا کہ وہ بادشاہِ وقت کی فوج کا ایک سپاہی تھا اور بادشاہ اپنے ملک کی سرحد پر آئے ہوئے دشمن کے مقابلے کے لئے دارالخلافہ سے اپنی فوج کے ساتھ چلا تھا۔ اس عزم سے کہ چند ہی روزمیں وہ دشمن کو شکست دے کر پھر لوٹ آئے گا۔ فوج کے ہر سپاہی کے دل میں بھی یہی عزائم تھے۔ اور پھر سپاہی تو شاہی توپ کی بارود ہوتا ہے کہ جسے بہر حال میدان جنگ میں آگ کے شعلوں کا مقابلہ کرنا ہے۔ شکست و فتح سے تو وہ بے نیاز ہے اور شکست و فتح کے نتائج تو صرف بادشاہ کے لئے ہوتے ہیں۔ بادشاہ تو یہ بھی نہیں جانتا کہ اس کی ہوسِ اقتدار کی تسکین کے لئے جان دینے والا سپاہی کن حالات میں اپنے گھر کو چھوڑ کر آیا ہے۔
فوجی بگُل کے ساتھ ساتھ ہر فوجی کا قدم سرحد کی طرف بڑھ رہا تھا۔ سرحد کئی منزل دور تھی۔ وہ بھی ان میں سے ایک تھا۔ لیکن اس بات سے خوش تھا کہ بہت جلد اپنے گھر واپس آ جائے گا۔
سرحد کے قریب پہنچ کر بادشاہ نے لشکر کو خیمہ زن ہونے کا حکم دیا۔ کچھ ہی فاصلے پر حریف کے لشکر کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ روز فردا حریف کے لشکر سے کوسِ حربی کی صدا فضا میں گونجی۔ بادشاہ نے کہ ابھی تکانِ سفر سے راحت بھی نہ پائی تھی، نقارۂ رزمی کو جواباً بجانے کا حکم دیا۔ اور پھر چند لمحوں میں تلواریں نیام سے نکل آئیں۔ جنگ مغلوبہ کی ابتدا ہوئی۔ تلواروں سے چنگاریاں نکلنے لگیں۔ ہواؤں میں جانبازوں کے خون کے چھینٹے اُڑ اُڑ کر اپنی مظلومیت اور بے بسی کا اعلان کرنے لگے۔ آفتاب کے غروب ہونے سے پہلے ہی جنگ کا فیصلہ ہو گیا۔ حریف غالب آ گیا تھا۔ اس کا بادشاہ جائے پناہ کی تلاش میں اِدھر اُدھر بھاگنے لگا تھا۔ تمام فوج منتشر ہو گئی۔ بادشاہ اپنی جان کے خوف سے نہ جانے کہاں بھاگ گیا۔ فوج کے بچے ہوئے سپاہی آندھی میں خزاں رسیدہ سوکھے ہوئے پتّوں کی طرح اِدھر اُدھر بکھرنے لگے۔ وہ بھی اپنے زخمی بدن کو لیے ہوئے وہاں سے بھاگا۔ لیکن بھاگ نہ سکا۔ زخموں سے چُور اپنے بدن کو اس طرح میدانِ جنگ میں لاشوں کے اوپر گرا دیا جیسے مر چکا ہو۔ لاشوں کے بیچ نیم جان زخمیوں کی کراہتی ہوئی آوازوں میں اس نے ایک ٹوٹتی ہوئی آواز سنی۔
’ہمارا بادشاہ ہار گیا۔ اپنا ملک ہار گیا‘‘
اس نے سوچا، ایک بادشاہ صرف ملک ہارا ہے جو اس کا نہیں تھا لیکن اس فتح و شکست کے کھیل میں ہزاروں عورتیں اپنے سہاگ ہار گئیں جو صرف ان کے تھے اور اس خیال کے ساتھ ہی اس کی نگاہیں ہزاروں میل دور اپنے گھر کی چہار دیواری کے اندر بیٹھی ہوئی نوبیاہتا شریک حیات کی منتظر آنکھوں سے ٹکرا گئیں۔ کتنی پیاس تھی ان آنکھوں میں۔ ۔
اور اب وہ اس خیال سے خوش تھا کہ ان آنکھوں کی کہ جنہیں اس نے میدان جنگ میں بحالتِ زخمی پیاسا دیکھا تھا، تشنگی بہت جلد شربتِ وصال سے دور کرے گی جب اس نے محسوس کیا کہ اس کا بدن مسرت کے آفتاب سے روشن ہو چکا ہے، تو اس نے اپنے ساتھیوں سے رخصت چاہی کہ جو میدانِ جنگ سے عالمِ بے ہوشی میں اسے اپنے یہاں لائے تھے۔ اور کئی برس تک ساتھ رکھ کر اس کی خدمت بھی کی تھی۔ سب نے اسے بہ تبسم لیکن بہ رنج اجازت دی۔ وہ ان سب کی پُر نم آنکھوں کو دیکھتا ہوا اپنے سچّے خوابوں کی دنیا کی سمت روانہ ہوا۔
اس کے گھر کا راستہ بہت طویل تھا۔ اسے بہت دور جانا تھا، اور اسی فاصلے نے تو اسے کئی برس تک گھر سے دور رکھا تھا۔ لیکن وہ اس طویل راستے پر گھوڑے کو مست انداز میں دوڑاتا اور ملن کے گیت گاتا چلا جا رہا تھا۔ جیسے منزل بہت نزدیک ہو۔ اسے اپنے گھر کے افراد سے ملنے کی کتنی خوشی تھی۔ اس کا اندازہ اس کے بدن سے پھوٹتی ہوئی شادمانیوں سے ہو رہا تھا۔ لیکن آفتاب کے غروب ہونے پر وہ اس خیال سے ایک سرائے میں ٹھہر گیا کہ یہ بے زبان جو تمام دن دوڑتا رہا ہے، تھک گیا ہو گا۔ جب وہ آرام کرنے کے لئے بستر کی طرف جانے لگا تو اس کے کانوں میں سرائے کے قصّہ گو کی آواز آئی جو کوئی قصّہ سنا رہا تھا۔ اور لوگ بڑی دلچسپی سے سُن رہے تھے۔ وہ بھی وہاں جا کر کھڑا ہو گیا، قصّہ گو کہہ رہا تھا:
’’اور پھر یوں ہوا کہ خواجہ اسد کا جہاز ایک چٹان سے ٹکرا کر پاش پاش ہو گیا۔ خواجہ کے اکثر ہمراہی اور مال و زر سمندر میں غرق ہو گیا۔ خواجہ اسد جہاز کے ایک ٹوٹے ہوئے تختے پر انجانی سمت میں بہتا ہوا چلا گیا۔ لیکن اس کی زندگی ابھی باقی تھی۔ چند روز میں ساحل سے جا لگا۔ جس کے قریب ہی ایک گاؤں تھا۔ گاؤں کے لوگوں نے اسے پانی سے نکال لیا۔ کچھ عرصے بعد خواجہ اسد نے آنکھیں کھولیں۔ تو اپنے آپ کو اجنبی لوگوں میں پایا پہلے تو گھبرایا۔ لیکن جب اسے جہاز کا ٹوٹنا یاد آیا تو اسے اطمینان ہوا کہ وہ اجنبی مقام پر ضرور آ گیا ہے۔ لیکن زندہ ہے۔ چند مہینوں میں ہی وہاں رہ کر صحت کلّی پالی تو واپس گھر لوٹنے کا ارادہ کیا کہ وہ اپنے گھر پر اپنی بیوی کو چھوڑ کر آیا تھا۔ اور اسے اپنے گھر سے رخصت ہوئے پانچ برس کے قریب بیت گئے تھے۔ اس گاؤں سے خواجہ کا وطن بہت دور تھا لیکن اسے تو گھر پہنچنا تھا۔ اس نے سفر اختیار کیا اور بہت جلد اپنے گھر پہونچ گیا۔ اسے دیکھ کر اس کی بیوی اتنی خوش ہوئی کہ تمام زندگی وہ اتنی خوش نہیں ہوئی تھی۔ فرطِ مسرت نے جدائی کی تمام تکالیف کو بھلا دیا۔‘‘
قصّہ یہاں تک پہنچا تھا کہ اس نے قصہ گو سے پوچھا:
’’کیا خواجہ کی بیوی کو نہیں معلوم تھا کہ جہاز ڈوب گیا ہے، جو اتنے دن تک وہ انتظار کرتی رہی؟‘‘
’’معلوم تو ہو گیا تھا، لیکن میاں جس سے محبت ہوتی ہے اس کا انتظار تو مرنے کے بعد بھی کیا جاتا ہے۔‘‘
قصّہ گو کی یہ بات سُن کر اس کے دل میں عجیب سی گدگداہٹ پیدا ہوئی تھی کہ اس کی شریک حیات بھی اچانک اُسے پا کر ایسے ہی خوش ہو جائے گی۔ وہ بھی تو مجھ سے بے پناہ محبت کرتی ہے۔ اس خیال کے آتے ہی اس کے دل میں اور زیادہ تڑپ و بے قراری پیدا ہو گئی۔ اب تو وہ ہواؤں کے دوش پر سوار ہو کر گھر پہونچ جانا چاہتا تھا۔ کتنے کم دن اس نے خوشی کے دیکھے تھے۔ بادشاہ نے جب لشکر کو روانگی کا حکم دیا تھا اس وقت اس کی شادی کو چار پانچ روز ہی تو گزرے تھے۔ اس کی دلہن کے ہاتھوں کی مہندی بھی میلی نہ ہوئی تھی۔ اور اس اچانک جدائی سے اسے بے پناہ دکھ ہوا تھا۔ برسوں انتظار کے بعد تو اسے یہ دن نصیب ہوئے تھے کہ وہ اپنی محبوبہ کو دلہن بنا کر اپنے گھر لایا تھا۔ اسے کیا معلوم تھا کہ اتنی جلد بچھڑنا بھی پڑے گا۔ پہلی بار گھر سے رخصت ہوتے وقت اس کی آنکھیں نم ہو گئیں تھیں۔ اور اس کی نئی دلہن پر تو سکتہ سا طاری ہو گیا تھا۔ لیکن اب وہ خوش تھا کہ بہت جلد اس سے پھر مل جائے گا۔ وہ اپنے خیالات سجا رہا تھا کہ گھر پہنچ کر اسے پھر دلہن بناؤں گا۔ پھر اس کے ہاتھوں پر مہندی لگواؤں گا۔ ابھی تو میں نے اسے جی بھر کر دلہن بنا ہوا دیکھا بھی نہیں ہے۔
علی الصبح پھر اس نے اپنا سفر شروع کر دیا۔ دوپہر ہوتے ہوتے وہ ایک باغ کے قریب پہنچا۔ دھوپ بہت تیز تھی۔ ساون کی دھوپ تیز ہی ہوا کرتی ہے۔ اس نے چاہا کہ کچھ دیر باغ میں آرام کر لے کہ وہاں سے گیت کی آواز آئی کچھ نوجوان عورتیں جھولے پر گا رہی تھیں۔
سیاں بدیسی گھر آ جا ساون میں گھر آ جا
من کی تلیا سوکھی پڑی ہے اک دو بوند برسا جا
اسے لگا جیسے یہ آواز اس کی شریک حیات کی ہے۔ جیسے وہ اسے بُلا رہی ہو۔ تھوڑی دیر تک وہ یوں ہی کھڑا سنتا رہا۔ اور پھر بہت تیزی سے گھوڑے کو دوڑایا جیسے اب صبر کا پیمانہ چھلک پڑا ہو۔
اپنے شہر کی فصیل کے اندر داخل ہوتے ہی اس کے بدن میں روشن خوشیوں کا آفتاب نصف النہار پر پہنچ گیا۔ اپنے شہر کی مٹی سے اور اس کی عمارتوں کے دیوارو و در سے اسے ممتا کی خوشبو آنے لگی۔ جیسے وہ اپنی ماں کی آغوش میں آ گیا ہو۔ اس شہر کے اندر تو اس کی گزری ہوئی پوری عمر قید تھی۔ اس کا دل چاہا کہ وہ اس کی مٹی سے لپٹ جائے۔ اسے پیار کرے۔ اسی مٹی کے ذرّات تو اس کی سانسوں کے ساتھ جسم میں اُترے ہیں جس سے وہ جوان ہوا ہے۔ منزل کے قریب آ کر مسافر کے قدم تیز ہو جاتے ہیں۔ وہ بھی اب بہت تیز تیز گھر کی طرف بڑھ رہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اس کی ماں اس سے لپٹ جائے گی۔ اس کا باپ اسے زندہ دیکھ کر نذر و نیاز کرائے گا۔ اور اس کی بیوی کہ جس کی جدائی میں اسے ایک ایک لمحہ شاق گزرا تھا اور جس سے ملنے کی تڑپ نے برسوں کا سفر لمحوں میں طے کر دیا تھا۔ اسے پا کر خوشی سے ناچے گی، پاگل ہو جائے گی جس طرح خواجہ اسد کی بیوی خواجہ کو پا کر خوش ہوئی تھی۔
مکان کے دروازے پر پہنچ کر دستک دینے سے قبل وہ کچھ دیر ٹھہرا جیسے اپنی خوشی پر قابو پانے کی کوشش کر رہا ہو۔ اور جب اس نے دستک دی تو ایک شخص دروازہ کھولنے آیا۔ دروازہ کھلا۔ وہ مسکرایا۔ لیکن وہ شخص کہ جس نے دروازہ کھولا تھا، سہم گیا۔ وہ اس کا بڑا بھائی تھا۔ اور اس کے سہمنے کا سبب یہ تھا کہ اس نے سنا تھا کہ اس کا بھائی تو لڑائی میں مارا گیا۔ پھر یہ کیا اس کی روح ہے؟ لیکن جب اس کی آواز بڑے بھائی کے کانوں میں پہنچی تو اس کا وہم ختم ہوا۔ اور وہ عالمِ حیرت و مسرّت سے اس سے بغلگیر ہو گیا اور پکار کر کہنے لگا:
’’بابا۔ امّاں ۔ یوسف لوٹ آیا۔ یوسف زندہ ہے۔ جلدی باہر آؤ!‘‘
اور اس آواز پر دو ضعیف جسم باہر آئے۔ وہ دوڑ کر اپنی ماں سے لپٹ گیا۔ باپ کی آنکھوں میں شفقت و محبت کے آنسو اُمڈ آئے لیکن اس کی آنکھوں کو ابھی ایک اور کا بھی شدّت سے انتظار تھا۔ جو باہر نہیں آئی تھی لیکن کیوں؟ اور اس سوال نے اسے اور بھی مضطرب کر دیا۔ اسی اضطرابی کیفیت میں اس نے ماں سے دریافت کیا۔
ماں۔ دلشاد کہاں ہے؟
اس سوال پر ان تینوں کی نگاہیں جھک گئیں اور ان جھکی ہوئی نظروں کو دیکھ کر اس کا دل تڑپ گیا۔ ماں نے کہا:
’’آؤ بیٹے! تھک گئے ہو گے کچھ آرام کر لو!‘‘
’’لیکن ماں دلشاد کہاں گئی ہے؟ کیا اپنے گھر گئی ہے؟‘‘
’’ہاں۔ ہاں‘‘ اُلجھا اُلجھا سا جواب دیتے ہوئے اس کی ماں اُسے اندر لے گئی۔
کچھ دیر بیٹھنے کے بعد اس نے پھر دلشاد کے بارے میں پوچھا، تو اس کے باپ نے کہا:
’’بیٹے جب یہ اطلاع یہاں پہنچی کہ ہمارا بادشاہ ہار گیا اور فوج کے بیشتر سپاہی مارے گئے۔ چند سپاہی یہاں لوٹے تھے اور ان میں سے ایک نے کہا تھا کہ میں نے اپنی آنکھوں سے یوسف کو میدان جنگ میں لاشوں کے درمیان پڑا ہوا دیکھا تھا اور پھر تم کئی سالوں تک لوٹے بھی نہیں تو ہم سبھی لوگوں کو یقین ہو گیا کہ اب تم اس دنیا میں نہیں رہے۔‘‘
وہ اپنے باپ کی ان باتوں کو بڑے غور سے سن رہا تھا۔ اور اپنے سوال کا جواب ان باتوں میں پانے کے لئے بے چین تھا۔ باپ رک رک کر کہہ رہا تھا:
’’تمہاری جب شادی ہوئی تھی تو دلشاد کی عمر ہی کیا تھی۔ اور شادی کے چند روز بعد ہی تو تم چلے گئے تھے۔ اس نے تو کوئی خوشی بھی نہ دیکھی تھی۔ جب تمہارے لڑائی میں کام آ جانے کی خبر آئی تو وہ بہت پھوٹ پھوٹ کر روئی۔ تمہارے غم نے اسے بالکل نڈھال کر دیا۔ کسی طرح وہ خوش نہ رہ سکی۔ یہ حالت دیکھ کر اس کا باپ اسے اپنے گھر لے گیا۔ اور کچھ عرصہ بعد ہی اس کی دوسری شادی کر دی۔‘‘
’دوسری شادی‘۔۔ یہ الفاظ جب اس کے کانوں میں پہونچے تو اسے لگا جیسے اس کے دل میں روشن فانوس خود اسی کے اوپر گر پڑا۔ اور اس کے پورے بدن کو زخمی کر دیا۔ آفتاب کی طرح روشن جسم تاریک ہو گیا۔
وہ غصّے کے شعلوں سے جھلستے ہوئے اپنے بدن کو لے کر کمرہ سے باہر آیا۔ اس کے دل میں اپنے بادشاہ کے لئے نفرت کا درخت برفتارِ برق بڑھ رہا تھا کہ بادشاہ ہی کے سبب اس کی زندگی اُجڑ گئی تھی۔ اور جب اس کی نگاہ دیوار پر ٹنگی ہوئی بادشاہ کی تصویر پر پڑی تو وہ بھڑک اٹھا۔ اس نے عالمِ غیض و غضب میں اتنی قوت سے ایک پتھّر بادشاہ کی تصویر پر مارا کہ لکڑی کا فریم ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر گیا۔
اس کی اس گستاخی پر اس کا باپ جو بادشاہ کا وفادار سپاہی تھا، اس پر برس پڑا:
’’تو پاگل ہو گیا ہے۔ بادشاہ کی مہربانیوں کو بھول گیا ہے۔ بادشاہ ہم سب کا آقا ہے۔‘‘
’’نہیں۔ بادشاہ ظالم تھا۔ اس نے اپنی دنیا بنانے کے لئے میری دنیا برباد کر دی۔ اس نے ہمیں تباہ کر دیا۔ خدا کرے کہ وہ ہمیشہ جہنم کی آگ میں جلتا رہے۔‘‘
اس کی اس شعلہ بیانی پر اس کا باپ اسے مارنے کے لئے آگے بڑھا لیکن وہ ’’بادشاہ ظالم ہے۔ ظالم ہے۔‘‘ چلّاتا ہوا تیزی سے گھر کے باہر چلا گیا۔
٭٭٭
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...